(حديث مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، حدثنا ريحان هو ابن سعيد، حدثنا عباد هو ابن منصور، عن ايوب، عن ابي قلابة، عن عطية، انه سمع ربيعة الجرشي، يقول: اتي النبي صلى الله عليه وسلم، فقيل له: لتنم عينك، ولتسمع اذنك، وليعقل قلبك، قال: "فنامت عيناي، وسمعت اذناي، وعقل قلبي"، قال: فقيل لي: سيد بنى دارا فصنع مادبة، وارسل داعيا، فمن اجاب الداعي، دخل الدار، واكل من المادبة، ورضي عنه السيد، ومن لم يجب الداعي، لم يدخل الدار، ولم يطعم من المادبة، وسخط عليه السيد، قال:"فالله: السيد، ومحمد: الداعي، والدار: الإسلام، والمادبة: الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا رَيْحَانُ هُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ عَطِيَّةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَبِيعَةَ الْجُرَشِيَّ، يَقُولُ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: لِتَنَمْ عَيْنُكَ، وَلْتَسْمَعْ أُذُنُكَ، وَلْيَعْقِلْ قَلْبُكَ، قَالَ: "فَنَامَتْ عَيْنَايَ، وَسَمِعَتْ أُذُنَايَ، وَعَقَلَ قَلْبِي"، قَالَ: فَقِيلَ لِي: سَيِّدٌ بَنَى دَارًا فَصَنَعَ مَأْدُبَةً، وَأَرْسَلَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ، دَخَلَ الدَّارَ، وَأَكَلَ مِنْ الْمَأْدُبَةِ، وَرَضِيَ عَنْهُ السَّيِّدُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ، لَمْ يَدْخُلْ الدَّارَ، وَلَمْ يَطْعَمْ مِنْ الْمَأْدُبَةِ، وَسَخِطَ عَلَيْهِ السَّيِّدُ، قَالَ:"فَاللَّهُ: السَّيِّدُ، وَمُحَمَّدٌ: الدَّاعِي، وَالدَّارُ: الْإِسْلَامُ، وَالْمَأْدُبَةُ: الْجَنَّةُ".
عطیہ نے ربیعہ جرشی کو سنا وہ کہتے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (فرشتہ) آیا اور کہا: آپ کی آنکھ کو سو جانا چاہیے، کانوں کو سننا اور دل کو سمجھنا چاہیے، فرمایا: ”لہٰذا میری آنکھ لگ گئی، کانوں نے سن لیا اور دل نے سمجھ لیا، فرمایا: مجھ سے کہا گیا: ایک مالک نے گھر بنا کر دسترخوان لگایا اور ایک بلانے والے کو (دعوت کے لئے) بھیجا، پس جس نے اس داعی کی دعوت قبول کر لی وہ اس گھر میں بھی داخل ہوا اور دسترخوان سے تناول کیا اور مالک مکان بھی خوش ہو گیا اور جس نے اس بلانے والے کی دعوت قبول نہ کی وہ نہ گھر میں داخل ہو سکا، نہ دسترخوان سے کچھ کھایا اور وہ مالک مکان بھی اس سے ناراض ہو گیا۔“ اس حدیث میں مالک سے مراد ذات باری تعالی اور داعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور وہ دار (گھر) اسلام اور دسترخوان جنت ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عباد بن منصور، [مكتبه الشامله نمبر: 11]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [معجم الطبراني 4597] لیکن صحیح بخاری میں اس کا شاہد موجود ہے، دیکھئے [صحيح البخاري 7281]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عباد بن منصور
(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن علي، حدثنا ابو اسامة، عن جعفر بن ميمون التميمي، عن ابي عثمان النهدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى البطحاء، ومعه ابن مسعود، فاقعده وخط عليه خطا، ثم قال: "لا تبرحن فإنه سينتهي إليك رجال فلا تكلمهم، فإنهم لن يكلموك"، فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث اراد، ثم جعلوا ينتهون إلى الخط لا يجاوزونه، ثم يصدرون إلى النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كان من آخر الليل، جاء إلي فتوسد فخذي، وكان إذا نام، نفخ في النوم، نفخا فبينا رسول الله صلى الله عليه وسلم متوسد فخذي، راقد، إذ اتاني رجال كانهم الجمال عليهم ثياب بيض الله اعلم ما بهم من الجمال حتى قعد طائفة منهم عند راسه، وطائفة منهم عند رجليه، فقالوا بينهم: ما راينا عبدا اوتي مثل ما اوتي هذا النبي صلى الله عليه وسلم: إن عينيه لتنامان، وإن قلبه ليقظان، اضربوا له مثلا: سيد بنى قصرا ثم جعل مادبة فدعا الناس إلى طعامه وشرابه، ثم ارتفعوا، واستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك، فقال:"اتدري من هؤلاء؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:"هم الملائكة"، قال:"وهل تدري ما المثل الذي ضربوه؟"، قلت: الله ورسوله اعلم، قال:"الرحمن بنى الجنة فدعا إليها عباده، فمن اجابه، دخل جنته، ومن لم يجبه، عاقبه وعذبه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ التَّمِيمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى الْبَطْحَاءِ، وَمَعَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَأَقْعَدَهُ وَخَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: "لَا تَبْرَحَنَّ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ، فَإِنَّهُمْ لَنْ يُكَلِّمُوكَ"، فَمَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ، ثُمَّ جَعَلُوا يَنْتَهُونَ إِلَى الْخَطِّ لَا يُجَاوِزُونَهُ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ، جَاءَ إِلَيَّ فَتَوَسَّدَ فَخِذِي، وَكَانَ إِذَا نَامَ، نَفَخَ فِي النَّوْمِ، نَفْخًا فَبَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي، رَاقِدٌ، إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الْجِمَالُ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنْ الْجَمَالِ حَتَّى قَعَدَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، فَقَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَيْنَيْهِ لَتَنَامَانِ، وَإِنَّ قَلْبَهُ لَيَقْظَانُ، اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا: سَيِّدٌ بَنَى قَصْرًا ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ:"أَتَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:"هُمْ الْمَلَائِكَةُ"، قَالَ:"وَهَلْ تَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوهُ؟"، قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:"الرَّحْمَنُ بَنَى الْجَنَّةَ فَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ، فَمَنْ أَجَابَهُ، دَخَلَ جَنَّتَهُ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ، عَاقَبَهُ وَعَذَّبَهُ".
ابوعثمان النہدی سے مروی ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کنکریلی زمین کی طرف نکلے، سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے، آپ نے انہیں بٹھایا اور ان کے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ دیا اور فرمایا: ”تم اسی دائرے کے اندر رہنا کیونکہ تمہارے پاس بہت سے لوگ آئیں گے، تم ان سے کوئی بات نہ کرنا، وہ بھی تم سے کوئی بات نہ کریں گے“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف جانے کا ارادہ رکھتے تھے اسی طرف چلے گئے اور پھر اس دائرے کے ارد گرد لوگ آنے لگ گئے لیکن اس خط کے اندر کوئی نہیں آیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے رہے یہاں تک کہ جب رات کا آخری پہر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور میری ران کا تکیہ لگایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے، آپ اسی حال میں میری ران پر سر رکھے سو رہے تھے کہ چند آدمی آ گئے، جو بڑے خوبصورت تھے، ان کے بدن پر سفید کپڑے تھے، اللہ تعالی خوب جانتا ہے ان کے اندر جو خوبصورتی و جمال تھا پھر ان میں سے ایک گروہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے اور ایک گروہ آپ کے پیروں کے پاس بیٹھ گیا، پھر وہ آپس میں کہنے لگے، ہم نے کوئی بندہ ایسا نہیں دیکھا جس کو وہ کچھ ملا ہو جو انہیں نبی کریم (محمد) صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیاٍ ہے، ان کی آنکھیں تو سوتی ہیں دل جاگتا ہے۔ ان کی مثال اس سردار کی سی ہے جس نے ایک محل بنایا اور اس میں دسترخوان لگایا اور لوگوں کو کھانے پینے کی دعوت دی، پھر وہ لوگ چلے گئے اور اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہو گئے۔ فرمایا: ”تم جانتے ہو یہ کون لوگ تھے؟“ انہوں نے عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول ہی اس کو خوب جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ فرشتے تھے“، فرمایا: ”اور تم نے اس مثال کو سمجھا جو انہوں نے بیان کی؟“ میں نے کہا: اللہ ورسولہ اعلم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اللہ) رحمٰن نے جنت بنائی اور اپنے بندوں کو اس کی طرف بلایا پس جس نے اس کی دعوت قبول کی وہ اس کی جنت میں داخل ہو گیا اور جس نے اس کی دعوت قبول نہ کی وہ اس کو سزا و عذاب دے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 12]» دیکھئے: [مسند أحمد 399/1]، [ترمذي 2861 وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه]۔
(حديث مرفوع) اخبرنا نعيم بن حماد، حدثنا بقية، عن بحير، عن خالد بن معدان، حدثنا عبد الرحمن بن عمرو السلمي، عن عتبة بن عبد السلمي، انه حدثهم وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال له رجل: كيف كان اول شانك يا رسول الله؟، قال: "كانت حاضنتي من بني سعد بن بكر، فانطلقت انا، وابن لها في بهم لنا ولم ناخذ معنا زادا، فقلت: يا اخي، اذهب فاتنا بزاد من عند امنا، فانطلق اخي ومكثت عند البهم، فاقبل طائران ابيضان كانهما نسران، فقال احدهما لصاحبه: اهو هو؟، قال الآخر: نعم، فاقبلا يبتدراني فاخذاني فبطحاني للقفا فشقا بطني ثم استخرجا قلبي فشقاه، فاخرجا منه علقتين سوداوين، فقال احدهما لصاحبه: ائتني بماء ثلج، فغسل به جوفي، ثم قال: ائتني بماء برد، فغسل به قلبي، ثم قال: ائتني بالسكينة فذره في قلبي، ثم قال احدهما لصاحبه: حصه، فحاصه وختم عليه بخاتم النبوة، ثم قال احدهما لصاحبه: اجعله في كفة واجعل الفا من امته في كفة"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"فإذا انا انظر إلى الالف فوقي اشفق ان يخر علي بعضهم، فقال: لو ان امته وزنت به لمال بهم، ثم انطلقا وتركاني"، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"وفرقت فرقا شديدا، ثم انطلقت إلى امي فاخبرتها بالذي لقيت، فاشفقت ان يكون قد التبس بي، فقالت: اعيذك بالله، فرحلت بعيرا لها، فجعلتني على الرحل وركبت خلفي حتى بلغنا إلى امي، فقالت: اديت امانتي وذمتي، وحدثتها بالذي لقيت، فلم يرعها ذلك، وقالت: إني رايت حين خرج مني شيئا، يعني: نورا اضاءت منه قصور الشام".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا نُعَيْمُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ بَحِيرٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَمْرٍو السُّلَمِيُّ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ عَبْدٍ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ رَجُلٌ: كَيْفَ كَانَ أَوَّلُ شَأْنِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: "كَانَتْ حَاضِنَتِي مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَابْنٌ لَهَا فِي بَهْمٍ لَنَا وَلَمْ نَأْخُذْ مَعَنَا زَادًا، فَقُلْتُ: يَا أَخِي، اذْهَبْ فَأْتِنَا بِزَادٍ مِنْ عِنْدِ أُمِّنَا، فَانْطَلَقَ أَخِي وَمَكَثْتُ عِنْدَ الْبَهْمِ، فَأَقْبَلَ طَائِرَانِ أَبْيَضَانِ كَأَنَّهُمَا نَسْرَانِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟، قَالَ الْآخَرُ: نَعَمْ، فَأَقْبَلَا يَبْتَدِرَانِي فَأَخَذَانِي فَبَطَحَانِي لِلْقَفَا فَشَقَّا بَطْنِي ثُمَّ اسْتَخْرَجَا قَلْبِي فَشَقَّاهُ، فَأَخْرَجَا مِنْهُ عَلَقَتَيْنِ سَوْدَاوَيْنِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: ائْتِنِي بِمَاءِ ثَلْجٍ، فَغَسَلَ بِهِ جَوْفِي، ثُمَّ قَالَ: ائْتِنِي بِمَاءِ بَرَدٍ، فَغَسَلَ بِهِ قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ: ائْتِنِي بِالسَّكِينَةِ فَذَرَّهُ فِي قَلْبِي، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: حُصْهُ، فَحَاصَهُ وَخَتَمَ عَلَيْهِ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ، ثُمَّ قَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: اجْعَلْهُ فِي كِفَّةٍ وَاجْعَلْ أَلْفًا مِنْ أُمَّتِهِ فِي كِفَّةٍ"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"فَإِذَا أَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْأَلْفِ فَوْقِي أُشْفِقُ أَنْ يَخِرَّ عَلَيَّ بَعْضُهُمْ، فَقَالَ: لَوْ أَنَّ أُمَّتَهُ وُزِنَتْ بِهِ لَمَالَ بِهِمْ، ثُمَّ انْطَلَقَا وَتَرَكَانِي"، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَفَرِقْتُ فَرَقًا شَدِيدًا، ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى أُمِّي فَأَخْبَرْتُهَا بِالَّذِي لَقِيتُ، فَأَشْفَقَتْ أَنْ يَكُونَ قَدْ الْتَبَسَ بِي، فَقَالَتْ: أُعِيذُكَ بِاللَّهِ، فَرَحَلَتْ بَعِيرًا لَهَا، فَجَعَلَتْنِي عَلَى الرَّحْلِ وَرَكِبَتْ خَلْفِي حَتَّى بُلَغْنَا إِلَى أُمِّي، فَقَالَتْ: أَدَّيْتُ أَمَانَتِي وَذِمَّتِي، وَحَدَّثَتْهَا بِالَّذِي لَقِيتُ، فَلَمْ يَرُعْهَا ذَلِكَ، وَقَالَتْ: إِنِّي رَأَيْتُ حِينَ خَرَجَ مِنِّي شَيْئًا، يَعْنِي: نُورًا أَضَاءَتْ مِنْهُ قُصُورُ الشَّامِ".
سیدنا عتبۃ بن عبدالسلمی رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے، بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول الله! آپ کی ابتدائی حالت کیا تھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری رضاعی ماں قبیلہ بنی سعد بن بکر کی تھیں، میں ان کے بیٹے کے ہمراہ ان کی بھیڑوں کے ساتھ نکلا، ہمارے ساتھ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا، میں نے (اپنے رضاعی بھائی سے) کہا: اے بھائی جاؤ اور ماں کے پاس سے کھانا لے آؤ، لہذا بھائی تو چلا گیا اور ریوڑ کے پاس میں ہی تنہا رہ گیا (کیا دیکھتا ہوں) دو سفید پرندے جو گدھ کی طرح کے تھے، ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ وہی ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: ہاں وہی ہیں، پھر دونوں میری طرف لپکے، مجھے پکڑا اور گدی کے بل لٹا دیا، میرا پیٹ چاک کیا اور میرے دل کو نکالا اور اسے بھی چاک کیا اور اس سے دو کالے لوتھڑے نکالے، پھر ان میں سے ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا: برف کا پانی لاؤ، پھر اس سے میرے پیٹ کو دھویا، پھر کہا اولوں کا پانی لاؤ اور اس سے میرے دل کو دھو دیا، پھر کہا میرے پاس سکینہ (اطمینان) کو لاؤ اور اسے میرے دل پر چھڑک دیا، پھر ایک نے دوسرے ساتھی سے کہا ان کو ایک پلڑے میں رکھ دو اور ان کی امت کے ہزار افراد کو دوسرے پلڑے میں۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا اس کی سلائی کر دو چنانچہ ٹانکے لگا دیئے اور اس پر مہر نبوت ثبت کردی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میں ان ہزار کو اپنے سے اوپر دیکھتا ہوں تو ڈر لگنے لگتا ہے کہ ان میں سے کوئی (اس پلڑے سے) گر نہ جائے۔ اس واقعہ کے بعد مجھے بہت ڈر لگا اور میں نے ماں کے پاس جا کر سارا ماجرا بیان کیا اور انہیں ڈر لگا کہ کہیں مجھے آسیب تو نہیں آ گیا، کہنے لگیں: میں تمہارے لئے اللہ کی پناہ چاہتی ہوں پھر اپنے اونٹ کو لے کر چل پڑیں مجھے آگے بٹھایا اور خود پیچھے بیٹھیں یہاں تک کہ ہم اپنی والدہ صاحبہ کے پاس پہنچے اور وہ ان سے یوں گویا ہوئیں: میں نے اپنی امانت اور ذمے داری کا حق ادا کر دیا ہے اور اس کے بعد رضاعی ماں نے میرے اوپر جو گزری اس کا ماجرا بیان کر دیا لیکن والدہ صاحبہ بالکل خوف زدہ نہیں ہوئیں بلکہ کہنے لگیں جب یہ پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ میرے اندر سے ایسا نور خارج ہوا جس سے شام کے کل روشن ہو گئے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف بقية بن الوليد يدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الاسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 13]» اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 184/4]، [مستدرك الحاكم 4230]، [معجم الكبير للطبراني 322] لیکن طبرانی نے 131/17، (323) میں بسند صحیح بھی اس کو روایت کیا ہے اور حدیث حلیمہ السعدیہ کو ابن حبان نے (6335) میں بھی ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 2094]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف بقية بن الوليد يدلس تدليس التسوية وقد عنعن في هذا الاسناد
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن عمران، حدثنا ابو داود، حدثنا جعفر بن عثمان القرشي، عن عثمان بن عروة بن الزبير، عن ابيه، عن ابي ذر الغفاري، قال: قلت: يا رسول الله، كيف علمت انك نبي حتى استيقنت؟، فقال:"يا ابا ذر، اتاني ملكان وانا ببعض بطحاء مكة فوقع احدهما علي الارض، وكان الآخر بين السماء والارض، فقال احدهما لصاحبه: اهو هو؟، قال: نعم، قال: فزنه برجل، فوزنت به فوزنته، ثم قال: فزنه بعشرة، فوزنت بهم فرجحتهم، ثم قال: زنه بمئة، فوزنت بهم فرجحتهم، ثم قال: زنه بالف، فوزنت بهم فرجحتهم كاني انظر إليهم ينتثرون علي من خفة الميزان، قال: فقال احدهما لصاحبه: لو وزنته بامته لرجحها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عُثْمَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتَّى اسْتَيْقَنْتَ؟، فَقَالَ:"يَا أَبَا ذَرٍّ، أَتَانِي مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا عَلَي الْأَرْضِ، وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: أَهُوَ هُوَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَزِنْهُ بِرَجُلٍ، فَوُزِنْتُ بِهِ فَوَزَنْتُهُ، ثُمَّ قَالَ: فَزِنْهُ بِعَشَرَةٍ، فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ، ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِمِئَةٍ، فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ، ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِأَلْفٍ، فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: لَوْ وَزَنْتَهُ بِأُمَّتِهِ لَرَجَحَهَا".
سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کیسے معلوم ہوا اور پھر کیسے یقین ہوا کہ آپ نبی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوذر! میرے پاس دو فرشتے آئے جب کہ میں مکہ کی کنکریلی زمین پر تھا، ان میں سے ایک تو زمین پر آ رہا لیکن دوسرا زمین و آسمان کے درمیان ہی تھا کہ ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ وہی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں وہی ہیں، پھر اس نے کہا کہ ان کا وزن ایک آدمی سے کرو، لہٰذا میرا اس سے وزن کیا گیا تو میں بھاری پڑا، پھر اس فرشتے نے کہا: اب دس آدمیوں سے ان کا وزن کرو، میں وزن میں ان سے بھی بھاری رہا، پھر اس نے کہا: سو آدمیوں سے ان کو تولو، چنانچہ مجھے ان سو آدمیوں سے تولا گیا، میں ان پر بھی بھاری پڑا تو اس نے کہا اب ہزار آدمیوں سے ان کا وزن کرو، لہٰذا میں ان سے تولا گیا تو ان سے بھی زیادہ بھاری تھا، گویا کہ میں ان کی طرف دیکھ رہا ہوں جو ترازو کے پلڑے سے گر پڑ رہے ہیں“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: اگر تم ان کی پوری امت سے ان کا وزن کرو گے تب بھی یہ ہی بھاری رہیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده منقطع عروة بن الزبير لم يدرك أبا ذر الغفاري ورجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 14]» اس حدیث کو طبرانی و حاکم نے بھی ذکر کیا ہے لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [كشف الأستار 2371]، [تاريخ الطبري 304/2]، [دلائل النبوة لأبي نعيم 167]، [الضعفاء للعقيلي 183/1]، ابن کثیر نے اس کے مثل روایت ذکر کی ہے، دیکھئے: [السيرة 228/2] اور اس کی سند قوی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده منقطع عروة بن الزبير لم يدرك أبا ذر الغفاري ورجاله ثقات
ابوصالح سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پکارتے ہوئے فرماتے تھے: ”اے لوگو! میں ہدیہ کی گئی رحمت ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح ولكنه مرسل، [مكتبه الشامله نمبر: 15]» یہ حدیث سنداً صحیح ہے لیکن مرسل ہے، دوسرے صحیح طرق سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [مسند الشهاب 1160-1161] و [البيهقي دلائل النبوة 158/1] نیز یہ فرمان باری تعالی کے مطابق ہے: «﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾» اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔ [الأنبياء: 107/21]
وضاحت: (تشریح احادیث 5 سے 15) ❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سراپا رحمت ہیں۔ ❀ آپ انسانوں کے لئے قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔ ❀ نیز ان روایات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت اور قدرومنزلت ثابت ہوتی ہے کہ میزان میں آپ سب پر بھاری ہیں۔ ❀ نیز یہ کہ پیدائش سے ہی اللہ تعالی کی رحمت وعنایت آپ کے ساتھ تھی۔ ❀ مہر نبوت کا بیان دیگر صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے۔ دیکھئے: بخاری (3540،190)، مسلم (2345)۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح ولكنه مرسل
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن طريف، حدثنا محمد بن فضيل، حدثنا ابو حيان، عن عطاء، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، في سفر فاقبل اعرابي فلما دنا منه، قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اين تريد؟"، قال: إلى اهلي، قال:"هل لك في خير؟"، قال: وما هو؟، قال:"تشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وان محمدا عبده ورسوله"، فقال: ومن يشهد على ما تقول؟، قال:"هذه السلمة"، فدعاها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي بشاطئ الوادي فاقبلت تخد الارض خدا حتى قامت بين يديه، فاستشهدها ثلاثا، فشهدت ثلاثا انه كما قال، ثم رجعت إلى منبتها، ورجع الاعرابي إلى قومه، وقال: إن اتبعوني اتيتك بهم، وإلا رجعت، فكنت معك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَيَّانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي سَفَرٍ فَأَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ فَلَمَّا دَنَا مِنْهُ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيْنَ تُرِيدُ؟"، قَالَ: إِلَى أَهْلِي، قَالَ:"هَلْ لَكَ فِي خَيْرٍ؟"، قَالَ: وَمَا هُوَ؟، قَالَ:"تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ"، فَقَالَ: وَمَنْ يَشْهَدُ عَلَى مَا تَقُولُ؟، قَالَ:"هَذِهِ السَّلَمَةُ"، فَدَعَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ بِشَاطِئِ الْوَادِي فَأَقْبَلَتْ تَخُدُّ الْأَرْضَ خَدًّا حَتَّى قَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَاسْتَشْهَدَهَا ثَلَاثًا، فَشَهِدَتْ ثَلَاثًا أَنَّهُ كَمَا قَالَ، ثُمَّ رَجَعَتْ إِلَى مَنْبَتِهَا، وَرَجَعَ الْأَعْرَابِيُّ إِلَى قَوْمِهِ، وَقَالَ: إِنْ اتَّبَعُونِي أَتَيْتُكَ بِهِمْ، وَإِلَّا رَجَعْتُ، فَكُنْتُ مَعَكَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ایک بدوی آیا اور جب آپ سے وہ قریب ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہاں کا ارادہ ہے“، عرض کیا: اپنے گھر والوں کی طرف جانے کا ارادہ ہے۔ فرمایا: ”بہتری چاہتے ہو؟“ عرض کیا: وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(وہ یہ ہے کہ) تم اس بات کی شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول و پیغمبر ہیں“، اس نے کہا: آپ جو فرماتے ہیں اس کی شہادت کون دیتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کانٹے دار درخت (جھاڑی) ہے (جو اس کی شہادت دیتا ہے)“، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آواز دی جو گرچہ وادی کے ایک کنارے پر واقع تھا لیکن زمین پھاڑتا ہوا آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو کھڑا ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے گواہی دینے کو کہا اور اس درخت نے تین مرتبہ شہادت دی کہ آپ وہی ہیں جیسا کہ آپ نے دعوی کیا ہے۔ پھر وہ اپنی جگہ واپس چلا گیا اور وہ اعرابی یہ کہتے ہوئے اپنے قبیلے میں واپس چلا گیا کہ اگر انہوں نے میری بات مانی تو انہیں لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا ورنہ بذات خود واپس آ کر آپ کے ساتھ رہوں گا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 16]» یہ حدیث صحیح ہے جس کو [أبويعلی 5662] اور [ابن حبان 6505] نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 2110]
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسماعيل بن عبد الملك، عن ابي الزبير، عن جابر رضي الله عنه، قال: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، وكان لا ياتي البراز حتى يتغيب فلا يرى، فنزلنا بفلاة من الارض ليس فيها شجرة، ولا علم، فقال:"يا جابر، اجعل في إداوتك ماء ثم انطلق بنا"، قال: فانطلقنا حتى لا نرى، فإذا هو بشجرتين بينهما اربع اذرع، فقال:"يا جابر، انطلق إلى هذه الشجرة، فقل: يقول لك رسول الله صلي الله عليه وسلم: الحقي بصاحبتك حتى اجلس خلفكما"، فرجعت إليها، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم خلفهم، ثم رجعتا إلى مكانهما، فركبنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ورسول الله بيننا كانما علينا الطير تظلنا، فعرضت له امراة معها صبي لها، فقالت: يا رسول الله، إن ابني هذا ياخذه الشيطان كل يوم ثلاث مرار، قال: فتناول الصبي فجعله بينه وبين مقدم الرحل، ثم قال:"اخسا عدو الله، انا رسول الله صلى الله عليه وسلم، اخسا عدو الله انا رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثا"، ثم دفعه إليها، فلما قضينا سفرنا، مررنا بذلك المكان فعرضت لنا المراة معها صبيها، ومعها كبشان تسوقهما، فقالت: يا رسول الله اقبل مني هديتي، فوالذي بعثك بالحق ما عاد إليه بعد، فقال:"خذوا منها واحدا وردوا عليها الآخر"، قال: ثم سرنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم بيننا كانما علينا الطير تظلنا، فإذا جمل ناد حتى إذا كان بين سماطين خر ساجدا، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال علي الناس:"من صاحب الجمل؟"فإذا فتية من الانصار، قالوا: هو لنا يا رسول الله، قال:"فما شانه"؟، قالوا: استنينا عليه منذ عشرين سنة وكانت به شحيمة فاردنا ان ننحره فنقسمه بين غلماننا، فانفلت منا، قال:"بيعونيه"، قالوا: لا، بل هو لك يا رسول الله، قال:"اما لا، فاحسنوا إليه حتى ياتيه اجله"، قال المسلمون عند ذلك: يا رسول الله، نحن احق بالسجود لك من البهائم، قال:"لا ينبغي لشيء ان يسجد لشيء ولو كان ذلك، كان النساء لازواجهن".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، وَكَانَ لَا يَأْتِي الْبَرَازَ حَتَّى يَتَغَيَّبَ فَلَا يُرَى، فَنَزَلْنَا بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ لَيْسَ فِيهَا شَجَرةٌ، وَلَا عَلَمٌ، فَقَالَ:"يَا جَابِرُ، اجْعَلْ فِي إِدَاوَتِكَ مَاءً ثُمَّ انْطَلِقْ بِنَا"، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا حَتَّى لَا نُرَى، فَإِذَا هُوَ بِشَجَرَتَيْنِ بَيْنَهُمَا أَرْبَعُ أَذْرُعٍ، فَقَالَ:"يَا جَابِرُ، انْطَلِقْ إِلَى هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَقُلْ: يُقُولُ لَكِ رَسولُ اللَّهِ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحَقِي بِصَاحِبَتِكِ حَتَّى أَجْلِسَ خَلْفَكُمَا"، فَرَجَعَتْ إِلَيْهَا، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَلْفَهُمَ، ثُمَّ رَجَعَتَا إِلَى مَكَانِهِمَا، فَرَكِبْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَسُولُ اللَّهِ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا، فَعَرَضَتْ لَهُ امْرَأَةٌ مَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي هَذَا يَأْخُذُهُ الشَّيْطَانُ كُلَّ يَوْمٍ ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: فَتَنَاوَلَ الصَّبِيَّ فَجَعَلَهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ مُقَدَّمِ الرَّحْلِ، ثُمَّ قَالَ:"اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ، أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اخْسَأْ عَدُوَّ اللَّهِ أَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا"، ثُمَّ دَفَعَهُ إِلَيْهَا، فَلَمَّا قَضَيْنَا سَفَرَنَا، مَرَرْنَا بِذَلِكَ الْمَكَانِ فَعَرَضَتْ لَنَا الْمَرْأَةُ مَعَهَا صَبِيُّهَا، وَمَعَهَا كَبْشَانِ تَسُوقُهُمَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اقْبَلْ مِنِّي هَدِيَّتِي، فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا عَادَ إِلَيْهِ بَعْدُ، فَقَالَ:"خُذُوا مِنْهَا وَاحِدًا وَرُدُّوا عَلَيْهَا الْآخَرَ"، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَنَا كَأَنَّمَا عَلَيْنَا الطَّيْرُ تُظِلُّنَا، فَإِذَا جَمَلٌ نَادٌّ حَتَّى إِذَا كَانَ بَيْنَ سِمَاطَيْنِ خَرَّ سَاجِدًا، فَجَلَسَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ عَلَيَّ النَّاسَ:"مَنْ صَاحِبُ الْجَمَلِ؟"فَإِذَا فِتْيَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: هُوَ لَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"فَمَا شَأْنُهُ"؟، قَالُوا: اسْتَنَيْنَا عَلَيْهِ مُنْذُ عِشْرِينَ سَنَةً وَكَانَتْ بِهِ شُحَيْمَةٌ فَأَرَدْنَا أَنْ نَنْحَرَهُ فَنَقْسِمَهُ بَيْنَ غِلْمَانِنَا، فَانْفَلَتَ مِنَّا، قَالَ:"بِيعُونِيهِ"، قَالُوا: لَا، بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:"أَمَّا لا، فَأَحْسِنُوا إِلَيْهِ حَتَّى يَأْتِيَهُ أَجَلُهُ"، قَالَ الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ ذَلِكَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُودِ لَكَ مِنْ الْبَهَائِمِ، قَالَ:"لَا يَنْبَغِي لِشَيْءٍ أَنْ يَسْجُدَ لِشَيْءٍ وَلَوْ كَانَ ذَلِكَ، كَانَ النِّسَاءُ لِأَزْوَاجِهِنَّ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر پر روانہ ہوا۔ آپ قضائے حاجت کے لئے اتنی دور غائب ہو جاتے کہ دکھائی بھی نہ دیتے۔ ہم نے ایسے چٹیل میدان میں پڑاؤ ڈالا جہاں نہ کوئی درخت تھا اور نہ کوئی پہاڑ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جابر! اپنی ڈولچی میں پانی بھرو اور ہمارے ساتھ چلو“، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم چل پڑے اور لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور دو درختوں کے پاس پہنچے جن کا درمیانی فاصلہ چار ہاتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے جابر درخت کے پاس جاؤ اور کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے یہ کہتے ہیں کہ دوسرے ساتھی درخت سے مل جاؤ تاکہ میں تمہاری آڑ میں بیٹھ جاؤں“، انہوں نے جا کر ایسے ہی کہا، چنانچہ وہ درخت دوسرے سے جا کر مل گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے (قضائے حاجت کے لئے) جا کر بیٹھ گئے، پھر وہ درخت اپنی اپنی جگہ واپس لوٹ گئے، اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار ہوئے اور آپ ہمارے ہی درمیان تشریف فرما تھے، ایسا لگتا تھا جیسے ہم پر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں، پھر آپ کے پاس ایک عورت آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا، عرض کیا اے اللہ کے رسول! میرے اس بچے کو شیطان دن میں تین بار اٹھا لے جاتا ہے، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو لے کر اپنے اور کجاونے کے درمیان بٹھا لیا اور فرمایا: ”اے اللہ کے دشمن دور ہو جا میں اللہ کا رسول ہوں، دور ہو جا اللہ کے دشمن میں اللہ کا رسول ہوں“ اسی طرح تین بار فرمایا پھر اس بچے کو اس کی ماں کو واپس دے دیا، پھر اپنے سفر سے جب ہم واپس لوٹے تو اسی جگہ سے گزر ہوا اور وہی عورت اپنے بچے کے ساتھ دو مینڈھوں کو ہنکاتی ہوئی سامنے آئی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا یہ تحفہ قبول فرمائے، قسم ہے اس ذات باری تعالی کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اس کے بعد سے وہ شیطان پھر نہیں آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مینڈھا لے لو اور دوسرا اسے واپس لوٹا دو۔“ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد ہم چل پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہمارے ساتھ تھے ایسا لگتا تھا کہ ہمارے اوپر پرندے سایہ کئے ہوئے ہیں اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بدکا ہوا اونٹ ہے جب وہ راستے کے دو پہلوؤں کے درمیان آیا تو سجدے میں گر پڑا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا: ”لوگوں کو بلاؤ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟“ انصار کے کچھ جوانوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ ہمارا اونٹ ہے، فرمایا: ”اس کا کیا معاملہ ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: ہم اس سے بیس سال سے پانی نکلوا رہے ہیں، اس کے جسم میں چربی کا ایک ٹکڑا ہے جس کی وجہ سے ہمارا ارادہ تھا کہ اسے ذبح کر کے اپنے غلاموں میں تقسیم کر دیں تو یہ بھڑک کر ہمارے پاس سے بھاگ آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے میرے ہاتھ بیچ دو“، انہوں نے عرض کیا: نہیں یا رسول اللہ، یہ آپ ویسے ہی لے لیجئے، فرمایا: ”اگر بیچتے نہیں ہو تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے“، اس وقت مسلمانوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ہم ان چوپائیوں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حق دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی (انسان) کے لئے کسی غیر کا سجدہ کرنا جائز نہیں ہے، اگر یہ جائز ہوتا تو عورتوں کا اپنے شوہروں کو سجدہ کرنا جائز ہوتا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبد الملك. ولكن الحديث صحيح بشواهده، [مكتبه الشامله نمبر: 17]» یہ حدیث اس سیاق و سند سے ضعیف ہے، بعض جملوں کے شواہد [أبوداؤد 1۔2] اور [سنن ابن ماجه 335]، و [مصنف ابن ابي شيبة 11803] وغیرہ میں موجود ہیں لیکن سب کی سند ضعیف ہے۔ والله اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبد الملك. ولكن الحديث صحيح بشواهده
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى، حدثنا الاجلح، عن الذيال بن حرملة، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنه، قال: اقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى دفعنا إلى حائط في بني النجار، فإذا فيه جمل لا يدخل الحائط احد إلا شد عليه، فذكروا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فاتاه، فدعاه فجاء واضعا مشفره على الارض حتى برك بين يديه، فقال: "هاتوا خطاما"، فخطمه ودفعه إلى صاحبه، ثم التفت، فقال:"ما بين السماء إلى الارض احد إلا يعلم اني رسول الله، إلا عاصي الجن والإنس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَجْلَحُ، عَنْ الذَّيَّالِ بْنِ حَرْمَلَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى دُفِعْنَا إِلَى حَائِطٍ فِي بَنِي النَّجَّارِ، فَإِذَا فِيهِ جَمَلٌ لَا يَدْخُلُ الْحَائِطَ أَحَدٌ إِلَّا شَدَّ عَلَيْهِ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ، فَدَعَاهُ فَجَاءَ وَاضِعًا مِشْفَرَهُ عَلَى الْأَرْضِ حَتَّى بَرَكَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: "هَاتُوا خِطَامًا"، فَخَطَمَهُ وَدَفَعَهُ إِلَى صَاحِبِهِ، ثُمَّ الْتَفَتَ، فَقَالَ:"مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ أَحَدٌ إِلَّا يَعْلَمُ أَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا عَاصِيَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ".
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بنونجار کے باغ میں گئے، ناگہاں اس میں ایک اونٹ ملا جو باغ میں داخل ہونے والے ہر شخص پر ٹوٹ پڑتا تھا، لوگوں نے اس کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور اسے پکارا تو وہ اپنا ہونٹ لٹکائے آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگام لاؤ“، چنانچہ آپ نے اسے لگام لگادی اور اس کے مالک کے حوالے کر دیا پھر (لوگوں کی طرف) متوجہ ہو کر فرمایا: ”جن و انسان کے نافرمانوں کے علاوہ زمین و آسمان میں کوئی ایسا نہیں جو یہ نہ جانتا ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 18]» اس حدیث کی سند جید ہے اور اسے [عبد بن حميد 1122]، و [امام أحمد 310/3] اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ دیکھئے: [حديث رقم 11168]
(حديث مرفوع) اخبرنا الحجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن فرقد السبخي، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، إن امراة جاءت بابن لها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله إن ابني به جنون، وإنه ياخذه عند غدائنا وعشائنا فيخبث علينا،"فمسح رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، ودعا فثع ثعة، وخرج من جوفه مثل الجرو الاسود، فسعى".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، إِنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ بِابْنٍ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ ابْنِي بِهِ جُنُونٌ، وَإِنَّهُ يَأْخُذُهُ عِنْدَ غَدَائِنَا وَعَشَائِنَا فَيُخَبَّثُ عَلَيْنَا،"فَمَسَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدْرَهُ، وَدَعَا فَثَعَّ ثَعَّةً، وَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ مِثْلُ الْجِرْوِ الْأَسْوَدِ، فَسَعَى".
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنا بیٹا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور عرض کیا: میرے بیٹے کو پاگل پن کا مرض ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارا دوپہر اور شام کا کھانا لے جاتا ہے اور اسے گندا و خراب کر دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (لڑکے) کے سینے کو سہلایا اور دعا فرمائی تو اس نے قے کر دی اور اس کے پیٹ سے ایک چھوٹا سا (پتلا) بچہ نکلا اور دوڑا چلا گیا، ایک روایت میں ہے اور وہ لڑکا شفایاب ہو گیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل فرقد السبخي، [مكتبه الشامله نمبر: 19]» یہ روایت ضعیف ہے اور اسی سند سے اس کو [امام احمد 239/1] اور [طبراني 12460] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 182/2] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل فرقد السبخي
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو مکہ میں نبوت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا میں اب بھی اس پتھر کو پہچانتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 20]» یہ حدیث صحيح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 89/5]، [مسلم 2277]، [ترمذي 3628]، [الطيالسي 2450]، [والطبراني 1907، 220/2] وغیرہم۔