حدثنا فروة، قال: حدثنا القاسم بن مالك، عن ليث، عن عبيد الله، عن موسى بن طلحة قال: دخلت مع ابي على امي، فدخل فاتبعته، فالتفت فدفع في صدري حتى اقعدني على استي، قال: اتدخل بغير إذن؟.حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مَالِكٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِي عَلَى أُمِّي، فَدَخَلَ فَاتَّبَعْتُهُ، فَالْتَفَتَ فَدَفَعَ فِي صَدْرِي حَتَّى أَقْعَدَنِي عَلَى اسْتِي، قَالَ: أَتَدْخُلُ بِغَيْرِ إِذْنٍ؟.
موسیٰ بن طلحہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں اپنے والد کے ساتھ اپنی والدہ کے پاس گیا۔ والد محترم داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہو گیا، انہوں نے میری طرف مڑ کر دیکھا تو میرے سینے میں روز سے دھکا مارا، حتی کہ میں پیچھے جا گرا، پھر کہا: کیا تم بغیر اجازت کے اندر آتے ہو؟
حدثنا إسماعيل بن ابان، قال: حدثنا علي بن مسهر، عن اشعث، عن ابي الزبير، عن جابر قال: يستاذن الرجل على ولده، وامه، وإن كانت عجوزا، واخيه، واخته، وابيه.حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: يَسْتَأْذِنُ الرَّجُلُ عَلَى وَلَدِهِ، وَأُمِّهِ، وَإِنْ كَانَتْ عَجُوزًا، وَأَخِيهِ، وَأُخْتِهِ، وَأَبِيهِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: آدمی کو اپنی اولاد اور والدہ سے اندر آنے کی اجازت لینی چاہیے، اگرچہ والدہ بوڑھی ہی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح اپنے بہن بھائیوں اور باپ سے بھی اجازت لینی چاہیے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف الإسناد موقوفًا: أخرجه ابن أبى شيبة: 17599»
حدثنا الحميدي، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا عمرو، وابن جريج، عن عطاء قال: سالت ابن عباس فقلت: استاذن على اختي؟ فقال: نعم، فاعدت فقلت: اختان في حجري، وانا امونهما وانفق عليهما، استاذن عليهما؟ قال: نعم، اتحب ان تراهما عريانتين؟ ثم قرا: ﴿يا ايها الذين آمنوا ليستاذنكم الذين ملكت ايمانكم﴾ [النور: 58] إلى ﴿ثلاث عورات لكم﴾ [النور: 58]، قال: فلم يؤمر هؤلاء بالإذن إلا في هذه العورات الثلاث، قال: ﴿وإذا بلغ الاطفال منكم الحلم فليستاذنوا كما استاذن الذين من قبلهم﴾ [النور: 59]، قال ابن عباس: فالإذن واجب، زاد ابن جريج: على الناس كلهم.حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرٌو، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقُلْتُ: أَسْتَأْذِنُ عَلَى أُخْتِي؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَعَدْتُ فَقُلْتُ: أُخْتَانِ فِي حِجْرِي، وَأَنَا أُمَوِّنُهُمَا وَأُنْفِقُ عَلَيْهِمَا، أَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِمَا؟ قَالَ: نَعَمْ، أَتُحِبُّ أَنْ تَرَاهُمَا عُرْيَانَتَيْنِ؟ ثُمَّ قَرَأَ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ [النور: 58] إِلَى ﴿ثَلاَثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ﴾ [النور: 58]، قَالَ: فَلَمْ يُؤْمَرْ هَؤُلاَءِ بِالإِذْنِ إِلاَّ فِي هَذِهِ الْعَوْرَاتِ الثَّلاَثِ، قَالَ: ﴿وَإِذَا بَلَغَ الأَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ﴾ [النور: 59]، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَالإِذْنُ وَاجِبٌ، زَادَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَلَى النَّاسِ كُلِّهِمْ.
حضرت عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا: کیا میں اپنی بہن کے پاس بھی اجازت لے کر جاؤں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں! میں نے سوال دوہرایا اور کہا: میری دو بہنیں میرے زیرِ پرورش ہیں، اور میں ہی ان کے اخراجات برداشت کرتا ہوں، کیا پھر بھی ان سے اجازت لے کر اندر جاؤں؟ انہوں نے کہا: ہاں، ان سے بھی اجازت لے کر جاؤ۔ کیا تم پسند کرتے ہو کہ انہیں برہنہ دیکھو؟ پھر یہ آیت پڑھی: ”اے ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے بلوغت کو نہ پہنچے ہوں (اپنے آنے کی) تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نمازِ فجر سے پہلے، اور ظہر کے وقت جبکہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو، اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہارے پردے کے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ ان کو صرف ان تین پردے کے اوقات میں اجازت لینے کا حکم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ”اور تمہارے بچے بھی جب بلوغت کو پہنچ جائیں، تو وہ اسی طرح اجازت طلب کریں جس طرح ان سے پہلے لوگ اجازت مانگتے ہیں۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اس لیے اجازت لینا واجب ہے۔ ابن جریج نے یہ اضافہ نقل کیا: تمام لوگوں کے لیے (اجازت لینا واجب ہے)۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البيهقي فى الكبرىٰ: 97/7»
حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا مخلد، قال: اخبرنا ابن جريج قال: اخبرني عطاء، عن عبيد بن عمير، ان ابا موسى الاشعري استاذن على عمر بن الخطاب، فلم يؤذن له - وكانه كان مشغولا - فرجع ابو موسى، ففرغ عمر فقال: الم اسمع صوت عبد الله بن قيس؟ إيذنوا له، قيل: قد رجع، فدعاه، فقال: كنا نؤمر بذلك، فقال: تاتيني على ذلك بالبينة، فانطلق إلى مجلس الانصار فسالهم، فقالوا: لا يشهد لك على هذا إلا اصغرنا: ابو سعيد الخدري فذهب بابي سعيد، فقال عمر: اخفي علي من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ الهاني الصفق بالاسواق، يعني الخروج إلى التجارة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الأَشْعَرِيَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَمْ يُؤَذَنْ لَهُ - وَكَأَنَّهُ كَانَ مَشْغُولاً - فَرَجَعَ أَبُو مُوسَى، فَفَرَغَ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللهِ بْنِ قَيْسٍ؟ إِيذَنُوا لَهُ، قِيلَ: قَدْ رَجَعَ، فَدَعَاهُ، فَقَالَ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِذَلِكَ، فَقَالَ: تَأْتِينِي عَلَى ذَلِكَ بِالْبَيِّنَةِ، فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسِ الأَنْصَارِ فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: لاَ يَشْهَدُ لَكَ عَلَى هَذَا إِلاَّ أَصْغَرُنَا: أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ فَذَهَبَ بِأَبِي سَعِيدٍ، فَقَالَ عُمَرُ: أَخَفِيَ عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، يَعْنِي الْخُرُوجَ إِلَى التِّجَارَةِ.
حضرت عبيد بن عمیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے کسی مشغولیت کی وجہ سے اجازت نہ دی، تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ واپس آگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فارغ ہوئے تو کہا: مجھے عبداللہ بن قیس کی آواز آئی تھی، اسے اندر آنے کی اجازت دو۔ عرض کیا گیا: وہ واپس چلے گئے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تو انہوں نے کہا: ہمیں اسی بات کا حکم دیا جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس بات پر کوئی دلیل (گواہ) لاؤ (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے)، چنانچہ وہ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: تمہاری اس بات کی گواہی ہمارے چھوٹے میاں ابوسعید خدری ہی دیں گئے، چنانچہ وہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مجھ پر مخفی رہ گیا، مجھے بازار کی خرید و فروخت نے غافل کر دیا، یعنی تجارت کے لیے جانے کی وجہ سے مجھ پر مخفی رہ گیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع: 2062، 6245، 8353 و مسلم: 2153 و أبوداؤد: 5182»
حدثنا إبراهيم بن موسى، قال: اخبرنا هشام، ان ابن جريج اخبرهم قال: سمعت عطاء، قال: سمعت ابا هريرة يقول: إذا دخل ولم يقل: السلام عليكم، فقل: لا، حتى ياتي بالمفتاح: السلام.حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ، أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ: إِذَا دَخَلَ وَلَمْ يَقُلِ: السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، فَقُلْ: لَا، حَتَّى يَأْتِيَ بِالْمِفْتَاحِ: السَّلامِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب کوئی داخل ہو اور السلام علیکم نہ کہے تو اسے کہو: نہیں، یہاں تک کہ تم چابی لاؤ، یعنی السلام علیکم کہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الخطيب فى الجامع لأخلاق الراوي: 226»
494. بغیر اجازت اندر جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دی جائے
حدیث نمبر: 1068
اعراب
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، قال: حدثنا ابو الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لو اطلع رجل في بيتك، فخذفته بحصاة ففقات عينه، ما كان عليك جناح.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَوْ اطَّلَعَ رَجُلٌ فِي بَيْتِكَ، فَخَذَفْتَهُ بِحَصَاةٍ فَفَقَأْتَ عَيْنَهُ، مَا كَانَ عَلَيْكَ جُنَاحٌ.“
سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اگر تمہارے گھر میں جھانکے، اور تو اسے کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے، تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الديات: 6888 و مسلم: 2158 و أبوداؤد: 5172 و النسائي: 4861»
حدثنا حجاج، قال: حدثنا حماد، قال: حدثنا إسحاق بن عبد الله، عن انس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم قائما يصلي، فاطلع رجل في بيته، فاخذ سهما من كنانته، فسدد نحو عينيه.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمًا يُصَلِّي، فَاطَّلَعَ رَجُلٌ فِي بَيْتِهِ، فَأَخَذَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ، فَسَدَّدَ نَحْوَ عَيْنَيْهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جھانکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ترکش میں سے ایک تیر لے کر اس کی طرف سیدھا کیا (تاکہ اس کی آنکھ پھوڑ دیں)۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الديات: 6900 و مسلم: 2157 و أبوداؤد: 5171 و الترمذي: 2708 و النسائي: 4258»
حدثنا عبد الله بن صالح، قال: حدثنا الليث قال: حدثني ابن شهاب، ان سهل بن سعد اخبره، ان رجلا اطلع من جحر في باب النبي صلى الله عليه وسلم، ومع النبي صلى الله عليه وسلم مدرى يحك به راسه، فلما رآه النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لو اعلم انك تنتظرني لطعنت به في عينك.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَجُلاً اطَّلَعَ مِنْ جُحْرٍ فِي بَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِدْرًى يَحُكُّ بِهِ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَوْ أَعْلَمُ أَنَّكَ تَنْتَظِرُنِي لَطَعَنْتُ بِهِ فِي عَيْنِكَ.“
سيدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے سوراخ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جھانکا تو اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں لکڑی کی ایک کنگھی تھی جس کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر کھجا رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسے دیکھا تو فرمایا: ”اگر مجھے علم ہوتا کہ تم مجھے باہر سے جھانک رہے ہو تو میں یہی کنگھی تیری آنکھ میں مار دیتا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الديات: 6901 و مسلم: 2156 و الترمذي: 2709 و النسائي: 4859»