سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا کیونکہ عورتوں کی پیدائش پسلی سے ہوئی ہے اور پسلی اوپر ہی کی طرف سے زیادہ ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنا چاہے تو وہ ٹوٹ جائے گی اور اگر رہنے دے تو خیر ٹیڑھی رہ کر رہے گی تو سہی۔ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ عورتوں سے بھلائی کرتے رہنا۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ(یمن کی) گیارہ عورتوں نے ایک جگہ جمع ہو کر باہم عہد و پیمان کیا کہ اپنے اپنے خاوندوں کا حال بیان کرو۔ کچھ نہ چھپاؤ۔ پہلی عورت بولی کہ میرا خاوند دبلے اونٹ کا گوشت ہے (جو) پہاڑ کی چوٹی پر رکھا ہو، نہ راستہ آسان ہے کہ چوٹی پر چڑھا جائے نہ وہ گوشت ہی ایسا فربہ ہے کہ اس کے لانے کی خاطر مصیبت اٹھائی جائے۔ دوسری نے کہا کہ میں اپنے خاوند کا حال بیان کروں تو کہاں تک کروں، میں ڈرتی ہوں کہ سب بیان نہ کر سکوں گی، اس پر بھی اگر بیان کروں تو اس کے کھلے چھپے عیب سب بیان کر سکتی ہوں۔ تیسری بولی کہ میرا خاوند لمبا تڑنگا ہے، اگر کوئی بات کروں تو طلاق ملتی ہے اور اگر خاموش رہوں تو مجھے معلق چھوڑ رکھا ہے۔ چوتھی نے کہا کہ میرا شوہر تہامہ کی رات کی طرح (متعدل ہے) نہ زیادہ گرم نہ بہت ٹھنڈا (یعنی ہمیشہ یکساں ہے) نہ زیادہ خوف نہ بہت غم۔ پانچویں نے کہا کہ میرا شوہر اگر گھر میں آئے تو چیتے کی مثال اور جب باہر جائے تو شیر (اور ایسا شریف المزاج) کہ جو چیز چھوڑ گیا اس کے بارے میں پوچھتا ہی نہیں۔ چھٹی نے کہا کہ میرا شوہر (ایسا پیٹو) ہے کہ اگر کھائے تو سب کھا جائے اور اگر پیے تو سب چٹ کر جائے اور جب سوئے تو اکیلا ہی پڑا رہے، میرے پیٹ کی طرف کبھی ہاتھ بھی نہیں بڑھاتا، نہ کبھی دکھ سکھ دریافت کرتا ہے۔ ساتویں نے کہا کہ میرا شوہر گمراہ ہے عاجز سینہ سے دبانے والا، ہر عیب اس کی ذات میں موجود ہے (اگر بات کرے تو) سر پھوڑ دے یا زخمی کر دے یا دونوں ہی کر گزرے) آٹھویں نے کہا کہ میرے شوہر کا چھونا ایسا ہے جیسے خرگوش کا چھونا یعنی (نازک بدن ہے) خوشبو ایسی جیسی کہ زرنب (ایک قسم کی گھاس) کی خوشبو۔ نویں بولی میرا شوہر اونچی عمارت والا (شریف) لمبے پرتلے والا بہت سخی ہے، اس کا گھر مجلس کے قریب ہے (ذی رائے شخص ہے)۔ دسویں نے کہا کہ میرے شوہر کا نام مالک (جائداد والا) ہے اور بھلا مالک کی کیا تعریف کروں (جو مدائح ذہن میں آ سکیں ان سے بالاتر ہے) اس کے گھر پر بہت سارے اونٹ (واسطے مہاناں) ہوتے ہیں اور چراگاہ میں (چرنے کو) کم جاتے ہیں اور جب باجے کی آواز سنتے ہیں تو یقین کر لیتے ہیں کہ اب وہ (مہمانوں کی خاطر) ذبح ہونے والے ہیں۔ گیارہویں نے کہا کہ میرا شوہر ابوزرع ہے اور اس کا کیا کہنا کہ میرے کانوں کو زیور سے بوجھل کر دیا اور میرے بازوؤں کو چربی سے پر کر دیا اور مجھے اس قدر خوش رکھا کہ اس کی داد دینے لگی، خوب کھلا کر موٹا کیا میں بھی اپنے تئیں بڑی خوب موٹی سمجھنے لگی۔ میری طرف میرا خاندان اس نے ایسا پایا جو بمشکل چند بکریوں والا تھا (میں غریب تھی) پھر ایسے خوشحال خاندان میں لایا کہ جو گھوڑوں کی آواز والے اور کجاوہ کی آواز والے (یعنی ان کے یہاں گھوڑے اونٹ سب) تھے دائیں چلانے والے بیل اور اناج پھنکنے والے آدمی (سبھی ان کے یہاں) تھے اس کے یہاں میں بولتی تو میری عیب چینی کوئی نہ کرتا اور سوتی تو صبح کر دیتی اور پانی پیتی تو نہایت اطمینان سے پیتی۔ ابوزرع کی ماں یعنی میری ساس، تو وہ بھی بہت لائق عورت تھی اس کی جامہ دان سب بھرپور رہتی اور اس کا گھر کشادہ۔ ابوزرع کا بیٹا، وہ بھی کیسا اچھا نازک بدن، دبلا پتلا، ننگی تلوار جتنی جگہ میں وہ سو سکتا، خوراک اس قدر کم کر چار مہینے کی بکری کا ایک ہاتھ اس کا پیٹ بھر دے۔ ابوزرع کی بیٹی! تو وہ بھی سبحان اللہ! اپنے والدین کی فرمانبردار (موٹی) فربہ ایسی کہ بھراؤ اپنی چادر کا۔ (صورت و سیرت ایسی کہ) اپنی سوکن کے لیے (ہر وقت) باعث غیظ و غضب۔ ابوزرع کی باندی تو وہ بھی قابل تعریف، ہماری باتوں کو مشہور نہیں کرتی، گھر کا بھید ہمیشہ پوشیدہ رکھتی ہے، کھانا تک نہیں چراتی، گھر میں کوڑا کچرا نہیں چھوڑتی، ہمیشہ چھاڑ پھونک کر صاف ستھرا رکھتی ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ ابوزرع باہر نکلا ایسے وقت جب کہ دودھ کا برتن بلوایا جا رہا تھا باہر نکل کر کیا دیکھتا ہے کہ ایک عورت ہے جس کے ساتھ چیتے کے سے دو بچے ہیں جو اس کے زیر بغل دو اناروں سے کھیل رہے ہیں، اسے دیکھ کر اس نے مجھے طلاق دے دی اور اس سے نکاح کر لیا۔ اس کے بعد پھر میں نے ایک شریف شخص سے نکاح کیا جو تیز گھوڑے پر سوار ہوتا تھا اور ہاتھ میں خطی نیزہ رکھتا تھا۔ اس نے بھی بہت سی نعمتیں دیں اور ہر قسم کے مویشیوں میں سے ایک ایک جوڑا ہر مویشی کا دیا اور کہا کہ اے ام زرع خود کھا اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی کھلا (یعنی احسان کرنے کی اجازت دی) ام زرع کہتی ہے کہ اگر میں یہ سب جو کچھ اس نے مجھے دیا اکٹھا بھی کر دوں تو ابوزرع کے ایک چھوٹے سے برتن کو بھی پہنچ سکتا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ (تمام قصہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بھی تیرے لیے ایسا ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے تھا۔“(فائدہ: ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوذرع نے ام زرع کو طلاق دے دی تھی لیکن میں ایسا نہیں کروں گا۔“ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ آپ تو ابوزرع سے بھی بڑھ کر مجھ سے حسن سلوک اور محبت و پیار سے پیش آتے ہیں۔ (فتح الباری: 276/9))
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت کو جب اس کا شوہر موجود ہو (نفل) روزہ اس کی اجازت کے بغیر رکھنا جائز نہیں اور نہ شوہر کی مرضی کے بغیر کسی کو گھر میں آنے دے اور جو عورت اپنے شوہر کے حکم کے بغیر (اللہ کی راہ میں) کچھ خرچ کرے گی تو اس کے شوہر کو بھی اس میں سے آدھا (ثواب) ملے گا۔“
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے جنت کے دروازے پر کھڑا ہو کر دیکھا تو اس میں مسکین زیادہ تھے اور مالدار لوگ جنت کی دروازے پر (حساب و کتاب کے لیے) روک دیے گئے سوائے اس کے کہ دوزخیوں کو دوزخ بھیجنے کا حکم دے دیا گیا۔ پھر میں نے دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اس میں عموماً عورتیں تھیں۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر جاتے تھے تو اپنی عورتوں کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے۔ ایک سفر میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور حفصہ رضی اللہ عنہا کا نام نکل آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عادت مبارکہ تھی کہ جب رات کو چلتے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ باتیں کرتے جاتے تھے۔ حفصہ رضی اللہ عنہا نے (عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ) آج کی رات تم میرے اونٹ پر بیٹھو اور میں تمہارے اونٹ پر بیٹھوں، میں تیرے اونٹ کو دیکھوں تو میرے اونٹ کو دیکھ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کی جانب آئے حالانکہ اس پر حفصہ رضی اللہ عنہا بیٹھی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا پر سلام کیا پھر روانہ ہوئے۔ جب منزل پر اترے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا تو انھوں نے اپنے دونوں پاؤں اذخر (گھاس) میں ڈال دیے اور کہنے لگیں ”اے رب! تو مجھ پر کوئی سانپ یا بچھو مسلط کر دے کہ وہ مجھے کاٹ لے اور مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کرنے کی طاقت اور موقع نہ رہا۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ اگر میں چاہوں تو کہہ سکتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مگر انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ سنت ہے کہ جب کوئی شخص بیوہ عورت پر کنواری سے نکاح کرے تو اس کے پاس سات دن رہے (پھر باری باری سے رہے) اور جب کسی کنواری کی موجودگی میں بیوہ عورت سے نکاح کرے تو اس کے پاس تین دن رہے (پھر باری باری سے رہے)۔
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کسی عورت نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میری ایک سوکن ہے، اگر میں اس کا دل جلانے کے لیے اپنے خاوند کی طرف سے جس قدر مجھے دیتا ہے اس سے زیادہ ظاہر کروں تو کیا مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ دی ہوئی چیز کا ظاہر کرنے والا (بطور دھوکا) ایسا ہے جیسے کوئی دو کپڑے مکر کے پہنے ہوئے ہے۔“
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مجھ سے زبیر رضی اللہ عنہ نے نکاح کیا تو ان کے پاس کچھ مال نہ تھا نہ زمین تھی نہ لونڈی غلام تھے اور بجز پانی لانے والے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ کے کچھ نہ تھا۔ میں ان کے گھوڑے کو چراتی تھی اور پانی پلاتی تھی اور ان کا ڈول سیتی تھی اور آٹا گوندھتی تھی اور میں روٹی پکانا نہ جانتی تھی اور میری روٹی انصاری پڑوسنیں پکا دیتی تھیں، وہ بڑی نیک بخت عورتیں تھیں اور میں زبیر رضی اللہ عنہ کی اس زمین سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دی تھی اپنے سر پر کھجوروں کی گٹھلیاں اٹھا کر لاتی تھی اور وہ جگہ مجھ سے دو میل دور تھی۔ ایک روز میں اپنے سر پر گٹھلیاں رکھے آ رہی تھی کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چند اصحاب تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکارا، پھر مجھے اپنے پیچھے بٹھانے کے واسطے اونٹ کو اخ اخ کہا۔ مجھے مردوں کے ساتھ چلنے میں شرم آئی اور زبیر رضی اللہ عنہ کی غیرت مجھے یاد آئی کہ بڑے غیرت دار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہچان گئے کہ اسماء کو شرم آتی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل دیے میں نے زبیر رضی اللہ عنہ سے آ کر کہا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملے تھے۔ میرے سر پر گٹھلیاں کا بوجھ تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صحابہ رضی اللہ عنہم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بٹھانے کے واسطے اونٹ کو ٹھہرایا، مجھے اس سے شرم آئی اور تمہاری غیرت کو میں جانتی ہوں، وہ بولے ”واللہ! مجھے تیرے سر پر گٹھلیاں لاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھنا آپ کے ساتھ سوار ہو جانے سے زیادہ ناگوار ہوا۔ بعدازاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میرے لیے ایک خادم بھیج دیا، وہ گھوڑے کی نگہبانی کرنے لگایا گویا کہ انھوں نے مجھے آزاد کر دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ غیرت کرتا ہے اور اللہ کو اس بات پر غیرت آتی ہے کہ کوئی (بندہ) مومن وہ کام کرے جسے اللہ نے حرام کیا ہے“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مجھ سے راضی ہو اور جب ناراض ہو تو میں جان لیتا ہوں۔“ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: ”یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر پہچان لیتے ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تو مجھ سے راضی ہوتی ہے تو (قسم کھاتے وقت یہ) کہتی ہے ”محمد کے رب کی قسم“ اور جب تو مجھ سے خفا ہوتی ہے تو کہتی ہے ”ابراہیم کے رب کی قسم! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا جی ہاں (ٹھیک ہے) واللہ! یا رسول اللہ! میں صرف آپ کا نام چھوڑ دیتی ہوں (آپ کی محبت نہیں چھوڑتی)۔