مختصر صحيح بخاري
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
(قیامت کے قریب) ایمانداری کا اٹھ جانا۔
حدیث نمبر: 2114
سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان فرمائیں، ایک کا ظہور تو میں نے دیکھ لیا جبکہ دوسری کے ظہور کا منتظر ہوں۔ وہ پہلی حدیث یہ ہے: ”امانتداری پہلے دلوں کی گہرائی میں اتری، پھر لوگوں نے قرآن سے بھی امانتداری کا حکم جان لیا اور پھر سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی جان لیا۔“ اور دوسری حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانتداری کے اٹھ جانے کے متعلق ارشاد فرمائی: ”امانتداری بہت جلد جاتی رہے گی اور ایسا ہو گا کہ آدمی سوئے گا اور امانتداری اس کے دل سے نکال لی جائیگی۔ اس کا اثر ایک نقل کی طرح رہ جائے گا پھر سوئے گا تو باقی امانتداری بھی نکال لی جائے گی اور اس کا نشان ایک آبلہ سا ہو گا جیسے چنگاری کو اگر تو پاؤں سے ٹھکرا دے اور وہ پھول جائے اور اسے تو ابھرا ہوا دیکھے حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا اور صبح کو لوگ اٹھ کر خریدوفروخت کریں گے اور امانتدار کوئی بھی نہ ہو گا۔ امانتدار ایسے شاذ و نادر ہو جائیں گے کہ لوگ تعجب سے یوں کہیں گے (کہ بھائی) فلاں قبیلہ میں فلاں شخص کیسا امانتدار ہے اور کسی شخص کے متعلق یوں کہیں گے کہ کیسا ظریف و عقلمند اور دلاور آدمی ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نہ ہو گا۔“ پھر بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر ایک ایسا وقت گزر چکا ہے کہ مجھے کسی کے ساتھ معاملہ کرنے پر پروانہ ہوتی تھی۔ مسلمان کو اسلام حق کی طرف لے آتا اور عیسائی کو اس کے حاکم مجبور کر کے میرا حق دلا دیتے اور آج کل تو میں فلاں اور فلاں کے سوا کسی سے کوئی معاملہ یا خریدوفروخت نہیں کرتا۔