حدثنا معاذ بن فضالة، قال: حدثنا هشام الدستوائي، عن يحيى بن ابي كثير، عن ابي سلمة قال: اتيت ابا سعيد الخدري، وكان لي صديقا، فقلت: الا تخرج بنا إلى النخل؟ فخرج، وعليه خميصة له.حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، وَكَانَ لِي صَدِيقًا، فَقُلْتُ: أَلاَ تَخْرُجُ بِنَا إِلَى النَّخْلِ؟ فَخَرَجَ، وَعَلَيْهِ خَمِيصَةٌ لَهُ.
حضرت ابوسلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ میرے دوست تھے۔ میں نے ان سے کہا: ہمیں کھجوروں کے باغ میں کیوں نہیں لے چلتے؟ چنانچہ وہ ساتھ چل دیے اور ان پر ان کی ایک چادر تھی۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الاذان، باب السجود على الأنف فى الطين: 813 و مسلم: 1167 و صحيح أبى داؤد: 1251»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 236
فوائد ومسائل: (۱)یہ روایت مختصر ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ ابو سلمہ رحمہ اللہ نے کہا کہ چلو باہر کھیتوں میں جاکر (دینی)بات چیت کرتے ہیں تو پھر ابو سلمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کے متعلق پوچھا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے رمضان کے ابتدائی دس ایام کا اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرے کا اور پھر آپ کو بتایا گیا کہ لیلۃ القدر آخری عشرے میں ہے تو آپ نے آخری عشرے کا اعتکاف کیا۔ (صحیح البخاري، الأذان، حدیث:۸۱۳) (۲) اس سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین کی باہمی گفتگو اور بات چیت بھی دین کے بارے میں ہوتی تھی۔ وہ اپنا وقت فضولیات میں ضائع نہیں کرتے تھے۔ (۳) اس سے معلوم ہوا کہ کھیتوں اور جائیداد کی طرف دوست و احباب کے ساتھ جانا جائز ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 236