سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری (اپنے بندوں پر) ایسی نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شفاء (بیماری سے ان) تین چیزوں میں ہے (1) شہد پینا (2) پچھنے لگوانا (3) آگ سے داغ لگوانا (مگر) میں اپنی امت کو داغ دلوانے سے منع کرتا ہوں۔“
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کرنے لگا کہ میرے بھائی کو پیٹ کی تکلیف ہے (یعنی دست آ رہے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو شہد پلاؤ۔“(چنانچہ اس نے جا کر پلایا) پھر وہ دوبارہ آیا (اور عرض کی کہ اس کو ابھی آرام نہیں آیا) فرمایا اور شہد پلاؤ۔“(وہ گیا اور پلایا) پھر لوٹ کر آیا اور (کہ اب بھی آرام نہیں آیا اور) میں سب کچھ کر چکا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا فرمانا (”اس شہد میں لوگوں کے لیے شفاء ہے۔“) سچ ہے اور تیرے بھائی کا پیٹ جھوٹا ہے اس لیے تو شہد ہی پلائے جائے۔“ چنانچہ وہ پلاتا رہا، پس وہ تندرست ہو گیا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”بیشک یہ کالا دانہ (کلونجی) سام کے علاوہ ہر بیماری کی دوا ہے۔“ میں نے کہا کہ سام کیا چیز ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت۔“
سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”تم عود ہندی کا استعمال کیا کرو کیونکہ یہ سات بیماریوں کی دوا ہے، مرض عذرہ (حلق کی ورم یعنی خناق) کے لیے ناک میں ڈالی جاتی ہے اور پسلی کے درد کے لیے منہ میں رکھی جاتی ہے۔ (اور باقی حدیث گزر چکی ہے۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ”ابوطیبہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پچھنے لگائے تھے“(کتاب: خریدوفروخت کے بیان میں۔۔۔ باب: پچھنے لگانے والے کے پیشے کا بیان۔۔۔ میں حدیث گزر چکی ہے اور اس حدیث کے آخر میں کہتے ہیں کہ) بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنے لگوانا اور قسط دریائی تمہاری عمدہ دواؤں میں سے ہیں۔“ اور فرمایا: ”تم اپنے بچوں کو حلق کی بیماری (یعنی خناق) میں تالو دبا کر تکلیف نہ دیا کرو بلکہ قسط کا استعمال کیا کرو۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ میرے سامنے گزشتہ امتیں پیش کی گئیں اور انبیاء گزرنے لگے کسی کے ساتھ ایک آدمی، کسی کے ساتھ دو آدمی، کسی کے ساتھ ان کی امت کے کچھ لوگ تھے اور ایک نبی کے ساتھ کوئی بھی (امتی) نہ تھا یہاں تک کہ ایک بہت بڑی جماعت میرے سامنے کی گئی، میں نے پوچھا: ”یہ کس کی امت ہے؟ کیا یہ میری امت ہے؟ تو مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت ہے (پھر) کہا گیا کہ تم آسمان کو دیکھو (تو کیا دیکھتا ہوں! کہ ایک بڑی جماعت نے آسمان کے کنارے کو گھیر رکھا ہے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر ادھر آسمان کے دوسرے کنارے بھی دیکھو۔ میں نے دیکھا کہ واقعی بہت بڑی جماعت افق کو گھیرے ہوئے تھی۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور ان میں سے ستر ہزار بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔“ اس قدر فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حجرہ میں) تشریف لے گئے اور ہم لوگوں سے یہ ظاہر نہ فرمایا: ”وہ کون لوگ ہوں گے۔ (اس پر) لوگوں نے جھگڑنا شروع کیا۔ کہنے لگے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کی، اس لیے وہ لوگ ہم ہیں ورنہ ہماری اولاد ہو گی جو (کہ اب دور) اسلام میں پیدا ہوئے ہیں کیونکہ ہم دور جاہلیت کی پیدائش ہیں۔ یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ سن کر) تشریف لائے اور فرمایا: ”وہ تو وہ لوگ ہیں جو نہ دم کریں (کروائیں) اور نہ کسی شے میں بدفالی سمجھیں اور نہ (علاج کے لیے آگ سے) داغیں بلکہ اپنے اللہ ہی پر بھروسہ رکھیں“۔ سیدنا عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا: ”ہاں! (تو ان میں سے ہے)۔“ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کرنے لگا کہ کیا میں بھی انہی میں سے ہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس عکاشہ تم پر سبقت کر چکا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ایک کی بیماری دوسرے کو لگنا، بدشگونی لینا، الو کو منحوس سمجھنا اور صفر کو منحوس سمجھنا تمام کے تمام لغو خیالات ہیں لیکن جذام والے سے اس قدر علیحدہ رہنا چاہیے جیسے شیر سے (جدا رہتے ہیں)۔“(فائدہ: یہ اس لیے نہیں کہ جذام والے کی بیماری سے لگ جائے بلکہ اس لیے دور رہنے کی تلقین کی جا رہی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ کی طرف سے اس کا بیمار ہونا بھی اتفاق سے لکھا تھا وہ بیمار ہو گیا۔ اب دل میں خیال آتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ بیٹھنے کی وجہ سے بیماری لگی ہے تو یہ گناہ ہے۔ اس گناہ میں واقع ہونے سے بچانے کے لیے ”سد ذرائع“ کے طور پر رو کا جا رہا ہے۔)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: ”یہ چھوت چھات کوئی چیز ہے اور نہ صفر اور نہ الو منحوس ہے۔“ یہ سن کر ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ پھر میرے اونٹوں کا یہ حال کیوں ہوتا ہے کہ ریت (کے جنگل) میں ہرنوں کی مثل (چست اور چالاک) ہوتے ہیں پھر ایک خارشی اونٹ آتا ہے ان میں گھومتا پھرتا ہے تو خارشی اونٹ کے ملنے سے وہ بھی خارشی ہو جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے کی کھجلی کہاں سے آئی تھی؟“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کے گھر والوں کو یہ اجازت دے دی تھی کہ بچھو وغیرہ کے ڈنک مارنے اور کان کے درد کے لیے دم وغیرہ کر لیا کریں اور میں نے پسلی کے درد کی وجہ سے آپ کی زندگی میں داغ دلوایا اور ابوطلحہ اور انس بن نضر اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ موجود تھے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے داغ دیا تھا۔