Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

مختصر صحيح بخاري
دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی دنیا میں کیسی تھی اور وہ دنیا سے کیسے الگ رہے۔
حدیث نمبر: 2102
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قسم ہے اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے کہ بسا اوقات میں بھوک کی وجہ سے زمین پر پیٹ لگا کر لیٹ جاتا تھا اور بسا اوقات پیٹ سے پتھر باندھ لیتا تھا اور ایک روز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کے راستے میں بیٹھ گیا۔ پہلے وہاں سے ابوبکر (رضی اللہ عنہ) گزرے تو میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت پوچھی (صرف) اس لیے کہ میرا مقصود پوچھیں اور مجھے گھر لے جا کر کھانا کھلا دیں (لیکن) وہ چلے گئے۔ پھر سیدنا عمر (رضی اللہ عنہ) گزرے تو ان سے بھی ایسے ہی کہا لیکن وہ بھی چلے گئے۔ پھر ابوالقاسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ادھر سے گزرے۔ مجھے دیکھ کر سمجھ گئے اور مسکرا کر فرمایا: اے ابوہر! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! فرمایا: میرے ساتھ آؤ۔ میں ساتھ ہو لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے، میں نے اندر آنے کی اجازت لی، مجھے اجازت دی گئی۔ میں اندر چلا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کا ایک پیالہ دیکھا تو فرمایا: یہ کہاں سے آیا ہے؟ گھر والوں نے کہا فلاں شخص یا یہ کہا کہ فلاں عورت نے آپ کے لیے تحفہ دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہر! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ! اہل صفہ کو بلا لاؤ۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اہل صفہ مسلمانوں کے مہمان تھے نہ ان کا کوئی گھر تھا اور نہ کوئی مال و اسباب اور نہ کوئی دوست آشنا جس کے گھر جا کر رہتے (مسجد میں پڑے رہتے تھے) جب کوئی صدقہ کا مال آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس میں سے تناول نہ فرماتے (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر صدقہ حرام تھا) بلکہ انھیں کو دے دیا کرتے اور اگر کوئی تحفہ آتا تو کچھ اپنے لیے رکھ لیتے اور کچھ انھیں دے دیتے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جا اور اصحاب صفہ کر بلا لاؤ تو مجھے بہت برا لگا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ بھلا یہ اتنا سا دودھ اصحاب صفہ کو کیسے کافی ہو سکتا ہے؟ اس دودھ کا حقدار تو میں تھا، اس میں سے کچھ پیتا تو ذرا مجھ میں طاقت آتی اور جب اہل صفہ آئیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو ہی حکم دیں گے کہ ان کو دودھ پلا، جب وہ پینا شروع کر دیں گے تو اس بات کی امید نہیں ہے کہ اخیر میں کچھ دودھ مجھے بھی ملے گا۔ مگر کیا کرتا اللہ و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بجا لانا تو اشد ضروری تھا۔ چار و ناچار میں ان کے پاس گیا اور ان (اصحاب صفہ) کو بلا لایا۔ انھوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی۔ وہ آئے اور اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے اباہر! میں نے کہا، لبیک یا رسول اللہ!۔ فرمایا: انھیں یہ دودھ پلاؤ۔ میں نے ان میں سے ایک ایک کو دودھ کا پیالہ دینا شروع کیا۔ جب وہ پی چکتا تو دودھ والا پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا۔ دوسرے شخص کو دیتا تو وہ بھی سیر ہو کر پیتا اور پیالہ مجھ کو واپس کر دیتا۔ (پھر تیسرے شخص کو دیتا) اسی طرح سب کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ اس وقت تک اصحاب صفہ خوب سیر ہو کر پی چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ ہاتھ پر رکھ کر میری طرف دیکھا اور مسکرائے اور فرمایا: اب تو اور میں باقی رہ گئے میں نے کہا بیشک یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جا اور دودھ پیو۔ میں بیٹھ گیا اور دودھ پینا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور پیو۔ تو میں نے اور پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے کہا قسم اس پروردگار کی جس نے آپ کو سچائی کے ساتھ بھیجا ہے اب میرے پیٹ میں جگہ نہیں رہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا اب مجھے دیدے۔ میں نے دے دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور بسم اللہ کہہ کر باقی بچا ہوا دودھ نوش فرما لیا۔ (یہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ تھا)۔