اخبرنا وكيع، عن جعفر بن برقان، عن يزيد، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ((ليس الغناء عن كثرة العرض، ولكن الغناء غنى النفس)).أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَيْسَ الْغَنَاءُ عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغَنَاءَ غِنَى النَّفْسِ)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کثرت مال و متاع تونگری نہیں، لیکن دل کی تونگری اصل تونگری ہے۔“
اخبرنا يحيى بن يحيى، نا ابن لهيعة، عن الاعرج، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا تقوم الساعة حتى يكثر المال فيفيض حتى يهتم رب المال ان يقبل منه صدقته ويعرضها، فيقول الذي عرض عليه: لا ارب لي فيها".أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، نا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَكْثُرَ الْمَالُ فَيَفِيضَ حَتَّى يَهْتَمَّ رَبُّ الْمَالِ أَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ صَدَقَتُهُ وَيَعْرِضُهَا، فَيَقُولُ الَّذِي عُرِضَ عَلَيْهِ: لَا أَرَبَ لِي فِيهَا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت قائم نہیں ہو گی حتیٰ کہ مال اس قدر زیادہ ہو جائے گا اور مال کی اس قدر ریل پیل ہو گی کہ مال دار شخص کو یہ فکر دامن گیر ہو گی کہ اس کا صدقہ کون قبول کرے گا، وہ اسے پیش کرے گا تو وہ شخص جسے وہ پیش کرے گا وہ کہے گا: (جناب) مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الزكاة، باب الصدقة، قبل الرد، رقم: 1412. مسلم، كتاب الايمان، باب بيان الزمن الذٰ لا يقبل فيه الايمان، رقم: 187. صحيح ابن حبان، رقم: 6680. مسند ابي يعلي، رقم: 6322.»
اخبرنا كلثوم، نا عطاء، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((إني لاجد التمرة ساقطة فارفعها لآكلها فاخشى ان يكون من الصدقة فالقيها)).أَخْبَرَنَا كُلْثُومٌ، نا عَطَاءٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((إِنِّي لَأَجِدُ التَّمْرَةَ سَاقِطَةً فَأَرْفَعُهَا لِآكُلَهَا فَأَخْشَى أَنْ يَكُونَ مِنَ الصَّدَقَةِ فَأُلْقِيَهَا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں گری ہوئی کھجور دیکھتا ہوں تو کھانے کے ارادے سے اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر اس اندیشے کے پیش نظر کہ وہ صدقے کی نہ ہو اسے پھینک دیتا ہوں۔“
اخبرنا جرير، عن ليث بن ابي سليم، عن شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد قالت: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم انا وخالة لي - وهي حديثة عهد بعرس - لنبايعه، فراى عليها اسوارا من ذهب، وخواتيم من ذهب، فقال لها: ((اتحبين ان يسورك الله اسوارين من نار؟)) فنزعتهما من يديها، فرمت بهما، فما ادري فمن اخذهما، ثم قال: الا تجعل إحداكن لونين او حلقتين من فضة ثم تغليه بعنبر او ورس او زعفران".أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَخَالَةٌ لِي - وَهِيَ حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ - لِنُبَايِعَهُ، فَرَأَى عَلَيْهَا أُسْوَارًا مِنْ ذَهَبٍ، وَخَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: ((أَتُحِبِّينَ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ أُسْوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟)) فَنَزَعَتْهُمَا مِنْ يَدَيْهَا، فَرَمَتْ بِهِمَا، فَمَا أَدْرِي فَمَنْ أَخَذَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تَجْعَلُ إِحْدَاكُنَّ لَوْنَيْنِ أَوْ حَلَقَتَيْنِ مِنْ فِضَّةٍ ثُمَّ تُغْلِيهِ بِعَنْبَرٍ أَوْ وَرْسٍ أَوْ زَعْفَرَانَ".
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اپنی خالہ کے ساتھ جو کہ نئی نویلی دلہن تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں، آپ نے اسے سونے کے دو کنگن اور انگوٹھیاں پہنے ہوئے دیکھا، تو اسے فرمایا: ”کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے اور آگ کی انگوٹھیوں کے ساتھ تمہیں داغ دے؟“ پس اس نے فوراً انہیں ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا، معلوم نہیں کہ کس نے انہیں اٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی چاندی کی دو بالیاں نہیں بنا لیتی پھر عبیر یا ورس یا زعفران کا اس پر رنگ چڑھالے؟“
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الزكاة، باب الكنز ما هو؟ وزكاة الحلي، رقم: 1563. سنن ترمذي، ابواب الزكاة، باب زكاة الحلي، رقم: 637. قال الشيخ الالباني: حسن. نسائي، رقم: 2479. مسند احمد: 315/6.»
اخبرنا حسين بن علي الجعفي، نا زائدة بن قدامة، عن عبد الملك بن عمير، عن ربعي بن حراش، عن ام سلمة قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما وهو ساهم الوجه فظننت انه من شيء اصابه فقلت: يا رسول الله، ما لي اراك ساهم الوجه؟ فقال: ((اما رايت الدنانير السبعة التي اتينا بها، امسينا ولم ننفقها)).أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ، نا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ سَاهِمُ الْوَجْهِ فَظَنَنْتُ أَنَّهُ مِنْ شَيْءٍ أَصَابَهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لِي أَرَاكَ سَاهِمَ الْوَجْهِ؟ فَقَالَ: ((أَمَا رَأَيْتِ الدَّنَانِيرَ السَّبْعَةَ الَّتِي أُتِينَا بِهَا، أَمْسَيْنَا وَلَمْ نُنْفِقْهَا)).
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر تھا، میں نے سمجھ لیا کہ آپ کے ساتھ کوئی مسئلہ درپیش ہے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وجہ ہے میں آپ کے چہرے کا رنگ متغیر دیکھ رہی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپ وہ نو دینار نہیں دیکھ رہیں جو کل ہمارے پاس آئے تھے اور رات گزر گئی اور ہم نے انہیں خرچ نہیں کیا۔“
تخریج الحدیث: «مسند احمد: 314/6. صحيح ابن حبان، رقم: 5160. قال شعيب الارناوط: اسناده، صحيح.»
اخبرنا يحيى بن آدم، عن حفص بن غياث، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة قالت:" جاءت زينب امراة عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" إن زوجي فقير، وإن بني اخ لي ايتام في حجري، وانا منفقة عليهم هكذا وهكذا، وعلى كل حال فهل لي اجر فيما انفقت عليهم؟ فقال: ((نعم)) وكانت صناع اليدين".أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ:" جَاءَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّ زَوْجِي فَقِيرٌ، وَإِنَّ بَنِي أَخٍ لِي أَيْتَامٌ فِي حِجْرِي، وَأَنَا مُنْفِقَةٌ عَلَيْهِمْ هَكَذَا وَهَكَذَا، وَعَلَى كُلِّ حَالٍ فَهَلْ لِي أَجْرٌ فِيمَا أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ)) وَكَانَتْ صَنَاعَ الْيَدَيْنِ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرمایا، تو عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) کی اہلیہ زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صدقہ لے کر آئیں تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ کے پاس مال کم ہے اور میرے یتیم بھتیجے ہیں تو اگر میں صدقہ سے ان پر خرچ کروں تو میری طرف سے کفایت کر جائے گا جبکہ میں ان پر فلاں فلاں مد میں سے خرچ کرتی ہوں، اور ہر حال میں (ان پر خرچ کرتی ہوں)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ راوی نے بیان کیا، وہ دستکار خاتون تھیں۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، ابواب الزكاة، باب الصدقة على ذي قرابة، رقم: 1835. اسناده صحيح»
اخبرنا عبد الرزاق، نا معمر، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن زينب بنت ام سلمة، عن ام سلمة: انها قالت: يا رسول الله، إن بني ام سلمة في حجري، وليس لهم شيء إلا ما انفقت عليهم ولست بتاركيهم كذا وكذا افلي اجر إن انفقت عليهم؟ فقال: ((نعم،.أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، نا مَعْمَرٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ: أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بَنِي أُمِّ سَلَمَةَ فِي حِجْرِي، وَلَيْسَ لَهُمْ شَيْءٌ إِلَّا مَا أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ وَلَسْتُ بِتَارِكِيهِمْ كَذَا وَكَذَا أَفَلِي أَجْرٌ إِنْ أَنْفَقْتُ عَلَيْهِمْ؟ فَقَالَ: ((نَعَمْ،.
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ابوسلمہ کے بچے میری پرورش (کفالت) میں ہیں، کیا میرے لیے کفایت کرتا ہے کہ میں صدقہ میں سے ان پر خرچ کروں، اور میں ان پر خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب الزكاة، باب الزكاة على الزوج والا يتام فى الحجر، رقم: 1466. مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل التفقة والصدقة الخ، رقم: 1000.»
اخبرنا يحيى بن آدم، نا عبد الرحيم بن سليمان، عن المجالد بن سعيد، عن شعبة، عن زينب الثقفية قالت: كنت جمعت مويلا لي فقلت لاضعنه في ازكى موضع عندي، فقلت في نفسي: لو تصدقت به في سبيل الله في بعض سرايا رسول الله صلى الله عليه وسلم التي يبعثها، او اشتري به نسمة مسلمة فاعتقها، او تصدقت به على المساكين، او تصدقت به على زوج مجهود وبني اخ يتامى في حجري، فاتيت عائشة اسالها، عن ذلك، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا عائشة: ((من هذه؟)) قالت امراة ابن ام عبد. قال: ((فما جاء بها)) فذكرت عائشة له ذلك. فقال: لترده على زوجها المجهود وبني اخيها اليتامى يكن لها اجرها مرتين".أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، نا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنِ الْمُجَالِدِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ زَيْنَبَ الثَّقَفِيَّةِ قَالَتْ: كُنْتُ جَمَعْتُ مُويلَا لِي فَقُلْتُ لَأَضَعَنَّهُ فِي أَزْكَى مَوْضِعٍ عِنْدِي، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: لَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي بَعْضِ سَرَايَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي يَبْعَثُهَا، أَوْ أَشْتَرِي بِهِ نَسَمَةً مُسْلِمَةً فَأَعْتِقُهَا، أَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَى الْمَسَاكِينِ، أَوْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَلَى زَوْجٍ مَجْهُودٍ وَبَنِي أَخٍ يَتَامَى فِي حِجْرِي، فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ أَسْأَلُهَا، عَنْ ذَلِكَ، فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ: ((مَنْ هَذِهِ؟)) قَالَتِ امْرَأَةُ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ. قَالَ: ((فَمَا جَاءَ بِهَا)) فَذَكَرَتْ عَائِشَةُ لَهُ ذَلِكَ. فَقَالَ: لِتَرُدُّهُ عَلَى زَوْجِهَا الْمَجْهُودِ وَبَنِي أَخِيهَا الْيَتَامَى يَكُنْ لَهَا أَجْرُهَا مَرَّتَيْنِ".
زینب ثقفیہ نے بیان کیا: میں اپنا مال جمع کیا کرتی تھی، تو میں نے کہا: میں اسے اپنے ہاں کسی بہترین جگہ پر رکھوں گی، میں نے اپنے دل میں کہا: اگر میں اسے اللہ کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی لشکر میں جسے آپ بھیجیں گے خرچ کر دوں، یا کسی مسلمان لونڈی کو خرید کر آزاد کر دوں یا اسے مسکینوں پر صدقہ کر دوں یا قلیل مال والے شوہر پر صدقہ کر دوں یا اپنی زیر کفالت یتیم بھتیجوں پر صدقہ کر دوں گی، پس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی تاکہ اس کے متعلق ان سے دریافت کروں، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے تو فرمایا: ”عائشہ! یہ کون ہیں؟“ انہوں نے عرض کیا: ابن ام عبد کی اہلیہ ہیں، فرمایا: ”وہ کس لیے آئی ہیں؟“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا تذکرہ کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اسے اپنے قلیل مال والے شوہر اور اپنے یتیم بھتیجوں پر خرچ کرے، اس کے لیے دوگنا اجر ہو گا۔“
اخبرنا عبدة بن سليمان، نا هشام بن عروة، عن ابيه قال: كانت زينب امراة عبد الله بن مسعود صناع اليدين تصنع الشيء ثم تبيعه، ولم يكن لعبد الله مال ولا لولده فقالت امراته: ستعلمون ان اتصدق، فقال عبد الله: ما احب إن لم يكن لك اجر فيما تنفقين ان تفعلي، فاتت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقصت عليه القصة، فقال: ((انفقي عليهم فلك اجر فيما انفقت عليهم)).أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، نا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ صَنَاعَ الْيَدَيْنِ تَصْنَعُ الشَّيْءَ ثُمَّ تَبِيعُهُ، وَلَمْ يَكُنْ لِعَبْدِ اللَّهِ مَالٌ وَلَا لِوَلَدِهِ فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: سَتَعْلَمُونَ أَنْ أَتَصَدَّقَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: مَا أُحِبُّ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكِ أَجْرٌ فِيمَا تُنْفِقِينَ أَنْ تَفْعَلِيَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَصَّتْ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ: ((أَنْفِقِي عَلَيْهِمْ فَلَكِ أَجْرٌ فِيمَا أَنْفَقْتِ عَلَيْهِمْ)).
عروہ رحمہ اللہ نے بیان کیا: سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہا کی زوجہ ہنر مند تھیں، وہ چیز تیار کرتیں اور پھر اسے فروخت کرتی تھیں، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے پاس مال نہیں تھا، ان کی اہلیہ نے انہیں کہا: تم نے صدقہ کرنے سے میری توجہ ہٹا دی، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اس (ہم پر خرچ کرنے) میں تمہارے لیے اجر نہ ہو تو پھر مجھے یہ پسند نہیں کہ تم یہ کرو، پس وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو پورا واقعہ بیان کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان پر جو خرچ کرتی ہو، اس کا تمہیں اجر ملے گا، پس ان پر خرچ کرو۔“
تخریج الحدیث: «سنن كبريٰ بيهقي: 178/4. صحيح ابن حبان، رقم: 4247. قال شعيب الارناوط: اسناده صحيح.»