صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
7. بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
7. باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
(7) Chapter. The virtues of Uthman bin Affan Abi Amr Al-Qurashi.
حدیث نمبر: Q3695
Save to word اعراب English
وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" من يحفر بئر رومة فله الجنة فحفرها عثمان، وقال:" من جهز جيش العسرة فله الجنة فجهزه عثمان".وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ يَحْفِرْ بِئْرَ رُومَةَ فَلَهُ الْجَنَّةُ فَحَفَرَهَا عُثْمَانُ، وَقَالَ:" مَنْ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَلَهُ الْجَنَّةُ فَجَهَّزَهُ عُثْمَانُ".
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو شخص بئررومہ (ایک کنواں) کو خرید کر سب کے لیے عام کر دے۔ اس کے لیے جنت ہے۔ تو عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خرید کر عام کر دیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جو شخص جیش عسرہ (غزوہ تبوک کے لشکر) کو سامان سے لیس کرے اس کے لیے جنت ہے تو عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسا کیا تھا۔
حدیث نمبر: 3695
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي عثمان، عن ابي موسى رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل حائطا وامرني بحفظ باب الحائط , فجاء رجل يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة" , فإذا ابو بكر ثم جاء آخر يستاذن، فقال:" ائذن له وبشره بالجنة" , فإذا عمر ثم جاء آخر يستاذن فسكت هنيهة، ثم قال:" ائذن له وبشره بالجنة على بلوى ستصيبه" , فإذا عثمان بن عفان. قال حماد: وحدثنا عاصم الاحول , وعلي بن الحكم , سمعا ابا عثمان يحدث، عن ابي موسى بنحوه , وزاد فيه عاصم،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان قاعدا في مكان فيه ماء قد انكشف عن ركبتيه او ركبته فلما دخل عثمان غطاها".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ حَائِطًا وَأَمَرَنِي بِحِفْظِ بَابِ الْحَائِطِ , فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ" , فَإِذَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ" , فَإِذَا عُمَرُ ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ فَسَكَتَ هُنَيْهَةً، ثُمَّ قَالَ:" ائْذَنْ لَهُ وَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَى بَلْوَى سَتُصِيبُهُ" , فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. قَالَ حَمَّادٌ: وَحَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ , وَعَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ , سَمِعَا أَبَا عُثْمَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى بِنَحْوِهِ , وَزَادَ فِيهِ عَاصِمٌ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ قَاعِدًا فِي مَكَانٍ فِيهِ مَاءٌ قَدِ انْكَشَفَ عَنْ رُكْبَتَيْهِ أَوْ رُكْبَتِهِ فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ غَطَّاهَا".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابوعثمان نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ (بئراریس) کے اندر تشریف لے گئے اور مجھ سے فرمایا کہ میں دروازہ پر پہرہ دیتا رہوں۔ پھر ایک صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری بھی سنا دو، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر دوسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی خوشخبری سنا دو، وہ عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر تیسرے ایک اور صاحب آئے اور اجازت چاہی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا کہ انہیں بھی اجازت دے دو اور (دنیا میں) ایک آزمائش سے گزرنے کے بعد جنت کی بشارت بھی سنا دو، وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ تھے۔ حماد بن سلمہ نے بیان کیا، ہم سے عاصم احول اور علی بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے ابوعثمان سے سنا اور وہ ابوموسیٰ سے اسی طرح بیان کرتے تھے، لیکن عاصم نے اپنی اس روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس کے اندر پانی تھا اور آپ اپنے دونوں گھٹنے یا ایک گھٹنہ کھولے ہوئے تھے لیکن جب عثمان رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو آپ نے اپنے گھٹنے کو چھپا لیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Musa: The Prophet entered a garden and ordered me to guard its gate. A man came and asked permission to enter. The Prophet said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise." Behold! It was Abu Bakr. Another man came and asked the permission to enter. The Prophet said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise." Behold! It was `Umar. Then another man came, asking the permission to enter. The Prophet kept silent for a short while and then said, "Admit him and give him the glad tidings of entering Paradise with a calamity which will befall him." Behold! It was `Uthman bin `Affan. `Asim, in another narration, said that the Prophet was sitting in a place where there was water, and he was uncovering both his knees or his knee, and when `Uthman entered, he covered them (or it).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 44


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3696
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثني احمد بن شبيب بن سعيد، قال: حدثني ابي، عن يونس، قال ابن شهاب: اخبرني عروة، ان عبيد الله بن عدي بن الخيار، اخبره , ان المسور بن مخرمة , وعبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، قالا:" ما يمنعك ان تكلم عثمان لاخيه الوليد فقد اكثر الناس فيه فقصدت لعثمان حتى خرج إلى الصلاة، قلت: إن لي إليك حاجة وهي نصيحة لك، قال: يا ايها المرء، قال: معمر اراه، قال: اعوذ بالله منك فانصرفت فرجعت إليهم إذ جاء رسول عثمان فاتيته، فقال: ما نصيحتك، فقلت:" إن الله سبحانه بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق وانزل عليه الكتاب , وكنت ممن استجاب لله ولرسوله صلى الله عليه وسلم , فهاجرت الهجرتين وصحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورايت هديه وقد اكثر الناس في شان الوليد"، قال: ادركت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: لا ولكن خلص إلي من علمه ما يخلص إلى العذراء في سترها، قال: اما بعد فإن الله بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق , فكنت ممن استجاب لله ولرسوله وآمنت بما بعث به وهاجرت الهجرتين كما، قلت: وصحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وبايعته فوالله ما عصيته ولا غششته حتى توفاه الله عز وجل , ثم ابو بكر مثله ثم عمر مثله ثم استخلفت افليس لي من الحق مثل الذي لهم، قلت: بلى، قال: فما هذه الاحاديث التي تبلغني عنكم اما ما ذكرت من شان الوليد فسناخذ فيه بالحق إن شاء الله ثم دعا عليا فامره ان يجلده فجلده ثمانين".(موقوف) حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يُونُسَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، أَخْبَرَهُ , أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، قَالَا:" مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تُكَلِّمَ عُثْمَانَ لِأَخِيهِ الْوَلِيدِ فَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِيهِ فَقَصَدْتُ لِعُثْمَانَ حَتَّى خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ، قُلْتُ: إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً وَهِيَ نَصِيحَةٌ لَكَ، قَالَ: يَا أَيُّهَا الْمَرْءُ، قَالَ: مَعْمَرٌ أُرَاهُ، قَالَ: أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ فَانْصَرَفْتُ فَرَجَعْتُ إِلَيْهِمْ إِذْ جَاءَ رَسُولُ عُثْمَانَ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: مَا نَصِيحَتُكَ، فَقُلْتُ:" إِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ , وَكُنْتَ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَهَاجَرْتَ الْهِجْرَتَيْنِ وَصَحِبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتَ هَدْيَهُ وَقَدْ أَكْثَرَ النَّاسُ فِي شَأْنِ الْوَلِيدِ"، قَالَ: أَدْرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: لَا وَلَكِنْ خَلَصَ إِلَيَّ مِنْ عِلْمِهِ مَا يَخْلُصُ إِلَى الْعَذْرَاءِ فِي سِتْرِهَا، قَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ , فَكُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَآمَنْتُ بِمَا بُعِثَ بِهِ وَهَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ كَمَا، قُلْتَ: وَصَحِبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَايَعْتُهُ فَوَاللَّهِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , ثُمَّ أَبُو بَكْرٍ مِثْلُهُ ثُمَّ عُمَرُ مِثْلُهُ ثُمَّ اسْتُخْلِفْتُ أَفَلَيْسَ لِي مِنَ الْحَقِّ مِثْلُ الَّذِي لَهُمْ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَمَا هَذِهِ الْأَحَادِيثُ الَّتِي تَبْلُغُنِي عَنْكُمْ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ شَأْنِ الْوَلِيدِ فَسَنَأْخُذُ فِيهِ بِالْحَقِّ إِنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَأَمَرَهُ أَنْ يَجْلِدَهُ فَجَلَدَهُ ثَمَانِينَ".
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عروہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عدی بن خیار نے خبر دی کہ مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبدیغوث رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم عثمان رضی اللہ عنہ سے ان کے بھائی ولید کے مقدمہ میں (جسے عثمان رضی اللہ عنہ نے کوفہ کا گورنر بنایا تھا) کیوں گفتگو نہیں کرتے، لوگ اس سے بہت ناراض ہیں۔ چنانچہ میں عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور جب وہ نماز کے لیے باہر تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے اور وہ ہے آپ کے ساتھ ایک خیر خواہی! اس پر عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بھلے آدمی تم سے (میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ معمر نے یوں روایت کیا، میں تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔ میں واپس ان دونوں کے پاس گیا، اتنے میں عثمان رضی اللہ عنہ کا قاصد مجھ کو بلانے کے لیے آیا میں جب اس کے ساتھ عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ تمہاری خیر خواہی کیا تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب نازل کی آپ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کیا تھا۔ آپ نے دو ہجرتیں کیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی اور آپ کے طریقے اور سنت کو دیکھا، لیکن بات یہ ہے کہ لوگ ولید کی بہت شکایتیں کر رہے ہیں۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر پوچھا: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ایک کنواری لڑکی تک کو اس کے تمام پردوں کے باوجود جب پہنچ چکی ہیں تو مجھے کیوں نہ معلوم ہوتیں۔ اس پر عثمان نے فرمایا: امابعد: بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرنے والوں میں بھی تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس دعوت کو لے کر بھیجے گئے تھے میں اس پر پورے طور سے ایمان لایا اور جیسا کہ تم نے کہا دو ہجرتیں بھی کیں۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بھی رہا ہوں اور آپ سے بیعت بھی کی ہے۔ پس اللہ کی قسم میں نے کبھی آپ کے حکم سے سرتابی نہیں کی۔ اور نہ آپ کے ساتھ کبھی کوئی دھوکا کیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی میرا یہی معاملہ رہا۔ اور عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ رہا تو کیا جب کہ مجھے ان کا جانشیں بنا دیا گیا ہے تو مجھے وہ حقوق حاصل نہیں ہوں گے جو انہیں تھے؟ میں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں، آپ نے فرمایا کہ پھر ان باتوں کے لیے کیا جواز رہ جاتا ہے جو تم لوگوں کی طرف سے مجھے پہنچتی رہتی ہیں لیکن تم نے جو ولید کے حالات کا ذکر کیا ہے، ان شاءاللہ ہم اس کی سزا جو واجبی ہے اس کو دیں گے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ ولید کو حد لگائیں۔ چنانچہ انہوں نے ولید کو اسی کوڑے حد کے لگائے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated 'Ubaidullah bin `Adi bin Al-Khiyar: Al-Miswar bin Makhrama and `Abdur-Rahman bin Al-Aswad bin 'Abu Yaghuth said (to me), "What forbids you to talk to `Uthman about his brother Al-Walid because people have talked much about him?" So I went to `Uthman and when he went out for prayer I said (to him), "I have something to say to you and it is a piece of advice for you " `Uthman said, "O man, from you." (`Umar said: I see that he said, "I seek Refuge with Allah from you.") So I left him and went to them. Then the messenger of `Uthman came and I went to him (i.e. `Uthman), `Uthman asked, "What is your advice?" I replied, "Allah sent Muhammad with the Truth, and revealed the Divine Book (i.e. Qur'an) to him; and you were amongst those who followed Allah and His Apostle, and you participated in the two migrations (to Ethiopia and to Medina) and enjoyed the company of Allah's Apostle and saw his way. No doubt, the people are talking much about Al-Walid." `Uthman said, "Did you receive your knowledge directly from Allah's Apostle ?" I said, "No, but his knowledge did reach me and it reached (even) to a virgin in her seclusion." `Uthman said, "And then Allah sent Muhammad with the Truth and I was amongst those who followed Allah and His Apostle and I believed in what ever he (i.e. the Prophet) was sent with, and participated in two migrations, as you have said, and I enjoyed the company of Allah's Apostle and gave the pledge of allegiance him. By Allah! I never disobeyed him, nor did I cheat him till Allah took him unto Him. Then I treated Abu Bakr and then `Umar similarly and then I was made Caliph. So, don't I have rights similar to theirs?" I said, "Yes." He said, "Then what are these talks reaching me from you people? Now, concerning what you mentioned about the question of Al-Walid, Allah willing, I shall deal with him according to what is right." Then he called `Ali and ordered him to flog him, and `Ali flogged him (i.e. Al-Walid) eighty lashes.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 45


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3697
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سعيد، عن قتادة، ان انسا رضي الله عنه حدثهم، قال: صعد النبي صلى الله عليه وسلم احدا ومعه ابو بكر , وعمر , وعثمان فرجف، وقال:" اسكن احد اظنه ضربه برجله فليس عليك إلا نبي وصديق وشهيدان".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: صَعِدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُحُدًا وَمَعَهُ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ , وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ، وَقَالَ:" اسْكُنْ أُحُدُ أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ فَلَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا۔ میرا خیال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn `Umar: During the lifetime of the Prophet we considered Abu Bakr as peerless and then `Umar and then `Uthman (coming next to him in superiority) and then we used not to differentiate between the companions of the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 47


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3698
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن حاتم بن بزيع، حدثنا شاذان، حدثنا عبد العزيز بن ابي سلمة الماجشون، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال:" كنا في زمن النبي صلى الله عليه وسلم لا نعدل بابي بكر احدا , ثم عمر ثم عثمان ثم نترك اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم لا نفاضل بينهم". تابعه عبد الله بن صالح، عن عبد العزيز.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا , ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ". تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
مجھ سے محمد بن حاتم بن بزیع نے بیان کیا، کہا ہم سے شاذان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے، اس حدیث کو عبداللہ بن صالح نے بھی عبدالعزیز سے روایت کیا ہے۔ اس کو اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Uthman: (the son of Muhib) An Egyptian who came and performed the Hajj to the Ka`ba saw some people sitting. He enquire, "Who are these people?" Somebody said, "They are the tribe of Quraish." He said, "Who is the old man sitting amongst them?" The people replied, "He is `Abdullah bin `Umar." He said, "O Ibn `Umar! I want to ask you about something; please tell me about it. Do you know that `Uthman fled away on the day (of the battle) of Uhud?" Ibn `Umar said, "Yes." The (Egyptian) man said, "Do you know that `Uthman was absent on the day (of the battle) of Badr and did not join it?" Ibn `Umar said, "Yes." The man said, "Do you know that he failed to attend the Ar Ridwan pledge and did not witness it (i.e. Hudaibiya pledge of allegiance)?" Ibn `Umar said, "Yes." The man said, "Allahu Akbar!" Ibn `Umar said, "Let me explain to you (all these three things). As for his flight on the day of Uhud, I testify that Allah has excused him and forgiven him; and as for his absence from the battle of Badr, it was due to the fact that the daughter of Allah's Apostle was his wife and she was sick then. Allah's Apostle said to him, "You will receive the same reward and share (of the booty) as anyone of those who participated in the battle of Badr (if you stay with her).' As for his absence from the Ar-Ridwan pledge of allegiance, had there been any person in Mecca more respectable than `Uthman (to be sent as a representative). Allah's Apostle would have sent him instead of him. No doubt, Allah's Apostle had sent him, and the incident of the Ar-Ridwan pledge of Allegiance happened after `Uthman had gone to Mecca. Allah's Apostle held out his right hand saying, 'This is `Uthman's hand.' He stroke his (other) hand with it saying, 'This (pledge of allegiance) is on the behalf of `Uthman.' Then Ibn `Umar said to the man, 'Bear (these) excuses in mind with you.'
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 48


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3699
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، حدثنا عثمان هو ابن موهب، قال: جاء رجل من اهل مصر حج البيت فراى قوما جلوسا، فقال: من هؤلاء القوم؟، فقال: هؤلاء قريش، قال: فمن الشيخ فيهم؟ قالوا: عبد الله بن عمر، قال: يا ابن عمر إني سائلك عن شيء فحدثني هل تعلم ان عثمان فر يوم احد؟ قال: نعم , قال: تعلم انه تغيب عن بدر ولم يشهد، قال: نعم، قال: تعلم انه تغيب عن بيعة الرضوان فلم يشهدها، قال: نعم، قال: الله اكبر، قال ابن عمر: تعال ابين لك اما فراره يوم احد فاشهد ان الله عفا عنه وغفر له , واما تغيبه عن بدر فإنه كانت تحته بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم وكانت مريضة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن لك اجر رجل ممن شهد بدرا وسهمه" , واما تغيبه عن بيعة الرضوان فلو كان احد اعز ببطن مكة من عثمان لبعثه مكانه" فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عثمان وكانت بيعة الرضوان بعد ما ذهب عثمان إلى مكة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بيده اليمنى هذه يد عثمان فضرب بها على يده، فقال: هذه لعثمان" فقال له ابن عمر: اذهب بها الآن معك.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ فَرَأَى قَوْمًا جُلُوسًا، فَقَالَ: مَنْ هَؤُلَاءِ الْقَوْمُ؟، فَقَالَ: هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ، قَالَ: فَمَنِ الشَّيْخُ فِيهِمْ؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ إِنِّي سَائِلُكَ عَنْ شَيْءٍ فَحَدِّثْنِي هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَدْرٍ وَلَمْ يَشْهَدْ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَّبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: تَعَالَ أُبَيِّنْ لَكَ أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ فَأَشْهَدُ أَنَّ اللَّهَ عَفَا عَنْهُ وَغَفَرَ لَهُ , وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ كَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَتْ مَرِيضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لَكَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَسَهْمَهُ" , وَأَمَّا تَغَيُّبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَوْ كَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَكَانَهُ" فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُثْمَانَ وَكَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَى مَكَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بِيَدِهِ الْيُمْنَى هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ فَضَرَبَ بِهَا عَلَى يَدِهِ، فَقَالَ: هَذِهِ لِعُثْمَانَ" فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ: اذْهَبْ بِهَا الْآنَ مَعَكَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، کہا ہم سے عثمان بن موہب نے بیان کیا کہ مصر والوں میں سے ایک نام نامعلوم آدمی آیا اور حج بیت اللہ کیا، پھر کچھ لوگوں کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا کہ یہ قریشی ہیں۔ اس نے پوچھا کہ ان میں بزرگ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمر ہیں۔ اس نے پوچھا۔ اے ابن عمر! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ مجھے بتائیں گے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے احد کی لڑائی سے راہ فرار اختیار کی تھی؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں ایسا ہوا تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا: کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بدر کی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا کہ ہاں ایسا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ بیعت رضوان میں بھی شریک نہیں تھے۔ جواب دیا کہ ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ یہ سن کر اس کی زبان سے نکلا اللہ اکبر تو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ قریب آ جاؤ، اب میں تمہیں ان واقعات کی تفصیل سمجھاؤں گا۔ احد کی لڑائی سے فرار کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا ہے۔ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تمہیں (مریضہ کے پاس ٹھہرنے کا) اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا جتنا اس شخص کو جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو گا اور اسی کے مطابق مال غنیمت سے حصہ بھی ملے گا اور بیعت رضوان میں شریک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر وادی مکہ میں کوئی بھی شخص (مسلمانوں میں سے) عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ عزت والا اور بااثر ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی کو ان کی جگہ وہاں بھیجتے، یہی وجہ ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (قریش سے باتیں کرنے کے لیے) مکہ بھیج دیا تھا اور جب بیعت رضوان ہو رہی تھی تو عثمان رضی اللہ عنہ مکہ جا چکے تھے، اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے داہنے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا تھا کہ یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور پھر اسے اپنے دوسرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ یہ بیعت عثمان کی طرف سے ہے۔ اس کے بعد ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سوال کرنے والے شخص سے فرمایا کہ جا، ان باتوں کو ہمیشہ یاد رکھنا۔ ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب احد پہاڑ پر چڑھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی تھے تو پہاڑ کانپنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا احد ٹھہر جا میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاؤں سے مارا بھی تھا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: The Prophet ascended the mountain of Uhud and Abu Bakr, `Umar and `Uthman were accompanying him. The mountain gave a shake (i.e. trembled underneath them) . The Prophet said, "O Uhud ! Be calm." I think that the Prophet hit it with his foot, adding, "For upon you there are none but a Prophet, a Siddiq and two martyrs."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 49


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
8. بَابُ قِصَّةُ الْبَيْعَةِ، وَالاِتِّفَاقُ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
8. باب: عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کا قصہ اور آپ کی خلافت پر صحابہ کا اتفاق کرنا اور اس باب میں امیرالمؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بیان۔
(8) Chapter. The story of the Bai’a (pledge) (after Umar) and the unanimous election of of Uthman bin Affan as a caliph.
حدیث نمبر: 3700
Save to word مکررات اعراب English
(موقوف) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا ابو عوانة، عن حصين، عن عمرو بن ميمون، قال: رايت عمر بن الخطاب رضي الله عنه قبل ان يصاب بايام بالمدينة وقف على حذيفة بن اليمان وعثمان بن حنيف، قال:" كيف فعلتما اتخافان ان تكونا قد حملتما الارض ما لا تطيق؟، قالا: حملناها امرا هي له مطيقة ما فيها كبير فضل، قال: انظرا ان تكونا حملتما الارض ما لا تطيق، قال: قالا لا، فقال عمر: لئن سلمني الله لادعن ارامل اهل العراق لا يحتجن إلى رجل بعدي ابدا، قال: فما اتت عليه إلا رابعة حتى اصيب، قال: إني لقائم ما بيني وبينه إلا عبد الله بن عباس غداة اصيب وكان إذا مر بين الصفين، قال: استووا حتى إذا لم ير فيهن خللا تقدم فكبر وربما قرا سورة يوسف او النحل او نحو ذلك في الركعة الاولى حتى يجتمع الناس فما هو إلا ان كبر فسمعته، يقول: قتلني او اكلني الكلب حين طعنه فطار العلج بسكين ذات طرفين لا يمر على احد يمينا ولا شمالا إلا طعنه , حتى طعن ثلاثة عشر رجلا مات منهم سبعة، فلما راى ذلك رجل من المسلمين طرح عليه برنسا، فلما ظن العلج انه ماخوذ نحر نفسه وتناول عمر يد عبد الرحمن بن عوف، فقدمه فمن يلي عمر فقد راى الذي ارى واما نواحي المسجد فإنهم لا يدرون غير انهم قد فقدوا صوت عمر، وهم يقولون: سبحان الله سبحان الله , فصلى بهم عبد الرحمن صلاة خفيفة فلما انصرفوا، قال: يا ابن عباس انظر من قتلني فجال ساعة ثم جاء، فقال: غلام المغيرة، قال: الصنع، قال: نعم، قال: قاتله الله لقد امرت به معروفا الحمد لله الذي لم يجعل ميتتي بيد رجل يدعي الإسلام قد كنت انت وابوك تحبان ان تكثر العلوج بالمدينة وكان العباس اكثرهم رقيقا، فقال: إن شئت فعلت اي إن شئت قتلنا، قال: كذبت بعد ما تكلموا بلسانكم وصلوا قبلتكم وحجوا حجكم فاحتمل إلى بيته فانطلقنا معه وكان الناس لم تصبهم مصيبة قبل يومئذ فقائل، يقول: لا باس وقائل، يقول: اخاف عليه فاتي بنبيذ فشربه , فخرج من جوفه , ثم اتي بلبن فشربه فخرج من جرحه , فعلموا انه ميت فدخلنا عليه وجاء الناس يثنون عليه وجاء رجل شاب، فقال: ابشر يا امير المؤمنين ببشرى الله لك من صحبة رسول الله صلى الله عليه وسلم وقدم في الإسلام ما قد علمت ثم وليت فعدلت ثم شهادة، قال: وددت ان ذلك كفاف لا علي ولا لي فلما ادبر إذا إزاره يمس الارض، قال: ردوا علي الغلام، قال: يا ابن اخي ارفع ثوبك فإنه ابقى لثوبك واتقى لربك يا عبد الله بن عمر انظر ما علي من الدين فحسبوه فوجدوه ستة وثمانين الفا او نحوه، قال: إن وفى له مال آل عمر فاده من اموالهم وإلا فسل في بني عدي بن كعب , فإن لم تف اموالهم فسل في قريش ولا تعدهم إلى غيرهم فاد عني هذا المال , انطلق إلى عائشة ام المؤمنين فقل يقرا عليك عمر السلام ولا تقل امير المؤمنين فإني لست اليوم للمؤمنين اميرا , وقل يستاذن عمر بن الخطاب ان يدفن مع صاحبيه فسلم واستاذن ثم دخل عليها فوجدها قاعدة تبكي، فقال: يقرا عليك عمر بن الخطاب السلام ويستاذن ان يدفن مع صاحبيه، فقالت: كنت اريده لنفسي ولاوثرن به اليوم على نفسي , فلما اقبل قيل هذا عبد الله بن عمر قد جاء، قال: ارفعوني فاسنده رجل إليه، فقال: ما لديك، قال: الذي تحب يا امير المؤمنين اذنت، قال: الحمد لله ما كان من شيء اهم إلي من ذلك فإذا انا قضيت فاحملوني ثم سلم فقل يستاذن عمر بن الخطاب فإن اذنت لي فادخلوني وإن ردتني ردوني إلى مقابر المسلمين , وجاءت ام المؤمنين حفصة والنساء تسير معها فلما رايناها قمنا , فولجت عليه فبكت عنده ساعة واستاذن الرجال فولجت داخلا لهم فسمعنا بكاءها من الداخل، فقالوا: اوص يا امير المؤمنين استخلف، قال: ما اجد احدا احق بهذا الامر من هؤلاء النفر او الرهط الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض فسمى عليا , وعثمان , والزبير , وطلحة , وسعدا , وعبد الرحمن، وقال: يشهدكم عبد الله بن عمر وليس له من الامر شيء كهيئة التعزية له فإن اصابت الإمرة سعدا فهو ذاك وإلا فليستعن به ايكم ما امر فإني لم اعزله عن عجز ولا خيانة، وقال:" اوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الاولين ان يعرف لهم حقهم ويحفظ لهم حرمتهم , واوصيه بالانصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم ان يقبل من محسنهم وان يعفى عن مسيئهم واوصيه باهل الامصار خيرا فإنهم ردء الإسلام وجباة المال وغيظ العدو , وان لا يؤخذ منهم إلا فضلهم عن رضاهم واوصيه بالاعراب خيرا فإنهم اصل العرب ومادة الإسلام ان يؤخذ من حواشي اموالهم وترد على فقرائهم , واوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم ان يوفى لهم بعهدهم وان يقاتل من ورائهم ولا يكلفوا إلا طاقتهم" , فلما قبض خرجنا به فانطلقنا نمشي فسلم عبد الله بن عمر، قال: يستاذن عمر بن الخطاب، قالت: ادخلوه فادخل فوضع هنالك مع صاحبيه فلما فرغ من دفنه اجتمع هؤلاء الرهط، فقال: عبد الرحمن اجعلوا امركم إلى ثلاثة منكم، فقال: الزبير قد جعلت امري إلى علي، فقال: طلحة قد جعلت امري إلى عثمان، وقال سعد: قد جعلت امري إلى عبد الرحمن بن عوف، فقال عبد الرحمن: ايكما تبرا من هذا الامر فنجعله إليه والله عليه والإسلام لينظرن افضلهم في نفسه فاسكت الشيخان، فقال عبد الرحمن: افتجعلونه إلي والله علي ان لا آل عن افضلكم، قالا: نعم فاخذ بيد احدهما، فقال: لك قرابة من رسول الله صلى الله عليه وسلم والقدم في الإسلام ما قد علمت فالله عليك لئن امرتك لتعدلن ولئن امرت عثمان لتسمعن ولتطيعن ثم خلا بالآخر، فقال له: مثل ذلك فلما اخذ الميثاق، قال: ارفع يدك يا عثمان فبايعه فبايع له علي وولج اهل الدار فبايعوه.
(موقوف) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبْلَ أَنْ يُصَابَ بِأَيَّامٍ بِالْمَدِينَةِ وَقَفَ عَلَى حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ وَعُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ:" كَيْفَ فَعَلْتُمَا أَتَخَافَانِ أَنْ تَكُونَا قَدْ حَمَّلْتُمَا الْأَرْضَ مَا لَا تُطِيقُ؟، قَالَا: حَمَّلْنَاهَا أَمْرًا هِيَ لَهُ مُطِيقَةٌ مَا فِيهَا كَبِيرُ فَضْلٍ، قَالَ: انْظُرَا أَنْ تَكُونَا حَمَّلْتُمَا الْأَرْضَ مَا لَا تُطِيقُ، قَالَ: قَالَا لَا، فَقَالَ عُمَرُ: لَئِنْ سَلَّمَنِي اللَّهُ لَأَدَعَنَّ أَرَامِلَ أَهْلِ الْعِرَاقِ لَا يَحْتَجْنَ إِلَى رَجُلٍ بَعْدِي أَبَدًا، قَالَ: فَمَا أَتَتْ عَلَيْهِ إِلَّا رَابِعَةٌ حَتَّى أُصِيبَ، قَالَ: إِنِّي لَقَائِمٌ مَا بَيْنِي وَبَيْنَهُ إِلَّا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ غَدَاةَ أُصِيبَ وَكَانَ إِذَا مَرَّ بَيْنَ الصَّفَّيْنِ، قَالَ: اسْتَوُوا حَتَّى إِذَا لَمْ يَرَ فِيهِنَّ خَلَلًا تَقَدَّمَ فَكَبَّرَ وَرُبَّمَا قَرَأَ سُورَةَ يُوسُفَ أَوْ النَّحْلَ أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى حَتَّى يَجْتَمِعَ النَّاسُ فَمَا هُوَ إِلَّا أَنْ كَبَّرَ فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ: قَتَلَنِي أَوْ أَكَلَنِي الْكَلْبُ حِينَ طَعَنَهُ فَطَارَ الْعِلْجُ بِسِكِّينٍ ذَاتِ طَرَفَيْنِ لَا يَمُرُّ عَلَى أَحَدٍ يَمِينًا وَلَا شِمَالًا إِلَّا طَعَنَهُ , حَتَّى طَعَنَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا مَاتَ مِنْهُمْ سَبْعَةٌ، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ طَرَحَ عَلَيْهِ بُرْنُسًا، فَلَمَّا ظَنَّ الْعِلْجُ أَنَّهُ مَأْخُوذٌ نَحَرَ نَفْسَهُ وَتَنَاوَلَ عُمَرُ يَدَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَدَّمَهُ فَمَنْ يَلِي عُمَرَ فَقَدْ رَأَى الَّذِي أَرَى وَأَمَّا نَوَاحِي الْمَسْجِدِ فَإِنَّهُمْ لَا يَدْرُونَ غَيْرَ أَنَّهُمْ قَدْ فَقَدُوا صَوْتَ عُمَرَ، وَهُمْ يَقُولُونَ: سُبْحَانَ اللَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَصَلَّى بِهِمْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ صَلَاةً خَفِيفَةً فَلَمَّا انْصَرَفُوا، قَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ انْظُرْ مَنْ قَتَلَنِي فَجَالَ سَاعَةً ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: غُلَامُ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: الصَّنَعُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قَاتَلَهُ اللَّهُ لَقَدْ أَمَرْتُ بِهِ مَعْرُوفًا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي لَمْ يَجْعَلْ مِيتَتِي بِيَدِ رَجُلٍ يَدَّعِي الْإِسْلَامَ قَدْ كُنْتَ أَنْتَ وَأَبُوكَ تُحِبَّانِ أَنْ تَكْثُرَ الْعُلُوجُ بِالْمَدِينَةِ وَكَانَ الْعَبَّاسُ أَكْثَرَهُمْ رَقِيقًا، فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ فَعَلْتُ أَيْ إِنْ شِئْتَ قَتَلْنَا، قَالَ: كَذَبْتَ بَعْدَ مَا تَكَلَّمُوا بِلِسَانِكُمْ وَصَلَّوْا قِبْلَتَكُمْ وَحَجُّوا حَجَّكُمْ فَاحْتُمِلَ إِلَى بَيْتِهِ فَانْطَلَقْنَا مَعَهُ وَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ تُصِبْهُمْ مُصِيبَةٌ قَبْلَ يَوْمَئِذٍ فَقَائِلٌ، يَقُولُ: لَا بَأْسَ وَقَائِلٌ، يَقُولُ: أَخَافُ عَلَيْهِ فَأُتِيَ بِنَبِيذٍ فَشَرِبَهُ , فَخَرَجَ مِنْ جَوْفِهِ , ثُمَّ أُتِيَ بِلَبَنٍ فَشَرِبَهُ فَخَرَجَ مِنْ جُرْحِهِ , فَعَلِمُوا أَنَّهُ مَيِّتٌ فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ وَجَاءَ النَّاسُ يُثْنُونَ عَلَيْهِ وَجَاءَ رَجُلٌ شَابٌّ، فَقَالَ: أَبْشِرْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ بِبُشْرَى اللَّهِ لَكَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدَمٍ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ ثُمَّ وَلِيتَ فَعَدَلْتَ ثُمَّ شَهَادَةٌ، قَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ ذَلِكَ كَفَافٌ لَا عَلَيَّ وَلَا لِي فَلَمَّا أَدْبَرَ إِذَا إِزَارُهُ يَمَسُّ الْأَرْضَ، قَالَ: رُدُّوا عَلَيَّ الْغُلَامَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي ارْفَعْ ثَوْبَكَ فَإِنَّهُ أَبْقَى لِثَوْبِكَ وَأَتْقَى لِرَبِّكَ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ انْظُرْ مَا عَلَيَّ مِنَ الدَّيْنِ فَحَسَبُوهُ فَوَجَدُوهُ سِتَّةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ: إِنْ وَفَى لَهُ مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّهِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَإِلَّا فَسَلْ فِي بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ , فَإِنْ لَمْ تَفِ أَمْوَالُهُمْ فَسَلْ فِي قُرَيْشٍ وَلَا تَعْدُهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ فَأَدِّ عَنِّي هَذَا الْمَالَ , انْطَلِقْ إِلَى عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فَقُلْ يَقْرَأُ عَلَيْكِ عُمَرُ السَّلَامَ وَلَا تَقُلْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فَإِنِّي لَسْتُ الْيَوْمَ لِلْمُؤْمِنِينَ أَمِيرًا , وَقُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ يُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيْهِ فَسَلَّمَ وَاسْتَأْذَنَ ثُمَّ دَخَلَ عَلَيْهَا فَوَجَدَهَا قَاعِدَةً تَبْكِي، فَقَالَ: يَقْرَأُ عَلَيْكِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ السَّلَامَ وَيَسْتَأْذِنُ أَنْ يُدْفَنَ مَعَ صَاحِبَيْهِ، فَقَالَتْ: كُنْتُ أُرِيدُهُ لِنَفْسِي وَلَأُوثِرَنَّ بِهِ الْيَوْمَ عَلَى نَفْسِي , فَلَمَّا أَقْبَلَ قِيلَ هَذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ قَدْ جَاءَ، قَالَ: ارْفَعُونِي فَأَسْنَدَهُ رَجُلٌ إِلَيْهِ، فَقَالَ: مَا لَدَيْكَ، قَالَ: الَّذِي تُحِبُّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ أَذِنَتْ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا كَانَ مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ ذَلِكَ فَإِذَا أَنَا قَضَيْتُ فَاحْمِلُونِي ثُمَّ سَلِّمْ فَقُلْ يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَإِنْ أَذِنَتْ لِي فَأَدْخِلُونِي وَإِنْ رَدَّتْنِي رُدُّونِي إِلَى مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ , وَجَاءَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ حَفْصَةُ وَالنِّسَاءُ تَسِيرُ مَعَهَا فَلَمَّا رَأَيْنَاهَا قُمْنَا , فَوَلَجَتْ عَلَيْهِ فَبَكَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً وَاسْتَأْذَنَ الرِّجَالُ فَوَلَجَتْ دَاخِلًا لَهُمْ فَسَمِعْنَا بُكَاءَهَا مِنَ الدَّاخِلِ، فَقَالُوا: أَوْصِ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اسْتَخْلِفْ، قَالَ: مَا أَجِدُ أَحَدًا أَحَقَّ بِهَذَا الْأَمْرِ مِنْ هَؤُلَاءِ النَّفَرِ أَوِ الرَّهْطِ الَّذِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُمْ رَاضٍ فَسَمَّى عَلِيًّا , وَعُثْمَانَ , وَالزُّبَيْرَ , وَطَلْحَةَ , وَسَعْدًا , وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ: يَشْهَدُكُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَلَيْسَ لَهُ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ كَهَيْئَةِ التَّعْزِيَةِ لَهُ فَإِنْ أَصَابَتِ الْإِمْرَةُ سَعْدًا فَهُوَ ذَاكَ وَإِلَّا فَلْيَسْتَعِنْ بِهِ أَيُّكُمْ مَا أُمِّرَ فَإِنِّي لَمْ أَعْزِلْهُ عَنْ عَجْزٍ وَلَا خِيَانَةٍ، وَقَالَ:" أُوصِي الْخَلِيفَةَ مِنْ بَعْدِي بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَيَحْفَظَ لَهُمْ حُرْمَتَهُمْ , وَأُوصِيهِ بِالْأَنْصَارِ خَيْرًا الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ أَنْ يُقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَأَنْ يُعْفَى عَنْ مُسِيئِهِمْ وَأُوصِيهِ بِأَهْلِ الْأَمْصَارِ خَيْرًا فَإِنَّهُمْ رِدْءُ الْإِسْلَامِ وَجُبَاةُ الْمَالِ وَغَيْظُ الْعَدُوِّ , وَأَنْ لَا يُؤْخَذَ مِنْهُمْ إِلَّا فَضْلُهُمْ عَنْ رِضَاهُمْ وَأُوصِيهِ بِالْأَعْرَابِ خَيْرًا فَإِنَّهُمْ أَصْلُ الْعَرَبِ وَمَادَّةُ الْإِسْلَامِ أَنْ يُؤْخَذَ مِنْ حَوَاشِي أَمْوَالِهِمْ وَتُرَدَّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ , وَأُوصِيهِ بِذِمَّةِ اللَّهِ وَذِمَّةِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُوفَى لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَأَنْ يُقَاتَلَ مِنْ وَرَائِهِمْ وَلَا يُكَلَّفُوا إِلَّا طَاقَتَهُمْ" , فَلَمَّا قُبِضَ خَرَجْنَا بِهِ فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي فَسَلَّمَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: يَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَتْ: أَدْخِلُوهُ فَأُدْخِلَ فَوُضِعَ هُنَالِكَ مَعَ صَاحِبَيْهِ فَلَمَّا فُرِغَ مِنْ دَفْنِهِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ الرَّهْطُ، فَقَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ اجْعَلُوا أَمْرَكُمْ إِلَى ثَلَاثَةٍ مِنْكُمْ، فَقَالَ: الزُّبَيْرُ قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَ: طَلْحَةُ قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عُثْمَانَ، وَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ جَعَلْتُ أَمْرِي إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَيُّكُمَا تَبَرَّأَ مِنْ هَذَا الْأَمْرِ فَنَجْعَلُهُ إِلَيْهِ وَاللَّهُ عَلَيْهِ وَالْإِسْلَامُ لَيَنْظُرَنَّ أَفْضَلَهُمْ فِي نَفْسِهِ فَأُسْكِتَ الشَّيْخَانِ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: أَفَتَجْعَلُونَهُ إِلَيَّ وَاللَّهُ عَلَيَّ أَنْ لَا آلُ عَنْ أَفْضَلِكُمْ، قَالَا: نَعَمْ فَأَخَذَ بِيَدِ أَحَدِهِمَا، فَقَالَ: لَكَ قَرَابَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَدَمُ فِي الْإِسْلَامِ مَا قَدْ عَلِمْتَ فَاللَّهُ عَلَيْكَ لَئِنْ أَمَّرْتُكَ لَتَعْدِلَنَّ وَلَئِنْ أَمَّرْتُ عُثْمَانَ لَتَسْمَعَنَّ وَلَتُطِيعَنَّ ثُمَّ خَلَا بِالْآخَرِ، فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ فَلَمَّا أَخَذَ الْمِيثَاقَ، قَالَ: ارْفَعْ يَدَكَ يَا عُثْمَانُ فَبَايَعَهُ فَبَايَعَ لَهُ عَلِيٌّ وَوَلَجَ أَهْلُ الدَّارِ فَبَايَعُوهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی ہونے سے چند دن پہلے مدینہ میں دیکھا کہ وہ حذیفہ بن یمان اور عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہما کے ساتھ کھڑے تھے اور ان سے یہ فرما رہے تھے کہ (عراق کی اراضی کے لیے، جس کا انتظام خلافت کی جانب سے ان کے سپرد کیا گیا تھا) تم لوگوں نے کیا کیا ہے؟ کیا تم لوگوں کو یہ اندیشہ تو نہیں ہے کہ تم نے زمین کا اتنا محصول لگا دیا ہے جس کی گنجائش نہ ہو۔ ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم نے ان پر خراج کا اتنا ہی بار ڈالا ہے جسے ادا کرنے کی زمین میں طاقت ہے، اس میں کوئی زیادتی نہیں کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو پھر سمجھ لو کہ تم نے ایسی جمع تو نہیں لگائی ہے جو زمین کی طاقت سے باہر ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ ان دونوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونے پائے گا، اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا تو میں عراق کی بیوہ عورتوں کے لیے اتنا کر دوں گا کہ پھر میرے بعد کسی کی محتاج نہیں رہیں گی۔ راوی عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ ابھی اس گفتگو پر چوتھا دن ہی آیا تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیئے گئے۔ عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس صبح کو آپ زخمی کئے گئے، میں (فجر کی نماز کے انتظار میں) صف کے اندر کھڑا تھا اور میرے اور ان کے درمیان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا اور کوئی نہیں تھا عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب صف سے گزرتے تو فرماتے جاتے کہ صفیں سیدھی کر لو اور جب دیکھتے کہ صفوں میں کوئی خلل نہیں رہ گیا ہے تب آگے (مصلی پر) بڑھتے اور تکبیر کہتے۔ آپ (فجر کی نماز کی) پہلی رکعت میں عموماً سورۃ یوسف یا سورۃ النحل یا اتنی ہی طویل کوئی سورت پڑھتے یہاں تک کہ لوگ جمع ہو جاتے۔ اس دن ابھی آپ نے تکبیر ہی کہی تھی کہ میں نے سنا، آپ فرما رہے ہیں کہ مجھے قتل کر دیا یا کتے نے کاٹ لیا۔ ابولولو نے آپ کو زخمی کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ بدبخت اپنا دو دھاری خنجر لیے دوڑنے لگا اور دائیں اور بائیں جدھر بھی پھرتا تو لوگوں کو زخمی کرتا جاتا۔ اس طرح اس نے تیرہ آدمیوں کو زخمی کر دیا جن میں سات حضرات نے شہادت پائی۔ مسلمانوں میں سے ایک صاحب (حطان نامی) نے یہ صورت حال دیکھی تو انہوں نے اس پر اپنی چادر ڈال دی۔ اس بدبخت کو جب یقین ہو گیا کہ اب پکڑ لیا جائے گا تو اس نے خود اپنا بھی گلا کاٹ لیا، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر انہیں آگے بڑھا دیا (عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ) جو لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب تھے انہوں نے بھی وہ صورت حال دیکھی جو میں دیکھ رہا تھا لیکن جو لوگ مسجد کے کنارے پر تھے (پیچھے کی صفوں میں) تو انہیں کچھ معلوم نہیں ہو سکا، البتہ چونکہ عمر رضی اللہ عنہ کی قرآت (نماز میں) انہوں نے نہیں سنی تو سبحان اللہ! سبحان اللہ! کہتے رہے۔ آخر عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بہت ہلکی نماز پڑھائی۔ پھر جب لوگ نماز سے پلٹے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابن عباس! دیکھو مجھے کس نے زخمی کیا ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تھوڑی دیر گھوم پھر کر دیکھا اور آ کر فرمایا کہ مغیرہ رضی اللہ عنہ کے غلام (ابولولو) نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا، وہی جو کاریگر ہے؟ جواب دیا کہ جی ہاں، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ اسے برباد کرے میں نے تو اسے اچھی بات کہی تھی (جس کا اس نے یہ بدلا دیا) اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری موت کسی ایسے شخص کے ہاتھوں نہیں مقدر کی جو اسلام کا مدعی ہو۔ تم اور تمہارے والد (عباس رضی اللہ عنہ) اس کے بہت ہی خواہشمند تھے کہ عجمی غلام مدینہ میں زیادہ سے زیادہ لائے جائیں۔ یوں بھی ان کے پاس غلام بہت تھے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا، اگر آپ فرمائیں تو ہم بھی کر گزریں۔ مقصد یہ تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم (مدینہ میں مقیم عجمی غلاموں کو) قتل کر ڈالیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ انتہائی غلط فکر ہے، خصوصاً جب کہ تمہاری زبان میں وہ گفتگو کرتے ہیں، تمہارے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے ہیں اور تمہاری طرح حج کرتے ہیں۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر اٹھا کر لایا گیا اور ہم آپ کے ساتھ ساتھ آئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے لوگوں پر کبھی اس سے پہلے اتنی بڑی مصیبت آئی ہی نہیں تھی، بعض تو یہ کہتے تھے کہ کچھ نہیں ہو گا۔ (اچھے ہو جائیں گے) اور بعض کہتے تھے کہ آپ کی زندگی خطرہ میں ہے۔ اس کے بعد کھجور کا پانی لایا گیا۔ اسے آپ نے پیا تو وہ آپ کے پیٹ سے باہر نکل آیا۔ پھر دودھ لایا گیا اسے بھی جوں ہی آپ نے پیا زخم کے راستے وہ بھی باہر نکل آیا۔ اب لوگوں کو یقین ہو گیا کہ آپ کی شہادت یقینی ہے۔ پھر ہم اندر آ گئے اور لوگ آپ کی تعریف بیان کرنے لگے، اتنے میں ایک نوجوان اندر آیا اور کہنے لگایا امیرالمؤمنین! آپ کو خوشخبری ہو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اٹھائی۔ ابتداء میں اسلام لانے کا شرف حاصل کیا جو آپ کو معلوم ہے۔ پھر آپ خلیفہ بنائے گئے اور آپ نے پورے انصاف سے حکومت کی، پھر شہادت پائی، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اس پر بھی خوش تھا کہ ان باتوں کی وجہ سے برابر پر میرا معاملہ ختم ہو جاتا، نہ ثواب ہوتا اور نہ عذاب۔ جب وہ نوجوان جانے لگا تو اس کا تہبند (ازار) لٹک رہا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پاس واپس بلا لاؤ (جب وہ آئے تو) آپ نے فرمایا: میرے بھتیجے! یہ اپنا کپڑا اوپر اٹھائے رکھو کہ اس سے تمہارا کپڑا بھی زیادہ دنوں چلے گا اور تمہارے رب سے تقویٰ کا بھی باعث ہے۔ اے عبداللہ بن عمر! دیکھو مجھ پر کتنا قرض ہے؟ جب لوگوں نے آپ پر قرض کا شمار کیا تو تقریباً چھیاسی (86) ہزار نکلا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ قرض آل عمر کے مال سے ادا ہو سکے تو انہی کے مال سے اس کو ادا کرنا ورنہ پھر بنی عدی بن کعب سے کہنا، اگر ان کے مال کے بعد بھی ادائیگی نہ ہو سکے تو قریش سے کہنا، ان کے سوا کسی سے امداد نہ طلب کرنا اور میری طرف سے اس قرض کو ادا کر دینا۔ اچھا اب ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں جاؤ اور ان سے عرض کرو کہ عمر نے آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ امیرالمؤمنین (میرے نام کے ساتھ) نہ کہنا، کیونکہ اب میں مسلمانوں کا امیر نہیں رہا ہوں، تو ان سے عرض کرنا کہ عمر بن خطاب نے آپ سے اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر) سلام کیا اور اجازت لے کر اندر داخل ہوئے۔ دیکھا کہ آپ بیٹھی رو رہی ہیں۔ پھر کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کو سلام کہا ہے اور اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہی ہے، عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے اس جگہ کو اپنے لیے منتخب کر رکھا تھا لیکن آج میں انہیں اپنے پر ترجیح دوں گی، پھر جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو لوگوں نے بتایا کہ عبداللہ آ گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے اٹھاؤ۔ ایک صاحب نے سہارا دے کر آپ کو اٹھایا۔ آپ نے دریافت کیا کیا خبر لائے؟ کہا کہ جو آپ کی تمنا تھی اے امیرالمؤمنین! عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا الحمدللہ۔ اس سے اہم چیز اب میرے لیے کوئی نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن جب میری وفات ہو چکے اور مجھے اٹھا کر (دفن کے لیے) لے چلو تو پھر میرا سلام ان سے کہنا اور عرض کرنا کہ عمر بن خطاب (رضی اللہ عنہ) نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر وہ میرے لیے اجازت دے دیں تب تو وہاں دفن کرنا اور اگر اجازت نہ دیں تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا۔ اس کے بعد ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا آئیں۔ ان کے ساتھ کچھ دوسری خواتین بھی تھیں، جب ہم نے انہیں دیکھا تو ہم اٹھ گئے۔ آپ عمر رضی اللہ عنہ کے قریب آئیں اور وہاں تھوڑی دیر تک آنسو بہاتی رہیں۔ پھر جب مردوں نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو وہ مکان کے اندرونی حصہ میں چلی گئیں اور ہم نے ان کے رونے کی آواز سنی پھر لوگوں نے عرض کیا امیرالمؤمنین! خلافت کے لیے کوئی وصیت کر دیجئیے، فرمایا کہ خلافت کا میں ان حضرات سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں پاتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک جن سے راضی اور خوش تھے پھر آپ نے علی، عثمان، زبیر، طلحہ، سعد اور عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا اور یہ بھی فرمایا کہ عبداللہ بن عمر کو بھی صرف مشورہ کی حد تک شریک رکھنا لیکن خلافت سے انہیں کوئی سروکار نہیں رہے گا۔ جیسے آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کی تسکین کے لیے یہ فرمایا ہو۔ پھر اگر خلافت سعد کو مل جائے تو وہ اس کے اہل ہیں اور اگر وہ نہ ہو سکیں تو جو شخص بھی خلیفہ ہو وہ اپنے زمانہ خلافت میں ان کا تعاون حاصل کرتا رہے۔ کیونکہ میں نے ان کو (کوفہ کی گورنری سے) نااہلی یا کسی خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا ہے اور عمر نے فرمایا: میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو مہاجرین اولین کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کے احترام کو ملحوظ رکھے اور میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ انصار کے ساتھ بہتر معاملہ کرے جو دارالہجرت اور دارالایمان (مدینہ منورہ) میں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے سے) مقیم ہیں۔ (خلیفہ کو چاہیے) کہ وہ ان کے نیکوں کو نوازے اور ان کے بروں کو معاف کر دیا کرے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ شہری آبادی کے ساتھ بھی اچھا معاملہ رکھے کہ یہ لوگ اسلام کی مدد، مال جمع کرنے کا ذریعہ اور (اسلام کے) دشمنوں کے لیے ایک مصیبت ہیں اور یہ کہ ان سے وہی وصول کیا جائے جو ان کے پاس فاضل ہو اور ان کی خوشی سے لیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو بدویوں کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ وہ اصل عرب ہیں اور اسلام کی جڑ ہیں اور یہ کہ ان سے ان کا بچا کھچا مال وصول کیا جائے اور انہیں کے محتاجوں میں تقسیم کر دیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول کے عہد کی نگہداشت کی (جو اسلامی حکومت کے تحت غیر مسلموں سے کیا ہے) وصیت کرتا ہوں کہ ان سے کئے گئے عہد کو پورا کیا جائے، ان کی حفاظت کے لیے جنگ کی جائے اور ان کی حیثیت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے، جب عمر رضی اللہ عنہ کی وفات ہو گئی تو ہم وہاں سے ان کو لے کر (عائشہ رضی اللہ عنہا) کے حجرہ کی طرف آئے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سلام کیا اور عرض کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ہے۔ ام المؤمنین نے کہا انہیں یہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ وہ وہیں دفن ہوئے، پھر جب لوگ دفن سے فارغ ہو چکے تو وہ جماعت (جن کے نام عمر رضی اللہ عنہ نے وفات سے پہلے بتائے تھے) جمع ہوئی عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: تمہیں اپنا معاملہ اپنے ہی میں سے تین آدمیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اس پر زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا۔ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنا معاملہ عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد کرتا ہوں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنا معاملہ عبدالرحمٰن بن عوف کے سپرد کیا۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے (عثمان اور علی رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے) کہا کہ آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی برات ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگراں و نگہبان ہو گا اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہو گی۔ ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے، اس پر یہ دونوں حضرات خاموش ہو گئے تو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ حضرات اس انتخاب کی ذمہ داری مجھ پر ڈالتے ہیں، اللہ کی قسم کہ میں آپ حضرات میں سے اسی کو منتخب کروں گا جو سب میں افضل ہو گا۔ ان دونوں حضرات نے کہا کہ جی ہاں، پھر آپ نے ان دونوں میں سے ایک کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا کہ آپ کی قرابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور ابتداء میں اسلام لانے کا شرف بھی۔ جیسا کہ آپ کو خود ہی معلوم ہے، پس اللہ آپ کا نگران ہے کہ اگر میں آپ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ عدل و انصاف سے کام لیں گے اور اگر عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کے احکام سنیں گے اور ان کی اطاعت کریں گے؟ اس کے بعد دوسرے صاحب کو تنہائی میں لے گئے اور ان سے بھی یہی کہا اور جب ان سے وعدہ لے لیا تو فرمایا: اے عثمان! اپنا ہاتھ بڑھایئے۔ چنانچہ انہوں نے ان سے بیعت کی اور علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان سے بیعت کی، پھر اہل مدینہ آئے اور سب نے بیعت کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Amr bin Maimun: I saw `Umar bin Al-Khattab a few days before he was stabbed in Medina. He was standing with Hudhaifa bin Al-Yaman and `Uthman bin Hunaif to whom he said, "What have you done? Do you think that you have imposed more taxation on the land (of As-Swad i.e. 'Iraq) than it can bear?" They replied, "We have imposed on it what it can bear because of its great yield." `Umar again said, "Check whether you have imposed on the land what it can not bear." They said, "No, (we haven't)." `Umar added, "If Allah should keep me alive I will let the widows of Iraq need no men to support them after me." But only four days had elapsed when he was stabbed (to death ). The day he was stabbed, I was standing and there was nobody between me and him (i.e. `Umar) except `Abdullah bin `Abbas. Whenever `Umar passed between the two rows, he would say, "Stand in straight lines." When he saw no defect (in the rows), he would go forward and start the prayer with Takbir. He would recite Surat Yusuf or An-Nahl or the like in the first rak`a so that the people may have the time to Join the prayer. As soon as he said Takbir, I heard him saying, "The dog has killed or eaten me," at the time he (i.e. the murderer) stabbed him. A non-Arab infidel proceeded on carrying a double-edged knife and stabbing all the persons he passed by on the right and left (till) he stabbed thirteen persons out of whom seven died. When one of the Muslims saw that, he threw a cloak on him. Realizing that he had been captured, the non-Arab infidel killed himself, `Umar held the hand of `Abdur-Rahman bin `Auf and let him lead the prayer. Those who were standing by the side of `Umar saw what I saw, but the people who were in the other parts of the Mosque did not see anything, but they lost the voice of `Umar and they were saying, "Subhan Allah! Subhan Allah! (i.e. Glorified be Allah)." `Abdur-Rahman bin `Auf led the people a short prayer. When they finished the prayer, `Umar said, "O Ibn `Abbas! Find out who attacked me." Ibn `Abbas kept on looking here and there for a short time and came to say. "The slave of Al Mughira." On that `Umar said, "The craftsman?" Ibn `Abbas said, "Yes." `Umar said, "May Allah curse him. I did not treat him unjustly. All the Praises are for Allah Who has not caused me to die at the hand of a man who claims himself to be a Muslim. No doubt, you and your father (Abbas) used to love to have more non-Arab infidels in Medina." Al-Abbas had the greatest number of slaves. Ibn `Abbas said to `Umar. "If you wish, we will do." He meant, "If you wish we will kill them." `Umar said, "You are mistaken (for you can't kill them) after they have spoken your language, prayed towards your Qibla, and performed Hajj like yours." Then `Umar was carried to his house, and we went along with him, and the people were as if they had never suffered a calamity before. Some said, "Do not worry (he will be Alright soon)." Some said, "We are afraid (that he will die)." Then an infusion of dates was brought to him and he drank it but it came out (of the wound) of his belly. Then milk was brought to him and he drank it, and it also came out of his belly. The people realized that he would die. We went to him, and the people came, praising him. A young man came saying, "O chief of the believers! Receive the glad tidings from Allah to you due to your company with Allah's Apostle and your superiority in Islam which you know. Then you became the ruler (i.e. Caliph) and you ruled with justice and finally you have been martyred." `Umar said, "I wish that all these privileges will counterbalance (my shortcomings) so that I will neither lose nor gain anything." When the young man turned back to leave, his clothes seemed to be touching the ground. `Umar said, "Call the young man back to me." (When he came back) `Umar said, "O son of my brother! Lift your clothes, for this will keep your clothes clean and save you from the Punishment of your Lord." `Umar further said, "O `Abdullah bin `Umar! See how much I am in debt to others." When the debt was checked, it amounted to approximately eighty-six thousand. `Umar said, "If the property of `Umar's family covers the debt, then pay the debt thereof; otherwise request it from Bani `Adi bin Ka`b, and if that too is not sufficient, ask for it from Quraish tribe, and do not ask for it from any one else, and pay this debt on my behalf." `Umar then said (to `Abdullah), "Go to `Aisha (the mother of the believers) and say: "`Umar is paying his salutation to you. But don't say: 'The chief of the believers,' because today I am not the chief of the believers. And say: "`Umar bin Al-Khattab asks the permission to be buried with his two companions (i.e. the Prophet, and Abu Bakr)." `Abdullah greeted `Aisha and asked for the permission for entering, and then entered to her and found her sitting and weeping. He said to her, "`Umar bin Al-Khattab is paying his salutations to you, and asks the permission to be buried with his two companions." She said, "I had the idea of having this place for myself, but today I prefer `Umar to myself." When he returned it was said (to `Umar), "`Abdullah bin `Umar has come." `Umar said, "Make me sit up." Somebody supported him against his body and `Umar asked (`Abdullah), "What news do you have?" He said, "O chief of the believers! It is as you wish. She has given the permission." `Umar said, "Praise be to Allah, there was nothing more important to me than this. So when I die, take me, and greet `Aisha and say: "`Umar bin Al-Khattab asks the permission (to be buried with the Prophet ), and if she gives the permission, bury me there, and if she refuses, then take me to the grave-yard of the Muslims." Then Hafsa (the mother of the believers) came with many other women walking with her. When we saw her, we went away. She went in (to `Umar) and wept there for sometime. When the men asked for permission to enter, she went into another place, and we heard her weeping inside. The people said (to `Umar), "O chief of the believers! Appoint a successor." `Umar said, "I do not find anyone more suitable for the job than the following persons or group whom Allah's Apostle had been pleased with before he died." Then `Umar mentioned `Ali, `Uthman, AzZubair, Talha, Sa`d and `Abdur-Rahman (bin `Auf) and said, "Abdullah bin `Umar will be a witness to you, but he will have no share in the rule. His being a witness will compensate him for not sharing the right of ruling. If Sa`d becomes the ruler, it will be alright: otherwise, whoever becomes the ruler should seek his help, as I have not dismissed him because of disability or dishonesty." `Umar added, "I recommend that my successor takes care of the early emigrants; to know their rights and protect their honor and sacred things. I also recommend that he be kind to the Ansar who had lived in Medina before the emigrants and Belief had entered their hearts before them. I recommend that the (ruler) should accept the good of the righteous among them and excuse their wrong-doers, and I recommend that he should do good to all the people of the towns (Al-Ansar), as they are the protectors of Islam and the source of wealth and the source of annoyance to the enemy. I also recommend that nothing be taken from them except from their surplus with their consent. I also recommend that he do good to the 'Arab bedouin, as they are the origin of the 'Arabs and the material of Islam. He should take from what is inferior, amongst their properties and distribute that to the poor amongst them. I also recommend him concerning Allah's and His Apostle's protectees (i.e. Dhimmis) to fulfill their contracts and to fight for them and not to overburden them with what is beyond their ability." So when `Umar expired, we carried him out and set out walking. `Abdullah bin `Umar greeted (`Aisha) and said, "`Umar bin Al-Khattab asks for the permission." `Aisha said, "Bring him in." He was brought in and buried beside his two companions. When he was buried, the group (recommended by `Umar) held a meeting. Then `Abdur-Rahman said, " Reduce the candidates for rulership to three of you." Az-Zubair said, "I give up my right to `Ali." Talha said, "I give up my right to `Uthman," Sa`d, 'I give up my right to `Abdur-Rahman bin `Auf." `Abdur-Rahman then said (to `Uthman and `Ali), "Now which of you is willing to give up his right of candidacy to that he may choose the better of the (remaining) two, bearing in mind that Allah and Islam will be his witnesses." So both the sheiks (i.e. `Uthman and `Ali) kept silent. `Abdur-Rahman said, "Will you both leave this matter to me, and I take Allah as my Witness that I will not choose but the better of you?" They said, "Yes." So `Abdur-Rahman took the hand of one of them (i.e. `Ali) and said, "You are related to Allah's Apostle and one of the earliest Muslims as you know well. So I ask you by Allah to promise that if I select you as a ruler you will do justice, and if I select `Uthman as a ruler you will listen to him and obey him." Then he took the other (i.e. `Uthman) aside and said the same to him. When `Abdur-Rahman secured (their agreement to) this covenant, he said, "O `Uthman! Raise your hand." So he (i.e. `Abdur-Rahman) gave him (i.e. `Uthman) the solemn pledge, and then `Ali gave him the pledge of allegiance and then all the (Medina) people gave him the pledge of allegiance.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 50


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
9. بَابُ مَنَاقِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ الْقُرَشِيِّ الْهَاشِمِيِّ أَبِي الْحَسَنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
9. باب: ابوالحسن علی بن ابی طالب القرشی الہاشمی رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
(9) Chapter. The merits of Ali bin Abi Talib Al-Qurashi Al-Hashimi, Abul-Hasan.
حدیث نمبر: Q3701
Save to word اعراب English
وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي:" انت مني وانا منك"، وقال عمر:" توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنه راض".وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ:" أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"، وَقَالَ عُمَرُ:" تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَنْهُ رَاضٍ".
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور عمر رضی اللہ عنہ نے (علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔
حدیث نمبر: 3701
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لاعطين الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه، قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم ايهم يعطاها فلما اصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجو ان يعطاها، فقال: اين علي بن ابي طالب؟، فقالوا: يشتكي عينيه يا رسول الله، قال: فارسلوا إليه فاتوني به فلما جاء بصق في عينيه ودعا له , فبرا حتى كان لم يكن به وجع فاعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله اقاتلهم حتى يكونوا مثلنا، فقال:" انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم ثم ادعهم إلى الإسلام واخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه , فوالله لان يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من ان يكون لك حمر النعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّهُمْ يَرْجُو أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ: أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟، فَقَالُوا: يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ فَأْتُونِي بِهِ فَلَمَّا جَاءَ بَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ وَدَعَا لَهُ , فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ:" انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ , فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر بیان فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو اسلامی عَلم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، راوی نے بیان کیا کہ رات کو لوگ یہ سوچتے رہے کہ دیکھئیے عَلم کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب حضرات (جو سرکردہ تھے) حاضر ہوئے، سب کو امید تھی کہ عَلم انہیں ہی ملے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے یہاں کسی کو بھیج کر بلوا لو، جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا تھوک ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، اس سے انہیں ایسی شفاء حاصل ہوئی جیسے کوئی مرض پہلے تھا ہی نہیں، چنانچہ آپ نے عَلم انہیں کو عنایت فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ان سے اتنا لڑوں گا کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں (یعنی مسلمان بن جائیں) آپ نے فرمایا: ابھی یوں ہی چلتے رہو، جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق واجب ہیں، اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کی دولت) سے بہتر ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sahl bin Sa`d: Allah's Apostle said, "Tomorrow I will give the flag to a man with whose leadership Allah will grant (the Muslim) victory." So the people kept on thinking the whole night as to who would be given the flag. The next morning the people went to Allah's Apostle and every one of them hoped that he would be given the flag. The Prophet said, "Where is `Ali bin Abi Talib?" The people replied, "He is suffering from eye trouble, O Allah's Apostle." He said, "Send for him and bring him to me." So when `Ali came, the Prophet spat in his eyes and invoked good on him, and be became alright as if he had no ailment. The Prophet then gave him the flag. `Ali said, "O Allah's Apostle! Shall I fight them (i.e. enemy) till they become like us?" The Prophet said, "Proceed to them steadily till you approach near to them and then invite them to Islam and inform them of their duties towards Allah which Islam prescribes for them, for by Allah, if one man is guided on the right path (i.e. converted to Islam) through you, it would be better for you than (a great number of) red camels."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 51


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3702
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة، قال: كان علي قد تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في خيبر وكان به رمد، فقال: انا اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , فخرج علي فلحق بالنبي صلى الله عليه وسلم فلما كان مساء الليلة التي فتحها الله في صباحها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لاعطين الراية او لياخذن الراية غدا رجلا يحبه الله ورسوله" , او قال:" يحب الله ورسوله يفتح الله عليه" , فإذا نحن بعلي وما نرجوه، فقالوا: هذا علي فاعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم الراية ففتح الله عليه".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَيْبَرَ وَكَانَ بِهِ رَمَدٌ، فَقَالَ: أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَخَرَجَ عَلِيٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اللَّهُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَدًا رَجُلًا يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ" , أَوْ قَالَ:" يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ" , فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا: هَذَا عَلِيٌّ فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے حاتم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بوجہ آنکھ دکھنے کے نہیں آ سکے تھے، پھر انہوں نے سوچا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک نہ ہو سکوں! چنانچہ گھر سے نکلے اور آپ کے لشکر سے جا ملے، جب اس رات کی شام آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عنایت فرمائی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل میں ایک ایسے شخص کو عَلم دوں گا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ کل) ایک ایسا شخص عَلم کو لے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول کو محبت ہے یا آپ نے یہ فرمایا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائے گا، اتفاق سے علی رضی اللہ عنہ آ گئے، حالانکہ ان کے آنے کی ہمیں امید نہیں تھی لوگوں نے بتایا کہ یہ ہیں علی رضی اللہ عنہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عَلم انہیں دے دیا، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر کو فتح کرا دیا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Salama: `Ali happened to stay behind the Prophet and (did not join him) during the battle of Khaibar for he was having eye trouble. Then he said, "How could I remain behind Allah's Apostle?" So `Ali set out following the Prophet , When it was the eve of the day in the morning of which Allah helped (the Muslims) to conquer it, Allah's Apostle said, "I will give the flag (to a man), or tomorrow a man whom Allah and His Apostle love will take the flag," or said, "A man who loves Allah and His Apostle; and Allah will grant victory under his leadership." Suddenly came `Ali whom we did not expect. The people said, "This is `Ali." Allah's Apostle gave him the flag and Allah granted victory under his leadership.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 52


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.