حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا مخلد، قال: اخبرنا ابن جريج قال: اخبرني عطاء، عن عبيد بن عمير، ان ابا موسى الاشعري استاذن على عمر بن الخطاب، فلم يؤذن له - وكانه كان مشغولا - فرجع ابو موسى، ففرغ عمر فقال: الم اسمع صوت عبد الله بن قيس؟ إيذنوا له، قيل: قد رجع، فدعاه، فقال: كنا نؤمر بذلك، فقال: تاتيني على ذلك بالبينة، فانطلق إلى مجلس الانصار فسالهم، فقالوا: لا يشهد لك على هذا إلا اصغرنا: ابو سعيد الخدري فذهب بابي سعيد، فقال عمر: اخفي علي من امر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ الهاني الصفق بالاسواق، يعني الخروج إلى التجارة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، أَنَّ أَبَا مُوسَى الأَشْعَرِيَّ اسْتَأْذَنَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَلَمْ يُؤَذَنْ لَهُ - وَكَأَنَّهُ كَانَ مَشْغُولاً - فَرَجَعَ أَبُو مُوسَى، فَفَرَغَ عُمَرُ فَقَالَ: أَلَمْ أَسْمَعْ صَوْتَ عَبْدِ اللهِ بْنِ قَيْسٍ؟ إِيذَنُوا لَهُ، قِيلَ: قَدْ رَجَعَ، فَدَعَاهُ، فَقَالَ: كُنَّا نُؤْمَرُ بِذَلِكَ، فَقَالَ: تَأْتِينِي عَلَى ذَلِكَ بِالْبَيِّنَةِ، فَانْطَلَقَ إِلَى مَجْلِسِ الأَنْصَارِ فَسَأَلَهُمْ، فَقَالُوا: لاَ يَشْهَدُ لَكَ عَلَى هَذَا إِلاَّ أَصْغَرُنَا: أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ فَذَهَبَ بِأَبِي سَعِيدٍ، فَقَالَ عُمَرُ: أَخَفِيَ عَلَيَّ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَلْهَانِي الصَّفْقُ بِالأَسْوَاقِ، يَعْنِي الْخُرُوجَ إِلَى التِّجَارَةِ.
حضرت عبيد بن عمیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو انہوں نے کسی مشغولیت کی وجہ سے اجازت نہ دی، تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ واپس آگئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فارغ ہوئے تو کہا: مجھے عبداللہ بن قیس کی آواز آئی تھی، اسے اندر آنے کی اجازت دو۔ عرض کیا گیا: وہ واپس چلے گئے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلایا تو انہوں نے کہا: ہمیں اسی بات کا حکم دیا جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس بات پر کوئی دلیل (گواہ) لاؤ (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہے)، چنانچہ وہ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: تمہاری اس بات کی گواہی ہمارے چھوٹے میاں ابوسعید خدری ہی دیں گئے، چنانچہ وہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو لے گئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم مجھ پر مخفی رہ گیا، مجھے بازار کی خرید و فروخت نے غافل کر دیا، یعنی تجارت کے لیے جانے کی وجہ سے مجھ پر مخفی رہ گیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع: 2062، 6245، 8353 و مسلم: 2153 و أبوداؤد: 5182»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 1065
فوائد ومسائل: (۱)سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تین دفعہ اجازت طلب کرنے کے بعد واپس آگئے اور اس کی وجہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا کہ تین دفعہ اجازت طلب کرنے پر اگر تمہیں اجازت نہ ملے تو واپس چلے جاؤ۔ (صحیح البخاري، ح:۵۸۹۱) (۲) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا علم نہیں تھا۔ جب انہیں حدیث کا علم ہوگیا تو فوراً تسلیم کرکے اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے صحت اور ضعف کی چھان بین کرنی ضروری ہے۔ (۴) اس حدیث سے خبر واحد کے حجت نہ ہونے کی دلیل لینا حماقت ہے کیونکہ ایک سے زیادہ لوگ بیان کریں تب بھی وہ خبر واحد ہی رہتی ہے جب تک اس میں متواتر کی شرطیں نہ پائی جائیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دو کی بات قبول کرلی تو خبر واحد کا قبول کرنا ثابت ہوا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مزید تائید لانے کے لیے اس لیے کہا تاکہ لوگوں کو حدیث کے حوالے سے محتاط انداز اختیار کرنے کی ترغیب دیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 1065