ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں رہی لیکن جہاد ہے اور نیت ہے اور جب تم سے جہاد کو نکلنے کے لئے کہا جائے تو نکلو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت بہت مشکل ہے (یعنی اپنا وطن چھوڑنا اور مدینہ میں میرے ساتھ رہنا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے فرمایا کہ کہیں اس سے نہ ہو سکے تو پھر ہجرت توڑنا پڑے) تیرے پاس اونٹ ہیں؟ وہ بولا ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے استفسار فرمایا کہ تو ان کی زکوٰۃ دیتا ہے؟ وہ بولا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو سمندروں کے اس پار سے عمل کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تیرے کسی عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حجاج کے پاس گئے، تو وہ بولا کہ اے ابن الاکوع! تو مرتد ہو گیا ہے کہ پھر جنگل میں رہنے لگا ہے سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگل میں رہنے کی اجازت دی تھی۔
سیدنا کثیر بن عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا اور میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب (آپ کے چچا زاد بھائی) دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لپٹے رہے اور جدا نہیں ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے جو فردہ بن نفاثہ جذامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور تحفہ دیا تھا (جس کو شہباء اور دلدل بھی کہتے تھے)۔ جب مسلمانوں اور کافروں کا سامنا ہوا اور مسلمان پیٹھ موڑ کر بھاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو کافروں کی طرف جانے کے لئے تیز کر رہے تھے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شجاعت تھی کہ ایسے سخت وقت میں خچر پر سوار ہوئے ورنہ گھوڑے بھی موجود تھے) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا اور اس کو تیز چلنے سے روک رہا تھا اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے ہوئے تھے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس! اصحاب سمرہ کو پکارو اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی آواز نہایت بلند تھی (وہ رات کو اپنے غلاموں کو آواز دیتے تو آٹھ میل تک جاتی)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہا کہ میں نے اپنی انہتائی بلند آواز سے پکارا کہ اصحاب سمرہ کہاں ہیں؟ یہ سنتے ہی اللہ کی قسم وہ ایسے لوٹے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس چلی آتی ہے اور کہنے لگے کہ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔ (اس سے معلوم ہوا کہ وہ دور نہیں بھاگے تھے اور نہ سب بھاگے تھے بلکہ بعض نومسلم وغیرہ اچانک تیز تیروں کی بارش سے لوٹے اور گڑبڑ ہو گئی۔ پھر اللہ نے مسلمانوں کے دل مضبوط کر دئیے) پھر وہ کافروں سے لڑنے لگے اور انصار کو یوں بلایا کہ اے انصار کے لوگو! اے انصار کے لوگو! پھر بنی حارث بن خزرج پر بلانا تمام ہوا (جو انصار کی ایک جماعت ہے) انہیں پکارا کہ اے بنی حارث بن خزرج! اے بنی حارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر گردن کو لمبا کئے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لڑائی کو دیکھا اور فرمایا کہ وقت تنور کے جوش کا ہے (یعنی اس وقت میں لڑائی خوب گرما گرمی سے ہو رہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کافروں کے منہ پر ماریں اور فرمایا کہ قسم ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی! کافروں نے شکست پائی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں دیکھنے گیا تو لڑائی ویسی ہی ہو رہی تھی اتنے میں اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں، تو کیا دیکھتا ہوں کہ کافروں کا زور ٹوٹ گیا اور ان کا کام الٹ گیا۔
سیدنا ابواسحٰق کہتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا براء رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ اے ابوعمارہ رضی اللہ عنہ! حنین کے دن تم بھاگ گئے تھے تو انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ نہیں موڑا لیکن چند جلد باز اور بے ہتھیار لوگ قبیلہ ہوازن کی طرف گئے، وہ تیرانداز تھے اور انہوں نے تیروں کی ایک بوچھاڑ کی جیسے ٹڈی دل ہو، تو یہ لوگ سامنے سے ہٹ گئے اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ابوسفیان بن حارث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کو چلاتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سے اترے اور دعا کی اور مدد مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں نبی ہوں، یہ جھوٹ نہیں، میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں، اے اللہ! اپنی مدد اتار۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم جب خونخوار لڑائی ہوتی، تو ہم اپنے آپ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں بچاتے اور ہم میں بہادر وہ تھے جو لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر رہتے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے حنین کا جہاد (غزوہ حنین) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا۔ جب دشمن کا سامنا ہوا، تو میں آگے بڑھ کر ایک گھاٹی پر چڑھا۔ دشمنوں میں سے ایک شخص میرے سامنے آیا۔ میں نے اس پر تیر مارا تو وہ مجھ سے اوجھل ہو گیا اور مجھے معلوم نہ ہو سکا کہ اس نے کیا کیا۔ میں نے لوگوں کو دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے نمودار ہوئے اور ان کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جنگ ہوئی، لیکن صحابہ پیچھے کو پلٹے۔ میں بھی شکست خوردہ ہو کر لوٹا اور میں دو چادریں پہنے ہوئے تھا، ایک تہہ بند باندھے ہوئے اور دوسری اوڑھے ہوئے تھا۔ میری تہبند کھل گئی تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیا اور شکست پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اکوع کا بیٹا گھبرا کر لوٹا۔ پھر دشمنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سے اترے اور ایک مٹھی خاک زمین سے اٹھائی اور ان کے منہ پر ماری اور فرمایا کہ بگڑ گئے منہ۔ پھر کوئی آدمی ان میں ایسا نہ رہا جس کی آنکھ میں اسی ایک مٹھی کی وجہ سے خاک نہ بھر گئی ہو۔ آخر وہ بھاگ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال مسلمانوں کو بانٹ دئیے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں کا محاصرہ کیا اور ان سے کچھ حاصل نہیں کیا (یعنی وہ زیر نہ ہوئے تھے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم لوٹ جائیں گے۔ صحابہ نے کہا کہ ہم بغیر فتح کے لوٹ جائیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا صبح کو لڑو۔ وہ لڑے اور زخمی ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم کل لوٹ جائیں گے، یہ تو ان کو اچھا معلوم ہوا۔ (اس پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔
سیدنا ابواسحٰق سے روایت ہے کہ عبداللہ بن یزید نماز استسقاء کے لئے نکلے اور لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، پھر پانی کے لئے دعا مانگی۔ کہتے ہیں کہ اس دن میں سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور میرے اور ان کے درمیان صرف ایک شخص تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے جہاد کئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انیس۔ میں نے پوچھا کہ آپ کتنے غزوات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے؟ انہوں نے کہا کہ سترہ میں۔ میں نے کہا کہ پہلا جہاد کون سا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ذات العسیر یا ذات العشیر (جو ایک مقام کا نام ہے۔ سیرۃ ابن ہشام میں اس کو غزوۃ العشیرہ لکھا ہے اس میں لڑائی نہ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشیرہ تک جا کر مدینہ کو پلٹ آئے یہ واقعہ 2 ہجری میں ہوا اور ابن ہشام نے کہا کہ سب سے پہلے غزوہ ودان ہوا مدینہ میں آنے کے ایک سال کے اخیر پر اس میں بھی لڑائی نہیں ہوئی)۔