الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر
الادب المفرد
كتاب المعروف
117. بَابُ قَوْلِ الْمَعْرُوفِ
117. معروف بات کہنے کا بیان
حدیث نمبر: 231
Save to word اعراب
حدثنا بشر بن محمد، قال‏:‏ اخبرنا عبد الله، قال‏:‏ اخبرنا عبد الجبار بن العباس الهمداني، عن عدي بن ثابت، عن عبد الله بن يزيد الخطمي قال‏:‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”كل معروف صدقة‏.‏“حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ العَبَّاسِ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ قَالَ‏:‏ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ‏.‏“
سیدنا عبداللہ بن یزید خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نیکی صدقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 18741 و المتن فى الصحيحين انظر حديث: 224 - الصحيحة: 2040»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 232
Save to word اعراب
حدثنا سعيد بن سليمان، قال‏:‏ حدثنا مبارك، عن ثابت، عن انس قال‏:‏ كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتي بالشيء يقول‏:‏ ”اذهبوا به إلى فلانة، فإنها كانت صديقة خديجة‏.‏ اذهبوا به إلى بيت فلانة، فإنها كانت تحب خديجة‏.‏“حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا مُبَارَكٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ‏:‏ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِالشَّيْءِ يَقُولُ‏:‏ ”اذْهَبُوا بِهِ إِلَى فُلاَنَةٍ، فَإِنَّهَا كَانَتْ صَدِيقَةَ خَدِيجَةَ‏.‏ اذْهَبُوا بِهِ إِلَى بَيْتِ فُلاَنَةٍ، فَإِنَّهَا كَانَتْ تُحِبُّ خَدِيجَةَ‏.‏“
سیدنا انس بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی چیز لائی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: یہ فلاں خاتون کو دے آؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی دوست تھی، یہ فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطبراني فى الكبير: 12/23 و الحاكم: 175/4 و ابن حبان: 7007 و الدولابي فى الذرية: 40 - الصحيحة: 2818»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 233
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن كثير، قال‏:‏ اخبرنا سفيان، عن ابي مالك الاشجعي، عن ربعي، عن حذيفة قال‏:‏ قال نبيكم صلى الله عليه وسلم:‏ ”كل معروف صدقة‏.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الأَشْجَعِيِّ، عَنْ رِبْعِيٍّ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ‏:‏ قَالَ نَبِيُّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ‏.“
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہرنیکی صدقہ ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب الزكاة: 1005 و أبوداؤد: 4947 و رواه البخاري فى الصحيح: 6021، من حديث جابر: 224 و تقدم برقم: 224»

قال الشيخ الألباني: صحيح
118. بَابُ الْخُرُوجِ إِلَى الْمَبْقَلَةِ، وَحَمَلِ الشَّيْءِ عَلَى عَاتِقِهِ إِلَى أَهْلِهِ بِالزَّبِيلِ
118. سبزیوں کے کھیت کی طرف جانے اور وہاں سے کوئی چیز ٹوکرے میں اٹھا کر گھر والوں کے پاس لانے کا بیان
حدیث نمبر: 234
Save to word اعراب
حدثنا إسحاق بن مخلد، عن حماد بن اسامة، عن مسعر، قال‏:‏ حدثنا عمر بن قيس، عن عمرو بن ابي قرة الكندي قال‏:‏ عرض ابي على سلمان اخته، فابى وتزوج مولاة له، يقال لها‏:‏ بقيرة، فبلغ ابا قرة انه كان بين حذيفة وسلمان شيء، فاتاه يطلبه، فاخبر انه في مبقلة له، فتوجه إليه، فلقيه معه زبيل فيه بقل، قد ادخل عصاه في عروة الزبيل، وهو على عاتقه، فقال‏:‏ يا ابا عبد الله، ما كان بينك وبين حذيفة‏؟‏ قال‏:‏ يقول سلمان‏: ﴿‏وكان الإنسان عجولا‏﴾ [الإسراء: 11]‏، فانطلقا حتى اتيا دار سلمان، فدخل سلمان الدار فقال‏:‏ السلام عليكم، ثم اذن لابي قرة، فدخل، فإذا نمط موضوع على باب، وعند راسه لبنات، وإذا قرطاط، فقال‏:‏ اجلس على فراش مولاتك التي تمهد لنفسها، ثم انشا يحدثه فقال‏:‏ إن حذيفة كان يحدث باشياء، كان يقولها رسول الله صلى الله عليه وسلم في غضبه لاقوام، فاوتى فاسال عنها‏؟‏ فاقول‏:‏ حذيفة اعلم بما يقول، واكره ان تكون ضغائن بين اقوام، فاتي حذيفة، فقيل له‏:‏ إن سلمان لا يصدقك ولا يكذبك بما تقول، فجاءني حذيفة فقال‏:‏ يا سلمان ابن ام سلمان، فقلت يا حذيفة ابن ام حذيفة، لتنتهين، او لاكتبن فيك إلى عمر، فلما خوفته بعمر تركني، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”من ولد آدم انا، فايما عبد من امتي لعنته لعنة، او سببته سبة، في غير كنهه، فاجعلها عليه صلاة‏۔“حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ قَالَ‏:‏ عَرَضَ أَبِي عَلَى سَلْمَانَ أُخْتَهُ، فَأَبَى وَتَزَوَّجَ مَوْلاَةً لَهُ، يُقَالُ لَهَا‏:‏ بُقَيْرَةُ، فَبَلَغَ أَبَا قُرَّةَ أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ حُذَيْفَةَ وَسَلْمَانَ شَيْءٌ، فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ، فَأَخْبَرَ أَنَّهُ فِي مَبْقَلَةٍ لَهُ، فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِ، فَلَقِيَهُ مَعَهُ زَبِيلٌ فِيهِ بَقْلٌ، قَدْ أَدْخَلَ عَصَاهُ فِي عُرْوَةِ الزَّبِيلِ، وَهُوَ عَلَى عَاتِقِهِ، فَقَالَ‏:‏ يَا أَبَا عَبْدِ اللهِ، مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ‏؟‏ قَالَ‏:‏ يَقُولُ سَلْمَانُ‏: ﴿‏وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُولاً‏﴾ [الإسراء: 11]‏، فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا دَارَ سَلْمَانَ، فَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ فَقَالَ‏:‏ السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ أَذِنَ لأَبِي قُرَّةَ، فَدَخَلَ، فَإِذَا نَمَطٌ مَوْضُوعٌ عَلَى بَابٍ، وَعِنْدَ رَأْسِهِ لَبِنَاتٌ، وَإِذَا قُرْطَاطٌ، فَقَالَ‏:‏ اجْلِسْ عَلَى فِرَاشِ مَوْلاَتِكَ الَّتِي تُمَهِّدُ لِنَفْسِهَا، ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُهُ فَقَالَ‏:‏ إِنَّ حُذَيْفَةَ كَانَ يُحَدِّثُ بِأَشْيَاءَ، كَانَ يَقُولُهَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَضَبِهِ لأَقْوَامٍ، فَأُوتَى فَأُسْأَلُ عَنْهَا‏؟‏ فَأَقُولُ‏:‏ حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، وَأَكْرَهُ أَنْ تَكُونَ ضَغَائِنُ بَيْنَ أَقْوَامٍ، فَأُتِيَ حُذَيْفَةُ، فَقِيلَ لَهُ‏:‏ إِنَّ سَلْمَانَ لاَ يُصَدِّقُكَ وَلاَ يُكَذِّبُكَ بِمَا تَقُولُ، فَجَاءَنِي حُذَيْفَةُ فَقَالَ‏:‏ يَا سَلْمَانُ ابْنَ أُمِّ سَلْمَانَ، فَقُلْتُ يَا حُذَيْفَةُ ابْنَ أُمِّ حُذَيْفَةَ، لَتَنْتَهِيَنَّ، أَوْ لَأَكْتُبَنَّ فِيكَ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا خَوَّفْتُهُ بِعُمَرَ تَرَكَنِي، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا، فَأَيُّمَا عَبْدٌ مِنْ أُمَّتِي لَعَنْتُهُ لَعْنَةً، أَوْ سَبَبْتُهُ سَبَّةً، فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِ صَلاةً‏۔“
حضرت عمرو بن ابوقرہ کندی سے روایت ہے کہ میرے والد نے سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنی بہن سے شادی کرنے کی پیش کش کی تو انہوں نے انکار کر دیا اور اپنی آزاد کردہ لونڈی بقرہ سے نکاح کر لیا، پھر ابوقرہ کو معلوم ہوا کہ سیدنا سلمان اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما کے مابین کوئی ناراضی ہے۔ وہ ان کے پاس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ سبزیوں کے کھیت میں گئے ہیں۔ وہ ادھر ہی روانہ ہو گئے۔ ان سے ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ ان کے پاس ایک ٹوکری ہے جس میں سبزیاں ہیں۔ انہوں نے لاٹھی کو زنبیل کے کڑے میں ڈال کر کندھے پر رکھا ہوا ہے۔ ابوقرہ نے کہا: اے ابوعبداللہ! تمہارے اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کیا رنجش ہے؟ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے اس پر یہ آیت پڑھی: «﴿‏وَکَانَ الإِنْسَانُ عَجُولاً‏﴾» انسان بڑا جلد باز ہے۔ پھر دونوں چلے اور سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور سلام کہا، پھر ابوقرہ کو اجازت دی تو وہ بھی داخل ہو گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے پر ایک چادر رکھی ہوئی ہے اور اس کے سر کے قریب چند کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں اور پاس زین کی طرح ایک موٹا سا گدا رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے (مجھ سے) فرمایا: اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جو وہ اپنے لیے بچھاتی ہے۔ پھر باتیں شروع کر دیں اور بتایا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ باتیں بیان کرتے تھے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے بارے میں غصے میں فرما دیتے تھے۔ میرے پاس لوگ آتے ہیں اور اس کے متعلق پوچھتے ہیں تو میں کہہ دیتا ہوں: سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان باتوں کا زیادہ علم ہے جو وہ بیان کرتے ہیں۔ اور مجھے یہ پسند نہ تھا (کہ ان باتوں کی وجہ سے جو ان میں بیان کرنے کی نہیں ہیں) لوگوں کے درمیان کینہ پیدا ہو۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی گیا اور کہا کہ سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ تمہاری باتوں کی تصدیق کرتے ہیں نہ انہیں جھٹلاتے ہیں۔ چنانچہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا: اے سلمان بن ام سلمان! (تم نے ایسے کہا ہے)، تو میں نے کہا: اے حذیفہ بن ام حذیفہ! تم ایسی باتیں بیان کرنے سے رک جاؤ ورنہ میں تمہارے بارے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو لکھوں گا۔ جب میں نے انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا نام لے کر ڈرایا تو وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: (اے اللہ) میں بھی اولاد آدم سے ہوں، چنانچہ میں نے اپنی امت کے جس فرد پر بھی کوئی لعنت کی یا اسے برا بھلا کہا جبکہ وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس کے لیے اسے رحمت بنا دے۔

تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه أبوداؤد، كتاب السنة، باب فى النهي عن سب أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: 4659 و أحمد: 437/5 - من حديث زائدة به الصحيحة: 1758»

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 235
Save to word اعراب
حدثنا ابن ابي شيبة، قال‏:‏ حدثنا يحيى بن عيسى، عن الاعمش، عن حبيب، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس قال‏:‏ قال عمر رضي الله عنه‏:‏ اخرجوا بنا إلى ارض قومنا‏.‏ فخرجنا، فكنت انا وابي بن كعب في مؤخر الناس، فهاجت سحابة، فقال ابي‏:‏ اللهم اصرف عنا اذاها‏.‏ فلحقناهم، وقد ابتلت رحالهم، فقالوا‏:‏ ما اصابكم الذي اصابنا‏؟‏ قلت‏:‏ إنه دعا الله عز وجل ان يصرف عنا اذاها، فقال عمر‏:‏ الا دعوتم لنا معكم‏.‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عِيسَى، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ‏:‏ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ‏:‏ اخْرُجُوا بِنَا إِلَى أَرْضِ قَوْمِنَا‏.‏ فَخَرَجْنَا، فَكُنْتُ أَنَا وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ فِي مُؤَخَّرِ النَّاسِ، فَهَاجَتْ سَحَابَةٌ، فَقَالَ أُبَيُّ‏:‏ اللَّهُمَّ اصْرِفْ عَنَّا أَذَاهَا‏.‏ فَلَحِقْنَاهُمْ، وَقَدِ ابْتَلَّتْ رِحَالُهُمْ، فَقَالُوا‏:‏ مَا أَصَابَكُمُ الَّذِي أَصَابَنَا‏؟‏ قُلْتُ‏:‏ إِنَّهُ دَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَصْرِفَ عَنَّا أَذَاهَا، فَقَالَ عُمَرُ‏:‏ أَلاَ دَعَوْتُمْ لَنَا مَعَكُمْ‏.‏

تخریج الحدیث: «ضعيف: رواه ابن أبى الدنيا فى مجابو الدعوة: 38 و الالكائي فى كرامات الأولياء: 98 و المحامل فى أماليه: 303 و رواه الطبراني فى الدعاء: 985»

قال الشيخ الألباني: ضعيف
119. بَابُ الْخُرُوجِ إِلَى الضَّيْعَةِ
119. جائیداد کی طرف جانے کا بیان
حدیث نمبر: 236
Save to word اعراب
حدثنا معاذ بن فضالة، قال‏:‏ حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة قال‏:‏ اتيت ابا سعيد الخدري، وكان لي صديقا، فقلت‏:‏ الا تخرج بنا إلى النخل‏؟‏ فخرج، وعليه خميصة له‏.‏حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ‏:‏ حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ‏:‏ أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، وَكَانَ لِي صَدِيقًا، فَقُلْتُ‏:‏ أَلاَ تَخْرُجُ بِنَا إِلَى النَّخْلِ‏؟‏ فَخَرَجَ، وَعَلَيْهِ خَمِيصَةٌ لَهُ‏.‏
حضرت ابوسلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ میرے دوست تھے۔ میں نے ان سے کہا: ہمیں کھجوروں کے باغ میں کیوں نہیں لے چلتے؟ چنانچہ وہ ساتھ چل دیے اور ان پر ان کی ایک چادر تھی۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الاذان، باب السجود على الأنف فى الطين: 813 و مسلم: 1167 و صحيح أبى داؤد: 1251»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 237
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن سلام، قال‏:‏ اخبرنا محمد بن الفضيل بن غزوان، عن مغيرة، عن ام موسى قالت‏:‏ سمعت عليا صلوات الله عليه يقول‏:‏ امر النبي صلى الله عليه وسلم عبد الله بن مسعود ان يصعد شجرة فياتيه منها بشيء، فنظر اصحابه إلى ساق عبد الله فضحكوا من حموشة ساقيه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏ ”ما تضحكون‏؟‏ لرجل عبد الله اثقل في الميزان من احد‏.‏“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلامٍ، قَالَ‏:‏ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ أُمِّ مُوسَى قَالَتْ‏:‏ سَمِعْتُ عَلِيًّا صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ يَقُولُ‏:‏ أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللهِ بْنَ مَسْعُودٍ أَنْ يَصْعَدَ شَجَرَةً فَيَأْتِيَهُ مِنْهَا بِشَيْءٍ، فَنَظَرَ أَصْحَابُهُ إِلَى سَاقِ عَبْدِ اللهِ فَضَحِكُوا مِنْ حُمُوشَةِ سَاقَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏ ”مَا تَضْحَكُونَ‏؟‏ لَرِجْلُ عَبْدِ اللهِ أَثْقَلُ فِي الْمِيزَانِ مِنْ أُحُدٍ‏.‏“
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو درخت پر چڑھنے اور کوئی چیز (مسواک وغیرہ) لانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی باریک پنڈلیاں دیکھ کر ہنسنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کیوں ہنستے ہو؟ یقیناً عبداللہ کی ٹانگ (روز قیامت) میزان میں احد پہاڑ سے بھی وزنی ہو گی۔

تخریج الحدیث: «صحيح لغيره: الصحيحة: 3192 - أخرجه أحمد: 920 و ابن أبى شيبة: 114/12 و ابن سعد: 155/3 و أبويعلى: 539»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

Previous    1    2    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.