مختصر صحيح مسلم کل احادیث 2179 :حدیث نمبر
مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
حدیث نمبر: 90
Save to word مکررات اعراب
یزید بن صہیب فقیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے، یقیناً تو نے اسے رسوا کیا (آل عمران: 192) نیز جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے (السجدہ: 20)۔ اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انہوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انہوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابونعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔
حدیث نمبر: 91
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا کہ اے میرے مالک! جب تو نے مجھے اس (جہنم) سے نجات دی ہے، تو اب پھر اس میں مت لے جانا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دیدے گا۔
60. شفاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 92
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دانتوں سے نوچا اور فرمانے لگے کہ میں قیامت کے دن سب آدمیوں کا سردار ہوں گا۔ اور کیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں اکٹھا کرے گا، یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی، اور سورج قریب ہو جائے گا، اور لوگوں پر ایسی مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کو وہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے؟ کیا کوئی سفارشی، شفیع نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے؟ بعض کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلو، تو سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ پروردگار سے ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اور کس قدر تکلیف میں ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ آج میرا رب اپنے غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور اس نے مجھے اس درخت (کے پھل) سے منع کیا تھا، لیکن میں نے (کھا لیا اور) اب مجھے خود اپنی فکر ہے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح! علیہ السلام تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکرگزار بندہ) رکھا ہے، تم اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرو، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا (کہ وہ مقبول ہو گی)، وہ میں اپنی امت کے خلاف مانگ چکا (وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی)، اس لئے مجھے اپنی فکر ہے، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر سب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے دوست ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ نہیں دیکھتے جس حال میں ہم ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ وہ کہیں گے کہ میرا پروردگار آج بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور وہ اپنی جھوٹ باتوں کو بیان کریں گے (جو انہوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا جو کہ دراصل توریہ تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰ علیہ السلام! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیام (رسالت) اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے، آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ اتنا غصے میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، اور میں نے دنیا میں ایک شخص کو قتل کیا تھا، جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لئے مجھے اپنی فکر پڑی ہے، تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے (ماں کی) گود میں لوگوں سے باتیں کیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا (اور ان کا کوئی گناہ بیان نہیں کیا) مجھے تو خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ تو وہ لوگ میرے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ ہمارا حال نہیں دیکھتے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ پس میں یہ سنتے ہی (میدان حشر سے) چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ وہ تعریفیں اور خوبیاں بتلائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر (اللہ تعالیٰ) کہے گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! سر اٹھا اور مانگ، جو مانگے گا، دیا جائے گا، سفارش کر، قبول کی جائے گی۔ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت میں سے جن لوگوں سے کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور وہ جنت کے باقی دوسرے دروازوں میں بھی دوسرے لوگوں کے شریک ہیں (یعنی ان دروازوں میں سے بھی جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازہ ان کیلئے مخصوص ہے) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! کہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے، جیسے مکہ اور حجر (بحرین کے ایک شہر کا نام ہے) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام کا شہر) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے)۔
61. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ میں سب سے پہلے جنت کے متعلق سفارش کروں گا اور دیگر انبیاء سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے۔
حدیث نمبر: 93
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سب سے پہلے جنت (کے بارے) میں سفارش کروں گا اور کسی پیغمبر کو اتنے لوگوں نے نہیں مانا (پیروی نہیں کی) جتنے لوگوں نے مجھے مانا (میری پیروی کی) اور کوئی پیغمبر تو ایسا ہے کہ اس کا ماننے والا (ایمان لانے والا) ایک ہی شخص تھا۔
62. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جنت کا دروازہ کھلوانا۔
حدیث نمبر: 94
Save to word مکررات اعراب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا۔ چوکیدار پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ میں کہوں گا کہ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہوں۔ وہ کہے گا کہ مجھے آپ ہی کے واسطے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کیلئے دروازہ نہ کھولوں۔
63. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی گئی ہے۔
حدیث نمبر: 95
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر نبی نے جلدی کر کے وہ دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی اور میں اپنی دعا کو قیامت کے دن کیلئے، اپنی امت کی شفاعت کیلئے چھپا کر رکھتا ہوں اور اللہ کے حکم سے (میری) شفاعت ہر اس امتی کیلئے ہو گی جو حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔
64. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت کے لئے دعا فرمانا۔
حدیث نمبر: 96
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تلاوت فرمائی کہ اے میرے پالنے والے (معبود) انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے، تو تو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے (سورۃ: ابراہیم: 36) اور عیسیٰ علیہ السلام کا قول (جو کہ قرآن پاک میں منقول ہے) کہ اگر تو ان کو سزا دے، تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے، تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے میرے رب! میری امت، میری امت۔ اور رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرائیل! تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ اور تیرا رب خوب جانتا ہے لیکن تم جا کر ان سے پوچھو کہ وہ کیوں روتے ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب حال بیان کیا۔ جبرائیل نے اللہ تعالیٰ سے جا کر عرض کیا، حالانکہ وہ تو خود خوب جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرائیل! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جا اور کہہ کہ ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ناراض نہیں کریں گے۔
حدیث نمبر: 97
Save to word مکررات اعراب
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے) اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کیلئے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا اور اس کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا: مجھے اس لئے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبر کی طرف ہجرت کی تھی۔ سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خودبخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے (اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے)۔
65. اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہ ”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔
حدیث نمبر: 98
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے (الشعراء: 214) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو بلایا، وہ سب اکٹھے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) سب کو بالعموم ڈرایا اور پھر خاص کیا (یعنی نام لے کر ان لوگوں کو) اور فرمایا کہ اے کعب بن لوئی کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے مرہ بن کعب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے چھڑاؤ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے فاطمہ (رضی اللہ عنہا)! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ کے سامنے کچھ اختیار نہیں رکھتا (یعنی اگر وہ عذاب کرنا چاہے تو میں بچا نہیں سکتا) البتہ تم جو ناطہٰ مجھ سے رکھتے ہو، اس کو میں جوڑتا رہوں گا (یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ احسان کرتا رہوں گا)۔
66. کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کو کوئی فائدہ پہنچا سکے؟
حدیث نمبر: 99
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! کیا آپ نے ابوطالب کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا؟ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے واسطے غصہ ہوتے تھے (یعنی جو کوئی آپ کو ستاتا تو اس پر غصہ ہوتے تھے)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ جہنم کے اوپر کے درجہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا (یعنی میں ان کیلئے دعا نہ کرتا)، تو وہ جہنم کے نیچے کے درجے میں ہوتے (جہاں عذاب بہت سخت ہے)۔

Previous    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.