سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ(ان کی والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حنین کے دن ایک خنجر لیا، وہ ان کے پاس تھا کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! سے عرض کیا کہ یہ ام سلیم ہے اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ام سلیم سے) پوچھا کہ یہ خنجر کیسا ہے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی مشرک میرے قریب آیا تو میں اس خنجر سے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالوں گی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے سوا طلقاء (یعنی اہل مکہ) کو مار ڈالئے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکست پائی (اس وجہ سے مسلمان ہو گئے اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ام سلیم! (کافروں کے شر کو) اللہ تعالیٰ بہت بہترین انداز سے کافی ہو گیا (اب تیرے خنجر باندھنے کی ضرورت نہیں)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ احد کے دن لوگ شکست خوردہ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوئے تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بڑے ماہر تیرانداز تھے، ان کی اس دن دو یا تین کمانیں ٹوٹ گئیں۔ جب کوئی شخص تیروں کا ترکش لے کر نکلتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے کہ یہ تیر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے لئے رکھ دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن اٹھا کر کافروں کو دیکھتے، تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کہتے کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن مت اٹھائیے ایسا نہ ہو کہ کافروں کا کوئی تیر آپ کو لگ جائے۔ میرا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کے آگے ہے (یعنی ابوطلحہ نے اپنا سینہ آگے کیا تھا کہ اگر کوئی تیر وغیرہ آئے تو مجھے لگے)۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہا کو دیکھا وہ دونوں کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں (جیسے کام کے وقت کوئی اٹھاتا ہے) اور میں ان کی پنڈلی کی پازیب کو دیکھ رہا تھا، وہ دونوں اپنی پیٹھ پر مشکیں لاتی تھیں، پھر اس کا پانی لوگوں کو پلا دیتیں، پھر جاتیں اور بھر کر لاتیں اور لوگوں کو پلا دیتیں۔ اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو تین بار اونگھ کی وجہ سے تلوار گر پڑی۔
سیدہ ام عطیہ انصاری رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوات میں شریک ہوئی، مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی، زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت ایک لڑائی میں پائی گئی جس کو مار ڈالا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کے مارنے سے منع فرما دیا۔
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد اور ان کی عورتوں کے بارے میں سوال ہوا، جب رات کے چھاپے میں مارے جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ انہی میں داخل ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کی کھجوروں کے درخت کچھ کٹوا دیئے اور کچھ جلوا دیئے۔ اس موقع پر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے یہ شعر کہے: بنی لوئی (یعنی قریش) کے سرداروں اور شرفاء پر یہ آسان ہو گیا کہ بویرہ کا نخلستان آگ کی لپیٹ میں ہے۔ اور اسی بارہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”جو درخت تم نے کاٹے یا ان کو اپنی جڑوں پر کھڑا ہوا چھوڑ دیا، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اس لئے کہ گنہگاروں کو رسوا کرے“(الحشر: 5)۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن چربی کی ایک تھیلی پائی۔ میں اس پر لپکا۔ میں نے دل میں کہا کہ میں اس میں سے کچھ بھی کسی کو نہ دوں گا۔ کہتے ہیں میں نے پلٹ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے مسکرا رہے تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر نے جہاد کیا تو اپنے لوگوں سے کہا کہ میرے ساتھ وہ آدمی نہ جائے جو نکاح کر چکا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ اپنی عورت سے صحبت کرے لیکن ابھی تک اس نے صحبت نہیں کی۔ اور نہ وہ شخص جس نے مکان بنایا ہو اور ابھی چھت بلند نہ کی ہو اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں یا حاملہ اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے جننے کا امیدوار ہو (اس لئے کہ ان لوگوں کا دل ان چیزوں میں لگا رہے گا اور اطمینان سے جہاد نہ کر سکیں گے)۔ پھر اس پیغمبر نے جہاد کیا تو عصر کے وقت یا عصر کے قریب اس گاؤں کے پاس پہنچا (جہاں جہاد کرنا تھا) تو پیغمبر علیہ السلام نے سورج سے کہا کہ تو بھی تابعدار ہے اور میں بھی تابعدار ہوں اے اللہ! اس کو تھوڑی دیر میرے اوپر روک دے (تاکہ ہفتہ کی رات نہ آ جائے کیونکہ ہفتہ کو لڑنا حرام تھا اور یہ لڑائی جمعہ کے دن ہوئی تھی)۔ پھر سورج رک گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح دی۔ پھر لوگوں نے مال غنیمت اکٹھا کیا اور آگ آسمان سے اس کے کھانے کو آئی، لیکن اس نے نہ کھایا۔ پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ تم میں سے کسی نے مال غنیمت میں خیانت کی ہے (لہٰذا یہ نذر قبول نہ ہوئی)۔ اس لئے تم میں سے ہر گروہ کا ایک آدمی مجھ سے بیعت کرے۔ پھر سب نے بیعت کی، تو ایک شخص کا ہاتھ جب پیغمبر کے ہاتھ سے لگا تو پیغمبر نے کہا کہ تم لوگوں میں خیانت معلوم ہوتی ہے۔ تمہارا قبیلہ مجھ سے بیعت کرے۔ پھر اس قبیلے نے بیعت کی تو دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ پیغمبر کے ہاتھ سے لگا اور چمٹ گیا، تو پیغمبر علیہ السلام نے کہا کہ تم نے خیانت کی ہے۔ پھر انہوں نے بیل کے سر کے برابر سونا نکال کر دیا۔ وہ بھی اس مال میں جو بلند زمین پر (جلانے کے لئے) رکھا گیا تھا رکھ دیا گیا۔ پھر آگ آئی اور اس کو کھا گئی۔ اور ہم سے پہلے کسی کے لئے مال غنیمت حلال نہیں تھا صرف ہمارے لئے حلال ہوا، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضعیفی اور عاجزی دیکھی، تو ہمارے لئے مال غنیمت کو حلال کر دیا۔
سیدنا مصعب بن سعد اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے بارے میں چار آیتیں اتریں۔ ایک مرتبہ ایک تلوار مجھے مال غنیمت میں ملی، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور کہا کہ یا رسول اللہ! یہ مجھے عنایت فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو رکھ دے۔ پھر میں کھڑا ہوا تو (وہی کہا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو جہاں سے لیا ہے وہیں رکھ دے۔ پھر اٹھے اور کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تلوار مجھے دے دیجئیے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کو رکھ دو۔ پھر (چوتھی مرتبہ) کھڑے ہوئے اور کہا کہ یا رسول اللہ! یہ تلوار مجھے مال غنیمت کے طور پر دے دیجئیے کیا میں اس شخص کی طرح رہوں گا جو نادار ہے؟ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو وہیں رکھ دے جہاں سے تو نے اس کو لیا ہے۔ تب یہ آیت اتری کہ ”اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے مال غنیمت کے متعلق پوچھتے ہیں، تو آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) فرما دیجئیے کہ مال غنیمت، اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہیں“(الانفال: 1)۔ (اس حدیث میں چار آیات میں سے صرف ایک آیت کا ذکر ہے)۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک چھوٹا لشکر بھیجا، میں بھی اس میں نکلا۔ وہاں ہمیں بہت سے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں ملیں، تو ہم میں سے ہر ایک کے حصے میں بارہ بارہ اونٹ آئے اور رسول اﷲ نے ہمیں ایک ایک اونٹ مزید دیا۔