مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
تفسیر قرآن مجید
37. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((وما قدروا اﷲ ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الزمر)۔
حدیث نمبر: 2161
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یا اے ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر اور پانی اور نمناک زمین کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوق کو ایک انگلی پر، پھر ان کو ہلائے گا اور کہے گا کہ میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعجب سے ہنسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عالم کے کلام کی تصدیق کی، پھر یہ آیت پڑھی انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کرنی چاہئے تھی اور قیامت کے دن اس کی ساری زمین اس کی ایک مٹھی میں ہو گی اور اس کے دائیں ہاتھ میں آسمان لپٹے ہوں گے، وہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلند ہے۔
38. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((وما کنتم تستترون ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ حم السجدہ)۔
حدیث نمبر: 2162
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بیت اللہ کے پاس تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے دو قریش کے تھے اور ایک ثقیف کا یا دو ثقیف کے تھے اور ایک قریش کا تھا۔ ان کے دلوں میں سمجھ کم تھی اور ان کے پیٹوں میں چربی بہت تھی (اس سے معلوم ہوا کہ موٹاپے کے ساتھ دانائی کم ہوتی ہے)۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ تم کیا سمجھتے ہو، جو ہم کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ سنتا ہے؟ دوسرا بولا کہ اگر ہم باآواز بلند پکاریں گے تو سنے گا اور چپکے سے بولیں گے تو نہیں سنے گا۔ تیسرا بولا کہ اگر باآواز بلند پکارنے پر سنتا ہے تو آہستہ بولنے پر بھی سنے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری تم اس لئے نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے کان، آنکھیں اور تمہاری کھالیں تم پر گواہی دیں گی .... پوری آیت (لیکن تم نے یہ خیال کیا کہ بہت سے کام جو تم کرتے ہو اللہ نہیں جانتا)۔
39. اللہ کے فرمان ((فارتقب یوم تتی ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الدخان)۔
حدیث نمبر: 2163
Save to word مکررات اعراب
مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور بولا کہ اے ابوعبدالرحمن! ایک قصہ کو کندہ کے دروازوں پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے، یہ دھواں آنے والا ہے اور کافروں کا سانس روک دے گا اور مسلمانوں کو اس سے زکام کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما غصے میں بیٹھ گئے اور کہا کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو۔ تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہے اس کو کہے اور جو نہیں جانتا تو یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ کیونکہ علم کی بات یہی ہے کہ جو بات تم میں سے کوئی نہ جانتا ہو، اس کے لئے اللہ اعلم کہے۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ کہ میں کچھ مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرتا ہوں (رضی اللہ عنہ: 76) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی کیفیت دیکھی کہ وہ سمجھانے سے نہیں مانتے تو فرمایا کہ اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے دور میں سات برس تک قحط ہوا تھا۔ آخر قریش پر قحط پڑا جو ہر چیز کو کھا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھوک کے مارے کھا لوں اور مردار کو بھی کھا لیا اور ان میں سے ایک شخص آسمان کو دیکھتا تو دھوئیں کی طرح معلوم ہوتا۔ پھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم کرتے ہو اور ناطہٰ جوڑنے کا حکم کرتے ہو اور تمہاری قوم تو تباہ ہو گئی۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس دن کا انتظار کر جب آسمان سے کھلم کھلا دھواں اٹھے گا جو لوگوں کو ڈھانک لے گا یہ دکھ کا عذاب ہے ........ یہاں تک کہ فرمایا کہ ہم عذاب کو موقوف کرنے والے ہیں تحقیق تم پھر کفر کرنے والے ہو اگر اس آیت میں آخرت کا عذاب مراد ہے تو وہ کہیں موقوف ہوتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے، ہم بدلہ لیں گے تو اس پکڑ سے مراد بدر کی پکڑ ہے اور یہ نشانیاں یعنی دھواں اور پکڑ اور لزام اور روم کی نشانیاں تو گزر چکیں ہیں۔
حدیث نمبر: 2164
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ پانچ نشانیاں تو گزر چکیں ہیں اور وہ دخان، لزام، روم، بطشہ اور قمر (یعنی شق القمر) ہیں۔
40. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((وھو الّذی کفّ ایدیھم ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الفتح)۔
حدیث نمبر: 2165
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ کے اسی مسلح آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنعیم کے پہاڑ سے اترے، وہ دھوکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غفلت کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر (حملہ کرنا چاہتے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پکڑ لیا لیکن قتل نہیں کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا کہ یعنی وہ اللہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا (اور ان کا فریب کچھ نہ چلا) اور تمہارے ہاتھوں سے ان کو روکا (یعنی تم نے ان کو قتل نہ کیا)۔ مکہ کی سرحد میں ان پر فتح ہو جانے کے بعد۔
41. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((لا ترفعوا اصواتکم ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الحجرات)۔
حدیث نمبر: 2166
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کرو ........ آخر تک نازل ہوئی تو سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں تو جہنمی ہوں (کیونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی اور وہ انصار کے خطیب تھے، اس لئے وہ ڈر گئے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوعمرو! ثابت کا کیا حال ہے کیا بیمار ہو گیا ہے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرا ہمسایہ ہے، میں نہیں جانتا کہ وہ بیمار ہے۔ پھر سیدنا رضی اللہ عنہ سعد سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تو سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آیت اتری اور تم جانتے ہو کہ میری آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونچی ہے، (اس لئے) میں تو جہنمی ہوں۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ جنتی ہے۔
42. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((یوم نقول لجحنّم ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ ق)۔
حدیث نمبر: 2167
Save to word مکررات اعراب
عبدالوہاب بن عطاء اللہ تعالیٰ کے فرمان ((یوم نقول لجحنّم ....)) الآیۃ کے متعلق سعید سے وہ قتادہ سے اور وہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برابر جہنم میں لوگ ڈالے جاتے رہیں گے اور وہ یہی کہے گی کہ کچھ اور ہے؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عزت والا اپنا قدم اس میں رکھ دے گا۔ تب اس کا بعض حصہ بعض میں سمٹ جائے گا اور کہنے لگے گی کہ بس بس تیری عزت اور کرم کی قسم۔ اور برابر جنت میں جگہ خالی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور اس کو اس جگہ میں رکھے گا۔
43. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((فھل من مّدّکر)) کے متعلق (تفسیر سورۃ القمر)۔
حدیث نمبر: 2168
Save to word مکررات اعراب
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اسود بن یزید سے پوچھا اور وہ مسجد میں قرآن پڑھایا کرتے تھے کہ تم ((مّدّکر)) میں دال پڑھتے ہو یا ذال؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ((فھل من مّدّکر)) دال سے پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (یعنی جس میں نقطہ نہیں ہوتا)۔
44. اللہ تعالیٰ تعالیٰ کے فرمان ((وخلق الجآنّ من مّارجٍ ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الرحمن)۔
حدیث نمبر: 2169
Save to word مکررات اعراب
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے نور سے بنائے گئے، جن آگ کی لو سے اور سیدنا آدم علیہ السلام اس سے جو قرآن میں بیان ہوا ہے (یعنی مٹی سے)۔
45. اللہ تعالیٰ کے فرمان ((الم ین للّذین آمنوا ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الحدید)۔
حدیث نمبر: 2170
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب سے ہم مسلمان ہوئے اس وقت سے لے کر اس آیت کیا وہ وقت نہیں آیا جب مسلمانوں کے دل اللہ کے ذکر کے لئے لرز جائیں کے اترنے کے وقت تک، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر عتاب کیا ہو، چار برس کا عرصہ گزرا۔

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.