(موقوف) حدثنا عياش بن الوليد، حدثنا عبد الاعلى، حدثنا سعيد الجريري، عن ابي عثمان، عن عبد الرحمن بن ابي بكر رضي الله عنهما،" ان ابا بكر تضيف رهطا، فقال لعبد الرحمن: دونك اضيافك فإني منطلق إلى النبي صلى الله عليه وسلم فافرغ من قراهم قبل ان اجيء، فانطلق عبد الرحمن فاتاهم بما عنده، فقال: اطعموا، فقالوا: اين رب منزلنا؟ قال: اطعموا، قالوا: ما نحن بآكلين حتى يجيء رب منزلنا، قال: اقبلوا عنا قراكم فإنه إن جاء ولم تطعموا لنلقين منه فابوا فعرفت انه يجد علي، فلما جاء تنحيت عنه، فقال: ما صنعتم؟ فاخبروه، فقال: يا عبد الرحمن فسكت، ثم قال: يا عبد الرحمن فسكت، فقال: يا غنثر اقسمت عليك إن كنت تسمع صوتي لما جئت فخرجت، فقلت: سل اضيافك، فقالوا: صدق اتانا به قال: فإنما انتظرتموني، والله لا اطعمه الليلة، فقال الآخرون: والله لا نطعمه حتى تطعمه، قال: لم ار في الشر كالليلة، ويلكم ما انتم لم لا تقبلون عنا قراكم، هات طعامك فجاءه فوضع يده، فقال: باسم الله الاولى للشيطان فاكل واكلوا".(موقوف) حَدَّثَنَا عَيَّاشُ بْنُ الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنَّ أَبَا بَكْرٍ تَضَيَّفَ رَهْطًا، فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ: دُونَكَ أَضْيَافَكَ فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَافْرُغْ مِنْ قِرَاهُمْ قَبْلَ أَنْ أَجِيءَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَأَتَاهُمْ بِمَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: اطْعَمُوا، فَقَالُوا: أَيْنَ رَبُّ مَنْزِلِنَا؟ قَالَ: اطْعَمُوا، قَالُوا: مَا نَحْنُ بِآكِلِينَ حَتَّى يَجِيءَ رَبُّ مَنْزِلِنَا، قَالَ: اقْبَلُوا عَنَّا قِرَاكُمْ فَإِنَّهُ إِنْ جَاءَ وَلَمْ تَطْعَمُوا لَنَلْقَيَنَّ مِنْهُ فَأَبَوْا فَعَرَفْتُ أَنَّهُ يَجِدُ عَلَيَّ، فَلَمَّا جَاءَ تَنَحَّيْتُ عَنْهُ، فَقَالَ: مَا صَنَعْتُمْ؟ فَأَخْبَرُوهُ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَسَكَتُّ، ثُمَّ قَالَ: يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَسَكَتُّ، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ أَقْسَمْتُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ تَسْمَعُ صَوْتِي لَمَّا جِئْتَ فَخَرَجْتُ، فَقُلْتُ: سَلْ أَضْيَافَكَ، فَقَالُوا: صَدَقَ أَتَانَا بِهِ قَالَ: فَإِنَّمَا انْتَظَرْتُمُونِي، وَاللَّهِ لَا أَطْعَمُهُ اللَّيْلَةَ، فَقَالَ الْآخَرُونَ: وَاللَّهِ لَا نَطْعَمُهُ حَتَّى تَطْعَمَهُ، قَالَ: لَمْ أَرَ فِي الشَّرِّ كَاللَّيْلَةِ، وَيْلَكُمْ مَا أَنْتُمْ لِمَ لَا تَقْبَلُونَ عَنَّا قِرَاكُمْ، هَاتِ طَعَامَكَ فَجَاءَهُ فَوَضَعَ يَدَهُ، فَقَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ الْأُولَى لِلشَّيْطَانِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا".
ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید الجریری نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کی میزبانی کی اور عبدالرحمٰن سے کہا کہ مہمانوں کا پوری طرح خیال رکھنا کیونکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا، میرے آنے سے پہلے انہیں کھانا کھلا دینا۔ چنانچہ عبدالرحمٰن کھانا مہمانوں کے پاس لائے اور کہا کہ کھانا کھائیے۔ انہوں نے پوچھا کہ ہمارے گھر کے مالک کہاں ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کھانا کھا لیں۔ مہمانوں نے کہا کہ جب تک ہمارے میزبان نہ آ جائیں ہم کھانا نہیں کھائیں گے۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ہماری درخواست قبول کر لیجئے کیونکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آنے تک اگر آپ لوگ کھانے سے فارغ نہیں ہو گئے تو ہمیں ان کی خفگی کا سامنا ہو گا۔ انہوں نے اس پر بھی انکار کیا۔ میں جانتا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ پر ناراض ہوں گے۔ اس لیے جب وہ آئے میں ان سے بچنے لگا۔ انہوں نے پوچھا: تم لوگوں نے کیا کیا؟ گھر والوں نے انہیں بتایا تو انہوں نے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو پکارا! میں خاموش رہا۔ پھر انہوں نے پکارا! عبدالرحمٰن! میں اس مرتبہ بھی خاموش رہا۔ پھر انہوں نے کہا ارے پاجی میں تجھ کو قسم دیتا ہوں کہ اگر تو میری آواز سن رہا ہے تو باہر آ جا، میں باہر نکلا اور عرض کیا کہ آپ اپنے مہمانوں سے پوچھ لیں۔ مہمانوں نے بھی کہا عبدالرحمٰن سچ کہہ رہا ہے۔ وہ کھانا ہمارے پاس لائے تھے۔ آخر والد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا انتظار کیا، اللہ کی قسم! میں آج رات کھانا نہیں کھاؤں گا۔ مہمانوں نے بھی قسم کھا لی اللہ کی قسم جب تک آپ نہ کھائیں ہم بھی نہ کھائیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا بھائی میں نے ایسی خراب بات کبھی نہیں دیکھی۔ مہمانو! تم لوگ ہماری میزبانی سے کیوں انکار کرتے ہو۔ خیر عبدالرحمٰن کھانا لا، وہ کھانا لائے تو آپ نے اس پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہا، اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں، پہلی حالت (کھانا نہ کھانے کی قسم) شیطان کی طرف سے تھی۔ چنانچہ انہوں نے کھانا کھایا اور ان کے ساتھ مہمانوں نے بھی کھایا۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abu Bakr: Abu Bakr invited a group of people and told me, "Look after your guests." Abu Bakr added, I am going to visit the Prophet and you should finish serving them before I return." `Abdur-Rahman said, So I went at once and served them with what was available at that time in the house and requested them to eat." They said, "Where is the owner of the house (i.e., Abu Bakr)?" `Abdur-Rahman said, "Take your meal." They said, "We will not eat till the owner of the house comes." `Abdur-Rahman said, "Accept your meal from us, for if my father comes and finds you not having taken your meal yet, we will be blamed severely by him, but they refused to take their meals . So I was sure that my father would be angry with me. When he came, I went away (to hide myself) from him. He asked, "What have you done (about the guests)?" They informed him the whole story. Abu Bakr called, "O `Abdur Rahman!" I kept quiet. He then called again. "O `Abdur-Rahman!" I kept quiet and he called again, "O ignorant (boy)! I beseech you by Allah, if you hear my voice, then come out!" I came out and said, "Please ask your guests (and do not be angry with me)." They said, "He has told the truth; he brought the meal to us." He said, "As you have been waiting for me, by Allah, I will not eat of it tonight." They said, "By Allah, we will not eat of it till you eat of it." He said, I have never seen a night like this night in evil. What is wrong with you? Why don't you accept your meals of hospitality from us?" (He said to me), "Bring your meal." I brought it to him, and he put his hand in it, saying, "In the name of Allah. The first (state of fury) was because of Satan." So Abu Bakr ate and so did his guests.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 162
(مرفوع) حدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن ابي عدي، عن سليمان، عن ابي عثمان، قال عبد الرحمن بن ابي بكر رضي الله عنهما،" جاء ابو بكر بضيف له او باضياف له فامسى عند النبي صلى الله عليه وسلم، فلما جاء قالت له امي: احتبست عن ضيفك او عن اضيافك الليلة، قال: ما عشيتهم؟ فقالت: عرضنا عليه او عليهم فابوا او فابى، فغضب ابو بكر فسب وجدع وحلف لا يطعمه، فاختبات انا، فقال: يا غنثر فحلفت المراة لا تطعمه حتى يطعمه، فحلف الضيف او الاضياف ان لا يطعمه او يطعموه حتى يطعمه، فقال ابو بكر: كان هذه من الشيطان، فدعا بالطعام فاكل واكلوا فجعلوا لا يرفعون لقمة إلا ربا من اسفلها اكثر منها، فقال: يا اخت بني فراس ما هذا؟ فقالت: وقرة عيني إنها الآن لاكثر قبل ان ناكل فاكلوا، وبعث بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر انه اكل منها".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" جَاءَ أَبُو بَكْرٍ بِضَيْفٍ لَهُ أَوْ بِأَضْيَافٍ لَهُ فَأَمْسَى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَتْ لَهُ أُمِّي: احْتَبَسْتَ عَنْ ضَيْفِكَ أَوْ عَنْ أَضْيَافِكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: مَا عَشَّيْتِهِمْ؟ فَقَالَتْ: عَرَضْنَا عَلَيْهِ أَوْ عَلَيْهِمْ فَأَبَوْا أَوْ فَأَبَى، فَغَضِبَ أَبُو بَكْرٍ فَسَبَّ وَجَدَّعَ وَحَلَفَ لَا يَطْعَمُهُ، فَاخْتَبَأْتُ أَنَا، فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ فَحَلَفَتِ الْمَرْأَةُ لَا تَطْعَمُهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ، فَحَلَفَ الضَّيْفُ أَوِ الْأَضْيَافُ أَنْ لَا يَطْعَمَهُ أَوْ يَطْعَمُوهُ حَتَّى يَطْعَمَهُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَأَنَّ هَذِهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَدَعَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلَ وَأَكَلُوا فَجَعَلُوا لَا يَرْفَعُونَ لُقْمَةً إِلَّا رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا، فَقَالَ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هَذَا؟ فَقَالَتْ: وَقُرَّةِ عَيْنِي إِنَّهَا الْآنَ لَأَكْثَرُ قَبْلَ أَنْ نَأْكُلَ فَأَكَلُوا، وَبَعَثَ بِهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَنَّهُ أَكَلَ مِنْهَا".
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے سلیمان ابن طرفان نے، ان سے ابوعثمان نہدی نے کہ عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا ایک مہمان یا کئی مہمان لے کر گھر آئے۔ پھر آپ شام ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے، جب وہ لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا کہ آج اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر آپ کہاں رہ گئے تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کھانا ان کے سامنے پیش کیا لیکن انہوں نے انکار کیا۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو غصہ آیا اور انہوں نے (گھر والوں کی) سرزنش کی اور دکھ کا اظہار کیا اور قسم کھا لی کہ میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں تو ڈر کے مارے چھپ گیا تو آپ نے پکارا کہ اے پاجی! کدھر ہے تو ادھر آ۔ میری والدہ نے بھی قسم کھا لی کہ اگر وہ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گی۔ اس کے بعد مہمانوں نے بھی قسم کھا لی کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ غصہ کرنا شیطانی کام تھا، پھر آپ نے کھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا (اس کھانے میں یہ برکت ہوئی) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بھی بڑھ جاتا تھے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہو رہا ہے، کھانا تو اور بڑھ گیا۔ انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اب یہ اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ جب ہم نے کھانا کھایا بھی نہیں تھا۔ پھر سب نے کھایا اور اس میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا، کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کھانے میں سے کھایا۔
Narrated `Abdur-Rahman bin Abu Bakr: Abu Bakr came with a guest or some guests, but he stayed late at night with the Prophet and when he came, my mother said (to him), "Have you been detained from your guest or guests tonight?" He said, "Haven't you served the supper to them?" She replied, "We presented the meal to him (or to them), but he (or they) refused to eat." Abu Bakr became angry, rebuked me and invoked Allah to cause (my) ears to be cut and swore not to eat of it!" I hid myself, and he called me, "O ignorant (boy)!" Abu Bakr's wife swore that she would not eat of it and so the guests or the guest swore that they would not eat of it till he ate of it. Abu Bakr said, "All that happened was from Satan." So he asked for the meals and ate of it, and so did they. Whenever they took a handful of the meal, the meal grew (increased) from underneath more than that mouthful. He said (to his wife), "O, sister of Bani Firas! What is this?" She said, "O, pleasure of my eyes! The meal is now more than it had been before we started eating'' So they ate of it and sent the rest of that meal to the Prophet. It is said that the Prophet also ate of it.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 163
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد هو ابن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار مولى الانصار، عن رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة، انهما حدثاه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، اتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فتكلموا في امر صاحبهم، فبدا عبد الرحمن وكان اصغر القوم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر" قال يحيى: يعني ليلي الكلام الاكبر، فتكلموا في امر صاحبهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتستحقون قتيلكم او قال صاحبكم بايمان خمسين منكم؟ قالوا: يا رسول الله، امر لم نره قال:" فتبرئكم يهود في ايمان خمسين منهم" قالوا: يا رسول الله، قوم كفار، فوداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: فادركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها، قال الليث: حدثني يحيى، عن بشير، عن سهل، قال يحيى: حسبت انه قال: مع رافع بن خديج، وقال ابن عيينة، حدثنا يحيى، عن بشير، عن سهل وحده.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أنهما حدثاه، أن عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، أتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ" قَالَ يَحْيَى: يَعْنِي لِيَلِيَ الْكَلَامَ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَسْتَحِقُّونَ قَتِيلَكُمْ أَوْ قَالَ صَاحِبَكُمْ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ قَالَ:" فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ فِي أَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ فَدَخَلَتْ مِرْبَدًا لَهُمْ فَرَكَضَتْنِي بِرِجْلِهَا، قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ يَحْيَى: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مَعَ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ وَحْدَهُ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، وہ ابن زید ہیں، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے انصار کے غلام بشیر بن یسار نے، ان سے رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر سے آئے اور کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ عبداللہ بن سہل وہیں قتل کر دیئے گئے۔ پھر عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے مقتول ساتھی (عبداللہ رضی اللہ عنہ) کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ پہلے عبدالرحمٰن نے بولنا چاہا جو سب سے چھوٹے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو۔ (ابن سعید نے اس کا مقصد یہ) بیان کیا کہ جو بڑا ہے وہ گفتگو کرے، پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے 50 آدمی قسم کھا لیں کہ عبداللہ کو یہودیوں نے مارا ہے تو تم دیت کے مستحق ہو جاؤ گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے خود تو اسے دیکھا نہیں تھا (پھر اس کے متعلق قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا پا لیں گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسم کا کیا بھروسہ) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت خود اپنی طرف سے ادا کر دی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان اونٹوں میں سے (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیت میں دئیے تھے) ایک اونٹنی کو میں نے پکڑا وہ تھان میں گھس گئی، اس نے ایک لات مجھ کو لگائی۔ اور لیث نے کہا مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور ان سے سہل نے، یحییٰ نے یہاں بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بشیر نے «مع رافع بن خديج» کے الفاظ کہے تھے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور انہوں نے صرف سہل سے روایت کی۔
Narrated Rafi` bin Khadij and Sahl bin Abu Hathma: `Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas`ud went to Khaibar and they dispersed in the gardens of the date-palm trees. `Abdullah bin Sahl was murdered. Then `Abdur-Rahman bin Sahl, Huwaiyisa and Muhaiyisa, the two sons of Mas`ud, came to the Prophet and spoke about the case of their (murdered) friend. `Abdur-Rahman who was the youngest of them all, started talking. The Prophet said, "Let the older (among you) speak first." So they spoke about the case of their (murdered) friend. The Prophet said, "Will fifty of you take an oath whereby you will have the right to receive the blood money of your murdered man," (or said, "..your companion"). They said, "O Allah's Apostle! The murder was a thing we did not witness." The Prophet said, "Then the Jews will release you from the oath, if fifty of them (the Jews) should take an oath to contradict your claim." They said, "O Allah's Apostle! They are disbelievers (and they will take a false oath)." Then Allah's Apostle himself paid the blood money to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 164
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد هو ابن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار مولى الانصار، عن رافع بن خديج، وسهل بن ابي حثمة، انهما حدثاه، ان عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، اتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فتكلموا في امر صاحبهم، فبدا عبد الرحمن وكان اصغر القوم، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" كبر الكبر" قال يحيى: يعني ليلي الكلام الاكبر، فتكلموا في امر صاحبهم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتستحقون قتيلكم او قال صاحبكم بايمان خمسين منكم؟ قالوا: يا رسول الله، امر لم نره قال:" فتبرئكم يهود في ايمان خمسين منهم" قالوا: يا رسول الله، قوم كفار، فوداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: فادركت ناقة من تلك الإبل فدخلت مربدا لهم فركضتني برجلها، قال الليث: حدثني يحيى، عن بشير، عن سهل، قال يحيى: حسبت انه قال: مع رافع بن خديج، وقال ابن عيينة، حدثنا يحيى، عن بشير، عن سهل وحده.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ هُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أنهما حدثاه، أن عبد الله بن سهل، ومحيصة بن مسعود، أتيا خيبر فتفرقا في النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فجاء عبد الرحمن بن سهل، وحويصة، ومحيصة ابنا مسعود إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَرَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَبِّرِ الْكُبْرَ" قَالَ يَحْيَى: يَعْنِي لِيَلِيَ الْكَلَامَ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَسْتَحِقُّونَ قَتِيلَكُمْ أَوْ قَالَ صَاحِبَكُمْ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ قَالَ:" فَتُبْرِئُكُمْ يَهُودُ فِي أَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَوْمٌ كُفَّارٌ، فَوَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: فَأَدْرَكْتُ نَاقَةً مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ فَدَخَلَتْ مِرْبَدًا لَهُمْ فَرَكَضَتْنِي بِرِجْلِهَا، قَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ، قَالَ يَحْيَى: حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: مَعَ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَقَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ بُشَيْرٍ، عَنْ سَهْلٍ وَحْدَهُ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے بیان کیا، وہ ابن زید ہیں، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے انصار کے غلام بشیر بن یسار نے، ان سے رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر سے آئے اور کھجور کے باغ میں ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ عبداللہ بن سہل وہیں قتل کر دیئے گئے۔ پھر عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اپنے مقتول ساتھی (عبداللہ رضی اللہ عنہ) کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ پہلے عبدالرحمٰن نے بولنا چاہا جو سب سے چھوٹے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بڑے کی بڑائی کرو۔ (ابن سعید نے اس کا مقصد یہ) بیان کیا کہ جو بڑا ہے وہ گفتگو کرے، پھر انہوں نے اپنے ساتھی کے مقدمہ میں گفتگو کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم میں سے 50 آدمی قسم کھا لیں کہ عبداللہ کو یہودیوں نے مارا ہے تو تم دیت کے مستحق ہو جاؤ گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے خود تو اسے دیکھا نہیں تھا (پھر اس کے متعلق قسم کیسے کھا سکتے ہیں؟) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا پا لیں گے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسم کا کیا بھروسہ) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت خود اپنی طرف سے ادا کر دی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان اونٹوں میں سے (جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیت میں دئیے تھے) ایک اونٹنی کو میں نے پکڑا وہ تھان میں گھس گئی، اس نے ایک لات مجھ کو لگائی۔ اور لیث نے کہا مجھ سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور ان سے سہل نے، یحییٰ نے یہاں بیان کیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ بشیر نے «مع رافع بن خديج» کے الفاظ کہے تھے۔ اور سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے بشیر نے اور انہوں نے صرف سہل سے روایت کی۔
Narrated Rafi` bin Khadij and Sahl bin Abu Hathma: `Abdullah bin Sahl and Muhaiyisa bin Mas`ud went to Khaibar and they dispersed in the gardens of the date-palm trees. `Abdullah bin Sahl was murdered. Then `Abdur-Rahman bin Sahl, Huwaiyisa and Muhaiyisa, the two sons of Mas`ud, came to the Prophet and spoke about the case of their (murdered) friend. `Abdur-Rahman who was the youngest of them all, started talking. The Prophet said, "Let the older (among you) speak first." So they spoke about the case of their (murdered) friend. The Prophet said, "Will fifty of you take an oath whereby you will have the right to receive the blood money of your murdered man," (or said, "..your companion"). They said, "O Allah's Apostle! The murder was a thing we did not witness." The Prophet said, "Then the Jews will release you from the oath, if fifty of them (the Jews) should take an oath to contradict your claim." They said, "O Allah's Apostle! They are disbelievers (and they will take a false oath)." Then Allah's Apostle himself paid the blood money to them.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 164
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اخبروني بشجرة مثلها مثل المسلم تؤتي اكلها كل حين بإذن ربها ولا تحت ورقها، فوقع في نفسي انها النخلة فكرهت ان اتكلم، وثم ابو بكر وعمر فلما لم يتكلما، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" هي النخلة" فلما خرجت مع ابي قلت: يا ابتاه وقع في نفسي انها النخلة، قال: ما منعك ان تقولها؟ لو كنت قلتها كان احب إلي من كذا وكذا، قال: ما منعني إلا اني لم ارك ولا ابا بكر تكلمتما فكرهت.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَخْبِرُونِي بِشَجَرَةٍ مَثَلُهَا مَثَلُ الْمُسْلِمِ تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَلَا تَحُتُّ وَرَقَهَا، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَكَلَّمَ، وَثَمَّ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ فَلَمَّا لَمْ يَتَكَلَّمَا، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هِيَ النَّخْلَةُ" فَلَمَّا خَرَجْتُ مَعَ أَبِي قُلْتُ: يَا أَبَتَاهُ وَقَعَ فِي نَفْسِي أَنَّهَا النَّخْلَةُ، قَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَقُولَهَا؟ لَوْ كُنْتَ قُلْتَهَا كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: مَا مَنَعَنِي إِلَّا أَنِّي لَمْ أَرَكَ وَلَا أَبَا بَكْرٍ تَكَلَّمْتُمَا فَكَرِهْتُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن کثیر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس درخت کا نام بتاؤ، جس کی مثال مسلمان کی سی ہے۔ وہ ہمیشہ اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے اور اس کے پتے نہیں جھڑا کرتے۔ میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن میں نے کہنا پسند نہیں کیا۔ کیونکہ مجلس میں حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما جیسے اکابر بھی موجود تھے۔ پھر جب ان دونوں بزرگوں نے کچھ نہیں کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ جب میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے عرض کیا کہ میرے دل میں آیا کہ کہہ دوں یہ کھجور کا درخت ہے، انہوں نے کہا پھر تم نے کہا کیوں نہیں؟ اگر تم نے کہہ دیا ہوتا میرے لیے اتنا مال اور اسباب ملنے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ (میں نے عرض کیا) صرف اس وجہ سے میں نے نہیں کہا کہ جب میں نے آپ کو اور ابوبکر رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ کو خاموش دیکھا تو میں نے آپ بزرگوں کے سامنے بات کرنا برا جانا۔
Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle said, "Inform me of a tree which resembles a Muslim, giving its fruits at every season by the permission of its Lord, and the leaves of which do not fall." I thought of the date-palm tree, but I disliked to speak because Abu Bakr and `Umar were present there. When nobody spoke, the Prophet said, "It is the date-palm tree" When I came out with my father, I said, "O father! It came to my mind that it was the date-palm tree." He said, "What prevented you from saying it?" Had you said it, it would have been more dearer to me than such-and-such a thing (fortune)." I said, "Nothing prevented me but the fact that neither you nor Abu Bakr spoke, so I disliked to speak (in your presence).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 165
وقوله والشعراء يتبعهم الغاوون {224} الم تر انهم في كل واد يهيمون {225} وانهم يقولون ما لا يفعلون {226} إلا الذين آمنوا وعملوا الصالحات وذكروا الله كثيرا وانتصروا من بعد ما ظلموا وسيعلم الذين ظلموا اي منقلب ينقلبون {227} سورة الشعراء آية 224-227 قال ابن عباس في كل لغو يخوضونوَقَوْلِهِ وَالشُّعَرَاءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوُونَ {224} أَلَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُلِّ وَادٍ يَهِيمُونَ {225} وَأَنَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لا يَفْعَلُونَ {226} إِلا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَذَكَرُوا اللَّهَ كَثِيرًا وَانْتَصَرُوا مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ {227} سورة الشعراء آية 224-227 قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِي كُلِّ لَغْوٍ يَخُوضُونَ
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الشعراء میں) فرمایا ”شاعروں کی پیروی وہی لوگ کرتے ہیں جو گمراہ ہیں، کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ وہ ہر وادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور وہ، وہ باتیں کہتے ہیں جو خود نہیں کرتے۔ سوا ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور جنہوں نے عمل صالح کئے اور اللہ کا کثرت سے ذکر کیا اور جب ان پر ظلم کیا گیا تو انہوں نے اس کا بدلہ لیا اور ظلم کرنے والوں کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ ان کا انجام کیا ہوتا ہے۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «في كل لغو يخوضون.» کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک لغو بےہودہ بات میں گھستے ہیں۔
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو ابوبکر بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں مروان بن حکم نے خبر دی، انہیں عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث نے خبر دی، انہیں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بعض شعروں میں دانائی ہوتی ہے۔“
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن الاسود بن قيس، سمعت جندبا، يقول: بينما النبي صلى الله عليه وسلم يمشي إذ اصابه حجر فعثر فدميت إصبعه فقال:" هل انت إلا إصبع دميت وفي سبيل الله ما لقيت".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، سَمِعْتُ جُنْدَبًا، يَقُولُ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي إِذْ أَصَابَهُ حَجَرٌ فَعَثَرَ فَدَمِيَتْ إِصْبَعُهُ فَقَالَ:" هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسود بن قیس نے، انہوں نے کہا کہ میں نے جندب بن عبداللہ بجلی سے سنا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے کہ آپ کو پتھر سے ٹھوکر لگی اور آپ گر پڑے، اس سے آپ کی انگلی سے خون بہنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا ”تو تو اک انگلی ہے اور کیا ہے جو زخمی ہو گئی ... کیا ہوا اگر راہ مولیٰ میں تو زخمی ہو گئی۔“
Narrated Jundub: While the Prophet was walking, a stone hit his foot and stumbled and his toe was injured. He then (quoting a poetic verse) said, "You are not more than a toe which has been bathed in blood in Allah's Cause."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 167
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن مهدي، حدثنا سفيان، عن عبد الملك، حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اصدق كلمة قالها الشاعر كلمة لبيد، الا كل شيء ما خلا الله باطل" وكاد امية بن ابي الصلت ان يسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَصْدَقُ كَلِمَةٍ قَالَهَا الشَّاعِرُ كَلِمَةُ لَبِيدٍ، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ" وَكَادَ أُمَيَّةُ بْنُ أَبِي الصَّلْتِ أَنْ يُسْلِمَ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، انہوں نے کہا ہم سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی شعراء کے کلام میں سے سچا کلمہ لبید کا مصرعہ ہے جو یہ ہے کہ اللہ کے سوا جو کچھ ہے سب معدوم و فنا ہونے والا ہے۔ امیہ بن ابی الصلت شاعر تو قریب تھا کہ مسلمان ہو جائے۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The most true words said by a poet were the words of Labid. He said, i.e. 'Verily, everything except Allah is perishable and Umaiya bin Abi As-Salt was about to embrace Islam .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 168