سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکاح کیا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور ان کے پاس کچھ مال نہ تھا اور نہ کوئی غلام تھا اور نہ کچھ اور سوائے ایک گھوڑے کے۔ میں ہی ان کے گھوڑے کو چراتی اور سارا کام گھوڑے کا اور سدھائی بھی کرتی اور ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں بھی کوٹتی اور اس کو چراتی بھی اور اس کو پانی بھی پلاتی اور ڈول بھی سی دیتی اور آٹا بھی گوندھتی لیکن میں روٹی اچھی طرح نہ پکا سکتی تھی تو ہمسایہ کی انصاری عورتیں میری روٹیاں پکا دیتیں اور وہ بہت محبت کی عورتیں تھیں۔ اسماء نے کہا کہ میں زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جاگیر کے طور پر دی تھی، اپنے سر پر گٹھلیاں لایا کرتی تھی اور وہ جاگیر مدینہ سے دو میل دور تھی۔ (ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے اور ہاتھ چوبیس انگلی کا اور انگلی چھ جو کی اور فرسخ تین میل کا) ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی کہ راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، پھر اونٹ کے بٹھانے کو اخ اخ بولا تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں۔ مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی؟) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک خادمہ دے دیی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی، گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، میں رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو آئی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں، پھر میں لوٹ جانے کو کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے پہنچا دینے کو میرے ساتھ کھڑے ہوئے اور میرا گھر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی مکان میں تھا۔ راہ میں انصار کے دو آدمی ملے جب انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ جلدی جلدی چلنے لگے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ دونوں بولے کہ سبحان اللہ یا رسول اللہ! (یعنی ہم بھلا آپ پر کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح پھرتا ہے اور میں ڈرا کہ کہیں تمہارے دل میں برا خیال نہ ڈالے (اور اس کی وجہ سے تم تباہ ہو)۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار رہو کہ کوئی مرد کسی شادی شدہ عورت کے پاس رات کو نہ رہے مگر یہ کہ اس عورت کا خاوند ہو یا اس کا محرم ہو۔
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عورتوں کے پاس جانے سے بچو۔ ایک انصاری شخص بولا کہ یا رسول اللہ! دیور کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیور تو موت ہے۔ (یعنی اصل خطرہ تو دیور سے ہے)۔ سیدنا لیث بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ حدیث میں جو آیا ہے کہ دیور موت ہے، تو دیور سے مراد خاوند کے عزیز اور اقربا ہیں جیسے خاوند کا بھائی یا اس کے چچا کا بیٹا (خاوند کے جن عزیزوں سے عورت کا نکاح کرنا درست ہے، وہ سب دیوروں میں داخل ہیں، ان سے پردہ کرنا چاہئے سوائے خاوند کے باپ یا داد یا اس کے بیٹے کے کہ وہ محرم ہیں اور ان سے پردہ نہیں)
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی ہاشم کے چند لوگ اسماء بنت عمیس کے پاس گئے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی گئے اور اس وقت اسماء ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں انہوں نے ان کو دیکھا اور ان کا آنا برا جانا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا اور کہا کہ میں نے کوئی بری بات نہیں دیکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسماء کو اللہ نے برے فعل سے پاک کیا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ آج سے کوئی شخص اس عورت کے گھر میں نہ جائے جس کا خاوند غائب ہو (یعنی گھر میں نہ ہو) مگر ایک یا دو آدمی ساتھ لے کر۔ (ان سے مراد اپنے آدمی ہیں جن کے بارہ میں یہ خیال کرنا محال ہو کہ وہ کسی فاحشہ عورت کے پاس جا سکتے ہیں)
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے پاس ایک مخنث آیا کرتا تھا اور وہ اس کو ان لوگوں میں سے سمجھتیں تھیں جن کو عورتوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی (اور قرآن میں ان کا عورتوں کے سامنے آنا جائز رکھا ہے)۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے پاس آئے تو وہ ایک عورت کی تعریف کر رہا تھا کہ جب سامنے آتی ہے تو چار بٹیں لے کر آتی ہے اور جب پیٹھ موڑتی ہے تو آٹھ بٹیں ظاہر ہوتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ یہاں جو ہیں ان کو پہچانتا ہے (یعنی عورتوں کے حسن اور قبح کو پسند کرتا ہے) یہ تمہارے پاس نہ آئیں۔ (سیدہ عائشہ کہتی ہیں) پس انہوں نے اسے روک دیا۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رات کو مدینہ میں کسی کا گھر جل گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آگ تمہاری دشمن ہے، جب سونے لگو تو اس کو بجھا دو۔