مختصر صحيح مسلم
آداب کا بیان
محرم عورت کو اپنے پیچھے بٹھانا۔
حدیث نمبر: 1436
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے مجھ سے نکاح کیا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے) اور ان کے پاس کچھ مال نہ تھا اور نہ کوئی غلام تھا اور نہ کچھ اور سوائے ایک گھوڑے کے۔ میں ہی ان کے گھوڑے کو چراتی اور سارا کام گھوڑے کا اور سدھائی بھی کرتی اور ان کے اونٹ کے لئے گٹھلیاں بھی کوٹتی اور اس کو چراتی بھی اور اس کو پانی بھی پلاتی اور ڈول بھی سی دیتی اور آٹا بھی گوندھتی لیکن میں روٹی اچھی طرح نہ پکا سکتی تھی تو ہمسایہ کی انصاری عورتیں میری روٹیاں پکا دیتیں اور وہ بہت محبت کی عورتیں تھیں۔ اسماء نے کہا کہ میں زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جاگیر کے طور پر دی تھی، اپنے سر پر گٹھلیاں لایا کرتی تھی اور وہ جاگیر مدینہ سے دو میل دور تھی۔ (ایک میل چھ ہزار ہاتھ کا ہوتا ہے اور ہاتھ چوبیس انگلی کا اور انگلی چھ جو کی اور فرسخ تین میل کا) ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی کہ راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا، پھر اونٹ کے بٹھانے کو اخ اخ بولا تاکہ مجھے اپنے پیچھے سوار کر لیں۔ مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی؟) سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک خادمہ دے دیی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی، گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔