اخبرنا جرير، عن ليث بن ابي سليم، عن شهر بن حوشب، عن اسماء بنت يزيد قالت: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم انا وخالة لي - وهي حديثة عهد بعرس - لنبايعه، فراى عليها اسوارا من ذهب، وخواتيم من ذهب، فقال لها: ((اتحبين ان يسورك الله اسوارين من نار؟)) فنزعتهما من يديها، فرمت بهما، فما ادري فمن اخذهما، ثم قال: الا تجعل إحداكن لونين او حلقتين من فضة ثم تغليه بعنبر او ورس او زعفران".أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَخَالَةٌ لِي - وَهِيَ حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِعُرْسٍ - لِنُبَايِعَهُ، فَرَأَى عَلَيْهَا أُسْوَارًا مِنْ ذَهَبٍ، وَخَوَاتِيمَ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ لَهَا: ((أَتُحِبِّينَ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ أُسْوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ؟)) فَنَزَعَتْهُمَا مِنْ يَدَيْهَا، فَرَمَتْ بِهِمَا، فَمَا أَدْرِي فَمَنْ أَخَذَهُمَا، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تَجْعَلُ إِحْدَاكُنَّ لَوْنَيْنِ أَوْ حَلَقَتَيْنِ مِنْ فِضَّةٍ ثُمَّ تُغْلِيهِ بِعَنْبَرٍ أَوْ وَرْسٍ أَوْ زَعْفَرَانَ".
سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اپنی خالہ کے ساتھ جو کہ نئی نویلی دلہن تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ ہم آپ کی بیعت کریں، آپ نے اسے سونے کے دو کنگن اور انگوٹھیاں پہنے ہوئے دیکھا، تو اسے فرمایا: ”کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے اور آگ کی انگوٹھیوں کے ساتھ تمہیں داغ دے؟“ پس اس نے فوراً انہیں ہاتھ سے اتار کر پھینک دیا، معلوم نہیں کہ کس نے انہیں اٹھایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی چاندی کی دو بالیاں نہیں بنا لیتی پھر عبیر یا ورس یا زعفران کا اس پر رنگ چڑھالے؟“
تخریج الحدیث: «سنن ابوداود، كتاب الزكاة، باب الكنز ما هو؟ وزكاة الحلي، رقم: 1563. سنن ترمذي، ابواب الزكاة، باب زكاة الحلي، رقم: 637. قال الشيخ الالباني: حسن. نسائي، رقم: 2479. مسند احمد: 315/6.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 288 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 288
فوائد: مذکورہ حدیث میں ہے کیا تو پسند کرتی ہے کہ تجھے آگ کے کنگن پہنائے جائیں؟ تو یہ اس وقت ہے جب زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ جیسا کہ ایک عورت نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس کے ہمراہ اس کی بیٹی بھی تھی۔ اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے دو کنگن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا، ”کیا تو اس کی زکاۃ دیتی ہے“؟ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ان کے بدلے تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟ یہ سن کر اس خاتون نے دونوں کنگن پھینک دیے۔ (سنن ابي داود، کتاب الزکاۃ: 1563) یہ بھی معلوم ہوا زیورات سے زکاۃ ادا کرنی چاہیے۔ زکاۃ ادا نہ کی جائے تو یہ کام عذابِ الٰہی کا باعث ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ() یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوٰی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ ﴾(البقرۃ: 34،35) ”اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجیے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا، پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔“