مختصر صحيح مسلم
ہجرت اور غزوات بیان میں
غزوہ حنین۔
حدیث نمبر: 1189
سیدنا کثیر بن عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا اور میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب (آپ کے چچا زاد بھائی) دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لپٹے رہے اور جدا نہیں ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے جو فردہ بن نفاثہ جذامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور تحفہ دیا تھا (جس کو شہباء اور دلدل بھی کہتے تھے)۔ جب مسلمانوں اور کافروں کا سامنا ہوا اور مسلمان پیٹھ موڑ کر بھاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر کو کافروں کی طرف جانے کے لئے تیز کر رہے تھے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شجاعت تھی کہ ایسے سخت وقت میں خچر پر سوار ہوئے ورنہ گھوڑے بھی موجود تھے) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے ہوئے تھا اور اس کو تیز چلنے سے روک رہا تھا اور ابوسفیان رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے ہوئے تھے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عباس! اصحاب سمرہ کو پکارو اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی آواز نہایت بلند تھی (وہ رات کو اپنے غلاموں کو آواز دیتے تو آٹھ میل تک جاتی)۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہا کہ میں نے اپنی انہتائی بلند آواز سے پکارا کہ اصحاب سمرہ کہاں ہیں؟ یہ سنتے ہی اللہ کی قسم وہ ایسے لوٹے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس چلی آتی ہے اور کہنے لگے کہ ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں۔ (اس سے معلوم ہوا کہ وہ دور نہیں بھاگے تھے اور نہ سب بھاگے تھے بلکہ بعض نومسلم وغیرہ اچانک تیز تیروں کی بارش سے لوٹے اور گڑبڑ ہو گئی۔ پھر اللہ نے مسلمانوں کے دل مضبوط کر دئیے) پھر وہ کافروں سے لڑنے لگے اور انصار کو یوں بلایا کہ اے انصار کے لوگو! اے انصار کے لوگو! پھر بنی حارث بن خزرج پر بلانا تمام ہوا (جو انصار کی ایک جماعت ہے) انہیں پکارا کہ اے بنی حارث بن خزرج! اے بنی حارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر گردن کو لمبا کئے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لڑائی کو دیکھا اور فرمایا کہ وقت تنور کے جوش کا ہے (یعنی اس وقت میں لڑائی خوب گرما گرمی سے ہو رہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کافروں کے منہ پر ماریں اور فرمایا کہ قسم ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی! کافروں نے شکست پائی۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں دیکھنے گیا تو لڑائی ویسی ہی ہو رہی تھی اتنے میں اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں، تو کیا دیکھتا ہوں کہ کافروں کا زور ٹوٹ گیا اور ان کا کام الٹ گیا۔