حدثنا احمد بن عيسى، قال: حدثنا عبد الله بن وهب، عن ابي صخر، عن ابن قسيط، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”من لم يرحم صغيرنا، ويعرف حق كبيرنا، فليس منا.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي صَخْرٍ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا، فَلَيْسَ مِنَّا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، یا ہمارے بڑوں کا حق نہیں پہنچاتا، وہ ہم میں سے نہیں۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى العيال: 186 و هناد فى الزهد: 614/2 و الخرائطي فى مكارم الأخلاق: 351 و الحاكم: 178/4 و البيهقي فى شعب الإيمان: 10979»
حدثنا علي، قال: حدثنا سفيان، حدثنا ابن ابي جريج، عن عبيد الله بن عامر، عن عبد الله بن عمرو بن العاص، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ”من لم يرحم صغيرنا، ويعرف حق كبيرنا، فليس منا.“حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي جُرَيْجٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ”مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا، فَلَيْسَ مِنَّا.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا، اور ہمارے بڑے کا حق نہیں پہچانتا اور اس کی عزت و توقیر نہیں کرتا، وہ ہم سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب الرحمة: 4943 و الترمذي: 1920 و الحميدي: 597 و ابن أبى شيبة: 214/5 و أحمد: 7073»
حدثنا عبدة، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ليس منا من لم يعرف حق كبيرنا، ويرحم صغيرنا.“حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَعْرِفْ حَقَّ كَبِيرِنَا، وَيَرْحَمْ صَغِيرَنَا.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے بڑوں کا حق نہ پہچانے اور ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے۔“
حدثنا محمود، قال: حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا الوليد بن جميل، عن القاسم بن عبد الرحمن، عن ابي امامة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من لم يرحم صغيرنا، ويجل كبيرنا، فليس منا.“حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُجِلَّ كَبِيرَنَا، فَلَيْسَ مِنَّا.“
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے، اور بڑے کی عزت و تکریم نہ کرے، وہ ہم سے نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «حسن صحيح: أخرجه ابن أبى الدنيا فى العيال: 187 و الطبراني فى الكبير: 227/8 - انظر الصحيحة: 2196»
حدثنا بشر بن محمد، اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عوف، عن زياد بن مخراق قال: قال ابو كنانة، عن الاشعري قال: إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم، وحامل القرآن، غير الغالي فيه، ولا الجافي عنه، وإكرام ذي السلطان المقسط.حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَوْفٌ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ قَالَ: قَالَ أَبُو كِنَانَةَ، عَنِ الأَشْعَرِيِّ قَالَ: إِنَّ مِنَ إِجْلاَلِ اللهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ، غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ، وَلاَ الْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ کے اکرام میں سے یہ بھی ہے کہ عمر رسیدہ مسلمان کی عزت و توقیر کی جائے، اور حاملِ قرآن کا بھی اکرام کیا جائے جو غلو کرنے والا اور اس سے دوری اختیار کرنے والا نہ ہو، نیز انصاف پسند حاکم کا اکرام بھی اس میں شامل ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد مرفوعًا، كتاب الأدب، باب فى تنزيل الناس منازلهم: 4843 - انظر صحيح الترغيب: 98»
حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا جرير، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ليس منا من لم يرحم صغيرنا، ويوقر كبيرنا.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا، وَيُوَقِّرْ كَبِيرَنَا.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑے، یعنی مسلمان کی عزت و توقیر نہ کرے۔“
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار مولى الانصار، عن رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة، انهما حدثا، او حدثاه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، اتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فتكلموا في امر صاحبهم، فبدا عبد الرحمن، وكان اصغر القوم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ”كبر الكبر“، قال يحيى: ليلي الكلام الاكبر، فتكلموا في امر صاحبهم. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”استحقوا قتيلكم“، او قال: ”صاحبكم، بايمان خمسين منكم“، قالوا: يا رسول الله، امر لم نره، قال: ”فتبرئكم يهود بايمان خمسين منهم“، قالوا: يا رسول الله، قوم كفار. ففداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله. قال سهل: فادركت ناقة من تلك الإبل، فدخلت مربدا لهم، فركضتني برجلها.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُمَا حَدَثَا، أَوْ حَدَّثَاهُ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، أَتَيَا خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ، فَقُتِلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَهْلٍ، فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”كَبِّرِ الْكِبَرَ“، قَالَ يَحْيَى: لِيَلِيَ الْكَلاَمَ الأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اسْتَحِقُّوا قَتِيلَكُمْ“، أَوْ قَالَ: ”صَاحِبَكُمْ، بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ، قَالَ: ”فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ. فَفَدَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ. قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ، فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ، فَرَكَضَتْنِيْ بِرِجْلِهَا.
سیدنا رافع بن خدیج اور سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود دونوں خیبر آئے تو کھجوروں کے جھنڈ میں الگ الگ ہو گئے۔ عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے مقتول کے بارے میں بات کی۔ عبدالرحمٰن جو سب سے چھوٹے تھے، بات کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو۔“ یحییٰ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب تھا بڑا اٹھ کر بات کرے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مقتول کے متعلق بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے پچاس آدمی قسم دے کر اپنے مقتول کے خون بہا کے مستحق بن سکتے ہو؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ہم نے دیکھا نہیں (تو قسم کیسے دیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر یہودی پچاس قسمیں دے کر (کہ ہم نے قتل نہیں کیا) بری ہو جائیں گے۔“ انہوں نے کہا: وہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار)، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی طرف سے ادا فرما دی۔ سیدنا سہل (بن ابی حثمہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ان کے اونٹوں کے باڑے میں داخل ہوا تو ان (دیت کے اونٹوں) میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب إكرام الكبير....: 6142، 2702 و مسلم: 1669 و أبوداؤد: 4520 و الترمذي: 1422 و النسائي: 2677 و ابن ماجه: 4710 - انظر الإرواء: 1646»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله قال: حدثني نافع، عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اخبروني بشجرة مثلها مثل المسلم، تؤتي اكلها كل حين بإذن ربها، لا تحت ورقها“، فوقع في نفسي النخلة، فكرهت ان اتكلم، وثم ابو بكر وعمر رضي الله عنهما، فلما لم يتكلما قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”هي النخلة“، فلما خرجت مع ابي قلت: يا ابت، وقع في نفسي النخلة، قال: ما منعك ان تقولها؟ لو كنت قلتها كان احب إلي من كذا وكذا، قال: ما منعني إلا لم ارك، ولا ابا بكر تكلمتما، فكرهت.حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ مَثَلُهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ، تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا، لاَ تَحُتُّ وَرَقَهَا“، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي النَّخْلَةُ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَثَمَّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَلَمَّا لَمْ يَتَكَلَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”هِيَ النَّخْلَةُ“، فَلَمَّا خَرَجْتُ مَعَ أَبِي قُلْتُ: يَا أَبَتِ، وَقَعَ فِي نَفْسِي النَّخْلَةُ، قَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَهَا؟ لَوْ كُنْتَ قُلْتَهَا كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: مَا مَنَعَنِي إِلاَّ لَمْ أَرَكَ، وَلاَ أَبَا بَكْرٍ تَكَلَّمْتُمَا، فَكَرِهْتُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اس درخت کے بارے میں بتاؤ جس کی صفت مسلمان کی طرح ہے۔ یہ ایسا درخت ہے جو اپنے رب کے حکم سے ہمیشہ پھل دیتا ہے، وہ اپنے پتے نہیں گراتا۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے، لیکن مجلس میں سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی موجودگی اور خاموشی کی وجہ سے میں نے بات کرنا نامناسب سمجھا۔ جب ان دونوں بزرگوں نے کوئی جواب نہ دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کھجور کا درخت ہے۔“ جب میں اپنے باپ کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا: ابا جان! میرے دل میں یہ بات آئی تھی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں یہ بتانے میں کیا رکاوٹ تھی؟ اگر تم بتا دیتے تو یہ میرے لیے اتنے اتنے مال سے زیادہ خوشی کا باعث ہوتی۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھے کوئی رکاوٹ نہ تھی سوائے اس کے کہ آپ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں خاموش تھے، اس لیے میں نے بات کرنا مناسب خیال نہ کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب إكرام الكبير......: 6144 و مسلم: 2811»
حدثنا عمرو بن مرزوق، قال: حدثنا شعبة، عن قتادة: سمعت مطرفا، عن حكيم بن قيس بن عاصم، ان اباه اوصى عند موته بنيه فقال: اتقوا الله وسودوا اكبركم، فإن القوم إذا سودوا اكبرهم خلفوا اباهم، وإذا سودوا اصغرهم ازرى بهم ذلك في اكفائهم. وعليكم بالمال واصطناعه، فإنه منبهة للكريم، ويستغنى به عن اللئيم. وإياكم ومسالة الناس، فإنها من آخر كسب الرجل. وإذا مت فلا تنوحوا، فإنه لم ينح على رسول الله صلى الله عليه وسلم. وإذا مت فادفنوني بارض لا يشعر بدفني بكر بن وائل، فإني كنت اغافلهم في الجاهلية.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَرْزُوقٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا، عَنْ حَكِيمِ بْنِ قَيْسِ بْنِ عَاصِمٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَوْصَى عِنْدَ مَوْتِهِ بَنِيهِ فَقَالَ: اتَّقُوا اللَّهَ وَسَوِّدُوا أَكْبَرُكُمْ، فَإِنَّ الْقَوْمَ إِذَا سَوَّدُوا أَكْبَرَهُمْ خَلَفُوا أَبَاهُمْ، وَإِذَا سَوَّدُوا أَصْغَرَهُمْ أَزْرَى بِهِمْ ذَلِكَ فِي أَكْفَائِهِمْ. وَعَلَيْكُمْ بِالْمَالِ وَاصْطِنَاعِهِ، فَإِنَّهُ مَنْبَهَةٌ لِلْكَرِيمِ، وَيُسْتَغْنَى بِهِ عَنِ اللَّئِيمِ. وَإِيَّاكُمْ وَمَسْأَلَةَ النَّاسِ، فَإِنَّهَا مِنْ آخِرِ كَسْبِ الرَّجُلِ. وَإِذَا مُتُّ فَلاَ تَنُوحُوا، فَإِنَّهُ لَمْ يُنَحْ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَإِذَا مُتُّ فَادْفِنُونِي بِأَرْضٍ لاَ يَشْعُرُ بِدَفْنِي بَكْرُ بْنُ وَائِلٍ، فَإِنِّي كُنْتُ أُغَافِلُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.
حضرت حکیم بن قیس بن عاصم رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان کے والد سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ نے موت کے وقت اپنے بیٹوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ سے ڈرنا، اور اپنے میں سے جو سب سے بڑا ہے اسے سردار بنانا۔ بلاشبہ جو قوم اپنے بڑے کو سردار بناتی ہے تو وہ اپنے باپ کا صحیح قائم مقام بناتی ہے، اور جب اپنے چھوٹے کو سردار بناتی ہے تو یہ چیز ان سب کو برابر والوں میں ذلیل کر دیتی ہے۔ اور تم مال کمانے اور اسے مشروع طریقے سے بڑھانے کا خیال رکھنا کیونکہ یہ شریف آدمی کی عزت کی بات ہے، اور اس کے ذریعے سے وہ کمینے آدمی سے بےنیاز ہو جاتا ہے۔ اور لوگوں سے سوال نہ کرنا کیونکہ یہ مال کمانے کا آخری ذریعہ ہے (کہ جب بندہ بالکل مجبور ہو جائے تو کسی سے سوال کرے)، اور جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھ پر نوحہ نہ کرنا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نوحہ نہیں کیا گیا۔ اور وفات کے بعد مجھے ایسی جگہ دفن کرنا جس کا بکر بن وائل کو علم نہ ہو، کیونکہ میں زمانہ جاہلیت میں ان پر بےخبری میں حملہ کر دیا کرتا تھا۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه المصنف فى تاريخه: 12/3 و أحمد: 20612 و الطيالسي: 1085 و الطبراني فى الكبير: 339/18 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 1164»