سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھروں میں تین آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال پوچھنے آئے۔ جب ان سے بیان کیا تو انھوں نے آپ کی عبادت بہت کم خیال کی (یعنی اپنے لیے اسے کم اور ناکافی سمجھا)۔ پھر انھوں نے کہا ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تو اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ ایک نے کہا کہ میں تو رات بھر نماز پڑھا کروں گا۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھتا رہوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں نکاح نہیں کروں گا (یعنی) عورتوں سے الگ رہوں گا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا: ”کیا تم لوگوں نے ایسی ایسی بات کہی ہے؟ سن لو! میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ حقوق اللہ کی نگہداشت کرنے والا ہوں مگر میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں اور (رات کو) نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں (خبردار!) جو میری سنت سے منہ پھیرے گا وہ مجھ سے نہیں۔“
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو ترک نکاح سے منع فرمایا: اگر آپ انھیں اجازت دے دیتے تو ہم خصی ہو جاتے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میں جوان آدمی ہوں اور مجھے خوف ہے کہ کہیں مجھ سے زنا نہ ہو جائے اور نکاح کرنے کی مجھ میں استطاعت نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کچھ جواب نہ دیا۔ میں نے پھر اسی طرح عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش ہو گئے۔ میں نے پھر عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا۔ میں نے پھر اسی طرح عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”ابوہریرہ! جو کچھ تیری تقدیر میں ہے (اسے لکھ کر) قلم خشک ہو گئی (اب حکم نہیں بدل سکتا) چاہے تو خصی ہو یا نہ ہو۔“
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کہ یا رسول اللہ! اگر آپ کسی مقام میں اتریں اور اس میں ایسے درخت ہوں جس میں سے کھایا ہوا ہو اور کوئی درخت آپ کو ایسا ملے جس میں سے کچھ نہ کھایا گیا ہو تو آپ کون سے درخت سے اپنے اونٹ کو چرائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں سے نہیں چرا گیا۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے علاوہ کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو میرے نکاح کا پیغام بھیجا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی میں تو آپ کا بھائی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو میرا بھائی اللہ کے دین اور اس کی کتاب کی رو سے ہے اور وہ (عائشہ) میرے لیے حلال ہے۔“
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس اور جو کہ غزوہ بدر میں موجود تھا سالم کو بیٹا بنا کر اس سے اپنی بھتیجی ہندہ دختر ولید بن عتبہ ربیعہ کا نکاح کر دیا۔ سالم ایک انصاری عورت کا غلام تھا جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کو بیٹا بنا لیا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا قاعدہ تھا اگر کوئی کسی کو بیٹا بناتا تو لوگ اسی کی طرف منسوب کر کے پکارتے تھے اور اس کے مرنے کے بعد وہ وارث بھی ہوتا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”منہ بولے (لے پالک) بیٹوں کو ان کے اصلی باپ کا بیٹا کہہ کر پکارو ....“(احزاب: 5) تو وہ سب اپنے حقیقی باپوں کے نام سے پکارے جانے لگے او اگر اس کا باپ معلوم نہ ہوتا تو مولیٰ اور دینی بھائی کہا جائے گا۔ بعدازاں سہلہ بنت سہیل بن عمرو قریشی عامری نے، جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم سالم کو اپنا بیٹا جانتے تھے اب اللہ نے جو حکم بھیجا ہے وہ آپ کو معلوم (مجھ کو کیا کرنا چاہیے؟) پھر پوری حدیث بیان کی۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضباعہ بنت زبیر (ابن عبدالمطلب) کے پاس جا کر اس سے پوچھا: ”کیا تیرا حج کا ارادہ ہے؟“ اس نے کہا (ہاں) مگر مجھے شدید درد لاحق ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو حج کو چلی جا اور (اس میں) شرط کر لے کہ اے اللہ میرے احرام سے باہر ہونے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھ کو (میری کسی بیماری وغیرہ کے عذر سے) روک دے۔“ اور ضباعہ رضی اللہ عنہ مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت سے (لوگ) چار غرضوں سے نکاح کرتے ہیں (1) اس کے مال (2) نسب (3) خوبصورتی (4) دینداری کی وجہ سے، پس تجھے چاہیے کہ دینداری کو حاصل کر (اگر نہ مانے تو) تیرے دونوں ہاتھ خاک آلود ہوں۔“
سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مالدار شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ اس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟“ انھوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا شخص ہے کہ اگر کہیں (نکاح کا) پیغام بھیجے تو وہ پیغام قبول کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو منظور کی جائے اور اگر کوئی بات کہے کہ تو کان لگا کر سنی جائے (سیدنا سہل رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ پھر آپ خاموش ہو گئے، اس کے بعد ایک دوسرا شخص جو مسلمانوں میں فقیر اور محتاج تھا، گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا یہ ایک ایسا شخص ہے کہ اگر کہیں پیغام (نکاح) بھیجے تو وہ قبول نہ کیا جائے، اگر کسی کی سفارش کرے تو وہ منظور نہ کی جائے اور اگر کوئی بات کہے تو غور سے نہ سنی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ساری زمین ایسے امیروں سے بھر جائے تو تب بھی یہ فقیر ان سے بہتر ہے۔“
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے پیچھے مردوں پر کوئی فتنہ عورتوں سے زیادہ ضرر رساں باقی نہیں چھوڑا۔“