سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک لونڈی آزاد کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اسے اپنے ماموں کو دے دیتیں تو تمہارے لئے زیادہ اجر کا باعث بنتا۔
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں آئی ہے اور وہ دین سے بیزار ہے (دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ مشرکہ ہے) تو کیا میں اس سے سلوک اور احسان کروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں فوراً مر گئی اور وصیت نہ کرنے پائی، اگر بولتی تو صدقہ دیتی۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو اسے ثواب ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔
سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دن کے شروع حصہ میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے۔ کچھ لوگ آئے جو ننگے پیر، ننگے بدن، گلے میں چمڑے کی چادریں پہنی ہوئیں، اپنی تلواریں لٹکائی ہوئیں، اکثر بلکہ سب ان میں قبیلہ مضر کے لوگ تھے۔ ان کے فقر و فاقہ کو دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آ گئے پھر باہر آئے۔ (یعنی پریشان ہو گئے، سبحان اللہ کیا شفقت تھی اور کیسی ہمدردی تھی) اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان کہو پھر تکبیر کہی اور نماز پڑھی اور خطبہ پڑھا اور یہ آیت پڑھی کہ اے لوگو! اللہ سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے بنایا (اس لئے پڑھی کہ معلوم ہو کہ سارے بنی آدم آپس میں بھائی بھائی ہیں) ........ آخر آیت تک۔ پھر سورۃ الحشر کی یہ آیت پڑھی کہ ”اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور غور کرو کہ تم نے اپنی جانوں کے لئے آگے کیا بھیج رکھا ہے جو کل (قیامت کے دن تمہارے) کام آئے۔ (پھر صدقات کا بازار گرم ہو گیا) کسی نے اشرفی دی، کسی نے درہم کسی نے ایک صاع گیہوں اور کسی نے ایک صاع کھجور دینا شروع کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک ٹکڑا بھی کھجور کا ہو (تو وہ بھی بطور صدقہ کے لاؤ)۔ پھر انصار میں سے ایک شخص تھیلی لایا کہ اس کا ہاتھ تھکا جاتا تھا بلکہ تھک گیا تھا۔ پھر تو لوگوں نے تار باندھ لیا یہاں تک کہ میں نے دو ڈھیر دیکھے کھانے اور کپڑے کے یہاں تک (صدقات جمع ہوئے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو میں دیکھتا تھا کہ چمکنے لگا تھا گویا کہ سونے کا ہو گیا ہو جیسے کندن۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کی نیک کام کی ابتداء کرے (یعنی کتاب و سنت کی بات) اس کے لئے اپنے عمل کا بھی ثواب ہے اور جو لوگ اس کے بعد عمل کریں (اس کی دیکھا دیکھی) ان کا بھی ثواب ہے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ ثواب گھٹے۔ اور جس نے اسلام میں آ کر بری چال ڈالی (یعنی جس سے کتاب و سنت نے روکا ہے) تو اس کے اوپر اس کے عمل کا بھی بار ہے اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد عمل کریں بغیر اس کے کہ ان لوگوں کا کچھ بار گھٹے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی نے میدان میں بادل میں سے یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلا دے۔ (اس آواز کے بعد) بادل ایک طرف چلا اور ایک پتھریلی زمین میں پانی برسایا۔ ایک نالی وہاں کی نالیوں میں سے بالکل لبالب ہو گئی۔ سو وہ شخص برستے پانی کے پیچھے پیچھے گیا، اچانک ایک مرد کو دیکھا کہ اپنے باغ میں کھڑا پانی کو اپنے پھاوڑے سے ادھر ادھر کرتا ہے۔ اس نے باغ والے مرد سے کہا کہ اے اللہ کے بندے! تیرا نام کیا ہے؟ اس نے کہا فلاں نام ہے، وہی نام جو بادل میں سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس شخص سے کہا کہ اے اللہ کے بندے! تو نے میرا نام کیوں پوچھا؟ وہ بولا کہ میں نے بادل میں سے ایک آواز سنی، کوئی کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی پلا دے، (اور اس کہنے والے نے) تیرا نام لیا۔ سو تو اس باغ میں اللہ تعالیٰ کے احسان کی کیا شکرگزاری کرتا ہے؟ باغ والے نے کہا کہ جب کہ تو نے یہ کہا تو اب میں بیان کرتا ہوں۔ میں دیکھتا ہوں جو اس باغ سے آمدنی ہوتی ہے، اس کا ایک تہائی صدقہ کرتا ہوں اور ایک تہائی میرے بیوی بچے کھاتے ہیں اور ایک تہائی باغ پر لگاتا ہوں۔ (حدیث سے معلوم ہوا کہ مال کا تہائی حصہ اللہ کی راہ میں صرف کرنا بہتر ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق پانی برساتے ہیں ایک ہی مقام میں ایک جگہ زیادہ اور ایک جگہ کم برستا ہے)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک تہائی میں مسکینوں، سائلوں اور مسافروں میں صرف کرتا ہوں۔
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا ذکر فرمایا اور ناپسندیدگی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ پھر فرمایا کہ آگ (جہنم کی آگ) سے بچو۔ پھر ناپسندیدگی سے منہ پھیر لیا، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس (نار جہنم) کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے بچو (اگر جہنم سے بچنے کے لئے کوئی اور چیز نہ ہو تو) کھجور کے دانے کا ایک حصہ ہی ہو (وہی صدقہ کر کے بھی بچنا پڑے تو بچ جاؤ)۔ اگر کسی کو یہ بھی نہ ملے تو اچھی بات ہی کہہ کر (ہی جہنم کی آگ سے بچو)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ بیشک جو کسی گھر والوں کو ایسی اونٹنی دیتا ہے جو صبح اور شام ایک بڑا پیالہ بھر دودھ دیتی ہے تو اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سات قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا (یعنی عرش کے نیچے) جس دن اس کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہو گا۔ ایک تو حاکم منصف (جو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرے خواہ بادشاہ ہو خواہ کوتوال ہو)، دوسرے وہ جوان جو اللہ کی عبادت کے ساتھ بڑھا ہو، تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد ہی میں لگا رہے، چوتھے وہ دو شخص جو آپس میں اللہ کے واسطے محبت کریں اور اسی کے لئے ملیں اور اسی کے لئے جدا ہوں، پانچویں وہ شخص (جو مرد ایسا متقی ہو) کہ اسے کوئی حسب نسب والی مالدار عورت زنا کے لئے بلائے اور وہ کہے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں (اور زنا سے باز رہے)، چھٹے وہ شخص جو صدقہ ایسے چھپا کر دے کہ دائیں کو خبر نہ ہو کہ بائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا (اس عبارت میں اضطراب ہے۔ صحیح یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا ہے) ساتویں جو اللہ کو اکیلے میں یاد کرے اور اس کے آنسو ٹپک پڑیں (اللہ کی محبت یا خوف کی وجہ سے)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! افضل اور ثواب میں بڑا صدقہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو صدقہ دے اور تو تندرست اور حریص ہو، محتاجی کا خوف کرتا ہو اور امیری کی امید رکھتا ہو۔ اور تو یہاں تک صدقہ دینے میں دیر نہ کرے کہ جب جان (حلق یعنی) گلے میں آ جائے تو کہنے لگے کہ یہ فلاں کا ہے، یہ مال فلاں کو دو اور وہ تو خود اب فلاں کا ہو چکا (یعنی تیرے مرتے ہی وارث لوگ لے لیں گے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنی پاکیزہ (حلال) کمائی سے ایک کھجور بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اس کی اس طرح تربیت کرتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا جوان اونٹنی کو پالتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ (ایک کھجور کا صدقہ) پہاڑ کی طرح ہو جاتا ہے یا اس سے بھی بڑھ جاتا ہے