● صحيح البخاري | 4191 | كعب بن عجرة | نزلت هذه الآية فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح البخاري | 4190 | كعب بن عجرة | احلق وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين أو انسك نسيكة |
● صحيح البخاري | 4517 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع من طعام واحلق رأسك |
● صحيح البخاري | 5665 | كعب بن عجرة | أيؤذيك هوام رأسك قلت نعم فدعا الحلاق فحلقه ثم أمرني بالفداء |
● صحيح البخاري | 5703 | كعب بن عجرة | احلق وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة أو انسك نسيكة |
● صحيح البخاري | 4159 | كعب بن عجرة | أنزل الله الفدية يطعم فرقا بين ستة مساكين أو يهدي شاة أو يصوم ثلاثة أيام |
● صحيح البخاري | 6708 | كعب بن عجرة | فدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح البخاري | 1816 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين لكل مسكين نصف صاع |
● صحيح البخاري | 1815 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو تصدق بفرق بين ستة أو انسك بما تيسر |
● صحيح البخاري | 1814 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين أو انسك بشاة |
● صحيح البخاري | 1817 | كعب بن عجرة | يطعم فرقا بين ستة أو يهدي شاة أو يصوم ثلاثة أيام |
● صحيح مسلم | 2882 | كعب بن عجرة | احلق رأسك ثم اذبح شاة نسكا أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ثلاثة آصع من تمر على ستة مساكين |
● صحيح مسلم | 2877 | كعب بن عجرة | احلق وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين أو انسك نسيكة |
● صحيح مسلم | 2879 | كعب بن عجرة | فدية من صيام أو صدقة أو نسك ما تيسر |
● صحيح مسلم | 2880 | كعب بن عجرة | احلق رأسك في نزلت هذه الآية فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح مسلم | 2881 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وأطعم فرقا بين ستة مساكين والفرق ثلاثة آصع أو صم ثلاثة أيام أو انسك نسيكة |
● صحيح مسلم | 2883 | كعب بن عجرة | ما كنت أرى أن الجهد بلغ منك ما أرى أتجد شاة فقلت لا نزلت هذه الآية ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● صحيح مسلم | 2884 | كعب بن عجرة | يصوم ثلاثة أيام أو يطعم ستة مساكين لكل مسكينين صاع أنزل الله فيه خاصة فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه |
● جامع الترمذي | 2974 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وانسك نسيكة أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين |
● جامع الترمذي | 953 | كعب بن عجرة | احلق وأطعم فرقا بين ستة مساكين والفرق ثلاثة آصع أو صم ثلاثة أيام أو انسك نسيكة |
● جامع الترمذي | 2973 | كعب بن عجرة | كأن هوام رأسك تؤذيك قال قلت نعم قال فاحلق |
● سنن أبي داود | 1856 | كعب بن عجرة | احلق ثم اذبح شاة نسكا أو صم ثلاثة أيام أو أطعم ثلاثة آصع من تمر على ستة مساكين |
● سنن أبي داود | 1858 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو تصدق بثلاثة آصع من تمر على ستة مساكين بين كل مسكينين صاع |
● سنن أبي داود | 1857 | كعب بن عجرة | انسك نسيكة وإن شئت فصم ثلاثة أيام وإن شئت فأطعم ثلاثة آصع من تمر لستة مساكين |
● سنن أبي داود | 1860 | كعب بن عجرة | احلق رأسك وصم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين فرقا من زبيب أو انسك شاة فحلقت رأسي ثم نسكت |
● سنن النسائى الصغرى | 2854 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين مدين مدين أو انسك شاة أي ذلك فعلت أجزأ عنك |
● سنن النسائى الصغرى | 2855 | كعب بن عجرة | احلقه وتصدق على ستة مساكين |
● سنن ابن ماجه | 3079 | كعب بن عجرة | نزلت هذه الآية ففدية من صيام أو صدقة أو نسك |
● سنن ابن ماجه | 3080 | كعب بن عجرة | أحلق رأسي وأصوم ثلاثة أيام أو أطعم ستة مساكين وقد علم أن ليس عندي ما أنسك |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 335 | كعب بن عجرة | صم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين مدين مدين لكل إنسان، او انسك بشاة، اى ذلك فعلت اجزا عنك |
● بلوغ المرام | 603 | كعب بن عجرة | فصم ثلاثة ايام، او اطعم ستة مساكين، لكل مسكين نصف صاع |
● مسندالحميدي | 726 | كعب بن عجرة | أيؤذيك هوامك يا كعب |
● مسندالحميدي | 727 | كعب بن عجرة | أوقد تحت قدر |
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1856
´محرم کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے زمانے میں ان کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوؤں نے ایذا دی ہے؟“ کہا: ہاں، اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈوا دو، پھر ایک بکری ذبح کرو، یا تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو تین صاع کھجور کھلاؤ ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1856]
1856. اردو حاشیہ:
➊ اعمال حج میں کیس تقصیر پرمشروع قربانی صدقہ یا روزہ رکھنا فدیہ کہلاتا ہے۔بمعنی عوض یا بدل
➋ ایک صاع چار مد کا ہوتا ہے۔اور ایک مد تقریباً 9 چھٹانک کا۔تین صاع چھ مسکینوں پر تقسیم کریں گے۔تو ہر مسکین کو دو مد (18چھٹا نک) ملیں گے۔ پس یہی فدیے کا حساب ہوا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1856
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1860
´محرم کے فدیہ کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال میرے سر میں جوئیں پڑ گئیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا یہاں تک کہ مجھے اپنی بینائی جانے کا خوف ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے سلسلے میں «فمن كان منكم مريضا أو به أذى من رأسه» کی آیت نازل فرمائی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور مجھ سے فرمایا: ”تم اپنا سر منڈوا لو اور تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو ایک فرق ۱؎ منقٰی کھلاؤ، یا پھر ایک بکری ذبح کرو“ چنانچہ میں نے اپنا سر منڈوایا پھر ایک بکری کی قربانی دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1860]
1860. اردو حاشیہ: علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔کہ اس روایت میں زہیب یعنی کشمش کا زکر منکر ہے صحیح بات کھجور ہی ہے۔ فرق تین صاع کا برتن یا ٹوکری ہوتی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1860
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2854
´سر میں جوں کی وجہ سے تکلیف میں محرم کے بال منڈوانے کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ احرام باندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو ان کے سر کے جوئیں انہیں تکلیف دینے لگیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سر منڈا لینے کا حکم دیا اور فرمایا: ”(اس کے کفارہ کے طور پر) تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کوفی مسکین دو دو مد کے حساب سے کھانا کھلاؤ، یا ایک بکری ذبح کرو، ان تینوں میں سے جو بھی کر لو گے تمہاری طرف سے کافی ہو جائے گا۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2854]
اردو حاشہ:
(1) یہ واقعہ غزوۂ حدیبیہ کا ہے۔ چونکہ نیت عمرے کی تھی، لہٰذا سب نے احرام باندھ رکھا تھا۔
(2) معلوم ہوا کسی تکلیف کی وجہ سے محرم کو سر منڈانا پڑے، تو اسے فدیہ دینا ہوگا کیونکہ سر منڈانا احرام کے منافی ہے، کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کا سر منڈوانا جوؤں کی وجہ سے تھا سینگی کا حکم اس سے مختلف ہے۔
(3) ”جو کام بھی تم کرو گے“ گویا ان میں کوئی ترتیب نہیں، جبکہ بعض دوسرے کفارات میں ترتیب ہے۔
(4) حدیث، قرآن کے مجمل احکام کی وضاحت کرتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2854
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2855
´سر میں جوں کی وجہ سے تکلیف میں محرم کے بال منڈوانے کا بیان۔`
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عمرہ کا احرام باندھا تو میرے سر میں جوئیں بہت ہو گئیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو آپ میرے پاس تشریف لائے، اس وقت میں اپنے ساتھیوں کے لیے کھانا پکا رہا تھا، تو آپ نے اپنی انگلی سے میرا سر چھوا اور فرمایا: ”جاؤ، سر منڈا لو اور چھ مسکینوں پر صدقہ کر دو۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2855]
اردو حاشہ:
(1) ”زیادہ ہوگئیں“ حتیٰ کہ منہ پر گرتی تھیں۔
(2) ”تشریف لائے“ یہ آپ کے اخلاق کی عمدہ مثال ہے۔
(3) ”صدقہ کر دو“ یعنی ہر مسکین کو نصف صاع (تقریباً سوا کلو) غلہ دے دو۔ گویا ایک روزے کے بدلے میں دو مسکینوں کو غلہ دیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2855
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2877
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے دوران حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، جبکہ میں ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تیرے سر کی جوئیں تجھے تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ میں نے کہا، ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سرمنڈوا لیجئے اور تین دن روزہ رکھ لیجئے، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیں، یا ایک قربانی کر دیجئے۔“ ایوب رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں،... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2877]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
ِقدَرَ اور بُرمة:
دونوں کا معنی ہنڈیا کیتلی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2877
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2879
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مبارکہ: میرے بارے میں اتری ہے تو تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا اس کے سر میں تکلیف ہو اور وہ سر منڈا لے تو وہ فدیہ کے طور پر روزہ رکھے یا صدقہ کرے، یا قربانی کرے۔ (آیت نمبر 196، سورۃ البقرۃ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جا۔“ میں قریب ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریب ہو جا،“ میں قریب ہو گیا تو آپ صلی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2879]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
هَوَام:
هامة کی جمع ہے،
ہر زہریلی چیز کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق کیڑے مکوڑوں پر بھی ہوجاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2879
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2884
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ احرام باندھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے اور ان کے سر اور داڑھی میں کثرت سے جوئیں پڑ گئیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف پیغام بھیجا اور ایک سر مونڈنے والے کو بلوایا، اس نے اس کا سر مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ”کیا تجھ میں قربانی کی استطاعت ہے؟“ کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، مجھ میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2884]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
سفرحدیبیہ کے دوران حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سے گزرے دیکھا کہ وہ ہنڈیا کے نیچے آگ جلارہے ہیں اور ان کےسر سے جوئیں ان کے چہرہ پر گررہی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے پوری طرح جائزہ لیے بغیر ان سے پوچھا کہ کیا یہ جوئیں تیرے لیے تکلیف کا باعث بن رہی ہیں حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتا دیا کہ سرمنڈوالو اور جو فدیہ سہولت وآسانی کے ساتھ میسر ہو دے دو،
یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے بعد میں کسی ساتھی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تکلیف کی شدت کا تذکرہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوا بھیجا تکلیف کی شدت کی بنا پر انہیں اٹھا کر لے جایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت قریب سے ان کا جائزہ لیا اور تکلیف کی شدت دیکھ کرفرمایا میں نے اس وقت جب تمھیں پہلے دیکھا تھا اس قدر تکلیف محسوس نہیں کی تھی۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوری سرمنڈوانے والے کو بلوا کر سرمنڈوایا اور انہیں کفارہ کی تلقین کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہ حکم وحی خفی کے ذریعہ دیا تھا۔
بعد میں اس کی تائید میں قرآنی صورت میں وحی جلی کا نزول ہوا۔
لیکن اس میں کفارے کا بیان اجمالی انداز میں ہے اس کی تفصیل ووضاحت وحی خفی (حدیث)
میں موجود ہے جس سے ثابت ہوتا ہے قرآن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔
قرآن میں صرف روزوں اور صدقہ کا تذکرہ ہے لیکن کتنے روزے رکھے جائیں اور کتنی مقدار میں صدقہ ادا کیاجائے اس کی تفصیل اور وضاحت موجود نہیں ہے۔
اس طرح نسیکہ کی وضاحت نہیں،
ان چیزوں کی تفصیل اور تفسیر حدیث میں موجود ہے۔
2۔
اگر محرِم کوسر کی کسی تکلیف کی بنا پر سرمنڈوانے کی ضرورت پیش آ جائے تو بالاتفاق سرمنڈوا سکتا ہے اور اس کا اسے فدیہ ادا کرنا ہو گا کہ وہ تین روزے رکھ لے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے،
یعنی ہر مسکین کو آدھا صاع خوراک مہیا کرے یا بکری کی قربانی کرے۔
ائمہ ثلاثہ اما مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
احمد رحمۃ اللہ علیہ۔
اور محدثین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہر قسم کا غلہ و اناج نصف صاع ادا کرنا ہوگا۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گندم کا نصف صاع ہوگا اور باقی اجناس پورا صاع دینا ہوں گی،
حالانکہ حدیث میں کھجور کے تین صاع کی صراحت موجود ہے۔
یعنی ہر ایک مسکین کو آدھا صاع کھجور دی جائے اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ قربانی صدقے اورروزے میں ترتیب ضروری نہیں ہے کہ اگر قربانی نہ کرسکتا ہو تو پھر روزے رکھے روزے نہ رکھتا ہو تو پھر صدقہ کرے۔
بلکہ اختیار ہے تین کاموں میں سے جو چاہے کرلے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2884
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1815
1815. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے قریب کھڑے ہوئے تو میرے سر سے جوئیں گررہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”جو ئیں تمھارے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی؟“ میں نے عرض کیا: ہاں!آپ نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوادو۔“ حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ میرے ہی حق میں نازل ہوئی: ”پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہو جائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو۔۔۔ “ آخر تک۔ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ”تین دن روزے رکھ یا ایک فرق (تین صاع) اناج چھ مساکین کو صدقہ کریا جو قربانی تجھے میسر ہو اسے ذبح کر۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1815]
حدیث حاشیہ:
ایک فرق غلہ کا وزن تین صاع یا سولہ رطل ہوتا ہے، اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو ایک صاع کا وزن آٹھ رطل بتلاتے ہیں۔
قربانی جو آسان ہو یعنی بکرا ہو اور کوئی جانور جو بھی آسانی سے مل سکے قربان کردو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1815
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1816
1816. حضرت عبد اللہ بن معقل سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا اور ان سے فدیے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: مذکورہ (فدیے والی)آیت کریمہ میرے حق میں خاص طور پر نازل ہوئی، البتہ اس کا حکم تمھارے لیے عام ہے۔ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ جو ئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے یقین نہیں تھا کہ تمھاری تکلیف اس حد تک پہنچ گئی ہوگی۔ کیا تجھے بکری مل جائے گی؟“ میں نے عرض کیا: نہیں!آپ نے فرمایا: ”تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ، ہر مساکین کو نصف صاع دو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1816]
حدیث حاشیہ:
یہ بھی اسی صورت میں کہ میسر ہو ورنہ آیت کریمہ ﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة: 286)
کے تحت پھر تو توبہ استغفار بھی کفارہ ہو جائے گا، ہاں مقدور کی حالت میں ضرور ضرور حکم شرعی بجالانا ضروری ہوگا، ورنہ حج میں نقص رہنا یقینی ہے۔
حافظ فرماتے ہیں أَيْ لِكُلِّ مِسْكِينٍ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُشِيرُ بِذَلِكَ إِلَى الرَّدِّ عَلَى مَنْ فَرَّقَ فِي ذَلِك بَين الْقَمْح وَغَيره قَالَ بن عَبْدِ الْبَرِّ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَالْكُوفِيُّونَ نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ وَصَاعٌ مِنْ تَمْرٍ وَغَيْرِهِ وَعَنْ أَحْمَدَ رِوَايَةٌ تُضَاهِي قَوْلَهُمْ قَالَ عِيَاضٌ وَهَذَا الْحَدِيثُ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ (فتح الباري)
وَفِي حَدِيثِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ مِنَ الْفَوَائِدِ غَيْرُ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ السُّنَّةَ مُبَيِّنَةٌ لِمُجْمَلِ الْكِتَابِ لِإِطْلَاقِ الْفِدْيَةِ فِي الْقُرْآنِ وَتَقْيِيدِهَا بِالسُّنَّةِ وَتَحْرِيمِ حَلْقِ الرَّأْسِ عَلَى الْمُحْرِمِ وَالرُّخْصَةِ لَهُ فِي حَلْقِهَا إِذَا آذَاهُ الْقَمْلُ أَوْ غَيْرُهُ مِنَ الْأَوْجَاعِ وَفِيهِ تَلَطُّفُ الْكَبِيرِ بِأَصْحَابِهِ وَعِنَايَتُهُ بِأَحْوَالِهِمْ وَتَفَقُّدُهُ لَهُمْ وَإِذَا رَأَى بِبَعْضِ أَتْبَاعِهِ ضَرَرًا سَأَلَ عَنْهُ وَأَرْشَدَهُ إِلَى الْمَخْرَجِ مِنْهُ یعنی ہر مسکین کے لیے ہر ایک چیز سے، اس میں اس شخص کے اوپر رد کرنا مقصو دہے جس نے اس بارے میں گندم وغیرہ کا فرق کیا ہے۔
ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ؒ اور اہل کوفہ کہتے ہیں کہ گندم کا نصف صاع اور کھجور وں کا ایک صاع ہونا چاہئے۔
امام احمد کا قول بھی تقریباً اسی کے مشابہ ہے۔
قاضی عیاض نے فرمایا کہ حدیث کعب بن عجرہ ان کی تردید کر رہی ہے، اور اس حدیث کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ قرآن کے کسی اجمالی حکم کی تفصیل سنت رسول بیان کرتی ہے۔
قرآن مجید میں مطلق فدیہ کا ذکر تھا تو سنت نے اسے مقید کر دیا اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ محرم کے لیے سر منڈانا حرام ہے اور جب اسے جوؤں وغیرہ کی تکلیف ہو تو وہ منڈا سکتا ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ بڑے لوگوں کو ہمیشہ اپنے ساتھیوں پر نظر عنایت رکھتے ہوئے ان کے دکھ تکلیف کا خیال رکھنا چاہئے کسی کو کچھ بیماری وغیرہ ہو جائے تو اس کے علاج کے لیے ان کو نیک مشورہ دینا چاہئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1816
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5703
5703. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صلح حدیبیہ کے وقت رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میں ایک ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے سر سے گر رہی تھیں رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: تیرے سر کی جوئیں تجھے تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوا دو پھر بطور کفارہ تین دن روزے رکھو یا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ یا بکری ذبح کرو۔“ راوئ حدیث ایوب کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ کسی چیز کا ذکر پہلے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5703]
حدیث حاشیہ:
حالت احرام میں سر منڈانا جائز نہیں ہے مگر اس تکلیف دہ حالت میں آپ نے کعب بن عجرہ کو سر منڈانے کی اجازت دے دی اور ساتھ ہی کفارہ دینے کا حکم فرمایا جس کی تفصیل مذکور ہوئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5703
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4191
4191. حضرت کعب بن عجرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مقام حدیبیہ میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ ہم نے احرام باندھ رکھا تھا اور مشرکین مکہ نے ہمیں عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ میرے سر پر لمبے لمبے بال تھے۔ ان میں پڑی ہوئی جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوئیں اذیت پہنچا رہی ہیں؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”جو شخص مریض ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو تو (سر منڈوا سکتا ہے بشرطیکہ) روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4191]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ روایتوں میں کسی نہ کسی طرح سے واقعہ حدیبیہ سے متعلق کچھ نہ کچھ ذکر ہے۔
یہی احادیث اور باب میں وجہ مطابقت ہے۔
حالت احرام میں ایسی بیماری سے سر منڈوا دینا جائز ہے۔
مگر اس کے فدیہ میں یہ کفارہ ادا کرنا ہوگا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4191
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6708
6708. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ“ پھر میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر روزے رکھو یا صدقہ دو یا قربانی کا فدیہ دو،۔“ ابن عون کے طریق سے ایوب نے کہا: روزے تین دن کے ہوں گے قربانی ایک بکری کی اور کھانا چھ مساکین کے لیے ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6708]
حدیث حاشیہ:
کعب بن عجرہ کی حدیث حج کے فدیہ کے بارے میں ہے اس کو قسم کے فدیہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
مگر امام بخاری اس باب میں اس کو اس لیے لائے کہ جیسے حج کے فدیہ میں اختیار ہے تینوں میں سے جو چاہے وہ کرے ایسے ہی قسم کے کفارہ میں بھی قسم کھانے والے کو اختیار ہے کہ تینوں کفاروں میں سے جو قرآن میں مذکورہ ہیں جو کفارہ چاہے ادا کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6708
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1814
1814. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”شاید تمھاری جوئیں تمھیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟“ انھوں نے کہا: ہاں، اللہ کے رسول اللہ ﷺ!نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوا دو، پھر تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1814]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت محرم اپنا سر منڈوا سکتا ہے، پھر اس پر کفارہ واجب ہے جس کی تفصیل آیت کریمہ اور حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
اس میں کسی کو اختلاف نہیں۔
(2)
امام بخاری ى نے دوسرے مقام پر لکھا ہے کہ فدیہ دینے میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ ؓ کو اختیار دیا تھا۔
حضرت ابن عباس ؓ، حضرت عطاء اور حضرت عکرمہ سے مروی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں لفظ "أو" استعمال ہوا ہے وہ ”اختیار“ کے لیے ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی تائید میں ایک روایت بھی درج کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت کعب بن عجرہ ؓ کو فرمایا:
”اگر چاہو تو بکری ذبح کرو، اگر چاہو تو تین دن کے روزے رکھ لو اور اگر چاہو تو مساکین کو کھانا کھلا دو۔
“ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1857)
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہے، حضرت کعب بن عجرہ ؓ کہتے ہیں:
مقام حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے تو میرے سر سے جوئیں گر رہی تھیں۔
آپ نے فرمایا:
”جوئیں تیرے لیے تکلیف کا باعث ہیں؟“ میں نے کہا:
جی ہاں۔
آپ نے فرمایا:
”اپنا سر منڈوا دو۔
“ چنانچہ مذکورہ آیت مبارکہ میرے متعلق نازل ہوئی۔
رسول اللہ ﷺ نے مزید فرمایا:
”تین دن کے روزے رکھو یا چھ مسکینوں میں ایک فرق غلہ تقسیم کرو یا جو قربانی میسر ہو اسے ذبح کرو۔
“ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1815)
دیگر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ ؓ نے اپنا سر منڈوا دیا تھا اور کفارے کے طور پر تین دن کے روزے رکھے تھے۔
اگرچہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے لیے چھ مساکین کو کھانا کھلانے کا انتخاب کیا تھا لیکن اس کی سند صحیح نہیں۔
(فتح الباري: 21/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1814
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1815
1815. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حدیبیہ میں رسول اللہ ﷺ میرے قریب کھڑے ہوئے تو میرے سر سے جوئیں گررہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”جو ئیں تمھارے لیے تکلیف کا باعث ہوں گی؟“ میں نے عرض کیا: ہاں!آپ نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوادو۔“ حضرت کعب ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ میرے ہی حق میں نازل ہوئی: ”پھر جو کوئی تم میں سے بیمارہو جائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو۔۔۔ “ آخر تک۔ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: ”تین دن روزے رکھ یا ایک فرق (تین صاع) اناج چھ مساکین کو صدقہ کریا جو قربانی تجھے میسر ہو اسے ذبح کر۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1815]
حدیث حاشیہ:
(1)
قرآن کریم میں مطلق روزوں اور مطلق صدقے کا ذکر تھا، رسول اللہ ﷺ نے اپنے منصب کے پیش نظر اس کی تفسیر فرمائی کہ روزے تین دن اور صدقہ چھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، نیز آیت کریمہ میں کسی ایک چیز کو بجا لانے کا اختیار اس شخص کو ہے جسے قربانی بھی میسر ہو، بصورت دیگر صرف روزوں اور صدقے میں اختیار ہو گا۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ تین صاع کھجور چھ مساکین کو کھلاؤ۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2882(1201) (2)
اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرق میں تین صاع ہوتے ہیں اور فرق مدینہ طیبہ کا مشہور پیمانہ ہے جس میں سولہ رطل ہوتے ہیں۔
جب ایک فرق میں تین صاع ہوتے ہیں جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ میں صراحت ہے (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2882(1201)
تو اس کا تقاضا ہے کہ اس صاع میں 5 1/3 یعنی 5.33 رطل ہوں، اس صورت میں ایک فرق میں سولہ رطل ہو سکتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ایک صاع میں آٹھ رطل نہیں ہوتے جیسا کہ اہل کوفہ کی رائے ہے۔
(فتح الباري: 21/4،22)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1815
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1816
1816. حضرت عبد اللہ بن معقل سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا اور ان سے فدیے کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: مذکورہ (فدیے والی)آیت کریمہ میرے حق میں خاص طور پر نازل ہوئی، البتہ اس کا حکم تمھارے لیے عام ہے۔ مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس حالت میں لایا گیا کہ جو ئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مجھے یقین نہیں تھا کہ تمھاری تکلیف اس حد تک پہنچ گئی ہوگی۔ کیا تجھے بکری مل جائے گی؟“ میں نے عرض کیا: نہیں!آپ نے فرمایا: ”تین دن کے روزے رکھویا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ، ہر مساکین کو نصف صاع دو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1816]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات نے گندم اور کھجور کا فرق کیا ہے کہ گندم کا نصف صاع اور کھجوروں کا ایک صاع ہر مسکین کو دیا جائے لیکن مذکورہ حدیث اس موقف کی تردید کرتی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ان حضرات کی تردید کرنا مقصود ہے جو اس کے متعلق گندم وغیرہ میں فرق کرتے ہیں۔
(فتح الباري: 22/4) (2)
فدیے کی مذکورہ کیفیت میسر ہونے کی صورت میں ہے، بصورت دیگر تنگ دستی کی صورت میں توبہ و استغفار ہی اس کے لیے کفارہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، البتہ صاحب حیثیت کے لیے شرعی حکم بجا لانا ضروری ہے، ورنہ حج میں نقص رہ جائے گا۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سنت (حدیث)
قرآن کے اجمال کی تفصیل بیان کرتی ہے کیونکہ قرآن کریم میں مطلق فدیے کا ذکر تھا سنت، یعنی حدیث نے اسے مقید کیا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1816
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4159
4159. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا جبکہ ان کے چہرے پر جوئیں گر رہی تھیں۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہاری جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ انہوں نے کہا: جی ہاں، تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں سر منڈانے کا حکم دیا۔ آپ اس وقت حدیبیہ میں تھے اور آپ نے لوگوں پر واضح نہیں کیا تھا کہ وہ حدیبیہ ہی میں احرام کھول کر اس کی پابندیوں س آزاد ہو جائیں گے بلکہ انہیں امید تھی کہ وہ مکہ میں داخل ہوں گے۔ پھر اللہ تعالٰی ن فدیے کا حکم نازل فرمایا تو رسول اللہ ﷺ نے کعب بن عجرہ کو حکم دیا کہ وہ ایک فرق (تقریبا چھ کلو تین سو گرام) اناج چھ مسکینوں کو کھلا دیں یا ایک بکری قربانی کریں یا تین دن کے روزے رکھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4159]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ سے روانگی کے بعد ذوالحلیفہ سے احرام باندھا تھا۔
آٹھ دن کے سفر کے بعد مکہ کے قریب پہنچ گئے تھے۔
کفارقریش نے آپ کوعمرے سے روک دیا۔
وہاں کئی دن ایک دوسرے سے بات چیت کرنے میں لگ گئے حتی کہ کعب بن عجرہ ؓ کو جوئیں پڑ گئیں اورکثرت سے ان میں اضافہ ہوا، یہاں تک ہنڈیا پکاتے وقت منہ پر گرنے لگیں۔
انھیں مارنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور نہ احرام کی حالت میں انھیں پکڑ کر پھینکنے کی اجازت ہی تھی۔
ایسے حالات میں رسول اللہ ﷺ نے انھیں سرمنڈانے کا حکم دیا۔
پھر اس پاداش میں فدیہ دینے کے متعلق فرمایا۔
یہ فدیہ احرام کھولنے کی وجہ سے نہیں تھا اور سرمنڈانے کا حکم سر میں جووؤں کی تکلیف کی بنا پر تھا۔
2۔
واضح رہے کہ فرق ایک پیمانہ ہے جو موجود وزن کے مطابق تقریباً چھ کلوتین سوگرام کا ہوتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4159
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4191
4191. حضرت کعب بن عجرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مقام حدیبیہ میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ ہم نے احرام باندھ رکھا تھا اور مشرکین مکہ نے ہمیں عمرہ کرنے سے روک دیا تھا۔ میرے سر پر لمبے لمبے بال تھے۔ ان میں پڑی ہوئی جوئیں میرے چہرے پر گر رہی تھیں۔ نبی ﷺ میرے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں تمہارے سر کی جوئیں اذیت پہنچا رہی ہیں؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: اس کے بعد یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: ”جو شخص مریض ہو یا اس کے سر میں کچھ تکلیف ہو تو (سر منڈوا سکتا ہے بشرطیکہ) روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے اس کا فدیہ ادا کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4191]
حدیث حاشیہ:
1۔
ان دونوں احادیث میں حضرت کعب بن عجرہ ؓ کا واقعہ بیان ہوا ہے اور کعب بن عجرہ ؓ صلح حدیبیہ میں شامل تھے۔
اس عنوان کے تحت جتنی احادیث بیان کی گئی ہیں ان کا کسی نہ کسی طرح صلح حدیبیہ سے تعلق ہے۔
2۔
اس آیت کریمہ میں جس کو روک دیا جائے اس کے دم دینے کا ذکر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اور اگر تم روک دیےجاؤ تو جو قربانی میسر ہو(وہی کرو)
اور اپنے سر اس وقت تک نہ مونڈو جب تک قربانی اپنے حلال ہونے کی جگہ پر نہ پہنچ جائے۔
“ (البقرة: 196/2)
3۔
کعب بن عجرہ ؓ کو ایک تکلیف تھی اس بنا پر حدث میں ایک استثنائی صورت کوبیان کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4191
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4517
4517. حضرت عبداللہ بن معقل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں کوفہ کی مسجد میں حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے پاس بیٹھا تھا اور میں نے ان سے روزوں کے فدیے کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: مجھے محرم کی حیثیت سے نبی ﷺ کی خدمت میں بایں حالت اٹھا کر لایا گیا کہ جوئیں میرے چہرے پر گر کر پھیل رہی تھیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میرے خیال میں تیری یہ مشقت انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی بکری ہے؟ (جو تو فدیہ میں دے سکے)۔“ میں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر تم تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مساکین کو کھانا کھلا دو، ہر مسکین کو آدھے صاع کے برابر اناج دو اور سر منڈوا لو۔“ حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ اس وقت تو یہ آیت کریمہ میرے متعلق نازل ہوئی تھی، البتہ اس کا حکم تم سب کے لیے عام ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4517]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت کعب بن عجرہ ؓ کے بال گھنے اور لمبے تھے، عمرہ حدیبیہ کے موقع پر ان کے سر میں اتنی جوئیں پڑ گئیں کہ ان کے چہرے پر گرنے لگیں تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں حکم دیا کہ فدیے کا بندوبست کرکے اپنے سر کو منڈوا دو۔
اس حدیث نے آیت کریمہ کی وضاحت کردی کہ محرم آدمی اگر کسی وجہ سے اپناسرمنڈوا دے تو وہ تین دن کے روزے رکھے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلائے یا کم از کم ایک بکری ذبح کرے۔
2۔
یہ اس صورت میں ہے جب کسی مجبوری کی وجہ سے دس ذوالحجہ سے پہلے محرم آدمی اپنا سرمنڈوا دے۔
روزوں کے علاوہ کھانا کھلانے یا قربانی دینے کی جگہ کے متعلق اختلاف ہے۔
بعض حضرات کی رائے ہے کہ کھانا یا قربانی مکہ ہی میں دی جائے جبکہ دوسرے اہل علم کا خیال ہے کہ روزوں کی طرح ان کے لیے کوئی خاص جگہ متعین نہیں ہے۔
علامہ شوکانی ؒ نے اس آخری رائے سے اتفاق کیاہے۔
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4517
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5703
5703. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ صلح حدیبیہ کے وقت رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے اس وقت میں ایک ہنڈیا کے نیچے آگ جلا رہا تھا اور جوئیں میرے سر سے گر رہی تھیں رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: تیرے سر کی جوئیں تجھے تکلیف دے رہی ہیں؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”اپنا سر منڈوا دو پھر بطور کفارہ تین دن روزے رکھو یا چھ مساکین کو کھانا کھلاؤ یا بکری ذبح کرو۔“ راوئ حدیث ایوب کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں کہ کسی چیز کا ذکر پہلے کیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5703]
حدیث حاشیہ:
(1)
احرام کی حالت میں سر منڈوانا جائز نہیں مگر تکلیف دہ حالت میں سر منڈوانا جائز ہے لیکن اس کا کفارہ دینا ہو گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کو سر منڈوانے کی اجازت دی تو ساتھ ہی کفارہ دینے کا حکم بھی دیا جس کی تفصیل حدیث میں مذکور ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث یہاں اس لیے بیان کی ہے کہ اگر محرم آدمی کو سینگی لگوانے کے لیے سر کے کچھ بال منڈوانے کی ضرورت ہو تو انہیں منڈوا دے۔
جب محرم کو سارا سر منڈوانے کی اجازت ہے تو کچھ حصے کی تو بالاولیٰ اجازت ہونی چاہیے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کفارہ دے۔
(فتح الباري: 191/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5703
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6708
6708. حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا: ”قریب ہوجاؤ“ پھر میں قریب ہوا تو آپ نے پوچھا: ”کیا تمہارے سر کی جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ”پھر روزے رکھو یا صدقہ دو یا قربانی کا فدیہ دو،۔“ ابن عون کے طریق سے ایوب نے کہا: روزے تین دن کے ہوں گے قربانی ایک بکری کی اور کھانا چھ مساکین کے لیے ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6708]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اپنا سر منڈوا دو لیکن تین دن کے روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک بکری ذبح کر دو۔
“ (صحیح البخاري، المحصر، حدیث: 1814)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کا حوالہ اس لیے دیا ہے کہ قسم کے کفارے میں انسان کو اختیار ہے، ان میں سے جسے چاہے اختیار کرے، جیسا کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارۂ اذی، یعنی حالت احرام میں کسی مجبوری اور ضرورت کی بنا پر سر کے بال منڈوانے کے کفارے میں اختیار دیا تھا کیونکہ کفارۂ یمین اور کفارۂ اذی، اختیار میں دونوں ایک جیسے ہیں بلکہ کفارۂ یمین میں ترتیب کا اضافہ ہے، اس لیے قسم کے کفارے میں کھانا کھلانے، لباس دینے اور غلام آزاد کرنے میں اختیار ہے پھر ان تینوں اور تین دن کے روزے رکھنے میں ترتیب ہے، جبکہ کفارۂ اذی میں روزے رکھنے، کھانا کھلانے اور قربانی دینے میں اختیار ہے، ان میں ترتیب وغیرہ نہیں ہے۔
واللہ أعلم (2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ذکر کرنے کی ایک دوسری توجیہ بیان کی ہے، فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود ان لوگوں کی تردید کرنا ہے جو کہتے ہیں:
پانچ مساکین کو کھانا اور پانچ کو لباس دیا جا سکتا ہے، اسی طرح پانچ کو لباس اور نصف غلام آزاد کیا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ موقف ہے کہ آیت کریمہ کے مطابق اختیار کی یہ توجیہ غلط ہے بلکہ دس مساکین کو کھانا دیا جائے یا دس مساکین کو لباس پہنایا جائے یا ایک غلام آزاد کیا جائے۔
اگر تینوں میسر نہیں ہیں تو تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں۔
(فتح الباري: 725/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6708