حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، فَمَسِسْتُهُ بِيَدِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ لَتُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَجَلْ، إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ، فَقُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجَلْ ثُمَّ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى مَرَضٌ فَمَا سِوَاهُ، إِلَّا حَطَّ اللَّهُ لَهُ سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا".
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5660
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو ہاتھ لگایا تو پتا چلا کہ بہت تیز بخار ہے۔
عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
(2)
بہرحال بیماری آنے، مصیبت میں مبتلا ہونے اور آفتوں میں گرفتار ہونے سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ انسان صبر و شکر سے کام لے اور زبان پر اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی حرف شکایت نہ لائے۔
اس سے نہ صرف گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ انسان کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5660
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5648
´بلاؤں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش انبیاء کی ہوتی ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُوعَكُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تُوعَكُ وَعْكًا شَدِيدًا، قَالَ: أَجَلْ إِنِّي أُوعَكُ كَمَا يُوعَكُ رَجُلَانِ مِنْكُمْ، قُلْتُ: ذَلِكَ أَنَّ لَكَ أَجْرَيْنِ، قَالَ: أَجَلْ ذَلِكَ كَذَلِكَ:" مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا سَيِّئَاتِهِ كَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا . . .»
”. . . عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کو شدید بخار تھا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو بہت تیز بخار ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں مجھے تنہا ایسا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں کے دو آدمیوں کو ہوتا ہے میں نے عرض کیا یہ اس لیے کہ آپ کا ثواب بھی دوگنا ہے؟ فرمایا کہ ہاں یہی بات ہے، مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے کاٹنا ہو یا اس سے زیادہ تکلیف دینے والی کوئی چیز تو جیسے درخت اپنے پتوں کو گراتا ہے اسی طرح اللہ پاک اس تکلیف کو اس (مسلمان) کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے۔“ [صحيح البخاري/كتاب المرضى: 5648]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5648 کا باب: «بَابُ أَشَدُّ النَّاسِ بَلاَءً الأَنْبِيَاءُ ثُمَّ الأَوَّلُ فَالأَوَّلُ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا ہے جبکہ تحت الباب حدیث میں انبیاء کرام علیہم السلام کے الفاظ موجود نہیں ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
«ووجه دلالة حديث الباب على الترجمة من جهة قياس الأنبياء على نبينا محمد صلى الله عليه وسلم، والحاق الاولياء بهم لقربهم منهم وان كانت درجتهم منحطة عنهم، أن البلاء فى مقابلة النعمة فمن كانت نعمة (الله عليه اكثر) كان بلاؤه أشد .»
”حدیث باب کی ترجمہ پر وجہ دلالت ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس انبیاء کی اس جہت پر ہے اور ان کے ساتھ اولیاء (اہل علم) کے اطاق کی جہت سے کیوں کہ وہ ان کے قریب ہیں، اگرچہ درجہ میں ان سے کم تر ہیں، اس میں سرّ یہ ہے کہ بلاء، نعمت کے مقابلے میں ہوتی ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہوئی، اس پر بلاء بھی اسی کے لحاظ سے شدید ہوا کرتی ہے۔“
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان سے مناسبت واضح ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیگر انبیاء پر قیاس فرما رہے ہیں، اس موقع پر امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ جس طرح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت قسم کی آزمائیشیں نازل ہوئیں ہیں اسی طرح دیگر انبیاء پر بھی آزمائشوں کا دور رہا۔
ترجمۃ الباب کے الفاظ بھی حدیث ہی ہیں، جسے امام دارمی رحمہ اللہ ذکر فرماتے ہیں چنانچہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ وہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سے لوگ سخت آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں، آپ علیہ السلام نے فرمایا: «الأنبياء، ثم الأمثل فالأمثل، يبتلى الرجل على حسب دينه .» [سنن دارمی كتاب الرقائق: 412/2] ”سب سے زیادہ تکالیف انبیاء پر ہوا کرتی ہیں، پھر ان پر جو ان سے قریب ہوتے ہیں، پھر ان پر جوان سے قریب ہوتے ہیں، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔“
لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہو گی کہ سخت ترین تکلیف میں مبتلا انبیاء علیہم السلام ہوتے ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے خاتم ہیں، لہٰذا اس جہت سے آپ پر تکالیف نازل ہوئیں تو دیگر انبیاء پر بھی نازل ہوئی ہوں گی۔
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 149
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6561
حضرت اسود رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں،کچھ قریشی نوجوان منیٰ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ہنستے ہوئے گئے تو انہوں نے پوچھا،کیوں ہنستے ہو؟انہوں نے کہا،فلاں انسان خیمہ کی طناب(رسی) پرگرپڑا اور قریب تھا اس کی گردن یا اس کی آنکھ ضائع ہوجاتی۔تو انہوں نے فرمایا:مت ہنسو،کیونکہ میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئےسنا:"جس مسلمان کو بھی کانٹا یا اس سے بڑی چیز چبتی ہے یا اس سے کم تکلیف پہنچتی ہے تو اس کے لیے اس کے سبب ایک درجہ لکھ دیا جاتا ہے اور اس کے سبب اس کی ایک... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6561]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
طنب:
طناب رسی۔
(2)
فسطاط:
بڑاخیمہ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6561
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5647
5647. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کی بیماری میں حاضر خدمت ہوا جبکہ آپ کو سخت تیز بخار تھا۔ میں نے آپ سے عرض کی: بلاشبہ آپ کو بہت سخت بخار ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو سخت تیز بخار اس لیے ہے کہ آپ کو دو گنا ثواب ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ”درست ہے، جب کوئی مسلمان کسی بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس وجہ سے اس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5647]
حدیث حاشیہ:
اور نیک لوگوں کے درجات بلند ہوتے ہیں اللہ پاک مجھ کو اور جملہ قارئین بخاری شریف کو بوقت نزع آسانی عطا کرے اور خاتمہ بالخیر نصیب ہو۔
یا اللہ میری بھی یہی دعا ہے۔
رَبِّ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ آمین اللھم ألحقني بالرفیق الأعلیٰ برحمتك یا أرحم الراحمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5647
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5648
5648. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کو سخت بخار تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو بہت تیز بخار ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں مجھے تنہا اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔“ میں نے کہا: یہ اس لیے کہ آپ کو ثواب بھی دہرا ہوتا ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں یہی بات ہے۔ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ کانٹا ہو یا اسے سے کم اس کے باعث اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5648]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس طرح پر نکلا کہ اور پیغمبروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کیا اور جب پیغمبروں پر بوجہ ازدیاد قرب الٰہی کے مصائب زیادہ ہوئے تو اولیاءاللہ میں بھی یہی نسبت رہے گی جتنا قرب الٰہی زیادہ ہوگا تکالیف و مصائب زیادہ آئیں گی حضرت امام بخاری کا یہ قائم کردہ ترجمہ خود ایک حدیث ہے جسے دارمی نے نکالا ہے حافظ صاحب فرماتے ہیں ''و في ھذہ الأحادیث بشارة عظیمة لکل مؤمن لأن الآدمي لا ینفك غالباً من ألم بسبب مرض أوھم أو نحو ذالك مما ذکر'' یعنی ان احادیث میں مومنوں کے لیے بڑی بشارتیں ہیں اس لیے کہ تکالیف و مصائب اور امراض دنیا میں اہل ایمان کو پہنچتے رہتے ہیں مگر اللہ پاک ان سب پر ان کو اجر و ثواب اور درجات عالیہ عطا کرتا ہے۔
راقم الحروف محمد راز کی زندگی بھی بیشتر آلام و تفکرات میں ہی گزر ی ہے اور امید قوی ہے کہ ان سب کا اجر کفارہ ذنوب ہوگا۔
و کذا أرجو من رحمة ربي آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5648
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5661
5661. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی بیماری کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کے جسم کو ہاتھ لگایا تو آپ کو بہت تیز بخار بخار تھا۔ میں نے عرض کی: یقیناً آپ کو تیز بخار اس لیے ہے کہ آپ کے لیے ثواب بھی دو گناہ ہو۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب بھی کسی مسلمان کو کوئی اذیت پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جیسے درخت سے پتے گرتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5661]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے مریض کی ہمت افزائی کے لیے اسے صحت مند ہونے اور رحمت اور بخشش اور ثواب کی بشارت دینا مناسب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5661
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5647
5647. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کی بیماری میں حاضر خدمت ہوا جبکہ آپ کو سخت تیز بخار تھا۔ میں نے آپ سے عرض کی: بلاشبہ آپ کو بہت سخت بخار ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو سخت تیز بخار اس لیے ہے کہ آپ کو دو گنا ثواب ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ”درست ہے، جب کوئی مسلمان کسی بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس وجہ سے اس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5647]
حدیث حاشیہ:
حضرات انبیاء علیہم السلام سخت مصائب و تکالیف سے دوچار ہوئے ہیں کیونکہ مصیبت نعمت کے مقابلے میں ہوتی ہے۔
جس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں زیادہ ہوں اس پر مصائب بھی زیادہ آتے ہیں۔
جب بیماری سخت ہو جائے تو اجر بھی دو گنا ہو جاتا ہے حتی کہ بندۂ مومن سے بیماری کی وجہ سے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مجھے دو آدمیوں جتنا بخار ہوا ہے۔
“ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
پھر آپ کو اجر بھی دو آدمیوں جتنا ملے گا؟ آپ نے فرمایا:
”ہاں۔
“ (صحیح البخاري، المرضیٰ، حدیث: 5648، 5667)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5648
5648. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کو سخت بخار تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو بہت تیز بخار ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں مجھے تنہا اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔“ میں نے کہا: یہ اس لیے کہ آپ کو ثواب بھی دہرا ہوتا ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں یہی بات ہے۔ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ کانٹا ہو یا اسے سے کم اس کے باعث اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5648]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے دیگر انبیاء علیہم السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کیا۔
جب پیغمبروں کو قرب الٰہی کے زیادہ ہونے کے باعث سنگین مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو اولیاء اللہ میں بھی یہی نسبت ہو گی، یعنی جتنا قرب الٰہی زیادہ ہو گا اتنی ہی تکالیف زیادہ ہوں گی۔
(2)
بہرحال ان احادیث میں اہل ایمان کے لیے بڑی بشارت ہے، اس لیے تکالیف و مصائب اور امراض دنیا میں اہل ایمان کو پہنچتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں انہیں بہت زیادہ اجرو ثواب اور اونچے درجات عطا فرماتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5661
5661. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی بیماری کے وقت آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میں نے آپ کے جسم کو ہاتھ لگایا تو آپ کو بہت تیز بخار بخار تھا۔ میں نے عرض کی: یقیناً آپ کو تیز بخار اس لیے ہے کہ آپ کے لیے ثواب بھی دو گناہ ہو۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب بھی کسی مسلمان کو کوئی اذیت پہنچتی ہے تو اس کے گناہ اس طرح گر جاتے ہیں جیسے درخت سے پتے گرتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5661]
حدیث حاشیہ:
مریض کی ہمت افزائی کرتے ہوئے اسے صحت مند ہونے اور رحمت و بخشش کی بشارت دینا مناسب ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب تم مریض کے پاس جاؤ تو اسے لمبی عمر کی امید دلاؤ ایسا کرنے سے تقدیر تو نہیں بدل سکتی، البتہ اس کی طبیعت خوش ہو جاتی ہے۔
(سنن ابن ماجة، الجنائز، حدیث: 1438)
لیکن اس کی سند کمزور ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
(فتح الباري: 151/10، و سلسلة الأحادیث الضعیفة، 336/1، رقم: 184)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5661
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5667
5667. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کو تیز بخار تھا میں نے آپ کے بدن کو چھوتے ہوئے کہا: آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں جیسے تم میں سے دو آدمیوں کو بخار ہوتا ہے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: اس سے آپ کو ثواب بھی دو گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب بھی کسی مسلمان کو بیماری یا اس کے علاوہ کوئی تکلیف لاحق ہو تو وہ اس کے تمام گناہ گرا دیتی ہے جس طرح درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5667]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے بخار کی شدت کا ذکر کیا، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر رضا مندی کا ہی ایک انداز تھا۔
(2)
دراصل حرف شکایت کا تعلق نیت و ارادے سے ہے۔
بہت سے خاموش رہنے والے بیماری آنے کے بعد دل میں کڑھتے رہتے ہیں جو معیوب ہے اور بہت سے زبان سے اظہار کرنے والے دل سے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کر لیتے ہیں اور یہ معیوب نہیں ہے۔
بہرحال اس کا دارومدار زبان سے اظہار پر نہیں بلکہ دل کے فعل پر ہے۔
(فتح الباري: 158/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5667