سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بعض لشکر والوں کو باقی تمام لشکروں کی نسبت زیادہ دیتے اور ان سب مالوں میں خمس واجب تھا۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی لڑائی میں نکلے۔ جب ہم لوگ دشمنوں سے لڑے، تو مسلمانوں کو (شروع میں) شکست ہوئی (یعنی کچھ مسلمان بھاگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان میں جمے رہے)۔ پھر میں نے ایک کافر کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر (اس کے مارنے کو) چڑھا تھا۔ میں گھوم کر اس کی طرف آیا اور اس کے کندھے اور گردن کے بیچ میں ایک ضرب لگائی۔ وہ میری طرف پلٹا اور مجھے ایسا دبایا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی۔ اس کے بعد وہ خود مر گیا تب ہی مجھے چھوڑا۔ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا (جو ایسے بھاگ نکلے)، میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی کو مارا اور وہ گواہ رکھتا ہو تو اس (مقتول) کا سامان وہی لے۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ سن کر میں کھڑا ہوا اور کہا کہ میرا گواہ کون ہے؟ اس کے بعد میں بیٹھ گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایسا ہی فرمایا، تو میں پھر کھڑا ہوا اور کہا کہ میرے لئے گواہی کون دے گا؟ میں بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا، تو میں پھر کھڑا ہوا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ابوقتادہ! تجھے کیا ہوا ہے؟ میں نے سارا قصہ بیان کیا، تو ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! ابوقتادہ سچ کہتے ہیں اس شخص کا سامان میرے پاس ہے تو ان کو راضی کر دیجئیے کہ اپنا حق مجھے دے دیں۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم ایسا کبھی نہیں ہو گا اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ارادہ نہ کریں گے کہ) اللہ تعالیٰ کے شیروں میں سے ایک شیر جو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑتا ہے (اس کا) اسباب تجھے دلائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سچ کہتے ہیں (اس حدیث سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فتویٰ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتوے کو سچ کہا) تو وہ سامان ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کو دیدے۔ پھر اس نے وہ سامان مجھے دیدیا۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے (اس سامان میں سے) زرہ کو بیچا اور اس کے بدل بنوسلمہ کے محلے میں ایک باغ خریدا۔ اور یہ پہلا مال ہے جس کو میں نے اسلام کی حالت میں کمایا۔
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا ہوا تھا اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو میرے دونوں طرف انصار کے نوجوان اور کم عمر لڑکے نظر آئے۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ان سے زور آور جوانوں کے درمیان ہوتا (یعنی آزو بازو اچھے قوی لوگ ہوتے تو زیادہ اطمینان ہوتا)۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے دبایا اور کہا کہ اے چچا! تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں اور اے میرے بھائی کے بیٹے! تیرا ابوجہل سے کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ابوجہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہتا ہے، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں ابوجہل کو پاؤں تو اس سے جدا نہ ہونگا جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی موت پہلے آئی ہو۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس کے ایسا کہنے سے تعجب ہوا۔ (کہ بچہ ہو کر ابوجہل جیسے قوی ہیکل کے مارنے کا ارادہ رکھتا ہے)۔ پھر دوسرے نے مجھے دبایا اور اس نے بھی ایسا ہی کہا۔ کہتے ہیں تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو دیکھا کہ وہ لوگوں میں پھر رہا ہے، میں نے ان دونوں لڑکوں سے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم پوچھتے تھے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں دوڑے اور تلواروں کے وار کئے یہاں تک کہ مار ڈالا۔ پھر دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم میں سے کس نے اس کو مارا؟ ہر ایک بولنے لگا کہ میں نے مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لیں؟ وہ بولے نہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا کہ تم دونوں نے اسے مارا ہے۔ پھر اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو دلایا اور وہ دونوں لڑکے یہ تھے ایک معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرے معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہما۔
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حمیر (قبیلہ حمیر) کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہا لیکن سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) لشکر کے سردار تھے نے نہ دیا۔ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سامان اس کو دیدے۔ پھر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ، سیدنا عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، تو سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آخر وہی ہوا نا (یعنی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو شرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے خالد! اس کو مت دے اے خالد! اس کو مت دے۔ کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا۔ پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لئے اور بری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم غزوہ ہوازن (غزوہ حنین) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے (جو آٹھ ہجری میں ہوا)۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص سرخ اونٹ پر سوار آیا۔ اونٹ کو بٹھا کر اس کی کمر پر سے ایک تسمہ نکالا اور اس سے باندھ دیا۔ پھر آ کر لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے اور ادھر ادھر دیکھنے لگا (وہ کافروں کا جاسوس تھا)۔ اور ہم لوگ ان دنوں ناتواں تھے اور بعض پیدل بھی تھے (جن کے پاس سواری نہ تھی) اتنے میں یکایک دوڑتا ہوا اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس کا تسمہ کھول کر اس کو بیٹھ کر اور پھر اس پر بیٹھ کر کھڑا کیا، تو اونٹ اس کو لے کر بھاگا (اب کافروں کو خبر دینے کے لئے چلا)۔ ایک شخص نے خاکی رنگ کی اونٹنی پر اس کا پیچھا کیا۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں پیدل دوڑتا چلا گیا پہلے میں اونٹنی کی سرین کے پاس تھا (جو کہ اس جاسوس کے تعاقب میں جا رہی تھی) پھر میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے سرین کے پاس آ گیا پھر اور آ گے بڑھا، یہاں تک کہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر اس کو بٹھا دیا۔ جونہی اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا، میں نے تلوار سونتی اور اس مرد کے سر پر ایک وار کر کے اس کو گرا دیا۔ پھر میں اونٹ کو کھینچتا ہوا، اس (جاسوس) کے سامان اور ہتھیار سمیت لے آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تھے جو آگے تشریف لائے تھے (میرے انتظار میں) مجھ سے ملے اور پوچھا کہ اس مرد کو کس نے مارا؟ لوگوں نے کہا کہ اکوع کے بیٹے نے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا سب سامان اکوع کے بیٹے کا ہے۔
سیدنا ایاس بن سلمہ اپنے والد سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے (قبیلہ) فزارہ سے جہاد کیا اور ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے جنہیں ہمارا امیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنایا تھا۔ جب ہمارے اور پانی کے درمیان میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہ گیا (یعنی اس پانی سے جہاں قبیلہ فزارہ رہتے تھے)، تو ہم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم سے پچھلی رات کو اتر پڑے۔ پھر ہر طرف سے حملہ کرتے ہوئے پانی پر پہنچے۔ وہاں جو مارا گیا سو مارا گیا اور کچھ قید ہوئے اور میں ایک گروہ کو تاک رہا تھا جس میں (کافروں کے) بچے اور عورتیں تھیں میں ڈرا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں، میں نے ان کے اور پہاڑ کے درمیان میں ایک تیر مارا، تو تیر کو دیکھ کر وہ ٹھہر گئے۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا۔ ان میں فزارہ کی ایک عورت تھی جو چمڑا پہنے ہوئے تھی۔ اس کے ساتھ اس کی بیٹی جو کہ عرب کی حسین ترین نوجوان لڑکی تھی۔ میں ان سب کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس لایا، تو انہوں نے وہ لڑکی مجھے انعام کے طور پر دے دی۔ جب ہم مدینہ پہنچے اور میں نے ابھی اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم وہ مجھے بھلی لگی ہے اور میں نے ابھی تک اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر دوسرے دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں ملے اور فرمایا کہ اے سلمہ! وہ لڑکی مجھے دیدے اور تیرا باپ بہت اچھا تھا۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ آپ کی ہے۔ اللہ کی قسم میں نے تو اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی مکہ والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلہ میں کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس بستی میں تم آئے اور وہاں ٹھہرے، تو اس میں تمہارا حصہ ہے اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی یعنی لڑائی کی تو (مال غنیمت کا) پانچواں حصہ اللہ کا اور رسول کا ہے اور باقی (چار حصے) تمہارے ہیں۔
سیدنا مالک بن اوس کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور میں ان کے پاس دن چڑھے آیا اور وہ اپنے گھر میں (بغیر بستر کے) ننگی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ اور ایک چمڑے کے تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ دوڑ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب میں بانٹ دے۔ میں نے کہا کہ کاش یہ کام آپ کسی اور سے لے لیتے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تو لے لے۔ اتنے میں یرفا (ان کا خدمتگار) آیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہا آئے ہیں کیا ان کو آنے دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان کو آنے دے۔ وہ آ گئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عباس اور علی رضی اللہ عنہا آنا چاہتے ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کو بھی اجازت دیدے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! میرا اور اس جھوٹے، گنہگار، دغاباز اور چور کا فیصلہ کر دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے امیرالمؤمنین! ان کا فیصلہ کر دیجئیے اور ان کو اس مسئلے سے راحت دیجئیے۔ مالک بن اوس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے) سیدنا عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہا کو (اس لئے) آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ٹھہرو! میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ سب نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم دونوں کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ ان دونوں نے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اللہ نے گاؤں والوں کے مال میں سے جو دیا، وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے“ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی کہ نہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے مال تم لوگوں کو بانٹ دئیے۔ اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال کو) تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو، یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا۔ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا، وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس اللہ تعالیٰ کی، جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کہ تم یہ سب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم جانتے ہیں۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کو بھی ایسی ہی قسم دی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہاں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں، تو تم دونوں آئے۔ عباس رضی اللہ عنہ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس کے بھائی کے بیٹے تھے) اور علی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ مطہرہ کا حصہ ان کے والد کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، تو تم ان کو جھوٹا، گنہگار، دغاباز اور چور سمجھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے، نیک اور ہدایت پر تھے اور حق کے تابع تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا، تو تم نے مجھے بھی جھوٹا، گنہگار، دغاباز اور چور سمجھا جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکوکار اور حق پر ہوں، حق کا تابع ہوں۔ میں اس مال کا بھی ولی رہا۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں موجود ہے تم مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو تو میں نے کہا کہ اچھا! اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو اس شرط پر دے دیتا ہوں کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں ایسا ہی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تم دونوں (اب) میرے پاس فیصلہ کرانے آئے ہو؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ قیامت تک کرنے والا نہیں، البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا، تو پھر مجھے لوٹا دو۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اور فدک میں دئیے تھے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اسی مال میں سے کھائے گی اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا، تو سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے)۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ 11 ہجری کو انہوں نے انتقال کیا) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اور جب تک سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اس وقت تک لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے (بوجہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے) محبت کرتے تھے، جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں، تب تو انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلایا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے نہ پاس جاؤ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے؟ اللہ کی قسم میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیا ہے۔ اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)، لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا؟ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت رکھتے تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے برابر باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اور خمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے وہی کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اچھا آج دوپہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا؟ وہ بھی کہا اور پھر مغفرت کی دعا کی۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا گیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیا مسلمان پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل ہوئے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جو چھوڑ جاؤں تو میرے وارث ایک دینار بھی نہیں بانٹ سکتے اور اپنی عورتوں کے خرچ اور منتظم کی اجرت کے بعد جو بچے، وہ صدقہ ہے۔