مسند عبدالرحمن بن عوف
متفرق
12. عبدالرحمٰن بن أبى بكر
عبدالرحمٰن بن أبی بکر کی حدیث
حدیث نمبر: 29
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: حَدَّثَنِيهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: كَانَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ لِي صَدِيقًا بِمَكَّةَ، وَكَانَ اسْمِي عَبْدُ عَمْرٍو، وَتَسَمَّيْتُ حِينَ أَسْلَمْتُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَكَانَ يَلْقَانِي بِمَكَّةَ فَيَقُولُ: أَرَغِبْتَ عَنِ اسْمٍ سَمَّاكَهُ أَبَوَاكَ، فَأَقُولُ: نَعَمْ، فَيَقُولُ: فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَاجْعَلْ بَيْنِي وَبَينَكَ شَيْئًا أَدْعُوكَ بِهِ، أَمَّا أَنْتَ فَلَا تُجِبْنِي بِاسْمِكَ الْأُوَّلَ، وَأَمَّا أَنَا فَلَا أَدْعُوكَ بِمَا لَا أَعْرِفُ، قَالَ: قُلْتُ فَاجْعَلْ يَا أَبَا عَلِيٍّ مَا شِئْتَ، قَالَ: فَأَنْتَ عَبْدُ الْإِلَهِ حَتَّى إِذَا كَانَ يَومُ بَدْرٍ مَرَرْتُ بِهِ وَهُوَ وَاقِفٌ مَعَهُ ابْنُهُ عَلِيٌّ آخِذٌ بِيَدِهِ قَالَ [ص: 73]: وَمَعِي أَدْرَاعٌ قَدِ اسْتَلَبْتُهَا فَأَنَا أَحْمِلُهَا، فَلَمَّا رَآنِي قَالَ: يَا عَبْدَ عَمْرٍو، فَلَمْ أُجِبْهُ، قَالَ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ لَكَ، فَإِنَّكُمْ خَيْرٌ لَكَ مِنْ هَذِهِ الْأَدْرَاعِ الَّتِي مَعَكَ قَالَ: قُلْتُ نَعَمْ هَؤُلَاءِ خَيْرٌ، إِذَنْ فَقَالَ: فَطَرَحَتُ الْأَدْرَاعَ مِنْ يَدِي فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَبِيَدِ ابْنِهِ وَهُوَ يَقُولُ: مَا رَأَيْتُ كَالْيَومِ أَمَا لَكُمْ حَاجَةٌ فِي اللَّبَنِ؟ قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ أَمْشِي بِهِمَا.
عبدالرحمٰن بن ابی بکر وغیرہ نے سیدنا عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ امیہ بن خلف مکہ میں میرا دوست تھا اور دور جاہلیت میں میرا نام عبد عمرو تھا، جب میں مسلمان ہوا تو اپنا نام تبدیل کر کے عبدالرحمٰن رکھ لیا، وہ مجھے مکہ میں ملتا تو مجھے کہتا: کیا تو اس نام کو اچھا نہیں جانتا جو تیرے والدین نے تیرا رکھا تھا، میں کہتا: جی ہاں، تو وہ کہتا: پس میں عبدالرحمٰن کو نہیں جانتا۔ بس مجھے کوئی خاص نام بتا دو جس سے میں تجھے پکارا کروں۔ پتا نہیں کہ تجھے کیا ہے کہ تیرا نام عبد عمرو پکارو ں تو تُو مجھے جواب ہی نہیں دیتا، اور مجھے بھی کوئی مصیبت نہیں آن پڑی کہ میں تجھے ایسے نام سے پکاروں جسے میں پہچانتا ہی نہیں؟ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے ابوعلی! جو تو چاہتا ہے وہ رکھ لے، اس نے کہا: میں تجھے ”عبدالالہ“ کہہ کے پکارا کروں گا (یعنی اس نے آپ کا نام ”عبد الالہ“ رکھ دیا) غزوہ بدر کے دن میں اس کے قریب سے گزرا اس وقت وہ اپنے بیٹے علی کا ہاتھ پکڑے کھڑا تھا۔ اور میرے پاس کچھ زرہیں تھیں جنہیں میں نے کافروں سے چھینا تھا، جب اس نے مجھے دیکھا تو کہا: اے عبد عمرو، میں نے کوئی جواب نہ دیا، اس نے کہا: اے عبد الالہ، میں نے کہا: جی ہاں۔ اس نے کہا: میں تمہارے لیے ان زرہوں سے زیادہ بہتر ہوں، میں نے کہا: ہاں، تو میں نے اپنے ہاتھ سے زرہیں پھینک دیں اور اس کا اور اس کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا۔