سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! یا اے ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اللہ تعالیٰ قیامت کے دن آسمانوں کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا اور زمینوں کو ایک انگلی پر اور پہاڑوں اور درختوں کو ایک انگلی پر اور پانی اور نمناک زمین کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوق کو ایک انگلی پر، پھر ان کو ہلائے گا اور کہے گا کہ میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تعجب سے ہنسے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عالم کے کلام کی تصدیق کی، پھر یہ آیت پڑھی ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسے اس کی قدر کرنی چاہئے تھی اور قیامت کے دن اس کی ساری زمین اس کی ایک مٹھی میں ہو گی اور اس کے دائیں ہاتھ میں آسمان لپٹے ہوں گے، وہ پاک ہے اور مشرکوں کے شرک سے بلند ہے“۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بیت اللہ کے پاس تین آدمی اکٹھے ہوئے جن میں سے دو قریش کے تھے اور ایک ثقیف کا یا دو ثقیف کے تھے اور ایک قریش کا تھا۔ ان کے دلوں میں سمجھ کم تھی اور ان کے پیٹوں میں چربی بہت تھی (اس سے معلوم ہوا کہ موٹاپے کے ساتھ دانائی کم ہوتی ہے)۔ ان میں سے ایک شخص بولا کہ تم کیا سمجھتے ہو، جو ہم کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ سنتا ہے؟ دوسرا بولا کہ اگر ہم باآواز بلند پکاریں گے تو سنے گا اور چپکے سے بولیں گے تو نہیں سنے گا۔ تیسرا بولا کہ اگر باآواز بلند پکارنے پر سنتا ہے تو آہستہ بولنے پر بھی سنے گا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”تم اس لئے نہیں چھپاتے تھے کہ تمہارے کان، آنکھیں اور تمہاری کھالیں تم پر گواہی دیں گی ....“ پوری آیت (لیکن تم نے یہ خیال کیا کہ بہت سے کام جو تم کرتے ہو اللہ نہیں جانتا)۔
مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور بولا کہ اے ابوعبدالرحمن! ایک قصہ کو کندہ کے دروازوں پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے، یہ دھواں آنے والا ہے اور کافروں کا سانس روک دے گا اور مسلمانوں کو اس سے زکام کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما غصے میں بیٹھ گئے اور کہا کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو۔ تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہے اس کو کہے اور جو نہیں جانتا تو یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ کیونکہ علم کی بات یہی ہے کہ جو بات تم میں سے کوئی نہ جانتا ہو، اس کے لئے ”اللہ اعلم“ کہے۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ”تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ کہ میں کچھ مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرتا ہوں“(رضی اللہ عنہ: 76) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی کیفیت دیکھی کہ وہ سمجھانے سے نہیں مانتے تو فرمایا کہ اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے دور میں سات برس تک قحط ہوا تھا۔ آخر قریش پر قحط پڑا جو ہر چیز کو کھا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھوک کے مارے کھا لوں اور مردار کو بھی کھا لیا اور ان میں سے ایک شخص آسمان کو دیکھتا تو دھوئیں کی طرح معلوم ہوتا۔ پھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم کرتے ہو اور ناطہٰ جوڑنے کا حکم کرتے ہو اور تمہاری قوم تو تباہ ہو گئی۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اس دن کا انتظار کر جب آسمان سے کھلم کھلا دھواں اٹھے گا جو لوگوں کو ڈھانک لے گا یہ دکھ کا عذاب ہے ........ یہاں تک کہ فرمایا کہ ہم عذاب کو موقوف کرنے والے ہیں تحقیق تم پھر کفر کرنے والے ہو“ اگر اس آیت میں آخرت کا عذاب مراد ہے تو وہ کہیں موقوف ہوتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے، ہم بدلہ لیں گے“ تو اس پکڑ سے مراد بدر کی پکڑ ہے اور یہ نشانیاں یعنی دھواں اور پکڑ اور لزام اور روم کی نشانیاں تو گزر چکیں ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکہ کے اسی مسلح آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تنعیم کے پہاڑ سے اترے، وہ دھوکہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غفلت کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام پر (حملہ کرنا چاہتے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پکڑ لیا لیکن قتل نہیں کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا کہ ”یعنی وہ اللہ ہے جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا (اور ان کا فریب کچھ نہ چلا) اور تمہارے ہاتھوں سے ان کو روکا (یعنی تم نے ان کو قتل نہ کیا)۔ مکہ کی سرحد میں ان پر فتح ہو جانے کے بعد۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ جب یہ آیت ”اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کرو ........ آخر تک“ نازل ہوئی تو سیدنا ثابت بن قیس بن شماس رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں بیٹھ رہے اور کہنے لگے کہ میں تو جہنمی ہوں (کیونکہ ان کی آواز بہت بلند تھی اور وہ انصار کے خطیب تھے، اس لئے وہ ڈر گئے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا چھوڑ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوعمرو! ثابت کا کیا حال ہے کیا بیمار ہو گیا ہے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرا ہمسایہ ہے، میں نہیں جانتا کہ وہ بیمار ہے۔ پھر سیدنا رضی اللہ عنہ سعد سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا تو سیدنا ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ آیت اتری اور تم جانتے ہو کہ میری آواز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اونچی ہے، (اس لئے) میں تو جہنمی ہوں۔ پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ جنتی ہے۔
عبدالوہاب بن عطاء اللہ تعالیٰ کے فرمان ((یوم نقول لجحنّم ....)) الآیۃ کے متعلق سعید سے وہ قتادہ سے اور وہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برابر جہنم میں لوگ ڈالے جاتے رہیں گے اور وہ یہی کہے گی کہ ”کچھ اور ہے“؟ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ عزت والا اپنا قدم اس میں رکھ دے گا۔ تب اس کا بعض حصہ بعض میں سمٹ جائے گا اور کہنے لگے گی کہ بس بس تیری عزت اور کرم کی قسم۔ اور برابر جنت میں جگہ خالی رہے گی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک مخلوق کو پیدا کرے گا اور اس کو اس جگہ میں رکھے گا۔
ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ اس نے اسود بن یزید سے پوچھا اور وہ مسجد میں قرآن پڑھایا کرتے تھے کہ تم ((مّدّکر)) میں دال پڑھتے ہو یا ذال؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کو سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ((فھل من مّدّکر)) دال سے پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ (یعنی جس میں نقطہ نہیں ہوتا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فرشتے نور سے بنائے گئے، جن آگ کی لو سے اور سیدنا آدم علیہ السلام اس سے جو قرآن میں بیان ہوا ہے (یعنی مٹی سے)۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب سے ہم مسلمان ہوئے اس وقت سے لے کر اس آیت ”کیا وہ وقت نہیں آیا جب مسلمانوں کے دل اللہ کے ذکر کے لئے لرز جائیں“ کے اترنے کے وقت تک، جس میں اللہ تعالیٰ نے ہم پر عتاب کیا ہو، چار برس کا عرصہ گزرا۔