سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ سورۃ التوبہ؟ انہوں نے کہا کہ سورۃ التوبہ؟ اور کہا کہ بلکہ وہ سورت تو ذلیل کرنے والی ہے اور فضیحت کرنے والی ہے (کافروں اور منافقوں کی)۔ اس سورت میں برابر اترتا رہا کہ ”اور ان میں سے“”اور ان میں سے“ یہاں تک کہ منافق لوگ سمجھے کہ کوئی باقی نہ رہے گا جس کا ذکر اس سورت میں نہ کیا جائے گا۔ میں نے کہا کہ سورۃ الانفال؟ انہوں نے کہا کہ وہ سورت تو بدر کی لڑائی کے بارے میں ہے (اس میں مال غنیمت کے احکام مذکور ہیں)۔ میں نے کہا کہ سورۃ الحشر؟ انہوں نے کہا کہ وہ بنی نضیر کے بارے میں اتری۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے مدینہ کے کنارے میں نے ایک عورت سے مزہ اٹھایا اور میں نے سب باتیں کیں سوائے جماع کے۔ اب میں حاضر ہوں جو چاہے میرے بارے میں حکم دیجئیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ نے تیرے گناہ پر پردہ ڈال رکھا تھا، تو بھی اگر پردہ ڈالے رکھتا تو بہتر ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کچھ جواب نہ دیا۔ تب وہ شخص کھڑا ہوا اور چل پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پیچھے ایک شخص کو بھیجا اور بلا کر یہ آیت پڑھی: ((انّ الحسنات یذھبن ....)) ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! یہ حکم خاص اسی کے لئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں جا رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لکڑی پر ٹیکا دئیے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہود کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ ان سے روح کے بارے میں پوچھو۔ دوسرے نے کہا کہ تمہیں کیا شبہہ ہے جو پوچھتے ہو؟ ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہیں جو تمہیں بری معلوم ہو۔ پھر انہوں نے کہا کہ پوچھو۔ آخر ان میں سے کچھ لوگ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے اور روح کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ میں سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آ رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں اسی جگہ کھڑا رہا۔ جب وحی اتر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ ”تجھ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں تو کہہ دو کہ روح میرے رب کا ایک حکم ہے اور تم علم نہیں دئیے گئے مگر تھوڑا“۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے اس آیت ”جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، وہ تو اپنے مالک کے پاس وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں“ کے متعلق روایت ہے کہ بعض آدمی چند جنوں کی پوجا کرتے تھے، وہ جن مسلمان ہو گئے (اور ان کے پوجنے والوں کو خبر نہ ہوئی)۔ اور وہ لوگ ان کو ہی پوجتے رہے، تب یہ آیت اتری کہ ”وہ جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں، وہ تو اپنے مالک کے پاس وسیلہ ڈھونڈھتے ہیں“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت ”تم اپنی نماز کو نہ زیادہ اونچی آواز میں پڑھو اور نہ بالکل ہی آہستہ، بلکہ متوسط طریقہ اختیار کرو“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مکہ مکرمہ میں اس وقت نازل ہوئی جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوف کی وجہ سے ایک گھر میں پوشیدہ تھے۔ واقعہ یہ ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو نماز پڑھاتے تو قرآن بآواز بلند پڑھتے۔ پس جب کہ مشرک قرآن کریم کی آواز سنتے تو قرآن کریم، اس کو نازل کرنے والے (یعنی اللہ تعالیٰ) اور جس پر نازل ہوا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو گالیاں دیتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ”آپ اتنے زور سے نماز (میں قرآن) نہ پڑھیں“ کہ جسے مشرک سن سکیں ”اور اتنے آہستہ بھی نہ (قرآن) پڑھیں“ کہ آپ کے اصحاب بھی نہ سن سکیں ”بلکہ درمیانی آواز میں (قرآن) پڑھئے“ آہستہ اور اونچی آواز کے درمیان درمیان۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ((ولا تجھر بصلاتک....)) کے متعلق کہتی ہیں کہ یہ دعا کے بارے نازل ہوئی (یعنی دعا نہ بہت زور سے مانگو اور نہ بہت آہستہ آواز میں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن بڑا موٹا آدمی آئے گا جو اللہ کے نزدیک مچھر کے ایک پر کے برابر بھی نہ ہو گا۔ یہ آیت پڑھو کہ ”ہم قیامت کے دن ان کے لئے کوئی وزن نہ رکھیں گے“(یعنی دنیا کا موٹاپا اور مال اور دولت قیامت میں کام نہیں آئے گا وہاں تو عمل درکار ہے، اس حدیث سے موٹاپے کی مذمت ثابت ہوئی)
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن موت ایک سفید مینڈھے کی شکل میں لائی جائے گی اور اس کو دوزخ اور جنت کے درمیان میں ٹھہرا دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ اپنا سر اٹھا کر کہیں گے اور اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں! ہم پہچانتے ہیں، یہ موت ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ اے دوزخ والو! کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ بھی سر اٹھا کر اس کو دیکھیں گے اور کہیں گے کہ ہاں! ہم اس کو پہچانتے ہیں، یہ موت ہے۔ پھر حکم ہو گا تو وہ مینڈھا ذبح کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا کہ اے جنت والو! تمہیں ہمیشہ رہنا ہے اور کبھی موت نہیں ہے اور اے دوزخ والو! تمہیں بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہے اور تمہارے لئے بھی کبھی موت نہیں ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ”اور ان کو حسرت کے دن سے ڈراؤ جب فیصلہ ہو جائے گا اور وہ غفلت میں ہیں اور یقین نہیں کرتے“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے دنیا کی طرف اشارہ کیا (یعنی دنیا میں ایسے مشغول ہیں کہ قیامت کا ڈر نہیں ہے)۔
سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عاص بن وائل پر میرا قرض تھا، میں اس سے لینے کو گیا تو وہ بولا کہ میں کبھی نہ دوں گا جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم (کے دین) سے پھر نہ جائے گا۔ میں نے کہا کہ میں تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے اس وقت بھی نہ پھروں گا کہ تو مر کر جی اٹھے۔ وہ بولا کہ میں مرنے کے بعد پھر اٹھوں گا تو تیرا قرض ادا کروں گا۔ تب یہ آیت اتری ”تو نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہنے لگا کہ مجھے مال اور اولاد ملے گی۔ کیا وہ غیب کی بات کو جانتا ہے یا اس نے اللہ تعالیٰ سے کوئی اقرار کیا ہے؟ ........“ آخر تک۔