سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں ایسا کون ہے جسے اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہے؟“ سب نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم سب کو اپنا ہی مال محبوب ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا مال وہی ہے جو زندگی میں (فی سبیل اللہ) خرچ کر کے آگے بھیجا اور جو چھوڑ کر مر گیا وہ تو وارثوں کا ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ بسا اوقات میں بھوک کی وجہ سے زمین پر پیٹ لگا کر لیٹ جاتا تھا اور بسا اوقات پیٹ سے پتھر باندھ لیتا تھا اور ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے راستے میں بیٹھ گیا۔ پہلے وہاں سے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) گزرے تو میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت پوچھی (صرف) اس لیے کہ میرا مقصود پوچھیں اور مجھے گھر لے جا کر کھانا کھلا دیں (لیکن) وہ چلے گئے۔ پھر سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) گزرے تو ان سے بھی ایسے ہی کہا لیکن وہ بھی چلے گئے۔ پھر ابوالقاسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ادھر سے گزرے۔ مجھے دیکھ کر سمجھ گئے اور مسکرا کر فرمایا: ”اے ابوہر! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! فرمایا: ”میرے ساتھ آؤ۔“ میں ساتھ ہو لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے، میں نے اندر آنے کی اجازت لی، مجھے اجازت دی گئی۔“ میں اندر چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا ایک پیالہ دیکھا تو فرمایا: ”یہ کہاں سے آیا ہے؟“ گھر والوں نے کہا فلاں شخص یا یہ کہا کہ فلاں عورت نے آپ کے لیے تحفہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہر!“ میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! اہل ”صفہ کو بلا لاؤ۔“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے نہ ان کا کوئی گھر تھا اور نہ کوئی مال و اسباب اور نہ کوئی دوست آشنا جس کے گھر جا کر رہتے (مسجد میں پڑے رہتے تھے) جب کوئی صدقہ کا مال آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے تناول نہ فرماتے (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر صدقہ حرام تھا) بلکہ انھیں کو دے دیا کرتے اور اگر کوئی تحفہ آتا تو کچھ اپنے لیے رکھ لیتے اور کچھ انھیں دے دیتے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا اور اصحاب صفہ کر بلا لاؤ تو مجھے بہت برا لگا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھلا یہ اتنا سا دودھ اصحاب صفہ کو کیسے کافی ہو سکتا ہے؟ اس دودھ کا حقدار تو میں تھا، اس میں سے کچھ پیتا تو ذرا مجھ میں طاقت آتی اور جب اہل صفہ آئیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو ہی حکم دیں گے کہ ان کو دودھ پلا، جب وہ پینا شروع کر دیں گے تو اس بات کی امید نہیں ہے کہ اخیر میں کچھ دودھ مجھے بھی ملے گا۔ مگر کیا کرتا اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بجا لانا تو اشد ضروری تھا۔ چار و ناچار میں ان کے پاس گیا اور ان (اصحاب صفہ) کو بلا لایا۔ انھوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ وہ آئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے اباہر!“ میں نے کہا، لبیک یا رسول اللہ!۔ فرمایا: ”انھیں یہ دودھ پلاؤ۔“ میں نے ان میں سے ایک ایک کو دودھ کا پیالہ دینا شروع کیا۔ جب وہ پی چکتا تو دودھ والا پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا۔ دوسرے شخص کو دیتا تو وہ بھی سیر ہو کر پیتا اور پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا۔ (پھر تیسرے شخص کو دیتا) اسی طرح سب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ اس وقت تک اصحاب صفہ خوب سیر ہو کر پی چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا: ”اب تو اور میں باقی رہ گئے میں نے کہا ”بیشک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جا اور دودھ پیو۔“ میں بیٹھ گیا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور پیو۔“ تو میں نے اور پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا قسم اس پروردگار کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اب میرے پیٹ میں جگہ نہیں رہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اب مجھے دیدے۔“ میں نے دے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر باقی بچا ہوا دودھ نوش فرما لیا۔ (یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھا)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ”اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی آل کو وہ روزی عطا فرما جس میں ان کا گزارہ ہوتا رہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی بھی شخص کو اس کے عملوں کی وجہ سے نجات نہ ہو گی (بلکہ اللہ کی رحمت سے ہو گی)۔“ لوگوں نے پوچھا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں! مجھے بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ کے تعالیٰ کی رحمت مجھ کو ڈھانپ لے۔“ اور فرمایا: ”میانہ روی سے عمل کرو اور اللہ سے قربت حاصل کرو اور صبح و شام اور پچھلی رات میں عبادت کرو اور میانہ روی سے عمل کرنا تمہیں منزل مقصود (یعنی جنت) تک پہنچا دے گا۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل پسند ہے؟ فرمایا: ”ایسا عمل جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ نے جس وقت رحمت کو پیدا کیا تو اس کے سو حصے پیدا فرمائے، ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ پوری مخلوق کی طرف بھیجا۔ پس اگر کافر لوگ اللہ کے پاس والی تمام رحمت کو جان لیں تو (باوجود اپنے کفر و شرک وغیرہ کے) کبھی بھی جنت سے ناامید نہ ہوں اور اگر مومن اللہ کے یہاں کے تمام عذاب کو جان لیں تو (باوجود اپنے عقیدہ، ایمان سے اور عمل صالح کے) دوزخ سے نڈر نہ ہوں۔“
12. زبان کو روکے رکھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کا بیان کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔“(یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد میں کبھی ان دونوں کا غلط استعمال نہ ہو)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان اچانک کبھی اللہ کی رضا کی کوئی بات کہہ دیتا ہے اور وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے درجے بلند کرتا ہے اور (کبھی) انسان کوئی بات اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کہہ دیتا ہے اور وہ اسے کوئی بڑا گناہ نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے جہنم میں گر جاتا ہے۔“
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری مثال اور اس کی مثال جو اللہ نے میرے پاس بھیجا ہے اس شخص کی طرح ہے جس نے کسی قوم سے آ کر کہا کہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھا کہ ایک لشکر دشمنوں کا آتا ہے اور میں تمہیں صاف صاف ڈراتا ہوں کہ تم اس سے بچو، اس سے بچو۔ ایک گروہ نے اس کی بات کو مانا اور رات ہی رات وہاں سے چل دیا وہ تو بچ گیا اور دوسرے گروہ نے اس کا کہنا نہ مانا، صبح کو وہ لشکر آ پہنچا اور اس نے انھیں مار ڈالا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دوزخ نفسانی خواہشات سے اور جنت ان باتوں جو نفس کو بری معلوم ہوں سے ڈھانک دی گئی ہے۔“