Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
شفاعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 92
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دانتوں سے نوچا اور فرمانے لگے کہ میں قیامت کے دن سب آدمیوں کا سردار ہوں گا۔ اور کیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں اکٹھا کرے گا، یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی، اور سورج قریب ہو جائے گا، اور لوگوں پر ایسی مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کو وہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے؟ کیا کوئی سفارشی، شفیع نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے؟ بعض کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلو، تو سب کے سب آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ پروردگار سے ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اور کس قدر تکلیف میں ہیں۔ آدم علیہ السلام کہیں گے کہ آج میرا رب اپنے غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور اس نے مجھے اس درخت (کے پھل) سے منع کیا تھا، لیکن میں نے (کھا لیا اور) اب مجھے خود اپنی فکر ہے، تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوح علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر لوگ نوح علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح! علیہ السلام تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکرگزار بندہ) رکھا ہے، تم اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرو، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا (کہ وہ مقبول ہو گی)، وہ میں اپنی امت کے خلاف مانگ چکا (وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی)، اس لئے مجھے اپنی فکر ہے، تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ پھر سب ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے دوست ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ نہیں دیکھتے جس حال میں ہم ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ وہ کہیں گے کہ میرا پروردگار آج بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور وہ اپنی جھوٹ باتوں کو بیان کریں گے (جو انہوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا جو کہ دراصل توریہ تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰ علیہ السلام! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیام (رسالت) اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے، آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ موسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ اتنا غصے میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، اور میں نے دنیا میں ایک شخص کو قتل کیا تھا، جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لئے مجھے اپنی فکر پڑی ہے، تم عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاؤ۔ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے (ماں کی) گود میں لوگوں سے باتیں کیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے؟ عیسیٰ علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا (اور ان کا کوئی گناہ بیان نہیں کیا) مجھے تو خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاؤ۔ تو وہ لوگ میرے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے، کیا آپ ہمارا حال نہیں دیکھتے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ پس میں یہ سنتے ہی (میدان حشر سے) چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ وہ تعریفیں اور خوبیاں بتلائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر (اللہ تعالیٰ) کہے گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! سر اٹھا اور مانگ، جو مانگے گا، دیا جائے گا، سفارش کر، قبول کی جائے گی۔ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت میں سے جن لوگوں سے کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور وہ جنت کے باقی دوسرے دروازوں میں بھی دوسرے لوگوں کے شریک ہیں (یعنی ان دروازوں میں سے بھی جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازہ ان کیلئے مخصوص ہے) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! کہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے، جیسے مکہ اور حجر (بحرین کے ایک شہر کا نام ہے) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام کا شہر) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے)۔