Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
7. بَابُ مَنَاقِبُ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ أَبِي عَمْرٍو الْقُرَشِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: ابوعمرو عثمان بن عفان القرشی (اموی) رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3698
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا شَاذَانُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كُنَّا فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَعْدِلُ بِأَبِي بَكْرٍ أَحَدًا , ثُمَّ عُمَرَ ثُمَّ عُثْمَانَ ثُمَّ نَتْرُكُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ". تَابَعَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ.
مجھ سے محمد بن حاتم بن بزیع نے بیان کیا، کہا ہم سے شاذان نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر کسی کو نہیں قرار دیتے تھے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان رضی اللہ عنہ کو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ پر ہم کوئی بحث نہیں کرتے تھے اور کسی کو ایک دوسرے پر فضیلت نہیں دیتے تھے، اس حدیث کو عبداللہ بن صالح نے بھی عبدالعزیز سے روایت کیا ہے۔ اس کو اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 3698 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3698  
حدیث حاشیہ:

سائل اہل مصر سے تھا اس کا مقصد حضرت عثمان ؓ پر اعتراضات کرنا تھا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے ان اعتراضات کے کافی شافی جوابات دیے۔
اس سے حضرت عثمان کی فضیلت واضح ہوتی ہے کہ غزوہ احد سے فرار کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ذکر کیا ہے کہ انھیں معاف کردیا اور بخش دیا۔
جنگ بدر میں حاضر نہ ہونے کے باوجود بھی انھیں حاضر ہونے والوں کا سا حصہ دیا اور ان جیسا ثواب حاصل ہوا جو کسی اور غائب ہونے والے کو نصیب نہ ہوا۔
بیعت رضوان میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
یہ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ ہے یہ وہ سعادت ہے جو اور کسی کو نصیب نہ ہوئی۔

مصر سے آنے والا شخص حضرت عثمان ؓ کے مخالفین میں سے تھا اوقر تعجب کے باعث اس نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے تین سوالات کیے تھے۔
جب انھوں نے ان سوالات کی تصدیق کی تو خوشی سے اس نے اللہ أکبرکانعرہ بلند کیا لیکن حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اس کے تینوں سوالوں کا تفصیل سے جواب دے کر اسے کہا:
اب جاؤ اپنا عقیدہ صحیح کرو اور غلط پروپیگنڈا بند کردو۔

حافظ ابن حجر ؒ نے مسند بزار کے حولاے سے لکھا ہے ایک مرتبہ حضرت عبد الرحمٰن بن عوف ؓ نے بھی یہی اعتراضات کیے تھے تو حضرت عثمان ؓ نے خود ان کو وہی جوابات دیے جو حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اعتراض کرنے والے کو دیے۔
(فتح الباري: 75/7)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3698   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3655  
3655. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک ہی میں جب ہمیں صحابہ کرام ؓ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو ہم سب سے افضل اور بہتر حضرت ابوبکر ؓ کوقراردیتے، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کو، پھر حضرت عثمان ؓ کا درجہ آتاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3655]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے مذہب جمہور کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ تمام صحابہ میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو فضیلت حاصل ہے۔
اکثر سلف کا یہی قول ہے اور خلف میں سے بھی اکثر نے یہی کہا ہے۔
بعض محققین ایسا بھی کہتے ہیں کہ خلفاء اربعہ کو باہم ایک دوسرے پر فضیلت دینے میں کوئی نص قطعی نہیں ہے، لہذا یہ چاروں ہی افضل ہیں۔
بعض کہتے ہیں کہ تمام صحابہ میں یہ چاروں افضل ہیں اور ان کی خلافت جس ترتیب کے ساتھ منعقد ہوئی اسی ترتیب سے وہ حق اور صحیح ہیں اور ان میں باہم فضیلت اسی ترتیب سے کی جاسکتی ہے۔
بہر حال جمہور کے مذہب کو ترجیح حاصل ہے۔
باہم فضیلت اسی ترتیب سے کی جاسکتی ہے۔
بہر حال جمہور کے مذہب کو ترجیح حاصل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3655   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3655  
3655. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک ہی میں جب ہمیں صحابہ کرام ؓ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو ہم سب سے افضل اور بہتر حضرت ابوبکر ؓ کوقراردیتے، پھر حضرت عمر بن خطاب ؓ کو، پھر حضرت عثمان ؓ کا درجہ آتاتھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3655]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں کہاکرتے تھے:
اس امت میں سب سے افضل حضرت ابکر ؓ۔
پھر حضرت عمر ؓ۔
پھرحضرت عثمان ؓ ہیں۔
(سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4628)
طبرانی میں اس قدر اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اسے سنتے مگر انکار نہ کرتے تھے۔
(المعجم الکبیر للطبراني: 221/12۔
حدیث: 13132)

امام بخاری ؒ نے عنوان میں جمہور کی تائید کی ہے کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں حضرت ابوبکر ؓ کو برتری اورفضیلت حاصل ہے،البتہ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ خلفائے اربعہ میں ایک کو دوسرے پر برتری دینے کے متعلق کوئی قطعی نص نہیں ہے،لہذا یہ چاروں ہی افضل ہیں۔
لیکن مذکورہ حدیث کے پیش نظر یہ موقف مرجوح ہے اورجمہور کا مذہب ہی راجح ہے۔
امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:
صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒ کا اس امر پر اجماع ہے کہ امت میں سب سے افضل حضرت ابوبکر ؒ،پھر عمر ؒ۔
پھر عثمان ؒ۔
اور پھر حضرت علی ؒ کا درجہ ہے۔
(فتح الباري: 22/7)

عنوان میں امام بخاری ؒ نے لفظ بَعد استعمال کیا ہے۔
جو بُعد مرتبہ ومقام ار بعد مکان و زمان دونوں کے لیے استعمال ہوتاہے۔
اس مقام پر پہلے معنی پر مشتمل ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے مرتبہ اور مقام کے بعدحضرت ابوبکر ؓ کا درجہ ہے۔
اس سے مکان وزمان کا بُعد مراد نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی ہی میں ان کے درمیان مقام ومرتبے کا فرق قائم تھا۔
(عمدة القاري: 391/11)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3655