مختصر صحيح مسلم
تفسیر قرآن مجید
اللہ کے فرمان ((فارتقب یوم تتی ....)) کے متعلق (تفسیر سورۃ الدخان)۔
حدیث نمبر: 2163
مسروق کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے اور وہ ہمارے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور بولا کہ اے ابوعبدالرحمن! ایک قصہ کو کندہ کے دروازوں پر بیان کرتا ہے اور کہتا ہے کہ قرآن میں جو دھوئیں کی آیت ہے، یہ دھواں آنے والا ہے اور کافروں کا سانس روک دے گا اور مسلمانوں کو اس سے زکام کی کیفیت پیدا ہو جائے گی۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما غصے میں بیٹھ گئے اور کہا کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو۔ تم میں سے جو کوئی بات جانتا ہے اس کو کہے اور جو نہیں جانتا تو یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ کیونکہ علم کی بات یہی ہے کہ جو بات تم میں سے کوئی نہ جانتا ہو، اس کے لئے ”اللہ اعلم“ کہے۔ اللہ جل جلالہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ”تو اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ کہ میں کچھ مزدوری نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرتا ہوں“ (رضی اللہ عنہ: 76) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب لوگوں کی کیفیت دیکھی کہ وہ سمجھانے سے نہیں مانتے تو فرمایا کہ اے اللہ! ان پر سات برس کا قحط بھیج جیسے یوسف علیہ السلام کے دور میں سات برس تک قحط ہوا تھا۔ آخر قریش پر قحط پڑا جو ہر چیز کو کھا گیا، یہاں تک کہ انہوں نے بھوک کے مارے کھا لوں اور مردار کو بھی کھا لیا اور ان میں سے ایک شخص آسمان کو دیکھتا تو دھوئیں کی طرح معلوم ہوتا۔ پھر ابوسفیان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! تم تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا حکم کرتے ہو اور ناطہٰ جوڑنے کا حکم کرتے ہو اور تمہاری قوم تو تباہ ہو گئی۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اس دن کا انتظار کر جب آسمان سے کھلم کھلا دھواں اٹھے گا جو لوگوں کو ڈھانک لے گا یہ دکھ کا عذاب ہے ........ یہاں تک کہ فرمایا کہ ہم عذاب کو موقوف کرنے والے ہیں تحقیق تم پھر کفر کرنے والے ہو“ اگر اس آیت میں آخرت کا عذاب مراد ہے تو وہ کہیں موقوف ہوتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے، ہم بدلہ لیں گے“ تو اس پکڑ سے مراد بدر کی پکڑ ہے اور یہ نشانیاں یعنی دھواں اور پکڑ اور لزام اور روم کی نشانیاں تو گزر چکیں ہیں۔