مختصر صحيح مسلم
ایمان کے متعلق
اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔
حدیث نمبر: 90
یزید بن صہیب فقیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ”اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے، یقیناً تو نے اسے رسوا کیا“ (آل عمران: 192) نیز ”جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے“ (السجدہ: 20)۔ اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انہوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انہوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتا ہے؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابونعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔