سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں ”محمد رسول اللہ“( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا نقش بنوایا۔ لوگوں سے فرمایا کہ میں نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں ”محمد رسول اللہ“ کا نقش بنوایا ہے، تو کوئی اپنی انگوٹھی میں یہ نقش نہ بنوائے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایران کے بادشاہ) کسریٰ اور (روم کے بادشاہ) قیصر اور (حبش کے بادشاہ) نجاشی کو خط لکھنا چاہا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یہ بادشاہ کوئی خط نہ لیں گے جب تک اس پر مہر نہ ہو۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی بنوائی جس کا چھلہ چاندی کا تھا اور اس میں محمد رسول اللہ نقش تھا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی اپنے دائیں ہاتھ میں پہنی، جس کا نگینہ حبشہ کا تھا اور اس کا نگینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر کو ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے۔
امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس انگلی میں یا اس انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا اور درمیانی انگلی اور اس کے پاس والی انگلی کی طرف اشارہ کیا۔ (کیونکہ یہ انگلیاں ہر کام میں شریک ہوتی ہیں اور انگوٹھی سے حرج ہو گا، البتہ چھنگلی الگ رہتی ہے اسی میں انگوٹھی پہننا بہتر ہے)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جہاد میں جس میں ہم شریک تھے، سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جوتیاں بہت پہنا کرو کیونکہ جوتیاں پہننے سے آدمی سوار رہتا ہے (یعنی مثل سوار کے پاؤں کو تکلیف نہیں ہوتی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پاؤں سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے اور چاہئے کہ دونوں (جوتے) پہنے یا دونوں اتار ڈالے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلے۔ دونوں پہنے یا دونوں اتار ڈالے (ورنہ پاؤں میں موچ آ جانے کا احتمال ہے اور بدنما بھی ہے)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع کیا۔ راوی نے کہا کہ میں نے نافع سے پوچھا کہ قزع کیا ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ بچے کے سر کا کچھ حصہ مونڈنا اور کچھ چھوڑ دینا۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میری بیٹی دلہن بنی ہے اور خسرہ کی بیماری سے اس کے بال گر گئے ہیں، تو کیا میں اس کے بالوں میں جوڑ لگا دوں؟ (یعنی مصنوعی بال وغیرہ جو بازار میں ملتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے (بالوں میں) جوڑ لگانے اور لگوانے والی پر لعنت کی ہے۔