سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تبوک کی جنگ (غزوہ تبوک) میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے۔ وادی القریٰ (شام کے راستے میں مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک مقام ہے) میں ایک عورت کے باغ کے پاس پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اندازہ لگاؤ اس باغ میں کتنا میوہ ہے؟ ہم نے اندازہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کے اندازے میں وہ دس وسق معلوم ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا کہ جب تک ہم لوٹ کر آئیں تم یہ (اندازہ) گنتی یاد رکھنا، اگر اللہ نے چاہا۔ پھر ہم لوگ آگے چلے، یہاں تک کہ تبوک میں پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج رات تیز آندھی چلے گی، لہٰذا کوئی شخص کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو، وہ اس کو مضبوطی سے باندھ لے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ زوردار آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوا تو اس کو ہوا اڑا لے گئی، اور (وادی) طے کے دونوں پہاڑوں کے درمیان ڈال دیا۔ ابن العلماء حاکم ایلہ کا ایلچی ایک خط لے کر آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک سفید خچر تحفہ لایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب لکھا اور ایک چادر تحفہ بھیجی۔ پھر ہم لوٹے، یہاں تک کہ وادی القریٰ میں پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے باغ کے میوے کا حال پوچھا کہ کتنا نکلا؟ اس نے کہا پورا دس وسق نکلا۔ (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جلدی جاؤں گا، لہٰذا تم میں سے جس کا دل چاہے وہ میرے ساتھ جلدی چلے اور جس کا دل چاہے ٹھہر جائے۔ ہم نکلے یہاں تک کہ مدینہ دیکھائی دینے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ”طابہ“ ہے (طابہ مدینہ منورہ کا نام ہے) اور یہ احد پہاڑ ہے جو ہم کو چاہتا ہے اور ہم اس کو چاہتے ہیں۔ پھر فرمایا کہ انصار کے گھروں میں بنی نجار کے گھر بہترین ہیں (کیونکہ وہ سب سے پہلے مسلمان ہوئے) پھر بنی عبدالاشہل کے گھر، پھر بنی حارث بن خزرج کے گھر۔ پھر بنی ساعدہ کے گھر اور انصار کے سب گھروں میں بہتری ہے۔ پھر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہم سے ملے۔ ابواسید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے گھروں کی بہتری بیان فرمائی تو ہم کو سب کے اخیر میں کر دیا؟۔ یہ سن کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ نے انصار کی فضیلت بیان کی اور ہم کو سب سے آخر میں کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم کو یہ کافی نہیں ہے کہ تم اچھوں میں رہے؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، جب اس کے گرد روشنی ہوئی تو اس میں کیڑے اور یہ جانور جو آگ میں ہیں، گرنے لگے اور وہ شخص ان کو روکنے لگا، لیکن وہ نہ رکے اور اس میں گرنے لگے۔ یہ مثال ہے میری اور تمہاری، میں تمہاری کمر پکڑ کر جہنم سے روکتا ہوں اور کہتا ہوں کہ جہنم کے پاس سے چلے آؤ اور تم نہیں مانتے اسی میں گھسے جاتے ہو۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کام میں رخصت روا رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو خطبہ پڑھنے کو کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ لوگوں کا کیا حال ہے کہ جس کام میں مجھے رخصت دی گئی ہے اس سے احتراز کرتے ہیں؟ اللہ کی قسم میں تو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں (تو میری پیروی کرنا اور میری راہ پر چلنا، یہی تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور بےفائدہ نفس پر بار ڈالنا اور جائز کام سے بچنا اس کے جائز ہونے میں شک کرنا ہے)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) دو کاموں کا اختیار دیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسان کو اختیار کیا، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔ اور جو گناہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اس سے دور رہتے۔ اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لئے کسی سے بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر کوئی اللہ کے حکم کے برخلاف کرتا تو اس کو سزا دیتے۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سوج گئے۔ لوگوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں اتنی تکلیف اٹھاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دئیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں حوض کوثر پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا (یعنی آگے جا کر تمہارا منتظر ہوں گا اور تمہارے پلانے کا سامان درست کروں گا)۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میرا حوض ایک مہینہ کے سفر کے برابر ہے، اس کے چاروں کونے برابر ہیں (یعنی طول اور عرض یکساں ہے)، اس کا پانی چاندی سے زیادہ سفید ہے اور اس کی خوشبو مشک سے بہتر ہے۔ اس پر جو آبخورے (پیالے) رکھے ہیں، ان کی گنتی آسمان کے تاروں کے برابر ہے۔ جو اس میں سے پئے گا، پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا۔ عبداللہ نے کہا کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں حوض پر رہوں گا اور دیکھوں گا کہ تم میں سے کون کون وہاں آتے ہیں۔ اور کچھ لوگ میرے پاس آنے سے روکے جائیں گے، تو میں کہوں گا کہ اے پروردگار! یہ لوگ میرے ہیں، میری امت کے ہیں۔ تو جواب ملے گا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ جو کام انہوں نے تمہارے بعد کئے۔ اللہ کی قسم تمہارے بعد ذرا نہ ٹھہرے اور ایڑیوں پر لوٹ گئے (اسلام سے پھر گئے ان لوگوں میں خارجی بھی داخل ہیں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ سے الگ ہو گئے اور مسلمانوں کو کافر سمجھنے لگے اور وہ لوگ بھی داخل ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل نہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو ستایا اور شہید کیا۔ معاذاللہ) ابن ابی ملیکہ (راوی حدیث) کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم ایڑیوں پر لوٹ جانے سے یا دین میں فتنہ ہونے سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔
سیدنا حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا حوض اتنا بڑا ہے جیسے صنعاء سے مدینہ (ایک مہینہ کی راہ)۔ مستورد نے کہا کہ تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتنوں کا ذکر نہیں سنا؟ حارثہ نے کہا کہ نہیں۔ مستورد نے کہا کہ وہاں ستاروں کی طرح برتن ہوں گے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے ایک حوض ہو گا، جس کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہو گا جیسے جرباء اور اذرح میں ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ تمہارے سامنے میرا حوض ہو گا۔ اور ایک روایت میں ہے، عبیداللہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سے (یعنی نافع سے) پوچھا کہ جرباء اور اذرح کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ شام میں دو گاؤں ہیں اور ان میں تین رات کی مسافت کا فاصلہ ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تین دن کی مسافت ہے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں حوض پر تمہارا پیش خیمہ ہوں گا اور اس کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جیسے صنعاء اور ایلہ میں اور اس کے آبخورے تاروں کی طرح ہیں۔