حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار مولى الانصار، عن رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة، انهما حدثا، او حدثاه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، اتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فتكلموا في امر صاحبهم، فبدا عبد الرحمن، وكان اصغر القوم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: ”كبر الكبر“، قال يحيى: ليلي الكلام الاكبر، فتكلموا في امر صاحبهم. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ”استحقوا قتيلكم“، او قال: ”صاحبكم، بايمان خمسين منكم“، قالوا: يا رسول الله، امر لم نره، قال: ”فتبرئكم يهود بايمان خمسين منهم“، قالوا: يا رسول الله، قوم كفار. ففداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله. قال سهل: فادركت ناقة من تلك الإبل، فدخلت مربدا لهم، فركضتني برجلها.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُمَا حَدَثَا، أَوْ حَدَّثَاهُ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، أَتَيَا خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ، فَقُتِلَ عَبْدُ اللهِ بْنُ سَهْلٍ، فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”كَبِّرِ الْكِبَرَ“، قَالَ يَحْيَى: لِيَلِيَ الْكَلاَمَ الأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اسْتَحِقُّوا قَتِيلَكُمْ“، أَوْ قَالَ: ”صَاحِبَكُمْ، بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ، قَالَ: ”فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ. فَفَدَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ. قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ، فَدَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ، فَرَكَضَتْنِيْ بِرِجْلِهَا.
سیدنا رافع بن خدیج اور سیدنا سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود دونوں خیبر آئے تو کھجوروں کے جھنڈ میں الگ الگ ہو گئے۔ عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے تو عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے مقتول کے بارے میں بات کی۔ عبدالرحمٰن جو سب سے چھوٹے تھے، بات کرنے لگے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”بڑے کو بات کرنے دو۔“ یحییٰ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب تھا بڑا اٹھ کر بات کرے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مقتول کے متعلق بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے پچاس آدمی قسم دے کر اپنے مقتول کے خون بہا کے مستحق بن سکتے ہو؟“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! وہ ایک ایسا معاملہ ہے جو ہم نے دیکھا نہیں (تو قسم کیسے دیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر یہودی پچاس قسمیں دے کر (کہ ہم نے قتل نہیں کیا) بری ہو جائیں گے۔“ انہوں نے کہا: وہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار)، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنی طرف سے ادا فرما دی۔ سیدنا سہل (بن ابی حثمہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ ان کے اونٹوں کے باڑے میں داخل ہوا تو ان (دیت کے اونٹوں) میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب إكرام الكبير....: 6142، 2702 و مسلم: 1669 و أبوداؤد: 4520 و الترمذي: 1422 و النسائي: 2677 و ابن ماجه: 4710 - انظر الإرواء: 1646»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 359
فوائد ومسائل: (۱)اس حدیث کو حدیث قسامہ کہا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ جن دنوں مسلمانوں کی خیبر کے یہودیوں سے صلح تھی ان دنوں عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود کاروبار کے سلسلے میں خیبر گئے۔ وہاں جاکر جدا ہوئے تو عبداللہ بن سہل کو کسی نے قتل کر دیا۔ محیصہ نے دیکھا کہ وہ خون میں لت پت ہے اور اس کی گردن بھی ٹوٹی ہوئی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے یہود کو بلوایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے قتل نہیں کیا۔ آپ نے مقتول کے وارثوں کو کہا کہ تم پچاس آدمی قسمیں کھاؤ کہ ان یہودیوں نے تمہارے بندے کو قتل کیا ہے تو وہ دیت دیں گے اور اگر ایسا نہیں کرتے ہو تو پھر ان یہودیوں سے پچاس قسمیں لے لو۔ انہوں نے کہا کہ وہ تو کافر ہیں۔ جھوٹ بول کر جان چھڑا لیں گے۔ اب قانون یہی تھا اس لیے آپ نے فرمایا کہ اس کے علاوہ حل نہیں ہے۔ لیکن ایک مسلمان کا خون رائیگاں جا رہا تھا اس لیے آپ نے بیت المال سے اس کی دیت ادا کر دی۔ یوں قسامہ کا طریقہ جاری رہا۔ (۲) جب وہ گفتگو کرنے لگے تو آپ نے بڑے کو بات کرنے کے لیے کہا جس سے معلوم ہوا کہ بڑوں کا ادب و احترام ملحوظ رکھنا چاہیے۔ جب بڑے موجود ہوں تو چھوٹوں کو بات نہیں کرنی چاہیے۔ (۳) عام جھگڑے میں مدعی کے ذمے دلیل ہے اور اگر وہ دلیل پیش نہ کرسکے تو مدعی علیہ پر قسم ہے جبکہ قسامہ میں پہلے مدعی سے قسم کا مطالبہ ہوگا۔ (۴) حدیث کے آخر میں حضرت سہل رضی اللہ عنہ کا جو قول ہے کہ ایک اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے وہ واقعہ مکمل طور پر یاد ہے حتی کہ ان کے باڑے میں جانا بھی۔ اس لیے میں نے حدیث کو یاد رکھا ہے بھولا نہیں ہوں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 359