Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كتاب المرضى
کتاب: امراض اور ان کے علاج کے بیان میں
15. بَابُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ رَاكِبًا وَمَاشِيًا وَرِدْفًا عَلَى الْحِمَارِ:
باب: مریض کی عیادت کو سوار ہو کر یا پیدل یا گدھے پر کسی کے پیچھے بیٹھ کر جانا ہر طرح جائز درست ہے۔
حدیث نمبر: 5664
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدٍ هُوَ ابْنُ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" جَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي لَيْسَ بِرَاكِبِ بَغْلٍ وَلَا بِرْذَوْنٍ".
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے محمد نے جو منکدر کے بیٹے ہیں اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے آپ نہ کسی خچر پر سوار تھے نہ کسی گھوڑے پر۔ (بلکہ آپ پیدل تشریف لائے تھے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 5664 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5664  
حدیث حاشیہ:
(1)
خچر یا گھوڑے پر سوار نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل تشریف لائے تھے، چنانچہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پیدل چل کر میری عیادت کو آئے۔
(مسند أحمد: 307/3، و فتح الباري: 152/10) (2)
بہرحال مریض کی عیادت کرنا ایک مسلمان کا اخلاقی فرض ہے جسے ہر صورت ادا کرنا چاہیے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5664   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 194  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بیہوش آدمی پر اپنے وضو کا پانی چھڑکنے کے بیان میں`
«. . . حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرًا، يَقُولُ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا مَرِيضٌ لَا أَعْقِلُ، " فَتَوَضَّأَ وَصَبَّ عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ "، فَعَقَلْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَنِ الْمِيرَاثُ؟ إِنَّمَا يَرِثُنِي كَلَالَةٌ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْفَرَائِضِ . . . .»
. . . شعبہ نے محمد بن المنکدر کے واسطے سے، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں بیمار تھا ایسا کہ مجھے ہوش تک نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرا وارث کون ہو گا؟ میرا تو صرف ایک کلالہ وارث ہے۔ اس پر آیت میراث نازل ہوئی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ صَبِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءَهُ عَلَى الْمُغْمَى عَلَيْهِ:: 194]
تشریح:
کلالہ اس کو کہتے ہیں جس کا نہ باپ دادا ہو، نہ اس کی اولاد ہو۔ باب کی مناسبت اس سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا بچا ہوا پانی جابر پر ڈالا۔ اگر یہ ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ڈالتے۔ آیت یوں ہے۔ «يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ» [4-النساء:176] تفصیلی ذکر کتاب التفسیر میں آئے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 194   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5651  
5651. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ سخت بیمار ہوا تو نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پیدل چلتے ہوئے میری مزاج پرسی کرنے تشریف لائے۔ اس وقت انہوں نے مجھے بے ہوش پایا۔ نبی ﷺ نے وضو کیا، کیا پھر اس وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیسے تقسیم کروں؟ کس طرح اس کے متعلق فیصلہ کروں؟ آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5651]
حدیث حاشیہ:
یعنی ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ الخ (النساء: 11)
یہ آیت اتری جس نے اولاد کے حقوق متعین کر دیئے اور کسی کو اس بارے میں پوچھنے کی ضرورت نہیں رہی، کوتاہی کرنے والوں کی ذمہ داری خود ان پر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5651   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5676  
5676. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ میرے ہاں تشریف لائے، جبکہ میں بیمار تھا آپ نے وضو فرمایا اور وجو کا پانی مجھ پر ڈالا یا آپ نے فرمایا: (یہ پانی) اس پر بہا دو۔ اس سے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں، میرے ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی؟ اس پر فرائض کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5676]
حدیث حاشیہ:
﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ (النساء: 176)
اے پیغمبر! لوگ آپ سے کلالہ کے بارے میں پوچھنے ہیں کہو کہ اللہ کا اس کے متعلق یہ فتویٰ ہے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جابررضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی۔
سخت بیماری کی حالت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دیکھتے ہی بیتاب ہو گئے، علاج کے طریقہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کے بقیہ پانی کو حضرت جابر رضی اللہ عنہ پر ڈالتے ہی شفایابی ہو گئی، معلوم ہوا کہ وضو کا بچا ہوا پانی موجب شفا ہے۔
ایک روز حضرت جابر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کی دیوار کے سایہ میں بیٹھے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سامنے سے گزر ے یہ دوڑ کر ساتھ ہو لیے ادب کے خیال سے پیچھے چل رہے تھے فرمایا پاس آ جاؤ۔
ان کا ہاتھ پکڑ کر کاشانہ اقدس کی طرف لائے اور پردہ گرا کر اندر بلایا۔
اندر سے تین ٹکیا اور سرکہ ایک صاف کپڑے پر رکھ کر آیا آپ نے ڈیڑھ ڈیڑھ روٹی تقسیم کی اور فرمایا کہ سرکہ بہت عمدہ سالن ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن سے سرکہ کو میں بہت محبوب رکھتا ہوں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ زندگی کے آخر سال بہت ہی ضعیف و ناتواں اور آنکھوں سے نابینا ہو گئے تھے۔
بعمر94 سال سنہ74 ھ میں مدینہ میں وفات پائی، (رضي اللہ عنه)
۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5676   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7309  
7309. سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے۔ جب یہ حضرات میرے پاس پہنچے تو مجھ پر غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے متعلق کس طرح فیصلہ کروں؟ میں اپنے مال کا کیا کروں؟ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7309]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے آپ کا سکوت نکلا‘ وحی اترنے تک لیکن یہ فرمانا کہ میں نہیں جانتا ابن حبان کی روایت میں ہے‘ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سی جگہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جانتا۔
دار قطنی اور حاکم کی روایت میں ہے آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا حدود گناہ کرنے والوں کا کفارہ ہیں یا نہیں۔
مہلب نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعضے مشکل مقالات میں سکوت فرمایا لیکن آپ ہی نے اپنی امت کو قیاس کی تعلیم فرمائی۔
ایک عورت سے فرمایا اگر تیرے باپ پر قرض ہوتا تو ادا کرتی یا نہیں؟ تو اللہ کا حق ضرور ادا کرنا ہوگا۔
یہ عین قیاس ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بالکل قیاس نہ کرنا چاہیے بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا قیاس جو اصول شرعیہ کے خلاف ہو یا کسی دلیل شرعی پر مبنی نہ ہو صرف ایک خیالی بات ہو نہ کرنا چاہیے اور یہ مسئلہ تو علماء کا اجماعی ہے کہ نص موجود ہوتے ہوئے قیاس جائز نہیں اور جو شخص حدیث کا خلاف کرے حالانکہ وہ دوسری حدیث سے اس کا معارضہ نہ کرتا ہو نہ اس کے نسخ کا دعویٰ کرے نہ اس کی سند میں قدح کرے تو اس کی عدالت جاتی رہے گی وہ لوگوں کا امام کہاں ہو سکتا ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ تو سر اور آنکھوں پر ہے اور صحابہ کے مختلف قولوں میں سے ہم کوئی قول چن لیں گے میں کہتا ہوں بس حنفیہ کو اپنے امام کے قول پر تو کم از کم چلنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7309   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7309  
´ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی مسئلہ رائے یا قیاس سے نہیں بتلایا`
«. . . جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ:" مَرِضْتُ، فَجَاءَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَأَبُو بَكْرٍ وَهُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ، فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَبَّ وَضُوءَهُ عَلَيَّ، فَأَفَقْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي؟، قَالَ: فَمَا أَجَابَنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ . . .»
. . . جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچے تو مجھ پر بے ہوشی طاری تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اور بعض اوقات سفیان نے یہ الفاظ بیان کئے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے بارے میں کس طرح فیصلہ کروں، میں اپنے مال کا کیا کروں؟ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7309]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7309 کا باب: «بَابُ مَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ مِمَّا لَمْ يُنْزَلْ عَلَيْهِ الْوَحْيُ فَيَقُولُ: «لاَ أَدْرِي»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ترجمۃ الباب قائم فرمایا ہے یہ باب کئی فوائد پر مشتمل ہے، اور آپ رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے جو واضح کرنا چاہا وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب تک کسی مسئلے پر وحی کا نزول نہ ہوتا تو رائے نہ دیتے اور نہ ہی قیاس کرتے، اس کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیتے کہ «لا أدري» کہ میں نہیں جانتا۔ تحت الباب سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل فرمائی، جو تعلیقاً ذکر فرمائی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کی بابت سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے بظاہر باب سے مناسبت ظاہر ہے، اس کے بعد جو حدیث سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے نقل فرمائی ہے اس کا باب سے مطابقت ہونا معلوم نہیں ہوتا، کیوں کہ باب میں «لا أدري» کا ذکر ہے جبکہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ الفاظ وارد نہیں ہیں، اسی وجہ سے علامہ کرمانی رحمہ اللہ یہ اعتراض کر بیٹھے کہ:
«وقال الكرماني فى قوله فى الترجمة لا أدري حزازة إذ ليس فى الحديث ما يدل عليه.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14]
کرمانی نے کہا کہ ترجمۃ الباب میں ان کے «لا أدري» لکھنے میں حزازت یعنی بےاعتدالی ہے کیوں کہ حدیث میں اس (الفاظ) پر کوئی چیز دلالت نہیں کرتی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے راقم ہیں:
«والذى يظهر أنه أشار فى الترجمة إلى ما ورد فى ذالك ولكنه لم يثبت عنده من شيئي على شرطه.»
ظاہر یہ ہے کہ ترجمۃ الباب میں اس بابت وارد کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن اپنی شرط پر نہ ہونے کی وجہ سے اس میں کچھ نقل نہیں کیا۔
کتب احادیث میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں یہ الفاظ «لا أدري» کے وارد ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ان احادیث کو نقل فرماتے ہیں، مثلاً آپ لکھتے ہیں:
اس بابت متعدد روایات موجود ہیں (مثلاً) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا: «أى البقاع خير» یعنی کون سا علاقہ بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا أدري» پھر حضرت جبریل علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی سوال ان کے آگے رکھا تو انہوں نے بھی یہی کہا: «لا أدري»، تو فرمایا: «سل ربك فانتقض جبريل انتقاضة» ۔ [فتح الباري لابن حجر: 249/14]
لہٰذا یہ بات واضح ہوئی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «لا أدري» کے الفاظ تحت الباب نقل نہیں فرمائے بلکہ اس قسم کے الفاظ دیگر احادیث میں وارد ہیں، مگر آپ نے صرف اشارہ کر دیا باب کے ذریعے کیوں کہ وہ احادیث آپ کی شرط پر نہ تھیں۔

اس بات کو بھی مدنظر رکھا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مطلق اجتہاد اور قیاس کی نفی نہیں فرما رہے بلکہ آپ رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان پیچیدہ سوالات پر خاموش رہتے جس کے بارے میں شریعت میں اصول نہ تھے، اگر کسی سوال کے بارے میں شریعت میں پہلے سے ہی اصول موجود ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوال کو اس اصول پر قیاس فرماتے ( «كما لا يخفى على أهل العلم») چنانچہ اس اصولی گفتگو کو کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مہلب رحمہ اللہ کا قول نقل فرمایا ہے، آپ لکھتے ہیں:
«وقد نقل ابن بطال عن المهلب ما معناه إنما سكت النبى صلى الله عليه وسلم فى أشياء معضلة ليست لها أصول فى الشريعة، فلا بد فيها من اطلاع الوحي و إلا فقد شرع صلى الله عليه وسلم لأمته القياس، و أعلمهم كيفية الاستنباط فيما لا نص فيه، حيث قال للنبي سألته هل تحج عن أمها: فالله أحق بالقضاء، و هذا هو القياس فى لغة العرب.» [فتح الباري لابن حجر: 248/14]
ابن بطال نے مہلب رحمہ اللہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراصل ان پیچیدہ اشیاء کی بابت سوال ہونے پر خاموشی اختیار فرماتے جن کے لیے شریعت میں اصول نہ تھے تو ان میں وحی کا انتظار ضروری تھا، وگرنہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے قیاس مشروع کیا ہے اور انہیں کیفیت استنباط کی تعلیم دی ہے ان امور میں جن میں نص نہ ہو، مثلاً اس خاتون سے فرمایا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ کیا وہ اپنی والدہ کی طرف سے حج بدل کر سکتی ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: ( «فالله أحق بالقضاء») یہی لغت عرب میں قیاس ہے۔

علامہ مہلب رحمہ اللہ کی اس تفصیلی گفتگو سے یہ پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک خاموش رہتے جب تک وحی نازل نہ ہوتی، اور یہ ان پیچیدہ سوالات پر مبنی ہوتا جس کے بارے میں شریعت نے کوئی حکم نہیں اتارا ہوتا، اگر کسی مسئلے پر شریعت نے کوئی حکم نازل کر دیا ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر قیاس فرماتے تھے، اس کی امثلہ کتب احادیث میں کثیر ہیں۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 300   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 138  
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے آئے، دونوں نے مجھے بیہوش پایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر آپ نے اپنے وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 138]
138۔ اردو حاشیہ: ظاہر تو یہ ہے کہ اس پانی سے مراد پانی ہے جس سے آپ نے وضو فرمایا، گویا ماء مستعمل پاک ہوتا ہے، نیز اس سے بچا ہوا پانی بھی مراد ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 138   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري 5676  
«ومستعمل وغير مستعمل»
مستعمل اور غیر مستعمل (پانی میں کوئی فرق نہیں)۔
مستعمل (استعمال شدہ) پانی طاہر (پاک) ہے اور اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:
❀ حضرت عروہ اور حضرت مسور رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
«وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قریب ہوتے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے (بچے ہوئے) پانی کو لینے میں جھگڑا نہ شروع کر دیں۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 189، أحمد 329/4 - 330]
❀ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وضو کا پانی لایا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا تو لوگوں کی یہ حالت تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے پانی کو حاصل کر کے اسے (اپنے جسموں پر) لگاتے تھے۔ [بخاري/ كتاب الوضوء /باب استعمال فضل وضوء الناس/ ح: 187]
❀ جب جابر رضی اللہ عنہ مریض تھے تو نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوء کا پانی ان پر بہایا۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى/ بَابُ وُضُوءِ الْعَائِدِ لِلْمَرِيضِ:/ ح: 5676]
مستعمل پانی مطہر (یعنی پاک کرنے والا) بھی ہے۔ اگرچہ اس مسئلے کے اثبات کے لیے علماء کی طرف سے پیش کیے جانے والے مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کرنا تو محل نظر ہے لیکن یہ مسئلہ صحیح ثابت ہے۔
❀ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
«أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَسَحَ بِرَأْسِهِ مِنْ فَضْلِ مَاءٍ كَانَ فِي يَدِهِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح اسی زائد پانی سے کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں موجود تھا۔ [سنن ابي داود ح: 130] ۱؎
❀ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بیوی نے ایک ٹب میں غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ٹب سے وضو یا غسل کرنے کے لیے آئے تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ میں جنبی تھی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ الْمَاءَ لَا يُجْنِبُ» بے شک پانی ناپاک نہیں ہوتا۔ [أبو داود 68] ۲؎
واضح رہے کہ مستعمل پانی سے مراد فقہاء کے نزدیک ایسا پانی ہے جسے جنابت رفع کرنے کے لیے، یا رفع حدث (یعنی وضو یا غسل)کے لیے، یا ازالہ نجاست کے لیے، یا تقرب کی نیت سے اجر و ثواب کے کاموں (مثلاًً وضو پر وضو کرنا یا نماز جنازہ کے لیے، مسجد میں داخلے کے لیے، قرآن پکڑنے کے لیے وضو کرنا وغیرہ) میں استعمال کیا گیا ہو۔ [فتح القدير 58/1] ۳؎

مستعمل پانی کے حکم میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(ابوحنفیہ رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ) کسی حال میں بھی ایسے پانی کے ذریعے طہارت حاصل کرنا جائز نہیں۔ امام لیث رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب منقول ہے۔
(مالکیہ) مستعمل پانی کی موجودگی میں تیمم جائز نہیں۔
(ابویوسف رحمہ اللہ) مستعمل پانی نجس ہے (یاد رہے کہ یہ اپنے قول میں منفرد ہیں)۔
(اہل ظاھر) مستعمل پانی اور مطلق پانی میں کوئی فرق نہیں (یعنی جیسے مطلق پانی طاہر و مطہر ہے اسی طرح مستعمل پانی بھی طاہر و مطہر ہے) امام حسن، امام عطاء، امام نخعی، امام زہری، امام مکحول، اور امام احمد رحمہم اللہ اجمعین سے ایک روایت میں یہی مذہب مروی ہے۔ [بدائع الصنائع 66/1] ۴؎
(راجح) مستعمل پانی طاہر ومطہر ہے جیسا کہ ابتدا میں دلائل ذکر کر دیے گئے ہیں۔
(شوکانی رحمہ اللہ) مستعمل پانی سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [نيل الأوطار 85/1]
(ابن رشد رحمہ اللہ) مستعمل پانی حکم میں مطلق پانی کی طرح ہی ہے۔ [بداية المجتهد 55/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) حق بات یہی ہے کہ مجرد استعال کی وجہ سے پانی پاک کرنے والی صفت سے خارج نہیں ہوتا۔ [الروضة الندية 68/1]
(ابن حزم رحمہ اللہ) استعمال شدہ پانی کے ساتھ غسل جنابت اور وضو جائز ہے قطع نظر اس سے کہ دوسرا پانی موجود ہو یا نہ ہو۔ [المحلى بالآثار 182/1]

استعمال شدہ پانی کو مطہرنہ کہنے والوں کے دلائل اور ان پر حرف تنقید
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے سے منع فرمایا ہے لیکن اگر وہ دونوں اکٹھے چلو بھریں تو اس میں کوئی مضائقہ ہیں۔ [سنن ابن ماجه/ ح: 374] ۵؎
اس کا جواب اس طرح دیا گیا ہے کہ جواز کی احادیث کے قرینہ کی وجہ سے اس حدیث کی ممانعت کو نہی تنز یہی پر محمول کیا جائے گا۔ [سبل السلام 26/1]
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کر لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم/ 323] ۶؎
❀ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب اور غسل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري/ ح 239]
ان کے نزدیک (مذکورہ حدیث میں) ممانعت کا سبب یہ ہے کہ کہیں پانی مستعمل ہو کر غیر مطہر نہ ہو جائے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرما دیا، لیکن اس بات کا کوئی ثبوت موجو نہیں بلکہ منع کا سبب زیادہ سے زیادہ صرف یہی ہے کہ کہیں پانی خراب نہ ہو جائے اور اس کا نفع جاتا رہے اس بات کی تائید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول سے ہوتی ہے کو وہ شخص اسے (یعنی پانی کو) باہر نکال کر استعمال کر لے۔ [نيل الأوطار 58/1] ۷؎
امام ابن حزم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ ہم نے احناف کے جو اقوال نقل کیے ہیں ان میں سے عجیب ترین قول یہ ہے کہ ایک صاف ستھرے طاہر مسلمان کے وضو کا مستعمل پانی مردہ چوہے سے زیادہ نجس ہے۔ [المحلى بالآثار 150/1]
------------------
۱؎ [حسن: صحيح أبو داود 120، كتاب الطهارة: باب صفة وضوء النبى، أبو داود 130، تر مذي 33]
۲؎ [صحيح: صحيح أبو داود 16، كتاب الطهارة: باب الماء لا يجنب أبو داود 68، ابن ماجة 364، عارضة الأحوذي 82/1]
۳؎ [كشاف القناع 31/1-37، المغني 10/1، ہداية المجتهد 26/1، بدائع الصنائع 69/1، الدر المختار 182/1، فتح القدير 58/1]
۴؎ [والمجموع 151/1، المبسوط 46/1، بدائع الصنائع 66/1، مختصر الطحاوي 16، المغني 47/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/40، اللباب 76/1، الأصل 125/1]
۵؎ [صحيح: صحيح ابن ماجه 300، كتاب الطهارة وسننها: باب النهي عن ذلك، ابن ماجة 374، طحاوي 64/1، دار قطني 26/1]
۶؎ [مسلم 323، كتاب الحيض: باب القدر المستحب من الماء فى غسل الجنابة . . .، احمد 366/1، بيهقي 188/1]
۷؎ [نيل الأوطار 58/1، السيل الجرار 57/1، المحلي 186/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 135   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2886  
´کلالہ کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھے دیکھنے کے لیے پیدل چل کر آئے، مجھ پر غشی طاری تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات نہ کر سکا تو آپ نے وضو کیا اور وضو کے پانی کا مجھ پر چھینٹا مارا تو مجھے افاقہ ہوا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیا کروں اور بہنوں کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے، اس وقت میراث کی آیت «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة» آپ سے فتوی پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے (سورۃ النساء: ۱۷۶)، اتری ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الفرائض /حدیث: 2886]
فوائد ومسائل:
فائدہ: (کلالہ) سے مراد وہ میت ہے جس کے وارثو ں میں نہ کوئی اولاد ہو اور نہ والدین، دیگر رشتہ داروں یا نہ، یہ الگ بات ہے۔
آیت کی تفسیر، تفاسیر میں دیکھ لی جائے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2886   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3015  
´سورۃ نساء سے بعض آیات کی تفسیر۔`
محمد بن منکدر کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کو کہتے ہوئے سنا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے اس وقت مجھ پر بے ہوشی طاری تھی، پھر جب مجھے افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: میں اپنے مال میں کس طرح تقسیم کروں؟ آپ یہ سن کر خاموش رہے، مجھے کوئی جواب نہیں دیا، پھر یہ آیات «يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين» نازل ہوئیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3015]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم کرتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے (النساء: 11)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3015   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3851  
´جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے ۱؎، آپ نہ کسی خچر پر سوار تھے نہ ترکی گھوڑے پر۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3851]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
صحیح بخاری اور دیگرکتب سنن میں ہے کہ آپ میری عیادت کو آئے... بہرحال اس میں جابر رضی اللہ عنہ سے آپﷺ کے غایت درجہ محبت کرنے کی دلیل ہے،
کہ سواری نہ ہونے پر پیدل چل کراُن کی عیا دت کو گئے،
رضی اللہ عنہ۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3851   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1264  
1264- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں بیمار ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، یہ دونوں حضرات پیدل تشریف لائے تھے مجھ پر بے ہوشی طاری ہوئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا اور وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مجھ پر انڈیلا تو مجھے ہوش آگیا میں نے عرض کی: یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! میں اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ دوں؟ میں اپنے مال کے بارے میں کیا طریقہ اختیار کروں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، یہاں تک کہ وراثت سے متعلق آیت نازل ہوگئی۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1264]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بے ہوش آدمی پر پانی ڈالنے سے اس کی بے ہوشی ختم ہو جاتی ہے مستعمل پانی پاک ہے۔
اس حدیث میں آیت میراث کے شان نزول کا ذکر ہے، دیگر کتب حدیث میں اس کے سبب نزول کے بارے میں ایک دوسری روایت بھی ہے کہ سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ وفات پاگئے، اور ان کی بیٹیوں کے چچا نے سارا ورثہ سنبھال لیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی دولڑ کیاں تھیں، ان کی بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ورثے کا سوال کیا، تو یہ آیت نازل ہوئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد کی دو بیٹیوں کو دو تہائی اور ان کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو، اور جو بچ جائے وہ تمھارے لیے ہے۔ [سـتـن ابي داؤد كتاب الفرائض باب ما جاء فى ميراث الصلب: 2891 ـ عـن جابر بن عبدالله صلى الله عليه وسلم سنن الترمذي: 2092 مسند أحمد: حديث: 14810- وقـال البـاني: حسن]
آیت میراث کے بارے میں ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ دونوں آیات اور اس سورت کی آخری آیت علم وراثت میں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں، وراثت کے تفصیلی حصے ان تین آیات سے مستنبط ہیں، اور وراثت کے حصوں سے متعلقہ احادیث بھی ان آیات کی تفسیر ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1263   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4145  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار پڑ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر پیدل چل کر میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، تو مجھ پر غشی طاری ہو گئی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا، تو مجھے ہوش آ گیا، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں، کیسے تقسیم کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، حتی کہ وراثت... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4145]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں سے ہمدردی اور خیرخواہی اور آپﷺ کی سادگی و بے تکلفی کا پتہ چلتا ہے،
کہ آپﷺ پیدل چل کر بیمار پرسی کے لیے چلے جاتے تھے،
اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بے ہوش پر وضو کا پانی ڈالا جا سکتا ہے،
اور آپﷺ کے وضوء کے پانی کی برکت سے ہوش میں آ جانے سے یہ استدلال کرنا کہ آثار صالحین سے برکت لینا درست ہے،
صحیح نہیں ہے،
کیونکہ دوسرے صالحین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا درست نہیں ہے،
اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام عشرہ مبشرہ کے برکات کا اہتمام کرتے،
مزید برآں احناف کے ہاں تو،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات بھی پاک ہیں،
تو کیا بزرگوں کے فضلات سے بھی برکت حاصل کی جائے گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4145   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4146  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے پیدل چل کر، بنو سلمہ میں میری بیمار پرسی کی، اور انہوں نے مجھے بے ہوش پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر اس سے مجھ پر چھڑکا، تو میں ہوش میں آ گیا، تو میں نے پوچھا، میں اپنے مال میں کیا کروں؟ یعنی کیسے تقسیم کروں، اے اللہ کے رسول! تو یہ آیت اتری، اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں تلقین فرماتا ہے، کہ مذکر کے لیے مؤنث... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4146]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا نظریہ یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے آیت کی تعیین نہیں فرمائی،
جیسا کہ اگلی روایت میں آ رہا ہے،
حتي نزلت آيت الميراث،
وراثت کے بارے میں آیت اتری،
پھر،
اپنے فہم کے مطابق،
ابن جریج نے آیت وراثت کا مصداق،
﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ﴾ کو بنایا،
اور ابن عیینہ نے،
کلالۃ کی مناسبت سے ﴿يَسْتَفْتُونَكَ﴾ کو اس پر چسپاں کیا،
اور صحیح بات ابن جریج کی ہے،
کیونکہ ﴿يَسْتَفْتُونَكَ﴾ والی آیت تو بہت بعد میں اتری،
جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا واقعہ پہلے پیش آ چکا ہے،
اور ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ﴾ والی آیت کے بعد والی آیت میں کلالہ کی وراثت کا حکم بیان کیا گیا ہے،
جس سے معلوم ہوتا،
سورۃ نساء کی آیت نمبر 11،
اور نمبر 12،
اکٹھی اتری ہیں،
لیکن سنن ابی داود کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عیینہ والی آیت کی تعیین خود حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمائی ہے،
نیز آیت نمبر 12 میں جس کلالہ کا حکم بیان کیا گیا ہے،
وہ اخیافی بھائی،
بہن ہیں،
جبکہ حضرت جابر کی بہنیں شقیقہ تھیں،
یا علاتی تھیں،
اس لیے حضرت جابر کے شاگرد محمد بن منکدر نے بھی،
حضرت شعبہ رحمہ اللہ کو جواب دیتے ہوئے،
ابن عیینہ والی آیت ہی بیان کی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4146   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4148  
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جبکہ میں بیماری کی وجہ سے کچھ شعور نہ رکھتا تھا، (بے ہوش تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تو لوگوں نے مجھ پر آپﷺ کے وضوء کا پانی ڈالا، تو مجھے ہوش آ گیا، اور میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرا وارث کلالہ ہو گا، اس پر میراث کے بارے میں آیت اتری، امام شعبہ کہتے ہیں، میں نے اپنے استاد محمد بن منکدر سے پوچھا، ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4148]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہاں کلالہ سے مراد،
وہ وارث ہے جو اصل ہے (باپ،
دادا)

اور نہ فرع (بیٹا،
پوتا)

،
کیونکہ اس وقت صرف حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ہمشیرگان وارث تھیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:194  
194. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں ایسا سخت بیمار تھا کہ کوئی بات نہ سمجھ سکتا تھا۔ آپ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرا وارث کون ہو گا؟ میرا تو کوئی کلالہ ہی وارث بنے گا، تب آیت وراثت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:194]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت جابر ؓ کو بے ہوشی کا دورہ پڑا ہوا تھا۔
(صحیح البخاري، المرض، حدیث: 5651)
رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ تھے اور دونوں قبیلہ بنوسلمہ کے ہاں ان کی تیمارداری کے لیے پیدل گئے تھے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577)
علامہ کرمانی نے اِغماء اور غشی کو ایک معنی میں لکھا ہے۔
(شرح الکرماني: 41/2)
لیکن ان دونوں میں بایں طورفرق ہے کہ غشی ایک مرض کا نام ہے جو اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے ہوتی ہے، اور یہ اغماء سے کم درجہ ہوتی ہے۔
اغماء میں عقل مغلوب ہوجاتی ہے جبکہ دیوانگی یا جنون میں عقل مسلوب ہوجاتی ہے۔
نیند کے وقت عقل مسلوب نہیں ہوتی بلکہ مستور ہوتی ہے۔
اس عنوان سے امام بخاری ؒ کی غرض سابق باب کی تائید ہے کہ ماء مستعمل پاک ہے۔
اگرپاک نہ ہوتا تورسول اللہ ﷺ اسے حضرت جابر ؓ پر کیوں چھڑکتے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس سے مراد وہ پانی بھی ہو سکتا ہے جو وضو کرتے وقت استعمال ہوا جسے ماءِ متقاطر کہتے ہیں اور وہ پانی بھی مراد ہوسکتا ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ گیا تھا۔
لیکن قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے ماءِ متقاطر مراد ہے، کیونکہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث: 7309)
ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا، پھر اس پانی کو مجھ پر چھڑکا۔
(سنن أبي داود، الفرائض، حدیث: 2886)

عام طور پر کلالہ کا اطلاق اس میت پر ہوتا ہے جس کے اصول وفروع میں سے کوئی نہ ہو، یعنی اس کی اولاد بھی نہ ہو اور نہ باپ دادا ہی میں سے کوئی زندہ ہو۔
مجازی طور پر میت کے وارث جو بے سہارا ہوں انھیں بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔
اس روایت میں کلالہ دوسرے معنی میں استعمال ہوا ہے۔
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میری وارث میری ہمشیرگان ہیں جو بے سہارا ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ترکے کو بھی کلالہ کہا جاتا ہے۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام معلوم ہوئے:
(الف)
۔
رسول الله ﷺ کے دست مبارک کی برکت سے بیماری وغیرہ دورہوجاتی تھی۔
(ب)
۔
بزرگوں کے دم وغیرہ سے بھی فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔
(ج)
۔
بیماروں کی تیمارداری کرنا بہت بڑی فضیلت کا عمل ہے۔
(د)
۔
بڑوں کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں کی تیمارداری کریں، ایساکرنا مسنون ہے۔

آیت میراث سے مراد:
﴿ يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ﴾ سے لے کر ﴿وَصِيَّةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ﴾ تک ہے۔
جیساکہ امام بخاری ؒ نے کتاب الفرائض کے آغاز میں بیان کیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَإِن كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ﴾ اگر کوئی موروث مرد یا عورت کلالہ ہواور اس کی ایک(اخیافی)
بہن یا بھائی ہوتوان دونوں میں سے ہرایک کا چھٹا چھٹا حصہ ہے۔
کلالہ کے متعلق یہ وضاحت حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کرنے پر نازل ہوئی تھی۔
اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت جابر ؓ کی مذکورہ حالت کے پیش نظر سورہ نساء کی آخری آیت نازل ہوئی تھی، لیکن راجح بات امام بخاری ؒ کی بیان کردہ ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 194   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4577  
4577. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ پیدل چل کر بنو سلمہ میں آئے اور میری تیمارداری کی۔ میں اس وقت بےہوش تھا۔ آپ ﷺ نے پانی منگوایا، اس سے وضو کیا، پھر آپ نے وہ پانی مجھ پر چھڑک دیا۔ مجھے ہوش آئی تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میرے مال کے متعلق کیا حکم دیتے ہیں؟ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: "اللہ تعالٰی تمہیں تمہاری اولاد کی بابت وصیت کرتا ہے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:4577]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت حضرت جابر ؓ کے متعلق نازل ہوئی جبکہ ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق حضرت سعد بن ربیع ؓ سے ہے چنانچہ حضرت جابر ؓ ہی روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد بن ربیع ؓ کی بیوی اپنی بیٹیوں کے ہمراہ رسول اللہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ!یہ دونوں سعد بن ربیع ؓ کی بیٹیاں ہیں اور وہ آپ کے ہمراہ جنگ اُحد میں لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ہیں اب ان کا چچا ترکے پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
آپ نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ اس کے متعلق ضرور فیصلہ کرے گا۔
" تب یہ آیت نازل ہوئی۔
(جامع الترمذي، الفرائض، حدیث: 2092)
ان دونوں روایات میں تطبیق کی یہ صورت ممکن ہے کہ مذکورہ آیت دونوں واقعات سے متعلق ہے۔
اس کا پہلا حصہ حضرت سعد بن ربیع ؓ سے متعلق ہے اور دوسرا حصہ جس میں کلالہ کی وراثت کا ذکر ہے وہ حضرت جابر ؓ کے بارے میں ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ کلالہ تھے اور آیت کلالہ ﴿وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً﴾ ہے جو آیت میراث کے آخر میں ہے۔
(فتح الباري: 308/8)
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4577   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5651  
5651. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک دفعہ سخت بیمار ہوا تو نبی ﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پیدل چلتے ہوئے میری مزاج پرسی کرنے تشریف لائے۔ اس وقت انہوں نے مجھے بے ہوش پایا۔ نبی ﷺ نے وضو کیا، کیا پھر اس وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا تو میں ہوش میں آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ نبی ﷺ تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنا مال کیسے تقسیم کروں؟ کس طرح اس کے متعلق فیصلہ کروں؟ آپ ﷺ خاموش رہے یہاں تک کہ آیت میراث نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5651]
حدیث حاشیہ:
(1)
آیت میراث سے مراد یہ آیت ہے:
﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ (النساء: 11)
اس آیت کریمہ میں ترکہ تقسیم کرنے کے متعلق ہدایات ہیں۔
اب ترکے کے متعلق کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ تیمارداری کا تعلق صرف مریض سے نہیں ہے کہ اگر اسے شعور نہیں تو عیادت نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس میں اہل خانہ کو صبر کی تلقین کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی تیمارداری میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ مریض کے لیے دعا کرنا، اس کے سر پر ہاتھ رکھنا اور دیگر امور بھی اس مزاج پرسی میں شامل ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے ہوش کی تیمارداری کی اور اسے جائز قرار دیا۔
(فتح الباري: 141/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5651   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5676  
5676. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ میرے ہاں تشریف لائے، جبکہ میں بیمار تھا آپ نے وضو فرمایا اور وجو کا پانی مجھ پر ڈالا یا آپ نے فرمایا: (یہ پانی) اس پر بہا دو۔ اس سے مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں، میرے ترکے کی تقسیم کیسے ہوگی؟ اس پر فرائض کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5676]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت محبت تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں بے ہوشی کی حالت میں دیکھا تو بے قرار ہو گئے۔
آپ نے فوراً وضو کیا اور علاج کے طور پر وضو کا بقیہ پانی حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے اوپر ڈالا۔
انہیں فوراً ہوش آ گیا۔
(2)
معلوم ہوا مریض کے لیے وضو سے بچا ہوا پانی باعث شفا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مریض کے لیے وضو کرنا اس صورت میں ہے جب تیمارداری کرنے والا اس حیثیت کا ہو کہ اس سے تبرک حاصل کیا جا سکتا ہے۔
(فتح الباري: 164/10)
لیکن یہ بات محل نظر معلوم ہوتی ہے کیونکہ اصل شفا تو وضو کے پانی میں ہے بزرگ خواہ کس طرح کا ہو۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5676   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6723  
6723. حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ پیدل چل کر میری عیادت کے لیے آئے۔ یہ دونوں حضرات جب ائے تو مجھ غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو سے بچا ہوا پانی مجھ پر چھڑکا۔ مجھے جب ہوش آیا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ اپنے مال کے متعلق کیا فیصلہ کروں؟ (یہ سن کر) آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت کریمہ نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6723]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا:
میری تو صرف بہنیں ہیں تو اس وقت آیت فرائض نازل ہوئی۔
(صحیح البخاري، الفرائض، حدیث: 6743)
کتاب التفسیر میں ہے کہ اس وقت ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ (النساء: 11/4)
نازل ہوئی۔
(صحیح البخاري، حدیث: 4577)
ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا:
اللہ کے رسول! میں تو کلالہ ہوں اور میری وراثت کس کو ملے گی تو آیت فرائض نازل ہوئی۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 194)
امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اس وقت ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾ (النساء: 176/4)
نازل ہوئی۔
(2)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دونوں آیات میں کلالہ کا ذکر ہے۔
پہلی آیت میں مادری بہن بھائیوں کے لیے وراثت کا ذکر تھا جبکہ دوسری آیت میں حقیقی اور پدری بہن بھائیوں کو کلالہ کی وراثت ملنے کا بیان ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی شان نزول اس طرح مروی ہے کہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی:
اللہ کے رسول! حضرت سعد تو آپ کے ہمراہ غزوۂ اُحد میں شہید ہو گئے اور ان کی یہ دو بیٹیاں ہیں لیکن ان کے بھائی نے ان کا سارا مال قبضے میں لے لیا ہے۔
آپ نے فرمایا:
اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا، اس کے بعد آیت میراث نازل ہوئی تو آپ نے اس کے بھائی کو بلا کر کہا کہ سعد کے ترکے سے دو تہائی اس کی بیٹیوں کو اور آٹھواں حصہ اس کی بیوی کو دو، ان سے جو باقی بچے گا وہ آپ کا ہے۔
(مسند أحمد: 352/3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ممکن ہے کہ ابتدائی حصہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بیٹیوں کے متعلق نازل ہوا ہو اور جس آیت میں کلالہ کا ذکر ہے وہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو۔
(فتح الباري: 308/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6723   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6743  
6743. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میں بیمار تھا۔ آپ نے پانی منگوایا اور وضو فرمایا: پھر اپنے وضو کے پانی سے مجھ پر چھینٹنے مارے تو مارے مجھے ہوش آگیا۔ میں نےعرض کی: اللہ کے رسول! میری بہنیں ہیں اس پر فرائض سے متعلقہ آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6743]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک حدیث میں صراحت ہے کہ تیماداری کرنے والوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور ﴿يُوصِيكُمُ اللَّـهُ فِي أَوْلَادِكُمْ﴾ نازل ہوئی تھی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4577)
ایک روایت میں ہے کہ میرا وارث تو کلالہ ہے۔
(صحیح البخاري، حدیث: 5676)
اس سے مراد ان کی بہنیں ہیں۔
یہ صراحت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اولاد نہ تھی۔
(2)
فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ حقیقی بہن یا بھائی یا پدری بہن بھائی، بیٹے اور پوتے کی موجودگی میں وارث نہیں ہوتے لیکن دادے کی موجودگی میں بہنوں کے وارث ہونے کے متعلق اختلاف ہے۔
ایک بہن ہو تو نصف، دویازیادہ کو دوتہائی، اگر صرف ایک بھائی ہو تو سارا مال اور متعدد ہوں تو اسے آپس میں تقسیم کریں گے۔
اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو بھائی کو بہن سے دوگنا دیا جائے گا جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے، مذکورہ صورتوں میں کوئی اختلاف نہیں، البتہ درج ذیل صورت میں اختلاف ہے:
ایک عورت فوت ہوئی، اس کا خاوند، ماں، دو مادری بہنیں اور حقیقی بھائی موجود تھا۔
اس صورت میں خاوند کا حصہ نصف، ماں کو1/6 اور دومادری بہنوں کو2/3 ملے گا۔
مسئلہ 6 سے ہوگا تین حصے خاوند کا، ایک حصہ ماں کا اور دو حصے مادری بہنوں کے ہیں، اس طرح ترکہ ختم ہو جاتا ہے اور حقیقی بھائی کے لیے کچھ نہیں رہتا، لہٰذا وہ محروم ہے۔
حضرت علی، حضرت ابی اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم کا یہی موقف ہے جبکہ جمہور اہل علم کہتے ہیں کہ حقیقی بھائی کو مادری بہنوں کے ساتھ 1/3 میں شریک کیا جائے، اسے محروم کرنا مناسب نہیں ہے۔
(فتح الباري: 32/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6743   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7309  
7309. سیدنا جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور سیدنا ابو بکر ؓ میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے۔ جب یہ حضرات میرے پاس پہنچے تو مجھ پر غشی طاری تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے افاقہ ہوا تو میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے متعلق کس طرح فیصلہ کروں؟ میں اپنے مال کا کیا کروں؟ آپ ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ میراث کی آیت نازل ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7309]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایسی چیز کے متعلق سوال کیاجاتا جس کے بارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہتے یا فرماتے کہ مجھے اس کا علم نہیں ہے، عقل وقیاس سے جواب نہ دیتے تھے۔
جب وحی آتی تو اس کا جواب دیتے۔
پھر وحی عام ہے کہ قرآن کی شکل میں آتی یا بیان کی صورت میں۔
بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر دینی مسائل کا جواب نہ دیتے تھے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وہ اپنی خواہش سے کچھ نہیں کہتے،جو کہتے ہیں وہ نازل کی ہوئی وحی ہوتی ہے۔
(النجم: 3، 4)

صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی یہی معمول تھا، چنانچہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
جسے کسی چیز کے متعلق علم ہو اس کے مطابق جواب دے اور جسے علم نہ ہو وہ اللہ اعلم کہہ دے۔
یہ کہہ دینا بھی اس کےعالم ہونے کی علامت ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تعلیم دی ہے، پھر انہوں نے سورہ ص آیت: 86 تلاوت کی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4809)
ایسےموقع پر خاموشی اختیا رکرنے کی مثال تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود بیان کردی ہے۔
(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 125)
اور (لا أدري)
کہنے کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے:
مجھے معلوم نہیں کہ حدود، گناہ کے مرتکب کے لیے کفارہ ہیں یا نہیں۔
(المستدرك للحاکم: 450/2)

واضح رہے کہ علم سے مراد وہ معلومات ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ذریعے سے فراہم ہوں اور جو معلومات ان سے بالا بالا حاصل کی جائیں وہ شریعت کی نظر میں علم نہیں ہے۔

سوالات کا جواب دینے میں سلف صالحین کی تین قسمیں ہیں:
الف۔
صرف قرآن وحدیث اور اقوال صحابہ کرام رضوان اللہ عنھن اجمعین کی روشنی میں جواب دیتے۔
اگر ان کے پاس کوئی دلیل نہ ہوتی تو خاموشی اختیار کرتے۔
ب۔
انھوں نے رائے اور قیاس کو استعمال کرتے ہوئے جوابات دیے، پھر فرضی مسائل کے ڈھیر لگا دیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایسے ہی لوگوں کی تردید کرتے ہیں۔
ج۔
جب ان کے پاس قرآن وحدیث سے کوئی دلیل ہوتی تو اس کی روشنی میں جواب دیتے بصورت دیگر خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عقل اورقیاس سے جواب دیتے۔
یہ آخری قابل ستائش اور لائق تعریف ہے۔
(فتح الباري: 357/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7309