مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہ ”(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے“۔
حدیث نمبر: 98
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ (الشعراء: 214) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لوگوں کو بلایا، وہ سب اکٹھے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) سب کو بالعموم ڈرایا اور پھر خاص کیا (یعنی نام لے کر ان لوگوں کو) اور فرمایا کہ اے کعب بن لوئی کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے مرہ بن کعب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے چھڑاؤ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے فاطمہ (رضی اللہ عنہا)! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ کے سامنے کچھ اختیار نہیں رکھتا (یعنی اگر وہ عذاب کرنا چاہے تو میں بچا نہیں سکتا) البتہ تم جو ناطہٰ مجھ سے رکھتے ہو، اس کو میں جوڑتا رہوں گا (یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ احسان کرتا رہوں گا)۔