سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 201
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا صدقة بن الفضل، اخبرنا ابن عيينة، عن إسماعيل، عن الشعبي، قال: "لو ان هؤلاء كانوا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم لنزلت عامة القرآن يسالونك، يسالونك".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا صَدَقَةُ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "لَوْ أَنَّ هَؤُلَاءِ كَانُوا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَزَلَتْ عَامَّةُ الْقُرْآنِ يَسْأَلُونَكَ، يَسْأَلُونَكَ".
امام شعبی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر یہ اصحاب الرائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتے تو قرآن پاک میں عمومی طور پر یہ پایا جاتا: «يسألونك، يسألونك» (یعنی اسی صیغے سے آیات نازل ہوتیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 201]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانه 419/1]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 202
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا إسماعيل بن ابان، اخبرني محمد هو ابن طلحة، عن ميمون ابي حمزة، قال: قال لي إبراهيم:"يا ابا حمزة، والله لقد تكلمت، ولو وجدت بدا ما تكلمت، وإن زمانا اكون فيه فقيه اهل الكوفة زمان سوء".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ طَلْحَةَ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبِي حَمْزَةَ، قَالَ: قَالَ لِي إِبْرَاهِيمُ:"يَا أَبَا حَمْزَةَ، وَاللَّهِ لَقَدْ تَكَلَّمْتُ، وَلَوْ وَجَدْتُ بُدًّا مَا تَكَلَّمْتُ، وَإِنَّ زَمَانًا أَكُونُ فِيهِ فَقِيهَ أَهْلِ الْكُوفَةِ زَمَانُ سُوءٍ".
ابوحمزه میمون سے مروی ہے کہ امام ابراہیم النخعی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: اے ابوحمزه! میں نے کلام کیا ہے اور اگر کوئی چارہ ہوتا تو میں لب کشائی نہ کرتا، بیشک یہ وقت جس میں، میں کوفہ والوں کا فقیہ ہو گیا ہوں برا وقت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ميمون أبي حمزة القصاب، [مكتبه الشامله نمبر: 202]»
اس روایت میں ابوحمزہ ضعیف ہیں، اور یہ اثر [حلية الأولياء 223/4] میں بھی موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ميمون أبي حمزة القصاب
حدیث نمبر: 203
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن ليث، عن مجاهد، قال: قال عمر رضي الله عنه: "إياك والمكايلة"، يعني: في الكلام.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "إِيَّاكَ وَالْمُكَايَلَةَ"، يَعْنِي: فِي الْكَلَامِ.
مجاہد سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خبردار! قول و فعل میں قیاس و کلام (فلسفے) سے بچو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 203]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ حوالے کے لئے دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 65]، [الفقيه والمتفقه 182/1]، [الإحكام لابن حزم 1278/7]

وضاحت:
(تشریح احادیث 199 سے 203)
مکایلہ یہ ہے کہ جیسا کوئی کہے تم بھی ویسا ہی کہنے لگو، کوئی جیسا کام کرے تم بھی ویسا ہی کرنے لگو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل ليث وهو: ابن أبي سليم
حدیث نمبر: 204
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا حجاج البصري، حدثنا ابو بكر الهذلي، عن الشعبي، قال:"شهدت شريحا، وجاءه رجل من مراد، فقال: يا ابا امية، ما دية الاصابع؟، قال: عشر عشر، قال: يا سبحان الله، اسواء هاتان؟ جمع بين الخنصر والإبهام، فقال شريح: يا سبحان الله، اسواء اذنك ويدك؟ فإن الاذن يواريها الشعر، والكمة والعمامة فيها نصف الدية، وفي اليد نصف الدية، ويحك: إن السنة سبقت قياسكم فاتبع ولا تبتدع، فإنك لن تضل ما اخذت بالاثر، قال ابو بكر: فقال لي الشعبي: يا هذلي، لو ان احنفكم قتل وهذا الصبي في مهده اكان ديتهما سواء؟، قلت: نعم، قال: فاين القياس؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا حَجَّاجٌ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْهُذَلِيُّ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ:"شَهِدْتُ شُرَيْحًا، وَجَاءَهُ رَجُلٌ مِنْ مُرَادٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا أُمَيَّةَ، مَا دِيَةُ الْأَصَابِعِ؟، قَالَ: عَشْرٌ عَشْرٌ، قَالَ: يَا سُبْحَانَ اللَّهِ، أَسَوَاءٌ هَاتَانِ؟ جَمَعَ بَيْنَ الْخِنْصِرِ وَالْإِبْهَامِ، فَقَالَ شُرَيْحٌ: يَا سُبْحَانَ اللَّهِ، أَسَوَاءٌ أُذُنُكَ وَيَدُكَ؟ فَإِنَّ الْأُذُنَ يُوَارِيهَا الشَّعْرُ، وَالْكُمَّةُ وَالْعِمَامَةُ فِيهَا نِصْفُ الدِّيَةِ، وَفِي الْيَدِ نِصْفُ الدِّيَةِ، وَيْحَكَ: إِنَّ السُّنَّةَ سَبَقَتْ قِيَاسَكُمْ فَاتَّبِعْ وَلَا تَبْتَدِعْ، فَإِنَّكَ لَنْ تَضِلَّ مَا أَخَذْتَ بِالْأَثَرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: يَا هُذَلِيُّ، لَوْ أَنَّ أَحْنَفَكُمْ قُتِلَ وَهَذَا الصَّبِيُّ فِي مَهْدِهِ أَكَانَ دِيَتُهُمَا سَوَاءً؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَيْنَ الْقِيَاسُ؟".
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: میں (قاضی) شریح رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہوا، ان کے پاس (قبیلہ) مراد کا ایک شخص آیا اور پوچھا: ابواميۃ! انگلیوں کی دیت کتنی ہے؟ جواب دیا: ہر انگلی کے بدلے دس اونٹ، اس نے انگوٹھا اور چھوٹی انگلی کو ملایا اور کہا: سبحان اللہ! یہ دونوں برابر ہیں؟ قاضی شریح رحمہ اللہ نے کہا: سبحان اللہ! کیا تمہارا کان اور ہاتھ برابر ہیں؟ کان تو بال یا عمامے سے ڈھک جاتا ہے تو اس میں (آدمی کی) نصف دیت ہے، اور ہاتھ میں (ایسا نہیں) اس میں بھی نصف دیت ہے۔ تمہارا برا ہو، سنت تمہارے قیاس پر مقدم ہے، سو سنت کی اتباع کرو بدعت نہ ایجاد کرو، اور جب تک تم حدیث کو پکڑے رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔ ابوبکر الہذلی (راوی) نے کہا: امام شعبی رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: اے ہذلی! اگر تمہارا کوئی لولا لنگڑا آدمی قتل کر دیا جائے، یا گہوارے میں (دودھ پیتا) بچہ مار ڈالا جائے تو کیا دونوں کی دیت برابر نہ ہو گی؟ میں نے کہا: جی ہاں! دونوں کی دیت برابر ہے، کہا: پھر قیاس کہاں گیا؟

تخریج الحدیث: «في إسناده أبو بكر الهذلي وهو متروك، [مكتبه الشامله نمبر: 204]»
اس روایت کی سند میں ابوبکر الہذلی متروک ہیں۔ اس اثر کو عبدالرزاق نے مصنف میں بہت مختصر ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [المصنف 17703] و [جامع بيان العلم 2024]

وضاحت:
(تشریح حدیث 203)
اگرچہ اس قول کی نسبت قاضی شریح کی طرف صحیح نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ حدود الله تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہیں، قیاس کی ان میں گنجائش ہی نہیں۔
« ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا﴾ [البقرة: 229] »

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده أبو بكر الهذلي وهو متروك
حدیث نمبر: 205
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد، عن ربيعة بن يزيد، قال: قال معاذ بن جبل رضي الله عنه: "يفتح القرآن على الناس حتى يقراه المراة والصبي والرجل، فيقول الرجل: قد قرات القرآن فلم اتبع، والله لاقومن به فيهم لعلي اتبع، فيقوم به فيهم فلا يتبع، فيقول: قد قرات القرآن فلم اتبع، وقد قمت به فيهم، فلم اتبع، لاحتظرن في بيتي مسجدا لعلي اتبع، فيحتظر في بيته مسجدا فلا يتبع، فيقول: قد قرات القرآن فلم اتبع، وقمت به فيهم فلم اتبع، وقد احتظرت في بيتي مسجدا , فلم اتبع، والله لآتينهم بحديث لا يجدونه في كتاب الله عز وجل، ولم يسمعوه عن رسول الله لعلي اتبع، قال معاذ: فإياكم وما جاء به فإن ما جاء به ضلالة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "يُفْتَحُ الْقُرْآنُ عَلَى النَّاسِ حَتَّى يَقْرَأَهُ الْمَرْأَةُ وَالصَّبِيُّ وَالرَّجُلُ، فَيَقُولُ الرَّجُلُ: قَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فَلَمْ أُتَّبَعُ، وَاللَّهِ لَأَقُومَنَّ بِهِ فِيهِمْ لَعَلِّي أُتَّبَعُ، فَيَقُومُ بِهِ فِيهِمْ فَلَا يُتَّبَعُ، فَيَقُولُ: قَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فَلَمْ أُتَّبَعْ، وَقَدْ قُمْتُ بِهِ فِيهِمْ، فَلَمْ أُتَّبَعْ، لأَحْتَظِرْنَّ فِي بَيْتِي مَسْجِدًا لَعَلِّي أُتَّبَعْ، فَيَحْتَظِرُ فِي بَيْتِهِ مَسْجِدًا فَلَا يُتَّبَعُ، فَيَقُولُ: قَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ فَلَمْ أُتَّبَعْ، وَقُمْتُ بِهِ فِيهِمْ فَلَمْ أُتَّبَعْ، وَقَدْ احْتَظَرْتُ فِي بَيْتِي مَسْجِدًا , فَلَمْ أُتَّبَعْ، وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ بِحَدِيثٍ لَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَمْ يَسْمَعُوهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ لَعَلِّي أُتَّبَعُ، قَالَ مُعَاذٌ: فَإِيَّاكُمْ وَمَا جَاءَ بِهِ فَإِنَّ مَا جَاءَ بِهِ ضَلَالَةٌ".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن کریم لوگوں پر آسان ہو جائے گا یہاں تک کہ عورت بچے اور مرد سب اس کو پڑھیں گے، آدمی کہے گا میں نے قرآن پاک پڑھا لیکن میری پیروی نہیں کی جاتی، قسم اللہ کی میں پھر اس کو (لے کر کھڑا ہوں گا) ضرور پڑھوں گا، شاید میری اتباع کی جائے، چنانچہ پھر پڑھے گا اور پھر بھی کوئی اس کی پیروی نہ کرے گا، تو وہ کہے گا: میں نے قرآن پڑھا لیکن میری پیروی نہیں کی گئی، میں اسے لے کر ان میں کھڑا ہوا، پھر بھی کوئی فائدہ نہ ہوا، اب میں اپنے گھر میں مسجد بناؤں گا شاید میری پیروی کی جائے، چنانچہ وہ اپنے گھر میں مسجد بنائے گا، پھر بھی اس کی پیروی نہ کی جائے گی تو وہ کہے گا: میں نے قرآن پڑھا لیکن میری پیروی نہ کی گئی، اسے لے کر کھڑا ہوا پھر بھی اتباع نہ کی گئی، اپنے گھر میں مسجد بنائی پھر بھی اتباع نہ کی گئی۔ قسم اللہ کی اب میں ایسی باتیں ان کے لئے لاوں گا جسے وہ اللہ عزوجل کی کتاب میں پائیں گے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوں گی شاید اس وقت میری پیروی کی جائے۔ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: خبردار! جو وہ بتائے اس سے بچنا (وہ قرآن و سنت کے علاوہ) جو کچھ لائے گا وہ گمراہی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 205]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن أبى داؤد 4611 بغير هذا السياق]، [البدع 59، 63]، [الإبانه 143]، [الشريعة ص: 54، 55]، [المعرفة والتاريخ 321/2]، [شرح أصول اعتقاد أهل السنة 116، 117 بعدة طرق]

وضاحت:
(تشریح حدیث 204)
اس اثر میں صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ جب فتنے رونما ہوں گے تو لوگ قرآن پاک کی پیروی کی طرف دھیان نہ دیں گے تو قرآن پڑھنے والے اپنی طرف سے مسائل گھڑ لیں گے، جن کا قرآن و حدیث سے کوئی ثبوت نہ ہوگا، سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں سے بچنے اور ان کی باتیں سننے اور عمل کرنے سے منع کیا اور بتایا ہے کہ قرآن و حدیث کے علاوہ سب کچھ سراسر گمراہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
23. باب في كَرَاهِيَةِ أَخْذِ الرَّأْيِ:
23. رائے اور قیاس پر عمل کرنے سے ناپسندیدگی کا بیان
حدیث نمبر: 206
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا مالك هو ابن مغول قال: قال لي الشعبي: "ما حدثوك هؤلاء عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فخذ به، وما قالوه برايهم، فالقه في الحش".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ هُوَ ابْنُ مِغْوَلٍ قَالَ: قَالَ لِي الشَّعْبِيُّ: "مَا حَدَّثُوكَ هَؤُلَاءِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخُذْ بِهِ، وَمَا قَالُوهُ بِرَأْيِهِمْ، فَأَلْقِهِ فِي الْحُشِّ".
مالک بن مغول سے مروی ہے کہ مجھ سے امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: یہ لوگ تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیث بیان کریں اسے لے لو اور جو چیز اپنی رائے سے بیان کریں اسے گھورے پر پھینک دو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 206]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانه 607]، [الإحكام 1030/6]، [جامع بيان العلم 1066] اور اس میں ہے کہ جو اپنی رائے سے کہیں اس پر پیشاب کر دو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 207
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرني العباس بن سفيان، عن زيد بن حباب، اخبرني رجاء بن ابي سلمة، قال: سمعت عبدة بن ابي لبابة، يقول: "قد رضيت من اهل زماني هؤلاء ان لا يسالوني ولا اسالهم، إنما يقول احدهم ارايت، ارايت؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنِي الْعَبَّاسُ بْنُ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ حُبَابٍ، أَخْبَرَنِي رَجَاءُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ أَبِي لُبَابَةَ، يَقُولُ: "قَدْ رَضِيتُ مِنْ أَهْلِ زَمَانِي هَؤُلَاءِ أَنْ لَا يَسْأَلُونِي وَلَا أَسْأَلُهُمْ، إِنَّمَا يَقُولُ أَحَدُهُمْ أَرَأَيْتَ، أَرَأَيْتَ؟".
زید بن حباب سے مروی ہے رجاء بن ابی سلمہ نے مجھے خبر دی کہ میں نے عبدہ بن ابی لبابہ کو کہتے سنا: میں اپنے ان ہم عصر ساتھیوں سے خوش ہوں جو نہ مجھ سے کچھ پوچھتے ہیں اور نہ میں ہی ان سے کوئی سوال کرتا ہوں، ان میں سے کوئی کہتا ہے: تمہاری کیا رائے ہے، تمہارا کیا خیال ہے؟

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عباس بن سفيان الدبوسي، [مكتبه الشامله نمبر: 207]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور ابوزرعۃ نے [تاريخ 743] میں اس اثر کو ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عباس بن سفيان الدبوسي
حدیث نمبر: 208
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا عاصم بن بهدلة، عن ابي وائل، عن عبد الله بن مسعود، قال: خط لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما خطا، ثم قال: "هذا سبيل الله"، ثم خط خطوطا عن يمينه، وعن شماله، ثم قال:"هذه سبل على كل سبيل منها شيطان يدعو إليه، ثم تلا: وان هذا صراطي مستقيما فاتبعوه ولا تتبعوا السبل فتفرق بكم عن سبيله سورة الانعام آية 153".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: خَطَّ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: "هَذَا سَبِيلُ اللَّهِ"، ثُمَّ خَطَّ خُطُوطًا عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ:"هَذِهِ سُبُلٌ عَلَى كُلِّ سَبِيلٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ يَدْعُو إِلَيْهِ، ثُمَّ تَلَا: وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ سورة الأنعام آية 153".
سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ایک دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک خط کھینچا اور فرمایا: یہ اللہ کا راستہ ہے، پھر اس کے دائیں بائیں اور خط کھینچے اور فرمایا: یہ جو راستے ہیں، ہر راستے پر شیطان کھڑا ہے اور اسی طرف بلاتا ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ﴾» [انعام: 153/6] یہ میرا راستہ ہے جو مستقیم (سیدها) ہے، سو تم اسی راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو، وہ راہیں تمہیں اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 208]»
یہ حدیث حسن ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [مسند أحمد 435/1]، [صحيح ابن حبان 6، 7]، [موارد الظمآن 1741]، [البدعة 75]، [السنة للمروزي 11، 12، 13]، [الشريعة ص: 21]، [الإبانة 126]، [شرح السنة 97]

وضاحت:
(تشریح احادیث 205 سے 208)
اس حدیث سے معلوم ہوا شاہراہِ سنّت باعثِ نجات ہے اور باقی سب راہیں شیطانی اور گمراہی کی طرف لے جانے والی ہیں «(أعاذني اللّٰه وإياكم منها)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 209
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا ورقاء، عن ابن ابي نجيح، عن مجاهد: ولا تتبعوا السبل سورة الانعام آية 153، قال: "البدع والشبهات".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا وَرْقَاءُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: وَلا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ سورة الأنعام آية 153، قَالَ: "الْبِدَعَ وَالشُّبُهَاتِ".
(مفسر قرآن) مجاہد رحمہ اللہ نے «﴿وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾» کی تفسیر میں کہا: یعنی بدعات و شبہات کے پیچھے نہ پڑو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 209]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [السنة للمروزي 19، 20]، [الإبانة 134]، [الحلية 293/3]، [الدر المنثور 56/3]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 210
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا عمرو بن يحيى، قال: سمعت ابي يحدث، عن ابيه، قال: كنا نجلس على باب عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قبل صلاة الغداة، فإذا خرج، مشينا معه إلى المسجد، فجاءنا ابو موسى الاشعري رضي الله عنه، فقال: اخرج إليكم ابو عبد الرحمن بعد؟، قلنا: لا، فجلس معنا حتى خرج، فلما خرج، قمنا إليه جميعا، فقال له ابو موسى: يا ابا عبد الرحمن، إني رايت في المسجد آنفا امرا انكرته ولم ار والحمد لله إلا خيرا، قال: فما هو؟، فقال: إن عشت فستراه، قال: رايت في المسجد قوما حلقا جلوسا ينتظرون الصلاة في كل حلقة رجل، وفي ايديهم حصا، فيقول: كبروا مائة، فيكبرون مائة، فيقول: هللوا مائة، فيهللون مائة، ويقول: سبحوا مائة، فيسبحون مائة، قال: فماذا قلت لهم؟، قال: ما قلت لهم شيئا انتظار رايك او انتظار امرك، قال: افلا امرتهم ان يعدوا سيئاتهم، وضمنت لهم ان لا يضيع من حسناتهم؟ ثم مضى ومضينا معه حتى اتى حلقة من تلك الحلق، فوقف عليهم، فقال: ما هذا الذي اراكم تصنعون؟، قالوا: يا ابا عبد الرحمن حصا نعد به التكبير، والتهليل، والتسبيح، قال:"فعدوا سيئاتكم، فانا ضامن ان لا يضيع من حسناتكم شيء، ويحكم يا امة محمد، ما اسرع هلكتكم! هؤلاء صحابة نبيكم صلى الله عليه وسلم متوافرون، وهذه ثيابه لم تبل، وآنيته لم تكسر، والذي نفسي بيده، إنكم لعلى ملة هي اهدى من ملة محمد، او مفتتحو باب ضلالة"، قالوا: والله يا ابا عبد الرحمن، ما اردنا إلا الخير، قال:"وكم من مريد للخير لن يصيبه، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم حدثنا ان قوما يقرؤون القرآن لا يجاوز تراقيهم، وايم الله ما ادري لعل اكثرهم منكم"، ثم تولى عنهم، فقال عمرو بن سلمة: راينا عامة اولئك الحلق يطاعنونا يوم النهروان مع الخوارج.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ، فَإِذَا خَرَجَ، مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَجَاءَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَخَرَجَ إِلَيْكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ بَعْدُ؟، قُلْنَا: لَا، فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ، قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ إِلَّا خَيْرًا، قَالَ: فَمَا هُوَ؟، فَقَالَ: إِنْ عِشْتَ فَسَتَرَاهُ، قَالَ: رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلْقَةٍ رَجُلٌ، وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصَا، فَيَقُولُ: كَبِّرُوا مِائَةً، فَيُكَبِّرُونَ مِائَةً، فَيَقُولُ: هَلِّلُوا مِائَةً، فَيُهَلِّلُونَ مِائَةً، وَيَقُولُ: سَبِّحُوا مِائَةً، فَيُسَبِّحُونَ مِائَةً، قَالَ: فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ؟، قَالَ: مَا قُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انْتِظَارَ رَأْيِكَ أَوِ انْتِظَارَ أَمْرِكَ، قَالَ: أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ، وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ؟ ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلْقَةً مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ؟، قَالُوا: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًا نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ، وَالتَّهْلِيلَ، وَالتَّسْبِيحَ، قَالَ:"فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمْ، فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ، وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ! هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ، أَوْ مُفْتَتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ"، قَالُوا: وَاللَّهِ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ، قَالَ:"وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَايْمُ اللَّهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ"، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ، فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ: رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولَئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ.
عمرو بن یحییٰ نے خبر دی کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے اپنے والد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ ہم ظہر کی نماز سے پہلے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بیٹھا کرتے تھے، جب وہ (گھر سے) نکلتے تو ہم ان کے ساتھ مسجد کی طرف روانہ ہوتے، ایک دن ہمارے پاس سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے اور پوچھا: کیا ابوعبدالرحمن (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی کنیت) باہر نکلے؟ ہم نے کہا: نہیں ابھی تک تو نہیں نکلے، تو وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، لہٰذا جب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ باہر آئے تو ہم سب ان کے لئے کھڑے ہو گئے، سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! میں نے ابھی ابھی مسجد میں ایسی بات دیکھی ہے جو مجھے ناگوار گزری ہے حالانکہ الحمد للہ وہ بہتر اور اچھی ہی ہو گی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: وہ کیا بات ہے؟ کہا: آپ وہاں پہنچ کر خود دیکھ لیں گے، پھر کہا: میں نے وہاں کچھ لوگوں کی جماعت دیکھی جو حلقوں کی صورت میں بیٹھے نماز کا انتظار کر رہے ہیں، ہر حلقے میں ایک آدمی ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں، وہ آدمی ان سے کہتا ہے: سو بار اللہ اکبر کہو تو وہ (ان کنکریوں کو گن کر) سو بار اللہ اکبر کہتے ہیں، پھر وہ شخص کہتا ہے: سو بار لا إلٰہ إلا اللہ کہو تو (اس طرح) وہ سو بار لا إلٰہ إلا اللہ کہتے ہیں، وہ کہتا ہے: سو بار سبحان الله کہو تو وہ اس طرح سو بار سبحان اللہ کہتے ہیں۔ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم نے ان سے کیا کہا؟ انہوں نے کہا: میں نے آپ کی رائے یا حکم کے انتظار میں ان سے کچھ نہیں کہا۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے انہیں یہ حکم کیوں نہ دیا کہ ان کنکریوں سے وہ اپنے گناہ شمار کریں اور تم نے انہیں اس بات کی ضمانت دیدی کہ ان کی نیکیوں میں سے کچھ برباد نہ ہوا۔ پھر وہ چل پڑے، ہم بھی ان کے ساتھ روانہ ہوئے یہاں تک کہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس آ کر وہ کھڑے ہوئے اور کہا: یہ میں تمہیں کیا کرتے دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! یہ کنکریاں ہیں ہم ان کے ذریعے تکبیر تہلیل اور تسبیح کی تعداد گنتے ہیں۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اپنی برائیاں گنو، تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہو گا، اے امت محمد! تمہاری خرابی ہوئی، کتنی جلدی تم ہلاکت و بربادی میں پڑ گئے، ابھی تو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہ موجود ہیں، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی میلے نہیں ہوئے، نہ آپ کے برتن ٹوٹے ہیں، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کیا تم ملت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہدایت یافتہ ملت کے راستے پر ہو یا گمراہی و ضلالت کا دروازہ کھول رہے ہو۔ انہوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! ہمارا ارادہ صرف نیکی و بھلائی کا ہی تھا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسی بھلائی کے متلاشی کبھی بھلائی و نیکی حاصل نہ کر سکیں گے، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ایک جماعت ہو گی جو قرآن پڑھے گی تو وہ اس کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، قسم اللہ کی ہو سکتا ہے ایسے اکثر لوگ تم ہی میں سے ہوں گے۔ پھر آپ ان کے پاس سے ہٹ گئے، عمرو بن سلمہ نے کہا: ہم نے ان حلقات کے عام آدمیوں کو دیکھا جو واقعہ نہروان کے دن خوارج کے ساتھ ہمیں پر تیر برسا رہے تھے (یعنی وہی لوگ خوارج کا ساتھ دے رہے تھے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 210]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبي شيبه 19736]، [معجم الطبراني الكبير 8636]، [مجمع الزوائد 863]، نیز [ترمذي 2189] اور [ابن ماجه 168] نے آخر کا پیراگراف اختصار سے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 208 سے 210)
اس طویل اثر و حدیث میں بدعت کی شدید مذمت اور کنکریوں یا تسبیح کے دانوں پر تسبیح و تہلیل اور تکبیر پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار ہے، اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا شدید رد عمل ہے۔
آج ان کی بات کو دلیل بنانے والے ہی ان کی مخالفت کرتے ہیں اور ہاتھوں میں تسبیح لئے گھومتے پھرتے ہیں۔
اس میں صحابہ کرام کا ایک دوسرے کے ساتھ احترام کرنا بھی ثابت ہوتا ہے جو باعثِ اتباع و عبرت ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی کی کہ ایک جماعت ایسی پیدا ہوگی جو قرآن پڑھے گی لیکن بے عمل ہوگی، قرآن و حدیث کی اتباع چھوڑ کر اپنے نفس اور شیطان کی اتباع کرے گی اور دینی اُمور میں اپنی من مانی کرے گی، اور خوارج کی صورت میں یہ پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد

Previous    17    18    19    20    21    22    23    24    25    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.