صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
The Book of Patients
11. بَابُ عِيَادَةِ الْمُشْرِكِ:
11. باب: مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔
(11) Chapter. To visit a (sick) Mushrik.
حدیث نمبر: 5657
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن انس رضي الله عنه" ان غلاما ليهود كان يخدم النبي صلى الله عليه وسلم فمرض، فاتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقال: اسلم". فاسلم، وقال سعيد بن المسيب عن ابيه: لما حضر ابو طالب جاءه النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" أَنَّ غُلَامًا لِيَهُودَ كَانَ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَالَ: أَسْلِمْ". فَأَسْلَمَ، وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِيهِ: لَمَّا حُضِرَ أَبُو طَالِبٍ جَاءَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ایک یہودی لڑکا (عبدوس نامی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا اور سعید بن مسیب نے بیان کیا اپنے والد سے کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: A Jewish boy used to serve the Prophet and became ill. The Prophet went to pay him a visit and said to him, "Embrace Islam," and he did embrace Islam. Al-Musaiyab said: When Abu Talib was on his deathbed, the Prophet visited him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 561


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
12. بَابُ إِذَا عَادَ مَرِيضًا فَحَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَصَلَّى بِهِمْ جَمَاعَةً:
12. باب: کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے گیا اور وہیں نماز کا وقت ہو گیا تو وہیں لوگوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرے۔
(12) Chapter. If one visited a patient and when the time of the Salat (prayer) became due, he led the people present there, in a congregational Salat (prayer).
حدیث نمبر: 5658
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا هشام، قال: اخبرني ابي، عن عائشة رضي الله عنها، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه ناس يعودونه في مرضه فصلى بهم جالسا، فجعلوا يصلون قياما فاشار إليهم اجلسوا، فلما فرغ قال:" إن الإمام ليؤتم به فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإن صلى جالسا فصلوا جلوسا"، قال ابو عبد الله: قال الحميدي: هذا الحديث منسوخ، لان النبي صلى الله عليه وسلم آخر ما صلى صلى قاعدا والناس خلفه قيام.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ نَاسٌ يَعُودُونَهُ فِي مَرَضِهِ فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا، فَجَعَلُوا يُصَلُّونَ قِيَامًا فَأَشَارَ إِلَيْهِمُ اجْلِسُوا، فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ:" إِنَّ الْإِمَامَ لَيُؤْتَمُّ بِهِ فَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَإِنْ صَلَّى جَالِسًا فَصَلُّوا جُلُوسًا"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ الْحُمَيْدِيُّ: هَذَا الْحَدِيثُ مَنْسُوخٌ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرَ مَا صَلَّى صَلَّى قَاعِدًا وَالنَّاسُ خَلْفَهُ قِيَامٌ.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ کچھ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آپ کے ایک مرض کے دوران مزاج پرسی کرنے آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی لیکن صحابہ کھڑے ہو کر ہی نماز پڑھ رہے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے پس جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم (مقتدی) بھی اٹھاؤ اور اگر وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ مطابق قول حمیدی یہ حدیث منسوخ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر (مرض الوفات) میں نماز بیٹھ کر پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتداء کر رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: During the ailment of the Prophet some people came to visits him. He led them in prayer while sitting. but they prayed standing, so he waved to them to sit down. When he had finished the prayer, he said, "An Imam is to be followed, so when he bows, you should bow. and when he raises his head, you should raise yours, and if he prays sitting. you should pray sitting." Abu `Abdullah said Al-Humaidi said, (The order of ) "This narration has been abrogated by the last action of the Prophet as he led the prayer sitting, while the people prayed standing behind him.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 562


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
13. بَابُ وَضْعِ الْيَدِ عَلَى الْمَرِيضِ:
13. باب: مریض کے اوپر ہاتھ رکھنا۔
(13) Chapter. Placing the hand on the patient.
حدیث نمبر: 5659
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا المكي بن إبراهيم، اخبرنا الجعيد، عن عائشة بنت سعد، ان اباها، قال: تشكيت بمكة شكوا شديدا، فجاءني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت:" يا نبي الله إني اترك مالا، وإني لم اترك إلا ابنة واحدة، فاوصي بثلثي مالي، واترك الثلث، فقال: لا، قلت: فاوصي بالنصف، واترك النصف، قال: لا، قلت: فاوصي بالثلث، واترك لها الثلثين، قال: الثلث والثلث كثير"، ثم وضع يده على جبهته، ثم مسح يده على وجهي وبطني، ثم قال:" اللهم اشف سعدا واتمم له هجرته"، فما زلت اجد برده على كبدي فيما يخال إلي حتى الساعة.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا الْجُعَيْدُ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَاهَا، قَالَ: تَشَكَّيْتُ بِمَكَّةَ شَكْوًا شَدِيدًا، فَجَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ:" يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي أَتْرُكُ مَالًا، وَإِنِّي لَمْ أَتْرُكْ إِلَّا ابْنَةً وَاحِدَةً، فَأُوصِي بِثُلُثَيْ مَالِي، وَأَتْرُكُ الثُّلُثَ، فَقَالَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوصِي بِالنِّصْفِ، وَأَتْرُكُ النِّصْفَ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوصِي بِالثُّلُثِ، وَأَتْرُكُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ، قَالَ: الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ"، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِي وَبَطْنِي، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَأَتْمِمْ لَهُ هِجْرَتَهُ"، فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَهُ عَلَى كَبِدِي فِيمَا يُخَالُ إِلَيَّ حَتَّى السَّاعَةِ.
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جعید بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہیں عائشہ بنت سعد نے کہ ان کے والد (سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے بیان کیا کہ میں مکہ میں بہت سخت بیمار پڑ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! (اگر وفات ہو گئی تو) میں مال چھوڑوں گا اور میرے پاس سوا ایک لڑکی کے اور کوئی وارث نہیں ہے۔ کیا میں اپنے دو تہائی مال کی وصیت کر دوں اور ایک تہائی چھوڑ دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں میں نے عرض کیا پھر آدھے کی وصیت کر دوں اور آدھا (اپنی بچی کے لیے) چھوڑ دوں فرمایا کہ نہیں پھر میں نے کہا کہ ایک تہائی کی وصیت کر دوں اور باقی دو تہائی لڑکی کے لیے چھوڑ دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ان کی پیشانی پر رکھا (سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) اور میرے چہرے اور پیٹ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مبارک ہاتھ پھیرا پھر فرمایا: اے اللہ! سعد کو شفاء عطا فرما اور اس کی ہجرت کو مکمل کر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک کی ٹھنڈک اپنے جگر کے حصہ پر میں اب تک پا رہا ہوں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sa`d: I became seriously ill at Mecca and the Prophet came to visit me. I said, "O Allah's Apostle! I shall leave behind me a good fortune, but my heir is my only daughter; shall I bequeath two third of my property to be spent in charity and leave one third (for my heir)?" He said, "No." I said, "Shall I bequeath half and leave half?" He said, "No." I said, "Shall I bequeath one third and leave two thirds?" He said, "One third is alright, though even one third is too much." Then he placed his hand on his forehead and passed it over my face and `Abdomen and said, "O Allah! Cure Sa`d and complete his emigration." I feel as if I have been feeling the coldness of his hand on my liver ever since.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 563


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 5660
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن الحارث بن سويد، قال: قال عبد الله بن مسعود: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يوعك وعكا شديدا، فمسسته بيدي، فقلت: يا رسول الله إنك لتوعك وعكا شديدا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اجل، إني اوعك كما يوعك رجلان منكم، فقلت: ذلك ان لك اجرين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم اجل ثم، قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من مسلم يصيبه اذى مرض فما سواه، إلا حط الله له سيئاته كما تحط الشجرة ورقها".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَجَلْ، إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ، فَقُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَلْ ثُمَّ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ، إِلَّا حَطَّ اللَّهُ لَهُ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا".
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے بیان کیا، ان سے حارث بن سوید نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ کو بخار آیا ہوا تھا میں نے اپنے ہاتھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم چھوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو تو بڑا تیز بخار ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مجھے تم میں کے دو آدمیوں کے برابر بخار چڑھتا ہے۔ میں نے عرض کیا یہ اس لیے ہو گا کہ آپ کو دگنا اجر ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کو مرض کی تکلیف یا کوئی اور کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو اس طرح گراتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah bin Mas`ud: I visited Allah's Apostle while he was suffering from a high fever. I touched him with my hand and said, "O Allah's Apostle! You have a high fever." Allah's Apostle said, "Yes, I have as much fever as two men of you have." I said, "Is it because you will get a double reward?" Allah's Apostle said, "Yes, no Muslim is afflicted with harm because of sickness or some other inconvenience, but that Allah will remove his sins for him as a tree sheds its leaves."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 564


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
14. بَابُ مَا يُقَالُ لِلْمَرِيضِ وَمَا يُجِيبُ:
14. باب: عیادت کے وقت مریض سے کیا کہا جائے اور مریض کیا جواب دے۔
(14) Chapter. What (a visitor) should say to a patient and what should be the answer of the patient.
حدیث نمبر: 5661
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم التيمي، عن الحارث بن سويد، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه فمسسته، وهو يوعك وعكا شديدا، فقلت: إنك لتوعك وعكا شديدا وذلك ان لك اجرين، قال: اجل،" وما من مسلم يصيبه اذى إلا حاتت عنه خطاياه كما تحات ورق الشجر".(مرفوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ فَمَسِسْتُهُ، وَهُوَ يُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، فَقُلْتُ: إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا وَذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ، قَالَ: أَجَلْ،" وَمَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى إِلَّا حَاتَّتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ كَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے حارث بن سوید نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب آپ بیمار تھے حاضر ہوا۔ میں نے آپ کا جسم چھوا، آپ کو تیز بخار تھا۔ میں نے عرض کیا آپ کو تو بڑا تیز بخار ہے یہ اس لیے ہو گا کہ آپ کو دگنا ثواب ملے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور کسی مسلمان کو بھی جب کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Abdullah: I visited the Prophet during his illness and touched him while he was having a fever. I said to him, "You have a high fever; is it because you will get a double reward?" He said, "Yes. No Muslim is afflicted with any harm, but that his sins will be annulled as the leave of a tree fall down."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 565


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 5662
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق، حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على رجل يعوده، فقال: لا باس طهور إن شاء الله، فقال: كلا بل حمى تفور على شيخ كبير، كيما تزيره القبور، قال: النبي صلى الله عليه وسلم، فنعم إذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى رَجُلٍ يَعُودُهُ، فَقَالَ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ: كَلَّا بَلْ حُمَّى تَفُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ، كَيْمَا تُزِيرَهُ الْقُبُورَ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَعَمْ إِذًا".
ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا «لا بأس طهور إن شاء الله» کہ کوئی فکر نہیں اگر اللہ نے چاہا (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہو گا لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ چکا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر ہی رہے گا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Abbas: Allah's Apostle entered upon sick man to pay him a visit, and said to him, "Don't worry, Allah willing, (your sickness will be) an expiation for your sins." The man said, "No, it is but a fever that is boiling within an old man and will send him to his grave." On that, the Prophet said, "Then yes, it is so."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 566


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
15. بَابُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَرِدْفًا عَلَى الْحِمَارِ:
15. باب: مریض کی عیادت کو سوار ہو کر یا پیدل یا گدھے پر کسی کے پیچھے بیٹھ کر جانا ہر طرح جائز درست ہے۔
(15) Chapter. To visit a patient riding, walking or sitting with another person on a donkey.
حدیث نمبر: 5663
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة: ان اسامة بن زيد، اخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم:" ركب على حمار على إكاف على قطيفة فدكية، واردف اسامة وراءه يعود سعد بن عبادة قبل وقعة بدر، فسار حتى مر بمجلس فيه عبد الله بن ابي ابن سلول، وذلك قبل ان يسلم عبد الله، وفي المجلس اخلاط من المسلمين والمشركين، عبدة الاوثان، واليهود وفي المجلس عبد الله بن رواحة، فلما غشيت المجلس عجاجة الدابة خمر عبد الله بن ابي انفه بردائه، قال: لا تغبروا علينا، فسلم النبي صلى الله عليه وسلم، ووقف، ونزل فدعاهم إلى الله، فقرا عليهم القرآن، فقال له عبد الله بن ابي: يا ايها المرء إنه لا احسن مما تقول، إن كان حقا فلا تؤذنا به في مجلسنا، وارجع إلى رحلك فمن جاءك فاقصص عليه، قال ابن رواحة: بلى يا رسول الله فاغشنا به في مجالسنا فإنا نحب ذلك، فاستب المسلمون، والمشركون، واليهود حتى كادوا يتثاورون، فلم يزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى سكتوا، فركب النبي صلى الله عليه وسلم دابته حتى دخل على سعد بن عبادة، فقال له: اي سعد الم تسمع ما قال ابو حباب يريد عبد الله بن ابي، قال سعد: يا رسول الله اعف عنه واصفح، فلقد اعطاك الله ما اعطاك، ولقد اجتمع اهل هذه البحرة على ان يتوجوه فيعصبوه، فلما رد ذلك بالحق الذي اعطاك شرق بذلك فذلك الذي فعل به ما رايت".(مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ: أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، أَخْبَرَهُ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَكِبَ عَلَى حِمَارٍ عَلَى إِكَافٍ عَلَى قَطِيفَةٍ فَدَكِيَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ وَرَاءَهُ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ، فَسَارَ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ، وَفِي الْمَجْلِسِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ، عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَقَفَ، وَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ، فَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: يَا أَيُّهَا الْمَرْءُ إِنَّهُ لَا أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ، إِنْ كَانَ حَقًّا فَلَا تُؤْذِنَا بِهِ فِي مَجْلِسِنَا، وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَاءَكَ فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، قَالَ ابْنُ رَوَاحَةَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ فَاغْشَنَا بِهِ فِي مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ، وَالْمُشْرِكُونَ، وَالْيَهُودُ حَتَّى كَادُوا يَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى سَكَتُوا، فَرَكِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَابَّتَهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَهُ: أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اعْفُ عَنْهُ وَاصْفَحْ، فَلَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ مَا أَعْطَاكَ، وَلَقَدِ اجْتَمَعَ أَهْلُ هَذِهِ الْبَحْرَةِ عَلَى أَنْ يُتَوِّجُوهُ فَيُعَصِّبُوهُ، فَلَمَّا رَدَّ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَلِكَ الَّذِي فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، انہیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گدھے کی پالان پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے، یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے اور ایک مجلس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا۔ عبداللہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اس مجلس میں ہر گروہ کے لوگ تھے مسلمان بھی، مشرکین بھی یعنی بت پرست اور یہودی بھی۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، سواری کی گرد جب مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر اپنی ناک پر رکھ لی اور کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے پھر آپ نے انہیں اللہ کے طرف بلایا اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا میاں تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہم کو تکلیف نہ پہنچایا کرو، اپنے گھر جاؤ وہاں جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو۔ اس پر ابن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں ضرور تشریف لائیں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑے بازی ہو گئی اور قریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر بیٹھتے لیکن آپ انہیں خاموش کرتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا سعد! تم نے سنا نہیں ابوحباب نے کیا کہا، آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس پر سعد رضی اللہ عنہ بولے کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئیے اور اس سے درگزر فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ نعمت عطا فرما دی جو عطا فرمانی تھی (آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے) اس بستی کے لوگ اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور اپنا سردار بنا لیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا فرمایا ہے ختم کر دیا تو وہ اس پر بگڑ گیا یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Usama bin Zaid: The Prophet rode a donkey having a saddle with a Fadakiyya velvet covering. He mounted me behind him and went to visit Sa`d bin 'Ubada, and that had been before the battle of Badr. The Prophet proceeded till he passed by a gathering in which `Abdullah bin Ubai bin Salul was present, and that had been before `Abdullah embraced Islam. The gathering comprised of Muslims, polytheists, i.e., isolators and Jews. `Abdullah bin Rawaha was also present in that gathering. When dust raised by the donkey covered the gathering, `Abdullah bin Ubai covered his nose with his upper garment and said, "Do not trouble us with dust." The Prophet greeted them, stopped and dismounted. Then he invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and recited to them some verses of the Holy Qur'an. On that, `Abdullah bin Ubai said, "O man ! There is nothing better than what you say if it is true. Do not trouble us with it in our gathering, but return to your house, and if somebody comes to you, teach him there." On that `Abdullah bin Rawaha said, Yes, O Allah's Apostle! Bring your teachings to our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing each other till they were about to fight. The Prophet kept on quietening them till they became calm. Thereupon the Prophet mounted his animal and proceeded till he entered upon Sa`d bin Ubada. He said to him "O Sa`d! Have you not heard what Abu Hubab (i.e., `Abdullah bin Ubai) said?" Sa`d said, 'O Allah's Apostle! Excuse and forgive him, for Allah has given you what He has given you. The people of this town (Medina decided unanimously to crown him and make him their chief by placing a turban on his head, but when that was prevented by the Truth which Allah had given you he (`Abdullah bin Ubai) was grieved out of jealously, and that was the reason which caused him to behave in the way you have seen."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 567


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 5664
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عباس، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن محمد هو ابن المنكدر، عن جابر رضي الله عنه، قال:" جاءني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني ليس براكب بغل ولا برذون".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدٍ هُوَ ابْنُ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي لَيْسَ بِرَاكِبِ بَغْلٍ وَلَا بِرْذَوْنٍ".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے محمد نے جو منکدر کے بیٹے ہیں اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپ نہ کسی خچر پر سوار تھے نہ کسی گھوڑے پر۔ (بلکہ آپ پیدل تشریف لائے تھے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir: The Prophet came to visit me (while I was sick) and he was riding neither a mule, nor a horse.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 568


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
16. بَابُ مَا رُخِّصَ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَقُولَ إِنِّي وَجِعٌ، أَوْ وَارَأْسَاهْ، أَوِ اشْتَدَّ بِي الْوَجَعُ:
16. باب: مریض کا یوں کہنا کہ مجھے تکلیف ہے یا یوں کہنا کہ ”ہائے میرا سر دکھ رہا ہے یا میری تکلیف بہت بڑھ گئی“۔
(16) Chapter. It is permissible for a patient to say: “I am sick,” or “Oh, my head!” or “My ailment has been aggravated.”
حدیث نمبر: Q5665
Save to word اعراب English
وقول ايوب عليه السلام: {اني مسني الضر وانت ارحم الراحمين}.وَقَوْلِ أَيُّوبَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: {أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ}.
‏‏‏‏ اور ایوب علیہ السلام کا یہ کہنا بھی اسی قبیلہ سے ہے «أني مسني الضر وأنت أرحم الراحمين‏» کہ اے میرے رب! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
حدیث نمبر: 5665
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن ابن ابي نجيح وايوب، عن مجاهد، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى، عن كعب بن عجرة رضي الله عنه" مر بي النبي صلى الله عليه وسلم وانا اوقد تحت القدر، فقال: ايؤذيك هوام راسك؟، قلت: نعم، فدعا الحلاق فحلقه، ثم امرني بالفداء".(مرفوع) حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ وَأَيُّوبَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ" مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ الْقِدْرِ، فَقَالَ: أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَا الْحَلَّاقَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ أَمَرَنِي بِالْفِدَاءِ".
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح اور ایوب نے، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے قریب سے گزرے اور میں ہانڈی کے نیچے آگ سلگا رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارے سر کی جوویں تمہیں تکلیف پہنچاتی ہیں۔ میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام بلوایا اور اس نے میرا سر مونڈ دیا اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدیہ ادا کر دینے کا حکم فرمایا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ka`b bin 'Ujara: The Prophet passed by me while I was kindling a fire under a (cooking) pot. He said, "Do the lice of your head trouble you?" I said, "Yes." So he called a barber to shave my head and ordered me to make expiation for that."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 70, Number 569


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    1    2    3    4    5    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.