حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا عبد الواحد، قال: حدثنا عاصم، عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن ابي اسماء، قال: ”من عاد اخاه كان في خرفة الجنة“، قلت لابي قلابة: ما خرفة الجنة؟ قال: جناها، قلت لابي قلابة: عن من حدثه ابواسماء؟ قال: عن ثوبان، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. حدثنا ابن حبيب بن ابي ثابت، قال: حدثنا ابواسامة، عن المثنى اظنه: ابن سعيد قال: حدثنا ابوقلابة، عن ابي الاشعث، عن ابي اسماء الرحبي، عن ثوبان، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ أَبِي قِلابَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، قَالَ: ”مَنْ عَادَ أَخَاهُ كَانَ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ“، قُلْتُ لأَبِي قِلابَةَ: مَا خُرْفَةُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: جَنَاهَا، قُلْتُ لأَبِي قِلابَةَ: عَنْ مَنْ حَدَّثَهُ أبوأَسْمَاءَ؟ قَالَ: عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حَدَّثَنَا ابْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أبوأُسَامَةَ، عَنِ الْمُثَنَّى أَظُنُّهُ: ابْنَ سَعِيدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أبوقِلابَةَ، عَنْ أَبِي الأَشْعَثِ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
حضرت ابواسماء رحمہ اللہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ”جس نے اپنے مسلمان بھائی کی تیمارداری کی تو وہ جنت کے باغوں میں ہے۔“ میں نے ابوقلابہ سے پوچھا: جنت میں ہونے کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: مطلب یہ ہے کہ اسے اس کے بدلے میں جنت کے پھل ملیں گے۔ میں نے مزید پوچھا کہ ابواسماء یہ حدیث کس سے بیان کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ثوبان سے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الأدب: 2568 و الترمذي: 967 - انظر صحيح أبى داؤد: 2714»
حدثنا قيس بن حفص، قال: حدثنا خالد بن الحارث، قال: حدثنا عبد الحميد بن جعفر، قال: اخبرني ابي، ان ابا بكر بن حزم،ومحمد بن المنكدر، في ناس من اهل المسجد، عادوا عمر بن الحكم بن رافع الانصاري، قالوا: يا ابا حفص، حدثنا، قال: سمعت جابر بن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: ”من عاد مريضا خاض في الرحمة، حتى إذا قعد استقر فيها.“حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ أَبَا بَكْرِ بْنَ حَزْمٍ،وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، فِي نَاسٍ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ، عَادُوا عُمَرَ بْنَ الْحَكَمِ بْنِ رَافِعٍ الأَنْصَارِيَّ، قَالُوا: يَا أَبَا حَفْصٍ، حَدِّثْنَا، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ”مَنْ عَادَ مَرِيضًا خَاضَ فِي الرَّحْمَةِ، حَتَّى إِذَا قَعَدَ اسْتَقَرَّ فِيهَا.“
ابوبکر بن حزم، محمد بن منکدر اور مسجد کے کچھ نمازیوں نے عمر بن حکم بن رافع انصاری رحمہ اللہ کی عیادت کی تو انہوں نے عمر سے کہا: اے ابوحفص! ہمیں کوئی حدیث سنائیں۔ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس نے کسی مریض کی تیمار داری کی وہ رحمت میں پوری طرح گھس گیا یہاں تک کہ جب مریض کے پاس بیٹھ گیا تو گویا اس نے رحمت میں مستقل قرار پکڑ لیا۔“
تخریج الحدیث: «صحح: أخرجه أحمد: 14260 و ابن حبان: 2956 و الحاكم: 501/1 و البيهقي فى الكبريٰ: 533/3 - انظر الصحيحة: 1929»
حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا سفيان، عن عمرو، عن عطاء، قال: عاد ابن عمر ابن صفوان، فسیدنا الصلاة، فصلى بهم ابن عمر ركعتين، وقال: إنا سفر.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: عَادَ ابْنُ عُمَرَ ابْنَ صَفْوَانَ، فَسیدنا الصَّلاةُ، فَصَلَّى بِهِمُ ابْنُ عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ، وَقَالَ: إِنَّا سَفْرٌ.
حضرت عطاء رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما (عبداللہ) بن صفوان رحمہ اللہ کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو نماز کا وقت ہو گیا، تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں دو رکعت نماز پڑھائی اور کہا: ہم مسافر ہیں۔
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس، ان غلاما من اليهود كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم فمرض، فاتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند راسه، فقال: ”اسلم“، فنظر إلى ابيه، وهو عند راسه، فقال له: اطع ابا القاسم صلى الله عليه وسلم، فاسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم، وهو يقول: ”الحمد لله الذي انقذه من النار.“حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ غُلامًا مِنَ الْيَهُودِ كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ: ”أَسْلِمْ“، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ، وَهُوَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: ”الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا تھا۔ وہ بیمار ہو گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے بیٹھ کر فرمایا: ”اسلام قبول کر لو۔“ اس لڑکے نے یہ سن کر سرہانے کھڑے اپنے باپ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو، چنانچہ وہ لڑکا مسلمان ہو گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس سے باہر تشریف لائے تو فرما رہے تھے: ”ہر قسم کی تعریف اس ذات کے لیے ہے جس نے اسے آگ سے بچا لیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات: 1356، 5657 و أبوداؤد: 3095»
حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، قال: حدثني مالك، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، انها قالت: لما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة وعك ابوبكر وبلال، قالت: فدخلت عليهما، قلت: يا ابتاه، كيف تجدك؟ ويا بلال، كيف تجدك؟ قال: وكان ابوبكر، إذا اخذته الحمى، يقول: (بحر الرجز) كل امرئ مصبح في اهله والموت ادنى من شراك نعله وكان بلال إذا اقلع عنه، يرفع عقيرته، فيقول: (البحرالطویل) الا ليت شعري هل ابيتن ليلة بواد وحولي إذخر وجليل وهل اردن يوما مياه مجنة وهل يبدون لي شامة وطفيل قالت عائشة رضي الله عنها: فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فقال: ”اللهم حبب إلينا المدينة كحبنا مكة او اشد، وصححها وبارك لنا في صاعها ومدها، وانقل حماها فاجعلها بالجحفة.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ وُعِكَ أبوبَكْرٍ وَبِلالٌ، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ عَلَيْهِمَا، قُلْتُ: يَا أَبَتَاهُ، كَيْفَ تَجِدُكَ؟ وَيَا بِلالُ، كَيْفَ تَجِدُكَ؟ قَالَ: وَكَانَ أبوبَكْرٍ، إِذَا أَخَذَتْهُ الْحُمَّى، يَقُولُ: (بحر الرجز) كُلُّ امْرِئٍ مُصَبَّحٌ فِي أَهْلِهِ وَالْمَوْتُ أَدْنَى مِنْ شِرَاكِ نَعْلِهِ وَكَانَ بِلالٌ إِذَا أُقْلِعَ عَنْهُ، يَرْفَعُ عَقِيرَتَهُ، فَيَقُولُ: (البحرالطویل) أَلا لَيْتَ شِعْرِي هَلْ أَبِيتَنَّ لَيْلَةً بِوَادٍ وَحَوْلِي إِذْخِرٌ وَجَلِيلُ وَهَلْ أَرِدَنْ يَوْمًا مِيَاهَ مَجَنَّةٍ وَهَلْ يَبْدُوَنْ لِي شَامَةٌ وَطَفِيلُ قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ”اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَحُبِّنَا مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا وَمُدِّهَا، وَانْقُلْ حُمَّاهَا فَاجْعَلْهَا بِالْجُحْفَةِ.“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما کو بخار ہو گیا۔ وہ فرماتی ہیں: میں ان کی تیمارداری کے لیے گئی تو میں نے کہا: اے ابا جان! کیا حال ہے؟ اور اے بلال! آپ کیسے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب بخار ہوتا تو کہتے: ہر شخص کو اس کے گھر والوں میں ”تمہاری صبح خیر یت کے ساتھ ہو“ کہا جاتا ہے جبکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی اس کے زیادہ قریب ہے۔ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو افاقہ ہوتا تو بآواز بلند کہتے: کاش مجھے پتہ چل جاتا کیا کوئی رات ایسی وادی میں گزاروں گا کہ میرے اردگرد اذخر و جلیل نامی گھاس ہو گی، اور کیا کسی دن میں جحفہ کے پانیوں پر وارد ہوں گا، اور کیا کبھی مجھے شامہ اور طفیل پہاڑ نظر آئیں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! مدینہ ہمیں اسی طرح محبوب بنا دے جس طرح ہمیں مکہ محبوب ہے، یا اس سے بھی زیادہ محبوب بنا دے۔ اس کی آب و ہوا کو صحت افزا بنا دے، اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد میں برکت عطا فرما، اور اس کے بخار کو یہاں سے جحفہ منتقل کر دے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب فضائل المدينة: 889، 5677 و مسلم: 1376»
حدثنا معلى، قال: حدثنا عبد العزيز بن المختار، قال: حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، دخل على اعرابي يعوده، قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل على مريض يعوده، قال: ”لا باس طهور إن شاء الله“، قال: ذاك طهور، كلا بل هي حمى تفور او تثور على شيخ كبير، تزيره القبور، قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”فنعم إذا.“حَدَّثَنَا مُعَلَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ: ”لا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ“، قَالَ: ذَاكَ طَهُورٌ، كَلا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ، تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”فَنَعَمْ إِذًا.“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیہاتی کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مریض کی تیمارداری کرتے تو دعا پڑھتے تھے: «لا بأس طهور إن شاء الله»”کوئی حرج نہیں، یہ بیماری پاک کرنے والی ہے، ان شاء اللہ“ اس دیہاتی نے کہا: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں یہ تو بخار ہے جو بوڑھے پر چڑھ دوڑا ہے تاکہ اسے قبرستان پہنچا دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایسا ہی ہو گا۔“
حدثنا احمد بن عيسى، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن حرملة، عن محمد بن علي القرشي، عن نافع، قال: كان ابن عمر، إذا دخل على مريض، يساله: كيف هو؟ فإذا قام من عنده، قال: خار الله لك، ولم يزده عليه.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَرْمَلَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْقُرَشِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ، إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ، يَسْأَلُهُ: كَيْفَ هُوَ؟ فَإِذَا قَامَ مِنْ عِنْدِهِ، قَالَ: خَارَ اللَّهُ لَكَ، وَلَمْ يَزِدْهُ عَلَيْهِ.
حضرت نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جب کسی مریض کی تیمارداری کرتے تو اس سے پوچھتے: وہ کیسا ہے؟ اور جب وہاں سے اٹھتے تو فرماتے: اللہ تیرے لیے خیر کر دے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه البيهقي فى شعب الإيمان: 8775 و أبوالعباس الإصم: 349/1»
حدثنا احمد بن يعقوب، قال: حدثنا إسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد، عن ابيه، قال: دخل الحجاج على ابن عمر، وانا عنده، فقال: كيف هو؟ قال: صالح، قال: من اصابك؟ قال: اصابني من امر بحمل السلاح في يوم لا يحل فيه حمله، يعني: الحجاج.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: دَخَلَ الْحَجَّاجُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: كَيْفَ هُوَ؟ قَالَ: صَالِحٌ، قَالَ: مَنْ أَصَابَكَ؟ قَالَ: أَصَابَنِي مَنْ أَمَرَ بِحَمْلِ السِّلاحِ فِي يَوْمٍ لا يَحِلُّ فِيهِ حَمْلُهُ، يَعْنِي: الْحَجَّاجَ.
حضرت سعید بن عمرو رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حجاج بن یوسف سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں بھی وہیں تھا۔ اس نے پوچھا: آپ کا کیا حال ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ٹھیک ہوں۔ حجاج نے کہا: کس نے آپ کو زخمی کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے اس نے زخمی کیا ہے جس نے اس دن اسلحہ اٹھانے کا حکم دیا، جس دن اسلحہ اٹھانا جائز نہ تھا، یعنی حجاج نے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب العيدين، باب يكره من حمل السلاح فى العيد و الحرم: 966، 967»
حدثنا سعيد بن ابي مريم، قال: اخبرنا بكر بن مضر، قال: حدثني عبيد الله بن زحر، عن حبان بن ابي جبلة، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، قال: لا تعودوا شراب الخمر إذا مرضوا.حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زَحْرٍ، عَنْ حِبَّانَ بْنِ أَبِي جَبَلَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: لا تَعُودُوا شُرَّابَ الْخَمْرِ إِذَا مَرِضُوا.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: شرابی جب بیمار ہوں تو ان کی تیمارداری نہ کرو۔
حدثنا زكريا بن يحيى، قال: حدثنا الحكم بن المبارك، قال: اخبرني الوليد، هو ابن مسلم، قال: حدثنا الحارث بن عبيد الله الانصاري، قال: رايت ام الدرداء، على رحالها اعواد ليس عليها غشاء، عائدة لرجل من اهل المسجد من الانصار.حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ، هُوَ ابْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ عُبَيْد اللَّهِ الأَنْصَارِيُّ، قَالَ: رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ، عَلَى رِحَالِهَا أَعْوَادٌ لَيْسَ عَلَيْهَا غِشَاءٌ، عَائِدَةً لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَسْجِدِ مِنَ الأَنْصَارِ.
حارث بن عبیداللہ انصاری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا کو ایک ایسے کجاوے پر دیکھا جو لکڑی سے بنا ہوا تھا اور اس پر پردہ نہیں تھا، وہ اہل مسجد میں سے ایک انصاری کی عیادت کے لیے تشریف لائی تھیں۔
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المصنف فى تاريخه الكبير بنفس الإسناد: 275/2 و ابن عساكر فى تاريخه: 448/11»