حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال: حدثنا نصر بن علي الجهضمي، قال: حدثنا النضر بن شيبان الحداني، قال: قلنا لابي سلمة بن عبد الرحمن حدثنا افضل شيء سمعت من ابيك في رمضان، قال ابو سلمة: حدثنا عبد الرحمن بن عوف، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم ذكر شهر رمضان ففضله على الشهور بما فضله الله، قال:" إن شهر رمضان شهر افترض الله صيامه على المسلمين وسننت قيامه، فمن صامه وقامه إيمانا واحتسابا خرج من الذنوب كيوم ولدته امه.حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ الْحُدَّانِيُّ، قَالَ: قُلْنَا لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدِّثْنَا أَفْضَلَ شَيْءٍ سَمِعْتَ مِنْ أَبِيكَ فِي رَمَضَانَ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ شَهْرَ رَمَضَانَ فَفَضَّلَهُ عَلَى الشُّهُورِ بِمَا فَضَّلَهُ اللَّهُ، قَالَ:" إِنَّ شَهْرَ رَمَضَانَ شَهْرٌ افْتَرَضَ اللَّهُ صِيَامَهُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَسَنَنْتُ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا خَرَجَ مِنَ الذُّنُوبِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ.
نضر بن شیبان الحدانی نے بیان کیا، کہا: ہم نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے کہا: جو کچھ آپ نے اپنے باپ سے سنا ہے اس میں سے رمضان کے بارے میں سب سے افضل حدیث ہمیں بتائیں، ابوسلمہ نے کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر فرمایا تو اسے دوسرے مہینوں پر فضیلت دی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے فضیلت دی ہے۔ ارشاد فرمایا: ”بلاشبہ رمضان کا مہینہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض قرار دیے ہیں اور اس کا قیام میں نے سنت قرار دیا ہے تو جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور نیکی حاصل کرنے کی غرض سے اس کے روزے رکھے اور اس کا قیام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جائے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔“
حدثنا مسدد، قال: حدثنا ابو عوانة، عن عمر بن ابي سلمة، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تصدقوا فإني اريد ان ابعث بها» ، فقال عبد الرحمن بن عوف: يا رسول الله لي اربعة آلاف، فالفين اقرضها ربي جل وعز والفين لعيالي، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بارك الله لك فيما اعطيت، وبارك لك فيما امسكت، قال: وجاء رجل من الانصار فقال: يا رسول الله إني بت اجر الجرير فاصبت صاعين من تمر، فصاعا اقرضه ربي جل وعز وصاعا لعيالي، قال: فلمزه المنافقون، فقالوا: والله ما اعطى ابن عوف الذي اعطى إلا رياء، وقالوا: اولم يكن الله تعالى ورسوله عليه السلام غنيين عن صاع هذا؟ قال الله عز وجل {الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات} [التوبة: 79]حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَصَدَّقُوا فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَبْعَثَ بِهَا» ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لِي أَرْبَعَةُ آلَافٍ، فَأَلْفَيْنِ أُقْرِضُهَا رَبِّي جَلَّ وَعَزَّ وَأَلْفَيْنِ لِعِيَالِي، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَبَارَكَ لَكَ فِيمَا أَمْسَكْتَ، قَالَ: وَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهَ إِنِّي بِتُّ أَجُرُّ الْجَرِيرَ فَأَصَبْتُ صَاعَيْنِ مِنْ تَمْرٍ، فَصَاعًا أُقْرِضُهُ رَبِّي جَلَّ وَعَزَّ وَصَاعًا لِعِيَالِي، قَالَ: فَلَمِزَهُ الْمُنَافِقُونَ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ مَا أَعْطَى ابْنُ عَوْفٍ الَّذِي أَعْطَى إِلَا رِيَاءً، وَقَالُوا: أَوَلَمْ يَكُنِ اللَّهُ تَعَالَى وَرَسُولُهُ عَلَيْهِ السَّلَامِ غَنِيَّيْنِ عَنْ صَاعِ هَذَا؟ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ {الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ} [التوبة: 79]
جناب ابوسلمہ نے اپنے باب عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”صدقہ کیا کرو پس بلاشبہ میں اسے آگے بھیجنا چاہتا ہوں“، تو سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس چار ہزار ہیں۔ دو ہزار میں اللہ عزوجل کو قرض دیتا ہوں اور دو ہزار اپنے اہل و عیال کے لیے (چھوڑتا ہوں)، انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو تو نے دیا ہے اللہ تعالیٰ اس میں بھی برکت ڈالے اور جو تو نے اپنے بال بچوں کے لیے روک رکھا ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ برکت ڈالے۔“(سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) نے کہا: انصار میں سے ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایک صاع میں اپنے رب عزوجل کو قرض دیتا ہوں اور ایک صاع اپنے اہل و عیال کے لیے رکھتا ہوں۔ پس اس میں منافقوں نے عیب جوئی کی اور مزید کہا: اللہ کی قسم! ابن عوف نے محض ریاکاری کے لیے دیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ کیا اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول اس کے اس صاع سے بے پرواہ نہیں؟ تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل کیں: «الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لَا يَجِدُونَ إِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللَّـهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ»[9-التوبة:79]”جو لوگ ان مومنین کی عیب جوئی کرتے ہیں جو اپنی خوشی سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ان مومنوں کے صدقے کا بھی مذاق اڑاتے ہیں جن کے پاس اپنی محنت کی کمائی کے علاوہ صدقہ کرنے کے لیے اور کچھ نہیں ہوتا، اللہ ان کا مذاق اڑائے، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔“
اخبرنا إسحاق بن إسماعيل، قال: حدثنا يعلى بن عبيد، قال: حدثنا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، قال: خرج عمر إلى الشام، وخرج معه باصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستقبله ابو عبيدة بن الجراح وكان عاملا على الشام، فقال: ارجع فإن من ورائي مثل خرير النار، فقال: ما انا براجع، إنها حال قد كتبها الله جل وعز لا نتقدم عنها ولا نتاخر، فقال: لترجعن باصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم او لاشقن قميصي فقال: ما انا بفاعل، فقال عبد الرحمن: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا سمعتم به بارض فلا تقدموا عليه» ، قال عمر: يا ابا محمد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: نعم، فرجع عمر ورجع الناس معه.أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ إِلَى الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَقْبَلَهُ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ وَكَانَ عَامِلًا عَلَى الشَّامِ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَإِنَّ مِنْ وَرَائِي مِثْلَ خَرِيرِ النَّارِ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِرَاجِعٍ، إِنَّهَا حَالٌ قَدْ كَتَبَهَا اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ لَا نَتَقَدَّمُ عَنْهَا وَلَا نَتَأَخَّرُ، فَقَالَ: لَتَرْجِعَنَّ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ لَأَشُقَّنَّ قَمِيصِي فَقَالَ: مَا أَنَا بِفَاعِلٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تُقْدِمُوا عَلَيْهِ» ، قَالَ عُمَرُ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: نَعَمْ، فَرَجَعَ عُمَرُ وَرَجَعَ النَّاسُ مَعَهُ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم بھی نکلے، تو وہاں ابوعبیداللہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ان کا استقبال کیا اور وہ اس وقت شام کے گورنر تھے۔ انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو کہا: کہ آپ واپس چلے جائیں، میرے پاس جہنم کی چنگھاڑ اور جلا دینے والی تپش ہے۔ آپ نے کہا: میں واپس نہیں لوٹنے والا، یہ ایسی حالت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا ہے۔ ہم نہ اس سے آگے جا سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو ضرور واپس لے جائیں وگرنہ میں اپنی قمیض پھاڑ دوں گا، تو آپ نے فرمایا: میں ایسا نہیں کرنے والا تو عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”جب تم کسی زمین میں اس بیماری کے پھیل جانے کا سن لو تو اس کی طرف مت جاؤ۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابومحمد! کیا تو نے یہ اللہ کے رسول سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سن کر واپس لوٹ آئے اور ان کے ساتھ لوگ بھی واپس لوٹ آئے۔
حدثنا محمد بن كثير، قال: اخبرنا سليمان بن كثير، عن الزهري عن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، قال: اغمي على عبد الرحمن بن عوف، فصرخوا عليه، فلما افاق قال: اغمي علي؟ قالوا: نعم، قال: إنه اتاني رجلان او ملكان فيهما فظاظة وغلظة، فانطلقا بي فلقيهما رجلان او ملكان هما اراف منهما وارحم، فقالا: اين تريدان؟ قالا: نريد العزيز الامين او الامير - شك القاضي - قالا: خليا عنه، فإنه ممن كتبت له السعادة وهو في بطن امه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَصَرَخُوا عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَيَّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّهُ أَتَانِي رَجُلَانِ أَوْ مَلَكَانِ فِيهِمَا فَظَاظَةٌ وَغِلْظَةٌ، فَانْطَلَقَا بِي فَلَقِيَهُمَا رَجُلَانِ أَوْ مَلَكَانِ هُمَا أَرْأَفُ مِنْهُمَا وَأَرْحَمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدَانِ؟ قَالَا: نُرِيدُ الْعَزِيزَ الْأَمِينَ أَوِ الْأَمِيرَ - شَكَّ الْقَاضِي - قَالَا: خَلِّيَا عَنْهُ، فَإِنَّهُ مِمَّنْ كُتِبَتْ لَهُ السَّعَادَةُ وَهُوَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ.
جناب ابراہیم نے اپنے باپ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی۔ کہا: سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر غشی طاری ہو گئی تو لوگ ان پر چیخنے لگے، جب انہیں افاقہ ہوا تو پوچھا: کیا مجھ پر غشی طاری ہو گئی تھی؟ تو لوگوں نے کہا:، جی ہاں، انہوں نے فرمایا: میرے پاس دو سخت دل اور بدمزاج آدمی یا دو فرشتے آئے، وہ مجھے لے کر جا رہے تھے، تو انہیں دو آدمی یا فرشتے ملے جو نرم اور رحم دل تھے، انہوں نے کہا کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہو؟ تو انہوں نے کہا: عزیز الامین یا امیر کے پاس قاضی کو شک پڑا ہے (کہ عزیز الامین کے الفاظ ہیں امیر کا لفظ بولا ہے) انہوں نے کہا: کہ اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے لیے شکم مادر سے ہی سعادت لکھ دی گئی ہے۔
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن ابيه، عن جده، قال: بينما انا واقف، في الصف يوم بدر، نظرت عن يميني، وشمالي، فإذا انا بين غلامين من الانصار حديثة اسنانهما، فتمنيت ان اكون بين اضلع منهما، فغمزني احدهما فقال: يا عماه هل تعرف ابا جهل؟ قلت: نعم، وما حاجتك إليه يا ابن اخي؟ قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجز منا، فتعجبت لذلك فغمزني الآخر، وقال لي: مثلها، فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يجول في الناس فقلت لهما: الا إن هذا صاحبكما الذي تسالان عنه فابتدراه بسيفيهما فضرباه حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال: ايكما قتله؟ فقال كل واحد منهما: انا قتلته فقال: هل مسحتما سيفيكما؟ قالا: لا، قال: فنظر في السيفين فقال: كلاكما قتله فقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح، وكانا معاذ بن عفراء ومعاذ بن عمرو بن الجموح.حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا وَاقِفٌ، فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ، نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي، وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمَّاهُ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيَتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَزُ مِنَّا، فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، وَقَالَ لِي: مِثْلَهَا، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ لَهُمَا: أَلَا إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهِ فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟ فَقَالَ كُلُ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟ قَالَا: لَا، قَالَ: فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ فَقَضَى بِسَلْبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَكَانَا مُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ وَمُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ.
جناب ابراہیم نے اپنے باپ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں جنگ بدر کے دن صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو دو نو عمر انصاری لڑکے کھڑے تھے، حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں کڑیل جوانوں کے درمیان ہوں گا (انہیں دیکھ کر میں مطمئن نہ ہوا) اچانک ان دونوں میں سے ایک نے مجھے کہنی کی ضرب لگائی اور کہا: چچا جان! آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے! تو اسے دیکھ کر کیا کرے گا؟ اس نے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا جسم اس کے وجود سے جدا نہیں ہو گا حتٰی کہ ہم میں سے ایک مر جائے۔ اس کی بات کو سن کر متعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے نے بھی مجھے متوجہ کیا اور اسی طرح کہا: اسی لمحے اچانک میں نے ابوجہل کو دیکھا۔ وہ اپنے لشکروں میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ میں نے ان دونوں سے کہا: یہ ہے وہ آپ کا شکار جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کر رہے تھے۔ وہ دونوں اپنی تلواریں لے کر ہوا ہو گئے، جاتے ہی اس کا تیا پانچہ کر دیا۔ پھر بھاگتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور (اس کے قتل) کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟“ ہر ایک نے کہا: میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟“ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں تو فرمایا: ”تم دونوں نے قتل کیا ہے۔“ لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا ساز و سامان عمرو بن جموع کے بیٹے معاذ کو دیا۔ یہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن الجموح تھے۔
حدثنا يوسف بن بهلول، قال: حدثنا ابن إدريس، عن ابن إسحاق، قال: حدثني بعض اصحابنا عن سعد بن إبراهيم، عن ابيه، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: قال امية بن خلف: يا عبد الإله، من الرجل منكم المعلم بريشة في صدره؟ قال: قلت «ذاك حمزة بن عبد المطلب» ، قال: ذاك الذي فعل بنا الافاعيل.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، مَنِ الرَّجُلُ مِنْكُمُ الْمُعَلَّمُ بِرِيشَةٍ فِي صَدْرِهِ؟ قَالَ: قُلْتُ «ذَاكَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ» ، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي فَعَلَ بِنَا الْأَفَاعِيلُ.
سعد نے اپنے باپ ابراہیم سے روایت کیا، انہوں نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، کہا: امیہ بن خلف نے کہا: اے عبدالالہ! تم میں سے کون ہے؟ جس کے سینے پر شتر مرغ کے پر کا نشان ہے؟ میں نے کہا: حمزہ بن عبدالمطلب، اس نے کہا: یہ تو وہ شخص ہے جس نے ہمارا یہ حال کیا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر الوركاني، قال: حدثنا إبراهيم يعني: ابن سعد عن ابيه، عن جده، قال: اتي عبد الرحمن بن عوف بطعام، فقال: قتل مصعب بن عمير - وكان خيرا مني - فلم نجد له ما يكفن به إلا بردة، وقتل حمزة فلم يوجد له ما يكفن به إلا بردة، او رجل آخر - شك في حمزة او رجل آخر وكان خيرا مني فلم نجد ما يكفن فيه إلا بردة، لقد خشيت ان يكون قد عجلت لنا طيباتنا في حياتنا الدنيا ثم جعل يبكي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرْكَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي: ابْنَ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِطَعَامٍ، فَقَالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ - وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي - فَلَمْ نَجِدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ بِهِ إِلَا بُرْدَةً، وَقُتِلَ حَمْزَةُ فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ بِهِ إِلَا بُرْدَةً، أَوْ رَجُلٍ آخِرَ - شَكَّ فِي حَمْزَةَ أَوْ رَجُلٍ آخِرَ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ نَجِدْ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَا بُرْدَةً، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي.
ابراہیم ابن سعد نے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے دادا سے۔ انہوں نے کہا: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دن کھانا رکھا گیا، انہوں نے کہا: مصعب بن عمیر شہید ہوئے۔ وہ مجھ سے بہتر تھے اور ہمارے پاس ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی جس سے انہیں کفن دیا جاتا۔ اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تو کفن کے لیے ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ (راوی کو) شک لاحق ہوا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا یا کسی اور آدمی کے بارے میں کہا کہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ ہمارے پاس کفن کے لیے ایک چادر کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ فرمایا: میں (اللہ تعالیٰ سے) ڈرتا ہوں کہیں ہمیں پاکیزہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ہی نہ دے دی جائیں (اور آخرت میں ہمارے لیے کچھ بھی نہ ہو) پھر وہ رونے لگے۔
حدثنا إسحاق بن إسماعيل الطالقاني، قال: حدثنا جعفر بن عون، قال: اخبرنا هشام بن سعد، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، قال: خرج عمر وباصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد الشام، حتى إذا كان بسرغ لقيه ابو عبيدة واهل الشام، فقيل له: يا امير المؤمنين إن الارض وبية، وإن معك اهل السابقة واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ومتى يصابوا لا يكن في الناس مثلهم، فقال له: ابو عبيدة يا امير المؤمنين امن الموت تفر، إنما نحن بقدر ولن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا، فقال: ادعوا إلي المهاجرين الاولين، فدعوا فقال: اشيروا علي، فقالت طائفة منهم: يا امير المؤمنين معك اهل السابقة، واهل العلم واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ومتى يصابوا لا يكن في الناس مثلهم وقالت: طائفة اخرى يا امير [ص: 70] المؤمنين امن الموت تفر، إنما نحن بقدر، ولن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا، فكان اشد من خالف عليه ابو عبيدة فقال: ادعوا إلي الانصار، فدعوا فقال: اشيروا علي فقالوا: بقول إخوانهم المهاجرين، واختلفوا فقال: ادعوا لي مهاجرة الفتح، ادعوا لي كبراء قريش، ادعوا إلي المشيخة، قال: فدعوا فقال: اشيروا علي قال: فلم يختلف منهم اثنان، قالوا: ادركنا آباءنا، يقولون: هذا الوجع، قال عمر: يصبح الناس على ظهر، ولا يدرون اين نتوجه، قال: فجاء عبد الرحمن بن عوف، فقال: يا امير المؤمنين إن عندي في هذا حديثا إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا سمعتم به بارض فلا تدخلوا عليه، وإذا وقع بارض فلا تخرجوا فرارا منه، قال: فرجع عمر بالناس.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: خَرَجَ عُمَرُ وَبِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم يُرِيدُ الشَّامَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أَبُو عُبَيْدَةَ وَأَهْلُ الشَّامِ، فَقِيلَ لَهُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ الْأَرْضَ وَبِيَّةٌ، وَإِنَّ مَعَكَ أَهْلَ السَّابِقَةِ وَأَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، وَمَتَى يُصَابُوا لَا يَكُنُ فِي النَّاسِ مَثَلُهُمْ، فَقَالَ لَهُ: أَبُو عُبَيْدَةَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَمِنَ الْمَوْتَ تَفِرُّ، إِنَّمَا نَحْنُ بِقَدَرٍ وَلَنْ يُصِيبَنَا إِلَا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا، فَقَالَ: ادْعُوا إِلَيَّ الْمُهَاجِرِينِ الْأَوَّلِينَ، فَدُعُوا فَقَالَ: أَشِيرُوا عَلِيَّ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَعَكَ أَهْلُ السَّابِقَةِ، وَأَهْلُ الْعِلْمِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَتَى يُصَابُوا لَا يَكُنْ فِي النَّاسِ مَثْلُهُمْ وَقَالَتْ: طَائِفَةٌ أُخْرَى يَا أَمِيرَ [ص: 70] الْمُؤْمِنِينَ أَمِنَ الْمَوْتِ تَفِرُّ، إِنَّمَا نَحْنُ بِقَدَرٍ، وَلَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا، فَكَانَ أَشَدُّ مَنْ خَالَفَ عَلَيْهِ أَبُو عُبَيْدَةَ فَقَالَ: ادْعُوا إِلَيَّ الْأَنْصَارَ، فَدُعُوا فَقَالَ: أَشِيرُوا عَلِيَّ فَقَالُوا: بِقَولِ إِخْوَانِهِمُ الْمُهَاجِرِينَ، وَاخْتَلَفُوا فَقَالَ: ادْعُوا لِي مُهَاجِرَةَ الْفَتْحِ، ادْعُوا لِي كُبَرَاءَ قُرَيْشٍ، ادْعُوا إِلَيَّ الْمَشْيَخَةَ، قَالَ: فَدُعُوا فَقَالَ: أَشِيرُوا عَلِيَّ قَالَ: فَلَمْ يَخْتَلِفْ مِنْهُمُ اثْنَانِ، قَالُوا: أَدْرَكَنَا آبَاءَنَا، يَقُولُونَ: هَذَا الْوَجَعُ، قَالَ عُمَرُ: يُصْبِحُ النَّاسُ عَلَى ظَهْرٍ، وَلَا يَدْرُونَ أَيْنَ نَتَوَجَّهُ، قَالَ: فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ إِنَّ عِنْدِي فِي هَذَا حَدِيثًا إنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تَدْخُلُوا عَلَيهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ، قَالَ: فَرَجَعَ عُمَرُ بِالنَّاسِ.
حمید نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ملک شام کی طرف روانہ ہوئے، جب مقام سرغ پر پہنچے تو انہیں ابوعبیدہ اور اہل شام ملے اور آپ سے کہا، اے امیر المؤمنین! (شام کی) سرزمین میں بیماری پھیل چکی ہے اور آپ کے ساتھ اہل السابقہ (ہجرت میں سبقت لینے والے) اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اور اگر یہ بیماری میں (ختم) ہو گئے تو ان جیسا لوگوں میں اور نہ ملے گا۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: اے امیر المؤمنین! کیا آپ موت سے بھاگیں گے، ہمارا اعتماد و تقدیر یہ ہے کہ ہمیں وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے لکھ دی ہے، تو آپ نے فرمایا: میرے پاس پہلے مہاجرین کو بلاؤ پس لوگوں نے انہیں بلا بھیجا، آپ نے ارشاد فرمایا: مجھے مشورہ دو، چنانچہ ان میں سے ایک جماعت نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کے ساتھ اہل السابقہ (ہجرت میں سبقت لینے والے) اہل علم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود ہیں۔ اور اگر یہ بیماری میں مبتلا ہو گئے تو لوگوں میں ان جیسے ایماندار اور کوئی نہیں ہیں، دوسری جماعت نے کہا، اے امیر المؤمنین! کیا آپ موت سے بھاگیں گے، ہم تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ہمیں وہی تکلیف پہنچے گی جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے مقدر میں لکھ دی ہے۔ سب سے زیادہ مخالفت کرنے والے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس انصار کو بلاو، چنانچہ انہیں بلایا گیا، آپ نے فرمایا: آپ لوگ مجھے مشورہ دو، چنانچہ انہوں نے بھی اپنے مہاجر بھائیوں کی طرح ہی بات کہی اور اختلاف کیا، آپ نے فرمایا: میرے پاس فتح مکہ کے مہاجروں کو بلاؤ، قریش کے بڑے لوگ اور بوڑھے آدمی بلاؤ۔ (راوی نے) کہا: انہیں بلایا گیا تو آپ نے کہا: مجھے مشورہ دو۔ (راوی نے)کہا: ان میں سے دو افراد نے اختلاف نہ کیا، انہوں نے کہا: ہمارے آباء کہتے تھے کہ انہیں بھی یہ تکلیف لاحق ہوئی تھی۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: لوگ خشکی کے راستے جائیں گے اور انہیں معلوم نہیں ہو گا کہ کہاں وہ متوجہ ہو رہے ہیں۔ (راوی نے) کہا: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور کہا: اے امیر المؤمنین! اس بارے میں میرے پاس ایک حدیث ہے: بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم بیماری کسی زمین میں سن لو تو اس میں مت داخل ہو اور جب یہ بیماری کسی زمین میں پھیل جائے تو اس سے فرار اختیار نہ کرو۔“(راوی نے) کہا: تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کو لے کر واپس لوٹ گئے۔
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، قال: حدثنا كثير بن عبد الله اليشكري، قال: سمعت الحسن بن عبد الرحمن بن عوف، عن ابيه، يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ثلاث تحت العرش يوم القيامة، القرآن يحاج العباد يوم القيامة له ظهر وبطن، والرحم تنادي الا من وصلني وصله الله، ومن قطعني قطعه الله، والامانة» .حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، يَرْفَعْهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «ثَلَاثٌ تَحْتَ الْعَرْشِ يَومَ الْقِيَامَةِ، الْقُرْآنُ يُحَاجُّ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ، وَالرَّحِمُ تُنَادِي أَلَا مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ، وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ، وَالْأَمَانَةُ» .
حسن نے اپنے والد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی، وہ اس روایت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع بیان کرتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”تین چیزیں قیامت کے دن عرش کے نیچے ہوں گی۔ قرآن قیامت کے دن بندوں کی خاطر جھگڑا کرے گا، اس کا پیٹ بھی ہو گا اور پشت بھی۔ اور صلہ رحمی آواز لگائے گی۔ خبردار! جس نے مجھے ملایا اسے اللہ تعالیٰ ملائے گا اور جس نے مجھے کاٹا اللہ تعالیٰ اسے کاٹے گا۔ اور امانت۔“
حدثنا يوسف بن بهلول، قال: حدثنا ابن إدريس، قال: حدثنا ابن إسحاق، قال: حدثنا عباد بن عبد الله بن الزبير، عن ابيه، قال: حدثنيه عبد الرحمن بن ابي بكر، وغيره، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: كان امية بن خلف لي صديقا بمكة، وكان اسمي عبد عمرو، وتسميت حين اسلمت عبد الرحمن، وكان يلقاني بمكة فيقول: ارغبت عن اسم سماكه ابواك، فاقول: نعم، فيقول: فإني لا اعرف عبد الرحمن، فاجعل بيني وبينك شيئا ادعوك به، اما انت فلا تجبني باسمك الاول، واما انا فلا ادعوك بما لا اعرف، قال: قلت فاجعل يا ابا علي ما شئت، قال: فانت عبد الإله حتى إذا كان يوم بدر مررت به وهو واقف معه ابنه علي آخذ بيده قال [ص: 73]: ومعي ادراع قد استلبتها فانا احملها، فلما رآني قال: يا عبد عمرو، فلم اجبه، قال: يا عبد الإله، قال: قلت: نعم، قال: هل لك، فإنكم خير لك من هذه الادراع التي معك قال: قلت نعم هؤلاء خير، إذن فقال: فطرحت الادراع من يدي فاخذت بيده وبيد ابنه وهو يقول: ما رايت كاليوم اما لكم حاجة في اللبن؟ قال: ثم خرجت امشي بهما.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: كَانَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ لِي صَدِيقًا بِمَكَّةَ، وَكَانَ اسْمِي عَبْدُ عَمْرٍو، وَتَسَمَّيْتُ حِينَ أَسْلَمْتُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ يَلْقَانِي بِمَكَّةَ فَيَقُولُ: أَرَغِبْتَ عَنِ اسْمٍ سَمَّاكَهُ أَبَوَاكَ، فَأَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَاجْعَلْ بَيْنِي وَبَينَكَ شَيْئًا أَدْعُوكَ بِهِ، أَمَّا أَنْتَ فَلَا تُجِبْنِي بِاسْمِكَ الْأُوَّلَ، وَأَمَّا أَنَا فَلَا أَدْعُوكَ بِمَا لَا أَعْرِفُ، قَالَ: قُلْتُ فَاجْعَلْ يَا أَبَا عَلِيٍّ مَا شِئْتَ، قَالَ: فَأَنْتَ عَبْدُ الْإِلَهِ حَتَّى إِذَا كَانَ يَومُ بَدْرٍ مَرَرْتُ بِهِ وَهُوَ وَاقِفٌ مَعَهُ ابْنُهُ عَلِيٌّ آخِذٌ بِيَدِهِ قَالَ [ص: 73]: وَمَعِي أَدْرَاعٌ قَدِ اسْتَلَبْتُهَا فَأَنَا أَحْمِلُهَا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: يَا عَبْدَ عَمْرٍو، فَلَمْ أُجِبْهُ، قَالَ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ لَكَ، فَإِنَّكُمْ خَيْرٌ لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأَدْرَاعِ الَّتِي مَعَكَ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ هَؤُلَاءِ خَيْرٌ، إِذَنْ فَقَالَ: فَطَرَحَتُ الْأَدْرَاعَ مِنْ يَدِي فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَبِيَدِ ابْنِهِ وَهُوَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَومِ أَمَا لَكُمْ حَاجَةٌ فِي اللَّبَنِ؟ قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ أَمْشِي بِهِمَا.
عبدالرحمٰن بن ابی بکر وغیرہ نے سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ امیہ بن خلف مکہ میں میرا دوست تھا اور دور جاہلیت میں میرا نام عبد عمرو تھا، جب میں مسلمان ہوا تو اپنا نام تبدیل کر کے عبدالرحمٰن رکھ لیا، وہ مجھے مکہ میں ملتا تو مجھے کہتا: کیا تو اس نام کو اچھا نہیں جانتا جو تیرے والدین نے تیرا رکھا تھا، میں کہتا: جی ہاں، تو وہ کہتا: پس میں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا۔ بس مجھے کوئی خاص نام بتا دو جس سے میں تجھے پکارا کروں۔ پتا نہیں کہ تجھے کیا ہے کہ تیرا نام عبد عمرو پکارو ں تو تُو مجھے جواب ہی نہیں دیتا، اور مجھے بھی کوئی مصیبت نہیں آن پڑی کہ میں تجھے ایسے نام سے پکاروں جسے میں پہچانتا ہی نہیں؟ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے ابوعلی! جو تو چاہتا ہے وہ رکھ لے، اس نے کہا: میں تجھے ”عبدالالہ“ کہہ کے پکارا کروں گا (یعنی اس نے آپ کا نام ”عبد الالہ“ رکھ دیا) غزوہ بدر کے دن میں اس کے قریب سے گزرا اس وقت وہ اپنے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ اور میرے پاس کچھ زرہیں تھیں جنہیں میں نے کافروں سے چھینا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو کہا: اے عبد عمرو، میں نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے کہا: اے عبد الالہ، میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: میں تمہارے لیے ان زرہوں سے زیادہ بہتر ہوں، میں نے کہا: ہاں، تو میں نے اپنے ہاتھ سے زرہیں پھینک دیں اور اس کا اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا۔