سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کیا یہ یا رسول اللہ! فلاں کو دیجئیے کہ وہ مومن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یا وہ مسلمان ہے۔ میں نے تین بار یہی کہا کہ وہ مومن ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر بار یہی فرمایا کہ ”یا مسلمان ہے“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایک شخص کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرے کو اس سے زیادہ چاہتا ہوں اس ڈر سے (اس شخص کو دیتا ہوں) کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس کو اوندھے منہ جہنم میں نہ گرا دے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب حنین کا دن ہوا تو (قبیلہ) ہوازن اور غطفان اور دوسرے قبیلوں کے لوگ اپنی اولاد اور جانوروں کو لے کر آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار غازی تھے اور مکہ کے لوگ (جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے تھے) بھی، جن کو طلقاء کہتے ہیں۔ پھر یہ سب ایک بار پیٹھ دے گئے یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آوازیں دیں کہ ان کے بیچ میں کچھ نہیں کہا، پہلے دائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہ انصار! تو انصار نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف منہ کیا اور پکارا کہ اے گروہ انصار! تو انہوں نے پھر جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم حاضر ہیں اور آپ خوش ہوں کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن ایک سفید خچر پر سوار تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں (مقام بندگی سے بڑھ کر کوئی فخر کا مقام نہیں شیخ اکبر نے اس کی خوب تصریح کی ہے کہ مقام عبدیت انبیاء کے واسطے خاص ہے اور کسی کو اس مقام میں مشارکت نہیں۔ سبحان اللہ، اللہ کا بندہ ہونا اور اس کا رسول ہونا کتنی بڑی نعمت ہے) اور رسول ہوں۔ پس مشرک شکست کھا گئے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب مہاجرین اور مکہ کے لوگوں میں تقسیم کر دیا اور انصار کو اس میں سے کچھ نہ دیا۔ تب انصار نے کہا کہ مشکل گھڑی میں تو ہم بلائے جاتے ہیں اور لوٹ کا مال اوروں کو دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ہوئی تو آپ نے انہیں ایک خیمہ میں اکٹھا کیا اور فرمایا کہ اے گروہ انصار! یہ کیسی بات ہے جو مجھے تم لوگوں سے پہنچی ہے؟ تب وہ چپ ہو رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے گروہ انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ لوگ دنیا لے کر چلے جائیں اور تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے گھروں میں لے جاؤ؟ انہوں نے کہا کہ بیشک اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم راضی ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ ایک گھاٹی میں چلیں اور انصار دوسری گھاٹی میں تو میں انصار کی گھاٹی کی راہ لوں گا۔ ہشام (سیدنا انس کے شاگرد) نے کہا کہ میں نے کہا کہ اے ابوحمزہ! تم اس وقت حاضر تھے؟ تو انہوں نے کہ کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کہاں جاتا؟
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان، صفوان، عیینہ اور اقرع بن حابس کو سو سو اونٹ دئیے اور عباس رضی اللہ عنہ بن مرداس کو کچھ کم دئیے تو عباس رضی اللہ عنہ نے یہ اشعار کہے: (ترجمہ)”آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرا اور میرے گھوڑے کا حصہ جس کا نام عبید تھا عیینہ اور اقرع کے بیچ میں مقرر فرماتے ہیں حالانکہ عیینہ اور اقرع دونوں مرداس سے (یعنی مجھ سے) کسی مجمع میں بڑھ نہیں سکتے اور میں ان دونوں سے کچھ کم نہیں ہوں۔ اور آج جس کی بات نیچے ہو گئی وہ پھر اوپر نہ ہو گی۔ سیدنا رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سو اونٹ پورے کر دئیے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے کچھ سونا ایک چمڑے میں رکھ کر بھیجا جو ببول کی چھال سے رنگا ہوا تھا اور ابھی (وہ سونا) مٹی سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار آدمیوں میں تقسیم کر دیا، عیینہ بن حصن، اقرع بن حابس، زید (عرف) خیل اور چوتھا علقمہ یا عامر بن طفیل رضی اللہ عنہما۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی شخص نے کہا کہ ہم اس مال کے ان سے زیادہ مستحق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم مجھے امانتدار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ میں اس کا امانتدار ہوں جو آسمانوں کے اوپر ہے اور میرے پاس آسمان کی خبر صبح و شام آتی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں، جس کے رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں، ابھری ہوئی پیشانی، گھنی ڈاڑھی، سر منڈا ہوا، اونچی ازار باندھے ہوئے تھا، کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے ڈرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تیری خرابی ہو، کیا میں ساری زمین والوں میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا نہیں ہوں؟ راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص چلا گیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو“(معلوم ہوا کہ وہ اکثر حاضر باش خدمت مبارک بھی نہ تھاور نہ ایسی حرکت سرزد نہ ہوتی) سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے کہ بہت سے نمازی ایسے (منافق ہوتے ہیں) ہیں جو زبان سے وہ بات کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے مجھے یہ حکم نہیں دیا کہ میں کسی کا دل چیر کر دیکھوں اور نہ یہ (حکم دیا) کہ میں ان کے پیٹ چیروں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا جب کہ وہ پیٹھ موڑے جا رہا تھا، اور کہا کہ اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو اچھی طرح پڑھیں گے حالانکہ وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے کہ تیر شکار (کے جسم) سے پار نکل جاتا ہے (راوی کہتا ہے) میں گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی کہا کہ اگر میں اس قوم کو پا لوں تو میں انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حسن بن علی (رضی اللہ عنہ) نے ایک صدقہ کی کھجور لیکر اپنے منہ میں ڈالی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھو، تھو! اس کو پھینک دے کیا تو نہیں جانتا کہ ہمارے لئے صدقہ حلال نہیں ہے۔
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث کہتے ہیں کہ ربیعہ رضی اللہ عنہ بن حارث اور عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب دونوں جمع ہوئے اور کہا کہ اللہ کی قسم ہم ان دونوں لڑکوں (یعنی مجھے اور فضل بن عباس) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیں، اور یہ دونوں جا کر عرض کریں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو زکوٰۃ پر تحصیلدار بنا دیں۔ اور یہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر ادا کر دیں جیسے اور لوگ ادا کرتے ہیں اور ان کو کچھ مل جائے جیسے اور لوگوں کو ملتا ہے۔ غرض یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب بھی آ کر ان کے پاس کھڑے ہو گئے تو ان دونوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں مت بھیجو، کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کریں گے۔ (اس لئے کہ آپ کو معلوم تھا کہ زکوٰۃ سیدوں کو حرام ہے) پس ربیعہ بن حارث سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم تم ہمارے ساتھ حسد سے ایسا کرتے ہو۔ اور اللہ کی قسم کہ تم نے جو شرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دامادی کا پایا ہے تو اس کا ہم تو تم سے کچھ حسد نہیں کرتے۔ تب سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان دونوں کو بھیج دو۔ تو ہم دونوں گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ لیٹ رہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ چکے تو ہم دونوں جلدی سے حجرے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جا پہنچے اور حجرے کے پاس کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہم دونوں کے کان پکڑے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور ملاعبت تھی کہ لڑکے اس سے خوش ہوتے ہیں) اور فرمایا کہ ظاہر کرو جو تم دل میں چھپا کر لائے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حجرے میں گئے اور ہم بھی، اور اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا کے پاس تھے۔ پھر ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ تم بیان کرو۔ غرض ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے اور قرابت داروں سے سب سے زیادہ احسان کرنے والے ہیں، اور ہم نکاح (کی عمر) کو پہنچ گئے ہیں۔ پھر ہم اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ہمیں ان زکوٰتوں پر عامل بنا دیں کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحصیل لا دیں جیسے اور لوگ لاتے ہیں اور ہمیں بھی کچھ مل جائے جیسے اوروں کو مل جاتا ہے۔ (تاکہ ہمارے نکاح کا خرچ نکل آئے) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک چپ ہو رہے یہاں تک کہ ہم نے چاہا کہ پھر کچھ کہیں، اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا ہم سے پردہ کی آڑ سے اشارہ فرماتی تھیں کہ اب کچھ نہ کہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زکوٰۃ آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لائق نہیں یہ تو لوگوں کا میل ہے۔ (شاید یہ مثل یہیں سے ہے کہ روپیہ پیسہ ہاتھوں کی میل ہے) تم میرے پاس محمیہ رضی اللہ عنہ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خزانچی کا نام تھا) جو خمس پر مقرر تھے اور نوفل بن حارث بن عبدالمطلب کو بلا لاؤ۔ راوی نے کہا کہ پھر یہ دونوں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے فضل بن عباس کو بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی ان سے بیاہ دی۔ اور نوفل بن حارث سے فرمایا کہ تم اپنی لڑکی اس لڑکے (یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ سے، جو راوی حدیث ہیں) بیاہ دو تو انہوں نے اپنی لڑکی میرے نکاح میں دے دی۔ اور محمیہ سے فرمایا کہ ان دونوں کا مہر خمس سے اتنا اتنا ادا کر دو۔ زہری نے کہا کہ مجھ سے میرے شیخ عبداللہ بن عبداللہ نے مہر کی تعداد بیان نہیں کی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ گوشت ہدیہ دیا جو کہ اس کو کسی نے صدقہ میں دیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لیا اور فرمایا کہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے ہدیہ ہے۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ کی ایک بکری بھیجی تو میں نے اس میں سے تھوڑا گوشت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو بھیج دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں مگر نسیبہ (یعنی ام عطیہ) نے ہمارے پاس اس بکری میں سے گوشت بھیجا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس بطور صدقہ کے بھیجی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ اپنی جگہ پہنچ گئی۔ (یعنی ان کے لئے صدقہ تھا اب ہمارے لئے ہدیہ ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب کھانا آتا تو پوچھ لیتے، اگر ہدیہ ہوتا تو کھاتے اور اگر صدقہ ہوتا تو نہ کھاتے۔