سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے اور ایسے ہی دوزخ بھی تمہارے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“(اس لیے سنبھل کر چلو)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص اپنے سے زیادہ امیر کی طرف دیکھے تو چاہیے کہ پھر اپنے سے غریب کی طرف بھی خیال کرے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منجملہ دیگر روایت قدسیہ کے یہ بھی فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھ دی ہیں اور ظاہر کر دیا ہے کہ یہ نیکی ہے اور یہ برائی ہے، پس جس نے نیکی کا محض ارادہ کیا اور ابھی عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال میں پوری نیکی لکھے گا اور جس نے نیکی کا ارادہ کر کے عمل بھی کر لیا تو اس کے نامہ اعمال میں دس سے سات سو تک بلکہ اور دگنی تگنی جتنی چاہیے گا نیکیاں لکھے گا اور جس نے برائی کا ارادہ کیا لیکن (اللہ تعالیٰ سے ڈر کر) مرتکب نہیں ہوا اس کے لیے بھی ایک پوری نیکی کا ثواب لکھے گا اور جس نے ارادہ کر کے برائی کر بھی لی تو اس کے لیے ایک ہی گناہ لکھے گا۔“
سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان فرمائیں، ایک کا ظہور تو میں نے دیکھ لیا جبکہ دوسری کے ظہور کا منتظر ہوں۔ وہ پہلی حدیث یہ ہے: ”امانتداری پہلے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر لوگوں نے قرآن سے بھی امانتداری کا حکم جان لیا اور پھر سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی جان لیا۔“ اور دوسری حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانتداری کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمائی: ”امانتداری بہت جلد جاتی رہے گی اور ایسا ہو گا کہ آدمی سوئے گا اور امانتداری اس کے دل سے نکال لی جائیگی۔ اس کا اثر ایک نقل کی طرح رہ جائے گا پھر سوئے گا تو باقی امانتداری بھی نکال لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلہ سا ہو گا جیسے چنگاری کو اگر تو پاؤں سے ٹھکرا دے اور وہ پھول جائے اور اسے تو ابھرا ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور صبح کو لوگ اٹھ کر خریدوفروخت کریں گے اور امانتدار کوئی بھی نہ ہو گا۔ امانتدار ایسے شاذ و نادر ہو جائیں گے کہ لوگ تعجب سے یوں کہیں گے (کہ بھائی) فلاں قبیلہ میں فلاں شخص کیسا امانتدار ہے اور کسی شخص کے متعلق یوں کہیں گے کہ کیسا ظریف و عقلمند اور دلاور آدمی ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔“ پھر بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر ایک ایسا وقت گزر چکا ہے کہ مجھے کسی کے ساتھ معاملہ کرنے پر پروانہ ہوتی تھی۔ مسلمان کو اسلام حق کی طرف لے آتا اور عیسائی کو اس کے حاکم مجبور کر کے میرا حق دلا دیتے اور آج کل تو میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے کوئی معاملہ یا خریدوفروخت نہیں کرتا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگوں کا حال اونٹوں کی طرح ہے کہ سو اونٹوں میں سے تیز سواری کے قابل کوئی بھی اونٹ نہیں ملتا۔“
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خلقت کو سنانے کے لیے کوئی نیک کام کرے گا تو اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کی بدنیتی سب کو سنا دے گا اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے کوئی نیک کام کیا تو اللہ تعالیٰ بھی قیامت کے دن اس کی اصل حقیقت سب لوگوں کو دکھا دے گا۔“(اور ان کو کچھ ثواب نہیں ملے گا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے میرے دوست سے عداوت کی تو میں اس کے ساتھ اعلان جنگ کروں گا اور مجھے اپنے بندے کا مجھ سے قرب حاصل کرنا کسی اور ذریعہ سے اتنا محبوب نہیں جتنا اس سے ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور میرا بندہ نوافل میں ہمیشگی سے میرے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا وہ کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی وہ آنکھ جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا وہ ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا وہ پاؤں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے (کسی چیز کا) سوال کرتا ہے تو میں اس کو ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں اور مجھ کو کسی چیز سے جس کو میں کرنے والا ہوں اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ نفس مومن (کے معاملہ) میں ہوتا ہے اور وہ موت کو برا سمجھتا ہے اور میں اس کی ناخوشی کو پسند نہیں کرتا۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملنے کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا سمجھتا ہے تو اللہ بھی اس سے ملنے کو برا سمجھتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا (نے) یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی اور زوجہ محترمہ نے عرض کی کہ موت کو تو ہم بھی پسند نہیں کرتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ (مطلب) نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت ہوتا ہے تو اس کو اللہ کی (طرف سے) رضامندی اور اعزاز کی بشارت دی جاتی ہے پس اس وقت اس کو اس سے جو اس کے آگے ہے (یعنی اللہ کا ملنا) اور کوئی چیز اچھی معلوم نہیں ہوتی تب وہ اللہ سے ملنے کو اچھا سمجھتا ہے اور اللہ اس کے ملنے کو پسند کرتا ہے اور جب کافر کی موت کا وقت ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور عقوبت کی خبر دی جاتی ہے پس جو کچھ اس کے آگے (یعنی عذاب اور عقوبت) ہے، اس سے زیادہ کوئی چیز اس کو بری معلوم نہیں ہوتی اور اللہ سے ملنے کو وہ برا سمجھتا ہے اور اللہ اس سے ملنے کو برا سمجھتا ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عرب کے کچھ گنوار اور سخت طبیعت لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے تو پوچھتے تھے کہ وہ گھڑی (قیامت) کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے سب سے چھوٹے کی طرف دیکھ کر فرماتے: ”اگر یہ زندہ رہا تو اسے بڑھاپا نہ آنے پائے گا یہاں تک کہ تم پر قیامت ہو جائے گی یعنی تم مر جاؤ گے (اور مرنا بھی قیامت ہے)۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن زمین ایک روٹی کی طرح ہو گی جس کو اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ سے الٹے پلٹے گا جس طرح تم میں سے کوئی شخص سفر میں اپنی روٹی الٹتا پلٹتا ہے۔ یہ جنت والوں کی مہمانی کے لیے ہو گا۔“(راوی کہتے ہیں) پھر ایک یہودی حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے ابوالقاسم! اللہ آپ پر برکت فرمائے کیا میں آپ کو قیامت کے دن اہل جنت کی مہمانی کی خبر نہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں بتاؤ۔“ اس نے اسی طرح جس طرح کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے تھے کہا کہ زمین (قیامت کے دن) ایک روٹی کی طرح ہو گی (راوی کہتے ہیں کہ اس کی یہ بات سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف دیکھا پھر ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک نظر آئے۔ پھر وہ یہودی کہنے لگا کہ کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ اس کا سالن کیا ہو گا؟ اس کا سالن بالام اور نون ہو گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یہ کیا چیزیں ہیں؟ اس نے کہا کہ بیل اور مچھلی۔ یہ بیل اور مچھلی اتنے بڑے ہوں گے کہ ان کے کلیجے کا لٹکتا ہوا ٹکڑا، ستر ہزار جنتی کھائیں گے۔