مختصر صحيح مسلم
سیر و سیاحت اور لشکر کشی
(دشمن کا) سامان بعض قاتلین کو اجتہاد کی بنا پر دینا۔
حدیث نمبر: 1142
سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا ہوا تھا اپنے دائیں اور بائیں دیکھا تو میرے دونوں طرف انصار کے نوجوان اور کم عمر لڑکے نظر آئے۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ان سے زور آور جوانوں کے درمیان ہوتا (یعنی آزو بازو اچھے قوی لوگ ہوتے تو زیادہ اطمینان ہوتا)۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے دبایا اور کہا کہ اے چچا! تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں اور اے میرے بھائی کے بیٹے! تیرا ابوجہل سے کیا مطلب ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ ابوجہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہتا ہے، قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر میں ابوجہل کو پاؤں تو اس سے جدا نہ ہونگا جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی موت پہلے آئی ہو۔ سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس کے ایسا کہنے سے تعجب ہوا۔ (کہ بچہ ہو کر ابوجہل جیسے قوی ہیکل کے مارنے کا ارادہ رکھتا ہے)۔ پھر دوسرے نے مجھے دبایا اور اس نے بھی ایسا ہی کہا۔ کہتے ہیں تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو دیکھا کہ وہ لوگوں میں پھر رہا ہے، میں نے ان دونوں لڑکوں سے کہا کہ یہی وہ شخص ہے جس کے بارے میں تم پوچھتے تھے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں دوڑے اور تلواروں کے وار کئے یہاں تک کہ مار ڈالا۔ پھر دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم میں سے کس نے اس کو مارا؟ ہر ایک بولنے لگا کہ میں نے مارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لیں؟ وہ بولے نہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا کہ تم دونوں نے اسے مارا ہے۔ پھر اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کو دلایا اور وہ دونوں لڑکے یہ تھے ایک معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرے معاذ بن عفراء رضی اللہ عنہما۔