سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تعلیم دیتے اور فرماتے تھے کہ امام سے پہلے کوئی کام نہ کرنا، جب وہ تکبیر کہے ‘ اس وقت تکبیر کہنا اور جب وہ ولا الضالین کہے تو تم بعد میں آمین کہو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بعد میں رکوع کرو اور جب وہ ”سمع اﷲ لمن حمدہ“ کہے تو تم اس کے بعد ”ربنا لک الحمد“ کہو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ گھوڑے پر سے گرنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دائیں جانب کا بدن چھل گیا تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کے لئے گئے۔ چونکہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے نماز پڑھائی اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب ہم سب لوگ نماز پڑھ چکے تو ارشاد فرمایا کہ امام اسی لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ تسمیع پڑھے تو تم تحمید پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کرو۔ (یہ ابتدائی حکم ہے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو کر اور صحابہ نے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی)
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طور پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور اللہ اکبر کہا۔ (اس حدیث کے راوی ہمام کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے) پھر چادر اوڑھ لی اس کے بعد سیدھا ہاتھ الٹے ہاتھ پر رکھا۔ پھر جب رکوع کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ چادر میں سے باہر نکال کر دونوں کانوں تک اٹھا کر تکبیر پڑھی، اور رکوع میں گئے اور جب بحالت قیام سمع اﷲ لمن حمدہ کہا تو بھی رفع یدین کیا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہتھیلیوں کے درمیان میں سجدہ کیا۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوتے تو فرماتے کہ ”میں نے اپنا منہ اس ذات کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنایا، یک سو ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ بیشک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اس کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور مسلمانوں میں سے ہوں۔ یا اللہ تو بادشاہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو میرا پالنے والا ہے اور میں تیرا غلام ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں، تو میرے سب گناہوں کو بخش دے، اس لئے کہ گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا مگر تو، اور سکھا دیجئیے مجھے اچھی عادتیں کہ نہیں سکھاتا ان کو مگر تو اور مجھ سے بری عادتیں دور رکھ، اور نہیں دور رکھ سکتا ان (بری عادتوں) کو مگر تو، میں تیری خدمت کے لئے حاضر ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں اور ساری خوبی تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر سے تیری طرف نزدیکی حاصل نہیں ہو سکتی (یا شر اکیلا تیری طرف منسوب نہیں ہوتا مثلا خالق القردۃ والخنازیر نہیں کہا جاتا یا رب الشر نہیں کہا جاتا یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا جیسے کلمہ طیبہ اور عمل صالح تیری طرف چڑھتے ہیں یا کوئی مخلوق تیرے واسطے شر نہیں اگرچہ ہمارے لئے شر ہو کیونکہ ہم بشر ہیں اس لئے کہ ہر چیز کو تو نے حکمت کے ساتھ بنایا ہے) میری توفیق تیری طرف سے ہے اور میری التجا تیری طرف ہے، تو بڑی برکت والا اور تیری ذات بلند و بالا ہے میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف رجوع کرتا ہوں“ اور جب رکوع کرتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! میں تیرے لئے جھکتا ہوں اور تجھ پر یقین رکھتا ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں، تیرے لئے میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میرے پٹھے، سب جھک گئے“۔ اور جب (رکوع سے) سر اٹھاتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! تعریف تیرے ہی لئے ہے آسمانوں بھر اور زمین بھر اور ان کے درمیان بھر اور اس کے بعد جتنا تو چاہے اس کے بھرنے کے بقدر“۔ اور جب سجدہ کرتے تو فرماتے کہ ”اے اللہ! میں نے تیرے لئے ہی سجدہ کیا اور تجھ پر یقین لایا اور میں تیرا فرمانبردار ہوں، میرا منہ اس ذات کے لئے سجدہ ریز ہے جس نے اسے بنایا ہے اور تصویر کھینچی ہے اور اس کے کان اور آنکھوں کو چیرا، بڑی برکت والا ہے سب بنانے والوں سے اچھا“۔ پھر آخر میں تشہد اور سلام کے بیچ میں فرماتے کہ ”اے اللہ! بخش دے مجھ کو جو میں نے آگے کیا اور جو میں نے پیچھے کیا اور جو چھپایا اور جو ظاہر کیا اور جو حد سے زیادہ کیا اور جو تو جانتا ہے مجھ سے بڑھ کر، تو سب سے پہلے تھا اور سب کے بعد رہے گا، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے“۔ ایک دوسری روایت میں یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے اور فرماتے کہ ”میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے ........ آخر تک“ پڑھتے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز پڑھی، لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم (جہر سے) پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک اونگھ سی طاری ہوئی پھر مسکراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرمبارک اٹھایا جس پر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کس چیز پر مسکرا رہے ہیں؟ ارشاد فرمایا کہ مجھ پر ابھی ابھی قرآن مجید کی ایک سورت نازل ہوئی ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر ”(اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم !) بیشک ہم نے آپ کو کوثر عنایت فرمائی ہے........“ پوری سورت تلاوت فرمائی اور فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ کوثر کیا چیز ہے؟ ہم نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں تو ارشاد فرمایا کہ کوثر ایک نہر ہے، جس کا پروردگار نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس میں بہت سی خوبیاں ہیں اور بروز محشر میرے امتی اس حوض کا پانی پینے کے لئے آئیں گے اس حوض پر اتنے گلاس ہیں جتنے آسمان کے تارے۔ ایک شخص کو وہاں سے بھگا دیا جائے گا، جس پہ میں کہوں گا کہ اے اللہ! یہ شخص میرا امتی ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی باتیں (بدعت) ایجاد کیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے نماز میں سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی تو اس کی نماز پوری نہیں ہوئی بلکہ اس کی نماز ناقص رہی۔ یہ جملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار ارشاد فرمایا۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ جب ہم امام کے پیچھے ہوں تو کیا کریں؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس وقت تم لوگ آہستہ سورۃ الفاتحہ پڑھ لیا کرو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل کا یہ قول فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے نماز اپنے اور اپنے بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم کر دی ہے اور میرا بندہ جو سوال کرتا ہے وہ پورا کیا جاتا ہے۔ جب بندہ الحمدللہ ربّ العالمین کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی اور (نمازی) جب الرحمن الرحیم کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری توصیف کی اور (نمازی) جب مالک یوم الدّین کہتا ہے تو اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اور یوں بھی کہتا ہے کہ میرے بندے نے اپنے سب کام میرے سپرد کر دئیے ہیں اور (نمازی) جب ایّاک نعبد وایّاک نستعین پڑھتا ہے تو اللہ عزوجل کہتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کا درمیانی معاملہ ہے اور میرا بندہ جو سوال کرے گا وہ اس کو ملے گا۔ پھر جب (نمازی) اپنی نماز میں اھدنا الصّراط المستقیم () صراط الّذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضّآلّین پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے کہ یہ سب میرے اس بندے کے لئے ہے اور یہ جو کچھ طلب کر رہا ہے وہ اسے دیا جائے گا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے کہ اتنے میں ایک آدمی آیا، اس نے نماز پڑھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ نماز پڑھو، تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے واپس ہو کر پہلے کی طرح پھر نماز پڑھی اور لوٹ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے فرمایا کہ جاؤ نماز پڑھو تم نے نماز ادا نہیں کی۔ حتیٰ کہ تین دفعہ ایسے ہی کیا تو آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول برحق بنایا ہے کہ میں اس طریقہ کے علاوہ مزید کسی چیز سے ناواقف ہوں، براہ کرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی مجھے بتا دیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو پہلے اللہ اکبر کہو اور پھر جتنا قرآن تم بآسانی پڑھ سکتے ہو وہ پڑھو، اس کے بعد اطمینان سے رکوع کرو اور پھر باآرام بالکل سیدھے کھڑے ہو جاؤ، اس کے بعد بااطمینان سجدہ کرو اور پھر بااطمینان قعدہ میں بیٹھو اور اسی طرح اپنی پوری نماز میں کیا کرو۔ (اس حدیث سے یہ چیز معلوم ہوئی کہ نماز میں تعدیل ارکان بہت ضروری ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ اور جمہور علماء کے نزدیک تعدیل ارکان فرض ہے)۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کس نے میرے پیچھے سبح اسم ربک الاعلٰی پڑھی تھی؟۔ ایک شخص نے کہا کہ میں نے یہ سورۃ پڑھی تھی اور میں نے اس کے پڑھنے سے بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ تم میں سے کچھ آدمی مجھے الجھاتے ہیں۔ (اس روایت کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآت سے منع نہیں کیا بلکہ بآواز بلند قرآت سے منع کیا تھا۔ اور حدیث میں یہ چیز ثابت ہے کہ صحابی نے بآواز بلند قرآت کی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا: یہ فلاں سورت میرے پیچھے کس نے پڑھی؟)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امام جب آمین کہے تو مقتدی بھی آمین کہیں اور جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے برابر ہو جائے گی تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ ابن شہاب رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ولاالضّآلّین کے بعد) آمین کہا کرتے تھے۔