اخبرنا معاذ بن هشام، صاحب الدستوائي، حدثني ابي، عن قتادة، عن شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان في بيتها واسماء تعجن عجينها، إذ ذكروا الدجال فقال:" إن قبل خروجه عاما يمسك السماء فيه ثلث قطرها، والارض ثلث نباتها، والعام الثاني يمسك السماء ثلثي قطرها، والارض ثلثي نباتها، والعام الثالث يمسك السماء قطرها كله، والارض نباتها كله، حتى لا يبقى ذات ظلف ولا ذات ظفر، وإن اعظم فتنة ان يقول للرجل: ارايت إن احييت لك اباك او اخاك، اتعلم اني ربك؟ فيقول: نعم، ويقول للاعرابي: ارايت إن احييت لك إبلك اطول ما كانت اسنمة، واعظمها ضروعا، اتعلم اني ربك؟ فيقول: نعم، فيخيل لهم الشياطين، اما إنه لا يحيي الموتى"، ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم لبعض حاجته ثم جاء واصحابه يبكون، فاخذ بلحيي الباب وقال: ((مهيم؟)) فقالت اسماء: يا رسول الله، حدثتهم عن الدجال ما يشق عليهم، فوالله إنا لنجزع وهذا عندنا فكيف إذ ذاك؟ فقال: ((إن يخرج وانا فيكم فانا حجيجه، وإن يخرج بعدي فالله خليفتي على كل مؤمن)). قالت اسماء: يا رسول الله، فما يجزئ من الطعام يومئذ؟ قال:" ما يجزئ اهل السماء: التسبيح والتقديس".أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، صَاحِبُ الدَّسْتُوَائِيِّ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَيْتِهَا وَأَسْمَاءُ تَعْجِنُ عَجِينَهَا، إِذْ ذَكَرُوا الدَّجَّالَ فَقَالَ:" إِنَّ قَبْلَ خُرُوجِهِ عَامًا يُمْسِكُ السَّمَاءُ فِيهِ ثُلُثَ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا، وَالْعَامُ الثَّانِي يُمْسِكُ السَّمَاءُ ثُلُثَيْ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَيْ نَبَاتِهَا، وَالْعَامُ الثَّالِثُ يُمْسِكُ السَّمَاءُ قَطْرَهَا كُلَّهُ، وَالْأَرْضُ نَبَاتَهَا كُلَّهُ، حَتَّى لَا يَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ وَلَا ذَاتُ ظُفُرٍ، وَإِنَّ أَعْظَمَ فِتْنَةٍ أَنْ يَقُولَ لِلرَّجُلِ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ أَبَاكَ أَوْ أَخَاكَ، أَتَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، وَيَقُولُ لِلْأَعْرَابِيِّ: أَرَأَيْتَ إِنْ أَحْيَيْتُ لَكَ إِبِلَكَ أَطْوَلَ مَا كَانَتْ أَسْنِمَةً، وَأَعْظَمَهَا ضُرُوعًا، أَتَعْلَمُ أَنِّي رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُخَيَّلُ لَهُمُ الشَّيَاطِينُ، أَمَا إِنَّهُ لَا يُحْيِي الْمَوْتَى"، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبَعْضِ حَاجَتِهِ ثُمَّ جَاءَ وَأَصْحَابُهُ يَبْكُونَ، فَأَخَذَ بِلَحْيَيِ الْبَابِ وَقَالَ: ((مَهْيَمْ؟)) فَقَالَتْ أَسْمَاءُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَدَّثْتَهُمْ عَنِ الدَّجَّالِ مَا يَشُقُّ عَلَيْهِمْ، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَنَجْزَعُ وَهَذَا عِنْدَنَا فَكَيْفَ إِذْ ذَاكَ؟ فَقَالَ: ((إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي فَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ)). قَالَتْ أَسْمَاءُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَا يُجْزِئُ مِنَ الطَّعَامِ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" مَا يُجْزِئُ أَهْلَ السَّمَاءِ: التَّسْبِيحُ وَالتَّقْدِيسُ".
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف فرما تھے اور اسماء رضی اللہ عنہا آٹا گوندھ رہی تھیں، کہ انہوں نے دجال کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے خروج سے ایک سال پہلے آسمان سے تہائی بارش رک جائے گی، زمین تہائی نباتات نہیں اگائے گی، دوسرے سال آسمان دو تہائی بارش روک لے گا اور زمین میں دو تہائی نباتات نہیں اگائے گی، اور تیسرے سال آسمان ساری بارش روک لے گا اور زمین ہر قسم کی نباتات نہیں اگائے گی، حتیٰ کہ کوئی گائے وغیرہ نہیں رہے گی، سب سے بڑا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ کسی آدمی سے کہے گا: مجھے بتاؤ کہ اگر میں تمہاری خاطر تمہارے باپ یا تمہارے بھائی کو زندہ کر دوں، تو کیا تم جان لو گے کہ میں تمہارا رب ہوں؟ وہ کہے گا: ہاں، وہ اعرابی سے کہے گا: مجھے بتاؤ اگر میں تمہارا اونٹ جو پہلے سے بھی زیادہ لمبی کوہان والا اور پہلے سے زیادہ بڑے تھنوں والا ہو زندہ کر دوں، تو کیا تم جان لو گے میں تمہارا رب ہوں، وہ کہے گا: ہاں، پس وہ شیاطین کو ان کی صورت میں بنائے گا، جبکہ وہ تو مردوں کو زندہ نہیں کر سکتا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام کی خاطر باہر تشریف لے گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رو رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے کی چوکھٹ پکڑ کر فرمایا: ”خاموش ہو جاؤ۔“ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! دجال کا ان سے ذکر ہوا ہے، جو ان پر گراں گزرا ہے، اللہ کی قسم! ہم گھبرا رہے ہیں جبکہ آپ ہمارے پاس ہیں، جب آپ نہیں ہوں گے تو پھر کیا حالت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ (دجال) اس وقت نکلتا ہے کہ میں تم میں موجود ہوں تو میں اس کے خلاف بحث و مباحثہ کر لوں گا، اور اگر وہ میرے بعد نکلتا ہے تو اللہ ہر مومن پر میرا خلیفہ ہے۔“ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس دن کھانے کے حوالے سے کیا چیز کفایت کرے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو آسمان والوں کو تسبیح و تقدیس میں کفایت کرتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 453/6. اسناده ضعيف، فيه شهر بن حوشب ضعيف. انظر التاريخ الكبير: 2740/4. ميزان الاعتدال: 283/2.»
اخبرنا عبد الرزاق، نا معمر، عن قتادة، عن شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد الانصارية قالت: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بيتي وانا اعجن فقال: ((بين يدي الدجال ثلاث سنين، يمسك السنة الاولى السماء ثلث قطرها، والارض ثلث نباتها))، فذكر مثله وقال في الإبل: ((يمثل لهم شياطين على نحو إبلهم احسن ما كانت واعظمها ضروعا، وتمثل كنحو الآباء والابناء))، وقال: ((لا يبقى ذات ظلف ولا ذات ضرس إلا هلكت))، وقالت اسماء: فقلت: يا رسول الله، إنا لنعجن عجيننا، فما نخبز حتى نجوع، فكيف بالمؤمنين يومئذ؟ قال:" يجزئ بهم ما يجزئ اهل السماء: التسبيح والتقديس".أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّةِ قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ بَيْتِي وَأَنَا أَعْجِنُ فَقَالَ: ((بَيْنَ يَدَيِ الدَّجَّالِ ثَلَاثُ سِنِينَ، يُمْسِكُ السَّنَةَ الْأُولَى السَّمَاءُ ثُلُثَ قَطْرِهَا، وَالْأَرْضُ ثُلُثَ نَبَاتِهَا))، فَذَكَرَ مِثْلَهُ وَقَالَ فِي الْإِبِلِ: ((يُمَثِّلُ لَهُمْ شَيَاطِينَ عَلَى نَحْوِ إِبِلِهِمْ أَحْسَنَ مَا كَانَتْ وَأَعْظَمَهَا ضُرُوعًا، وَتُمِثِّلَ كَنَحْوِ الْآبَاءِ وَالْأَبْنَاءِ))، وَقَالَ: ((لَا يَبْقَى ذَاتُ ظِلْفٍ وَلَا ذَاتُ ضِرْسٍ إِلَّا هَلَكَتْ))، وَقَالَتْ أَسْمَاءُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَعْجِنُ عَجِينَنَا، فَمَا نَخْبِزُ حَتَّى نَجُوعَ، فَكَيْفَ بِالْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" يُجْزِئُ بِهِمْ مَا يُجْزِئُ أَهْلَ السَّمَاءِ: التَّسْبِيحُ وَالتَّقْدِيسُ".
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ بنت یزید انصاریہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے جبکہ میں آٹا گوندھ رہی تھی، آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال سے پہلے تین سال ہوں گے، پہلے سال آسمان اپنی تہائی بارش روک لے گا، زمین اپنی تہائی روئیدگی روک لے گی۔“ پس حدیث سابق کے مثل روایت کیا، اور اونٹوں کے بارے میں فرمایا: ”شیاطین ان کے اونٹوں کے مثل ان کے لیے صورت بنا لیں گے، ان کی پہلی حالت سے بھی زیادہ بہتر اور ان کے تھن بھی پہلے سے بہت بڑے ہوں گے“، اور فرمایا: ”وہ آباء ابناء (بیٹوں) کی صورت اختیار کرے گا“، اور فرمایا: ”تمام گائیں اور اونٹ ختم ہو جائیں گے۔“ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول اللہ! ہم آٹا گوندھتی ہیں تو ہم روٹی نہیں پکاتیں حتیٰ کہ ہمیں بھوک لگے، اس دن مومنوں کی کیا حالت ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں وہ چیز کفایت کرے گی جو آسمان والوں کو تسبیح و تقدیس کفایت کرتی ہے۔“
اخبرنا موسى القارئ، عن زائدة، نا ابن خثيم قال: حدثني شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد الاشعرية انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بين اظهر اصحابه، وهو يقول: ((إني احذركم المسيح وانذركموه، وكل نبي قد انذره قومه، وإنه فيكم ايتها الامة، وإني اجليه بصفة لم يجلها احد من الانبياء قبلي، يكون قبل خروجه سنين خمس جدبة حتى يهلك فيها كل ذات حافر))، فناداه رجل: يا رسول الله، ما يجزئ المؤمنين يومئذ؟ قال:" ما يجزئ الملائكة، ثم يخرج وهو اعور، وإن الله ليس باعور، بين عينيه مكتوب كافر، يقراه كل امي وكاتب، اكثر من يتبعه اليهود والاعراب والنساء، ترى السماء تمطر ولا تمطر، والارض تنبت وهي لا تنبت، ويقول للاعراب: ما تبغون مني؟ الم ارسل السماء عليكم مدرارا، الم ارجئ لكم انعامكم شاخصة دراها خارجة خواصرها دارة البانها، قال: فتمثل لهم شياطين على صورة الآباء والإخوان والمعارف، فياتي الرجل إلى ابيه او اخيه او ذي رحمه فيقول له: الست فلان الست تصدقني، هو ربك فاتبعه، فيمكث اربعين سنة، السنة كالشهر، والشهر كالجمعة، والجمعة كاليوم، واليوم كاحتراق السعفة في النار، يرد كل منهل إلا المسجدين"، ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضا فسمع بكاء اصحابه وشهيقهم، فرجع وقال: ((ابشروا، فإنه إن يخرج وانا فيكم فالله كافيكم ورسوله، وإن يخرج بعدي فالله خليفتي فيكم)).أَخْبَرَنَا مُوسَى الْقَارِئُ، عَنْ زَائِدَةَ، نا ابْنُ خُثَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ الْأَشْعَرِيَّةِ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بَيْنَ أَظْهَرِ أَصْحَابِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: ((إِنِّي أُحَذِّرُكُمُ الْمَسِيحَ وَأُنْذِرُكُمُوهُ، وَكُلُّ نَبِيٍّ قَدْ أَنْذَرَهُ قَوْمَهُ، وَإِنَّهُ فِيكُمْ أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ، وَإِنِّي أَجْلِيهِ بِصِفَةٍ لَمْ يُجْلِهَا أَحَدٌ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي، يَكُونُ قَبْلَ خُرُوجِهِ سِنِينَ خَمْسٍ جَدْبَةٌ حَتَّى يَهْلِكُ فِيهَا كُلُّ ذَاتِ حَافِرٍ))، فَنَادَاهُ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُجْزِئُ الْمُؤْمِنِينَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" مَا يُجْزِئُ الْمَلَائِكَةَ، ثُمَّ يَخْرُجُ وَهُوَ أَعْوَرُ، وَإِنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِأَعْوَرَ، بَيْنَ عَيْنَيْهِ مَكْتُوبٌ كَافِرٌ، يَقْرَأُهُ كُلُّ أُمِّيٍّ وَكَاتِبٍ، أَكْثَرُ مَنْ يَتَّبِعُهُ الْيَهُودُ وَالْأَعْرَابُ وَالنِّسَاءُ، تَرَى السَّمَاءَ تُمْطِرُ وَلَا تُمْطِرُ، وَالْأَرْضُ تُنْبِتُ وَهِيَ لَا تُنْبِتُ، وَيَقُولُ لِلْأَعْرَابِ: مَا تَبْغُونَ مِنِّي؟ أَلَمْ أُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا، أَلَمْ أُرْجِئْ لَكُمْ أَنْعَامَكُمْ شَاخِصَةً دَرَاهَا خَارِجَةٌ خَوَاصِرُهَا دَارَّةٌ أَلْبَانُهَا، قَالَ: فَتَمَثَّلَ لَهُمْ شَيَاطِينُ عَلَى صُورَةِ الْآبَاءِ وَالْإِخْوَانِ وَالْمَعَارَفِ، فَيَأْتِي الرَّجُلُ إِلَى أَبِيهِ أَوْ أَخِيهِ أَوْ ذِي رَحِمِهِ فَيَقُولُ لَهُ: أَلَسْتَ فُلَانُ أَلَسْتَ تُصَدِّقُنِي، هُوَ رَبُّكَ فَاتَّبِعْهُ، فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ سَنَةً، السُّنَّةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةِ، وَالْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَالْيَوْمُ كَاحْتِرَاقِ السَّعَفَةِ فِي النَّارِ، يَرِدُ كُلَّ مَنْهَلٍ إِلَّا الْمَسْجِدَيْنِ"، ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ فَسَمِعَ بُكَاءَ أَصْحَابِهِ وَشَهِيقَهُمْ، فَرَجَعَ وَقَالَ: ((أَبْشِرُوا، فَإِنَّهُ إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَاللَّهُ كَافِيكُمْ وَرَسُولُهُ، وَإِنْ يَخْرُجْ بَعْدِي فَاللَّهُ خَلِيفَتِي فِيكُمْ)).
سیدہ اسماء بنت یزید اشعریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جبکہ آپ اپنے اصحاب کے سامنے تھے: ”میں تمہیں مسیح دجال سے بچاتا اور آگاہ کرتا ہوں، اور ہر نبی نے اپنی قوم کو آگاہ کیا ہے، اور اے امت! وہ تم میں ہو گا، میں تمہیں اس کے متعلق اس واضح انداز سے بیان کرتا ہوں کہ کسی نبی نے ویسے اس کے متعلق نہیں بتایا، اس کے نکلنے سے پہلے پانچ سال قحط کے ہوں گے، حتیٰ کہ ان میں تمام چوپائے ہلاک ہو جائیں گے۔“ ایک آدمی نے آپ کو پکارا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن (کھانے کے حوالے سے) مومنوں کے لیے کیا چیز کافی ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چیز فرشتوں کے لیے کافی ہوتی ہے، پھر وہ نکلے گا جبکہ وہ کانا ہے، اور اللہ کانا نہیں ہے۔ اس کی پیشانی پر کافر لکھا ہو گا، اسے ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ شخص پڑھ لے گا، اس کی پیروی کرنے والے زیاد تر یہودی، اعرابی اور عورتیں ہوں گی، آسمان سے بارش برستی دیکھو گے جبکہ وہ بارش نہیں برسائے گا، زمین کا اگاتا ہوا دیکھو گے لیکن وہ نہیں اگائے گی، وہ اعراب سے کہے گا: تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟ کیا میں نے موسلادھار بارش نہیں برسائی، کیا میں نے تمہارے لیے تمہارے مویشی زندہ نہیں کر دیئے جو کہ موٹے تازے ہیں اور ان کے کوکھ باہر نکلے ہوئے، تھن دودھ سے بھرے ہوئے ہیں؟“ فرمایا:”وہ شیطان ان کے لیے ان کے آباء، بھائیوں اور دوستوں کی تصویریں بن جائیں گے، پس آدمی اپنے باپ، اپنے بھائی یا اپنے رشتے دار کے پاس آئے گا تو اسے کہے گا: کیا تم فلاں نہیں ہو؟ کیا تم میری تصدیق نہیں کرتے؟ وہ تمہارا رب ہے اس کی اتباع کرو، وہ چالیس سال تک رہے گا، سال مہینے کی طرح، مہینہ جمعہ کی طرح، جمعہ دن کی طرح اور دن آگ میں چنگاری کی طرح، وہ دو مسجدوں (مکہ و مدینہ) کے علاوہ ہر گھاٹ پر جائے گا۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، تو آپ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی آہ و بکا سنی تو واپس آ گئے اور فرمایا: ”خوش ہو جاؤ! اگر وہ اس وقت نکلتا ہے کہ میں تم میں موجود ہوں، تو اللہ اور اس کا رسول تمہارے لیے کافی ہے اور اگر وہ میرے بعد ظاہر ہوتا ہے تو پھر اللہ تم میں میرا خلیفہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «معجم طبراني كبير: 169/24: مجمع زوائد: باب ماجاء فى الدجال: 665/7.»
اخبرنا عبد الرزاق، نا معمر، عن ابن خثيم، عن شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((يمكث الدجال في الارض اربعين سنة، السنة كالشهر، والشهر كالجمعة، والجمعة كاليوم، واليوم كاضطرام السعفة في النار)).أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((يَمْكُثُ الدَّجَّالُ فِي الْأَرْضِ أَرْبَعِينَ سَنَةً، السُّنَّةُ كَالشَّهْرِ، وَالشَّهْرُ كَالْجُمُعَةَ، وَالْجُمُعَةُ كَالْيَوْمِ، وَالْيَوْمُ كَاضْطِرَامِ السَّعَفَةِ فِي النَّارِ)).
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال زمین پر چالیس سال رہے گا، سال مہینے کی طرح، مہینہ جمعہ کی طرح، جمعہ دن کی طرح اور دن آگ میں شعلے کی مانند ہو گا۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 454/6. قال شعيب الارناوط: اسناده ضعيف.»
اخبرنا جرير، عن ليث، عن طاوس، عن ام مالك البهزية قالت: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الفتن فقال: ((خيركم فيها او خير الناس رجل يعزل في ماله يعبد ربه ويعطي حقه، ورجل يخيفه العدو ويخيفهم)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ طاوسٍ، عَنْ أُمِّ مَالِكٍ الْبَهْزِيَّةِ قَالَتْ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفِتَنَ فَقَالَ: ((خَيْرُكُمْ فِيهَا أَوْ خَيْرُ النَّاسِ رَجُلٌ يَعْزِلُ فِي مَالِهِ يَعْبُدُ رَبَّهُ وَيُعْطِي حَقَّهُ، وَرَجُلٌ يُخِيفَهُ الْعَدُوُّ وَيُخِيفَهُمْ)).
ام مالک البہزیہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتنوں کا ذکر کیا، تو فرمایا: ”ان فتنوں میں تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنا مال لے کر الگ ہو جاتا ہے اور وہ اپنے رب کی عبات کرتا ہے اور اس کا حق ادا کرتا ہے اور دوسرا وہ شخص، دشمن جس سے پوشیدہ رہے اور وہ ان سے پوشیدہ رہے۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 561/1 قال الارناوط: صحيح لغيره. مستدرك حاكم: 493/4. صحيح الجامع الصغير، رقم: 3292.»
اخبرنا ابو عامر العقدي، نا هشام وهو ابن سعد، عن عثمان بن هانئ، عن عروة بن الزبير، عن عائشة قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فعرفت انه قد حفزه شيء فلم يكلم احدا فتوضا وخرج فسمعت من الحجرات يقول:" إن الله يقول: يا ايها الناس مروا بالمعروف وانهوا عن المنكر قبل ان تدعوا الله فلا يجيبكم وتسالونه فلا يعطيكم وتستنصرونه فلا ينصركم".أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، نا هِشَامٌ وَهُوَ ابْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفْتُ أَنَّهُ قَدْ حَفَزَهُ شَيْءٌ فَلَمْ يُكَلِّمْ أَحَدًا فَتَوَضَّأَ وَخَرَجَ فَسَمِعْتُ مِنَ الْحُجُرَاتِ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مُرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْكِرِ قَبْلَ أَنْ تَدْعُوا اللَّهَ فَلَا يُجُيبُكُمْ وَتَسْأَلُونَهُ فَلَا يُعْطِيكُمْ وَتَسْتَنْصِرُونَهُ فَلَا يَنْصُرُكُمْ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، تو میں نے پہچان لیا کہ کسی چیز نے آپ کو جلدی کرنے پر آمادہ کیا ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے کلام نہ کیا، بس وضو کیا اور باہر تشریف لے گئے، میں نے حجروں میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”اللہ فرماتا ہے: لوگو! نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم اللہ سے دعائیں کرو وہ قبول نہ فرمائے، تم اس سے سوال کرو اور وہ تمہیں عطا نہ کرے اور تم اس سے مدد طلب کرو اور وہ تمہاری مدد نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب الفتن، باب الامر بالمعروف والنهي عن المنكر، رقم: 4004. قال الشيخ الالباني: حسن. مسند احمد: 159/6.»
اخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((إنه لم يكن نبي قط إلا وقد حذر امته الدجال، وإنه فيكم ايتها الامة وإنه يطا الارض كلها غير طيبة)). يعني المدينة.أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ نَبِيُّ قَطُّ إِلَّا وَقَدْ حَذَّرَ أُمَّتَهُ الدَّجَّالَ، وَإِنَّهُ فِيكُمْ أَيَّتُهَا الْأُمَّةُ وَإِنَّهُ يَطَأُ الْأَرْضَ كُلَّهَا غَيْرَ طَيْبَةٍ)). يَعْنِي الْمَدِينَةَ.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی نے (اپنی امت کو) دجال کے فتنے سے خبردار کیا ہے، اے امت! وہ تم میں ظاہر ہو گا، لیکن وہ طیبہ (مدینہ منورہ) کے علاوہ ساری زمین پر چکر لگائے گا۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الفتن، باب لا يدخل الدجال المدينه، رقم: 7133.»
اخبرنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن قتادة، عن الشعبي، عن فاطمة بنت قيس قالت: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر ذات يوم وهو يضحك فقال:" إن تميم الداري حدثني بحديث فرحت به، فاحببت ان احدثكموه لتفرحوا بما فرح به نبيكم، حدث ان اناسا من فلسطين ركبوا السفينة في البحر فحالت بهم حتى فرقتهم في جزيرة من جزائر البحر، فإذا هم بدابة لباسة شعره، فقالوا: ما انت؟ قالت: انا الجساسة، قالوا: فاخبرنا بشيء، قال: ما انا مخبركم ولا مستخبركم شيئا، ولكن ائتوا اقصى القرية، فثم من يخبركم ويستخبركم، فاتينا اقصى القرية فإذا رجل موثق بسلسلة، فقال: اخبروني عن عين زغر، فقلنا: ملاى يتدفق، قال: فاخبروني عن بحيرة الطبرية، قلنا: ملاى يتدفق، قال: فاخبروني عن نخل بيسان الذي بين فلسطين والاردن هل اطعم؟ فقلنا: نعم، قال: فاخبروني عن النبي العربي الامي، هل خرج فيكم؟ فقلنا: نعم، قال: فهل دخل الناس؟ فقلنا: هم إليه سراع، قال: فنز نزوة كاد ان تنقطع السلسلة فقلنا: من انت؟ فقال: انا الدجال , وإنه يدخل الامصار كلها غير طيبة"، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((وهذه طيبة)) ثلاثا يعني المدينة.أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ قَالَتْ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ ذَاتَ يَوْمٍ وَهُوَ يَضْحَكُ فَقَالَ:" إِنَّ تَمِيمَ الدَّارِيَّ حَدَّثَنِي بِحَدِيثٍ فَرِحْتُ بِهِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُحَدِّثَكُمُوهُ لِتَفْرَحُوا بِمَا فَرِحَ بِهِ نَبِيُّكُمْ، حَدَّثَ أَنَّ أُنَاسًا مِنْ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا السَّفِينَةَ فِي الْبَحْرِ فَحَالَتْ بِهِمْ حَتَّى فَرَّقَتْهُمْ فِي جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ لَبَّاسَةِ شَعْرِهِ، فَقَالُوا: مَا أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، قَالُوا: فَأَخْبَرَنَا بِشَيْءٍ، قَالَ: مَا أَنَا مُخْبِرَكُمُ وَلَا مُسْتَخْبِرَكُمْ شَيْئًا، وَلَكِنِ ائْتُوا أَقْصَى الْقَرْيَةِ، فَثَمَّ مَنْ يُخْبِرُكُمْ وَيَسْتَخْبِرُكُمْ، فَأَتَيْنَا أَقْصَى الْقَرْيَةِ فَإِذَا رَجُلٌ مُوثَقٌ بِسِلْسِلَةٍ، فَقَالَ: أَخْبِرُونِي عَنْ عَيْنِ زُغَرٍ، فَقُلْنَا: مَلْأَى يَتَدَفَّقُ، قَالَ: فَأَخْبِرُونِي عَنْ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ، قُلْنَا: مَلْأَى يَتَدَفَّقُ، قَالَ: فَأَخْبِرُونِي عَنْ نَخْلِ بَيْسَانَ الَّذِي بَيْنَ فِلَسْطِينَ وَالْأُرْدُنِ هَلْ أُطْعَمَ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخْبِرُونِي عَنِ النَّبِيِّ الْعَرَبِيِّ الْأُمِّيِّ، هَلْ خَرَجَ فِيكُمْ؟ فَقُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ دَخَلَ النَّاسُ؟ فَقُلْنَا: هُمْ إِلَيْهِ سِرَاعٌ، قَالَ: فَنَزَّ نَزْوَةً كَادَ أَنْ تَنْقَطِعَ السِّلْسِلَةُ فَقُلْنَا: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَ: أَنَا الدَّجَّالُ , وَإِنَّهُ يَدْخُلُ الْأَمْصَارَ كُلَّهَا غَيْرَ طَيْبَةَ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((وَهَذِهِ طَيْبَةُ)) ثَلَاثًا يَعْنِي الْمَدِينَةَ.
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے، آپ مسکرا رہے تھے، تو فرمایا: ”تمیم داری رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک بات بتائی ہے جس سے میں خوش ہوا ہوں، پس میں نے پسند کیا کہ میں تمہیں بھی بتاؤں تاکہ تم بھی اس چیز سے خوش ہو جاؤ جس کے ساتھ تمہارے نبی خوش ہوئے ہیں، اس نے مجھے بتایا کہ فلسطین کے کچھ لوگ سمندر میں سفینے میں سوار ہوئے، پس وہ انہیں بحری جزیروں میں سے ایک جزیرے میں لے گئی اور وہاں جا اتارا، وہاں انہوں نے ایک جانور دیکھا اس کا لباس بالوں کا بنا ہوا تھا، انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں جسامہ ہوں، انہوں نے کہا: ہمیں کسی چیز کے متعلق بتاؤ؟ اس نے کہا: میں تمہیں کچھ بتاؤں گی نہ تم سے کچھ پوچھوں گی، لیکن تم اس بستی کے آخری کنارے پر چلے جاؤ، وہاں کوئی ہے جو تمہیں بتائے گا اور تم سے پوچھے گا، ہم بستی کے آخری کنارے پر پہنچے تو وہاں زنجیر کے ساتھ بندھا ہوا ایک آدمی تھا، اس نے کہا: مجھے زغر کے چشمے کے متعلق بتاؤ؟ ہم نے کہا: بھرا پڑا ہے اور اچھل رہا ہے، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کے متعلق بتاؤ؟ ہم نے کہا: بھرا ہوا ہے اچھل رہا ہے، اس نے کہا: مجھے بیسان کے نخلستان کے متعلق بتاؤ جو کہ فلسطین اور اردن کے درمیان ہے کیا وہ پھل دے رہا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: مجھے اس عربی اُمِّی نبی کے متعلق بتاؤ، کیا وہ تم میں ظاہر ہو چکے ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے کہا: کیا لوگ اسلام میں داخل ہو رہے رہیں؟ ہم نے کہا: تیزی کے ساتھ، وہ اس طرح زور سے کودا، قریب تھا کہ وہ زنجیر توڑ دیتا، ہم نے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: دجال ہوں وہ طیبہ کے علاوہ تمام شہروں میں داخل ہو گا۔“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طیبہ ہے۔“ تین بار فرمایا: یعنی مدینہ منورہ۔
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الملاحم، باب فى خير الجساسة، رقم: 4326. سنن ابن ماجه، كتاب الفتن، باب فتنة الدجال، رقم: 4074. قال الشيخ الالباني. مسند احمد: 374/6. طبراني كبير، رقم: 293/24. 961.»
اخبرنا ابو اسامة، نا المجالد، نا الشعبي، حدثتني فاطمة بنت قيس قالت: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم في الهاجرة، وذلك في وقت لم يكن يخرج فيه، فصعد المنبر فقال:" ايها الناس، إني لم اقم مقامي هذا الفزع لرغبة ولا لرهبة ولكن تميم الداري اتاني فاخبرني خبرا منعني القيلولة من الفرح وقرة العين، فاحببت ان انشر عليكم فرح نبيكم، اتاني فاخبرني ان رهطا من بني عمه ركبوا البحر فاصابتهم عاصف من الريح، فالجاتهم إلى جزيرة لا يعرفونها، فقعدوا في قويرب السفينة حتى خرجوا من البحر فإذا هم بشيء اسود واهدب كثير الشعر لا يدرون ارجل ام امراة، فقالوا لها: من انت؟ قالت: انا الجساسة، فقالوا لها: الا تخبرنا بشيء؟ فقالت: ما بمخبركم ولا مستخبركم شيئا ولكن هذا الدير قد رايتموه ففيه من هو إلى خبركم بالاشواق ان يخبركم ويستخبركم، فاتوا الدير فإذا هم بشيء موثق شديد الوثاق مظهر الحزن كثير التشكي، فسلموا عليه، فرد السلام ثم قال لهم: من اين انتم؟ فقلنا: من الشام، قال: فما فعلت العرب؟ اخرج نبيهم بعد؟ فقالوا: نعم، قال: فما فعل؟ قال: ناوءه قوم فاظهره الله عليهم فهم اليوم جمع، قال: ذاك خير لهم، قال: فالعرب اليوم إلههم واحد وكلمتهم واحدة؟ قالوا: نعم، قال: ذاك خير لهم، قال: فما فعل نخل بين عمان وبيسان؟ قالوا: هي صالحة يطعم جناه كل عام، قال: فما فعل عين زغر؟ قالوا: هي صالحة يشرب منها اهلها لسقيهم ويسقون منها زرعهم ونخلهم، قال: فما فعل بحيرة الطبرية؟ قالوا: هي ملاى يتدفق جانباها , ثم قال: فزفر زفرة ثم حلف لو قد انفلت من وثاقي هذا ما تركت ارضا لله إلا وطئته برجلي هاتين غير طيبة ليس لي عليها سبيل ولا سلطان"، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إلى هذه انتهى فرحي، هذه طيبة، والذي نفسي بيده، إن هذه لطيبة، وقد حرم الله حرمي على الدجال - ثم حلف صلى الله عليه وسلم - ما بها طريق ضيق ولا واسع في سهل ولا جبل إلا عليه ملك شاهر السيف إلى يوم القيامة، ولا يستطيع الدجال ان يدخلها)).أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، نا الْمُجَالِدُ، نا الشَّعْبِيُّ، حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ بِنْتُ قَيْسٍ قَالَتْ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي الْهَاجِرَةِ، وَذَلِكَ فِي وَقْتٍ لَمْ يَكُنْ يَخْرُجُ فِيهِ، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَمْ أَقُمْ مَقَامِي هَذَا الْفَزَعَ لِرَغْبَةٍ وَلَا لِرَهْبَةٍ وَلَكِنَّ تَمِيمَ الدَّارِيَّ أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي خَبَرًا مَنَعَنِي الْقَيْلُولَةَ مِنَ الْفَرَحِ وَقُرَّةِ الْعَيْنِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ أَنْشُرَ عَلَيْكُمْ فَرَحَ نَبِيِّكُمْ، أَتَانِي فَأَخْبَرَنِي أَنَّ رَهْطًا مِنْ بَنِي عَمِّهِ رَكِبُوا الْبَحْرَ فَأَصَابَتْهُمْ عَاصِفٌ مِنَ الرِّيحِ، فَأَلْجَأَتْهُمْ إِلَى جَزِيرَةٍ لَا يَعْرِفُونَهَا، فَقَعَدُوا فِي قُوَيْرِبِ السَّفِينَةِ حَتَّى خَرَجُوا مِنَ الْبَحْرِ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ أَسْوَدَ وَأَهْدَبَ كَثِيرِ الشَّعْرِ لَا يَدْرُونَ أَرَجُلٌ أَمِ امْرَأَةٌ، فَقَالُوا لَهَا: مَنْ أَنْتِ؟ قَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، فَقَالُوا لَهَا: أَلَا تُخْبِرُنَا بِشَيْءٍ؟ فَقَالَتْ: مَا بِمُخْبِرُكُمْ وَلَا مُسْتَخْبِرِكُمْ شَيْئًا وَلَكِنَّ هَذَا الدَّيْرَ قَدْ رَأَيْتُمُوهُ فَفِيهِ مَنْ هُوَ إِلَى خَبَرِكُمْ بِالْأَشْوَاقِ أَنْ يُخْبِرَكُمْ وَيَسْتَخْبِرَكُمْ، فَأَتَوْا الدَّيْرَ فَإِذَا هُمْ بِشَيْءٍ مُوثَقٍ شَدِيدِ الْوَثَاقِ مُظْهِرٍ الْحُزْنَ كَثِيرِ التَّشَكِّي، فَسَلَّمُوا عَلَيْهِ، فَرَدَّ السَّلَامَ ثُمَّ قَالَ لَهُمْ: مِنْ أَيْنَ أَنْتُمْ؟ فَقُلْنَا: مِنَ الشَّامِ، قَالَ: فَمَا فَعَلَتِ الْعَرَبُ؟ أَخْرَجَ نَبِيُّهِمْ بَعْدُ؟ فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ؟ قَالَ: نَاوَءَهُ قَوْمٌ فَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ فَهُمُ الْيَوْمَ جَمْعٌ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: فَالْعَرَبُ الْيَوْمَ إِلَهُهُمْ وَاحِدٌ وَكَلِمَتُهُمْ وَاحِدَةٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَاكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلٌ بَيْنَ عُمَانَ وَبَيْسَانَ؟ قَالُوا: هِيَ صَالِحَةٌ يُطْعَمُ جَنَاهُ كُلَّ عَامٍ، قَالَ: فَمَا فَعَلَ عَيْنُ زُغَرٍ؟ قَالُوا: هِيَ صَالِحَةٌ يَشْرَبُ مِنْهَا أَهْلُهَا لِسَقْيِهِمْ وَيَسْقُونَ مِنْهَا زَرْعَهُمْ وَنَخْلَهُمْ، قَالَ: فَمَا فِعْلُ بُحَيْرَةِ الطَّبَرِيَّةِ؟ قَالُوا: هِيَ مَلْأَى يَتَدَفَّقُ جَانِبَاهَا , ثُمَّ قَالَ: فَزَفَرَ زَفْرَةً ثُمَّ حَلَفَ لَوْ قَدِ انْفَلَتُّ مِنْ وَثَاقِي هَذَا مَا تَرَكْتُ أَرْضًا لِلَّهِ إِلَّا وَطِئْتُهُ بِرِجْلِيَّ هَاتَيْنِ غَيْرَ طَيْبَةَ لَيْسَ لِي عَلَيْهَا سَبِيلٌ وَلَا سُلْطَانٌ"، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِلَى هَذِهِ انْتَهَى فَرَحِي، هَذِهِ طَيْبَةُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنَّ هَذِهِ لَطَيْبَةُ، وَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ حَرَمِيَ عَلَى الدَّجَّالِ - ثُمَّ حَلَفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مَا بِهَا طَرِيقٌ ضَيِّقٌ وَلَا وَاسِعٌ فِي سَهْلٍ وَلَا جَبَلٍ إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكٌ شَاهِرُ السَّيْفِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَسْتَطِيعُ الدَّجَّالَ أَنْ يَدْخُلَهَا)).
سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن دوپہر کے وقت تشریف لائے اور یہ وہ وقت تھا کہ آپ اس وقت تشریف نہیں لایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے، تو فرمایا: ”لوگو! میں اس وقت اس جگہ کوئی ترغیب و ترھیب کی بات بتانے کھڑا نہیں ہوا، لیکن تمیم داری میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے ایک ایسی خبر بتائی کہ میں خوشی اور آنکھوں کی ٹھنڈک کی وجہ سے قیلولہ بھی نہیں کر سکا، میں نے چاہا کہ میں تمہارے نبی کی خوشی کو تم تک بھی پہنچاؤں، وہ میرے پاس آئے اور مجھے بتایا کہ میرے کچھ چچا زادوں نے بحری سفر کیا، انہیں طوفان نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، اور انہیں ایک غیر معروف جزیرے تک پہنچا دیا، وہ چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے کنارے پر پہنچے، وہاں انہوں نے بڑی بڑی پلکوں والی، گھنے بالوں والی، سیاہ فام چیز دیکھی، وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ آدمی ہے یا عورت، انہوں نے اسے کہا: تم کون ہو؟ اس نے کہا: میں جساسہ ہوں، انہوں نے اسے کہا: کیا تم ہمیں کسی چیز کے متعلق نہیں بتاؤ گی؟ اس نے کہا: میں نہ تمہیں کسی چیز کے متعلق بتاؤں گی نہ تم سے پوچھوں گی، لیکن یہ مندر جس کے تم قریب ہو وہاں ایک ہے جسے شوق ہے کہ وہ تمہیں کچھ بتائے اور تم سے کچھ پوچھے، (تو وہ وہاں جائے) وہ مندر میں گئے تو انہوں نے وہاں ایک چیز کو خوب جکڑے ہوئے دیکھا، اس سے بہت رنج و غم ظاہر ہو رہا ہے اور بہت ہائے ہائے کر رہا ہے، انہوں نے اسے سلام کیا اور اس نے سلام کا جواب دیا، پھر انہیں کہا: تم کہاں سے ہو؟ ہم نے کہا: شام سے، اس نے کہا: عربوں کا کیا حال ہے؟ کیا ان کا نبی ظاہر ہو چکا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اس نے کہا: اس کا کیا حال ہے؟ قوم نے اس کا مقابلہ کیا تو اللہ نے اسے ان پر غلبہ عطا فرمایا۔ اس نے کہا: عربوں کی آج یہ حالت ہے کہ ان کا معبود ایک ہے، ان کا کلمہ ایک ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: یہ ان کے لیے بہتر ہے، اس نے کہا: عمان اور بیسان کے درمیان نخلستان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے ہر سال پھل دیتا ہے، اس نے کہا: زغر چشمے کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ ٹھیک ہے، وہاں کے باشندے خود بھی پانی پیتے ہیں اور اس میں سے اپنی کھیتیاں اور نخلستان سیراب کرتے ہیں، اس نے کہا: بحیرہ طبریہ کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا: وہ بھرا ہوا ہے۔ دونوں کناروں سے کثرت آب کی وجہ سے اچھل رہا ہے، اس نے ٹھنڈی سانس لی، پھر قسم اٹھا کر کہا: اگر مجھے اس قید سے رہائی مل گئی تو میں ساری زمین اپنے قدموں تلے روند ڈالوں گا، پھر ٹھنڈی سانس لی اور کہا: سوائے طیبہ (مدینہ منورہ) کے، اس پر میرا کوئی بس نہیں چلے گا“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ سن کر میری خوشی کی انتہا ہو گئی، یہ طیبہ ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یہی طیبہ ہے، اللہ نے میرے حرم کو دجال پر حرام قرار دے دیا ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم اٹھائی، ”قیامت تک کے لیے فرشتہ تلوار سونتے کھڑا ہے، دجال اس میں داخل نہیں ہو سکتا۔“
قال الشعبي، فلقيت القاسم بن محمد فقال: اشهد على عائشة رضي الله عنها انها قالت: الحرمان عليه حرام: مكة والمدينة.قَالَ الشَّعْبِيُّ، فَلَقِيتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: الْحَرَمَانِ عَلَيْهِ حَرَامٌ: مَكَّةُ وَالْمَدِينَةُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”دو حرم: مکہ اور مدینہ اس (دجال) پر حرام ہیں۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 373/6. قال شعيب الارناوط: حديث صحيح.»