مختصر صحيح بخاري کل احادیث 2230 :حدیث نمبر
مختصر صحيح بخاري
غزوات کے بیان میں
जंगों और लड़ाइयों के बारे में
حدیث نمبر: 1659
Save to word مکررات اعراب
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سات بار جہاد کیا اور نو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے ساتھ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ کرتے تھے لڑا ہوں۔ ایک دفعہ ہمارے امیر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ایک بار سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ تھے۔
27. غزوہ فتح مکہ کا بیان جو رمضان میں ہوا۔
حدیث نمبر: 1660
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ میں مدینہ سے دس ہزار صحابہ کے ساتھ (مکہ کی طرف) روانہ ہوئے اور یہ مدینہ میں آنے سے ساڑھے آٹھ برس بعد کا ذکر ہے۔ مسلمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ صحابہ بھی روزے رکھتے رہے۔ جب مقام کدید جو کہ عسفان و قدید کے درمیان ایک چشمہ ہے، پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرائیوں نے روزہ کھول لیا۔ (روزہ افطار کر لیا)۔
حدیث نمبر: 1661
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں حنین کی طرف نکلے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والے لوگوں کا ایک حال نہ تھا، بعض لوگ روزہ دار اور بعض بغیر روزہ کے تھے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر بیٹھ گئے تو ایک برتن میں پانی یا دودھ منگوا کر اپنی ہتھیلی یا سواری پر رکھا پھر اسے پیا۔ پھر لوگوں کی طرف نظر کی تو جنہوں نے نہ رکھا تھا تو انہوں نے روزہ داروں سے کہا کہ تم بھی افطار کر لو (کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم افطار کر چکے)۔
28. فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا کہاں کھڑا کیا؟
حدیث نمبر: 1662
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال روانہ ہوئے تو یہ خبر قریش کو پہنچی۔ ابوسفیان بن حرب اور حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خبر لینے کو نکلے۔ چلتے چلتے جب موضع مرالظہران میں (جو مکہ کے قریب ہے) پہنچے تو وہ کیا دیکھتے ہیں کہ آگ بکثرت روشن ہے جیسا کہ عرفہ میں ہوتی ہے۔ ابوسفیان نے کہا کہ یہ کیسی آگ ہے، یہ جگہ جگہ آگ تو میدان عرفات کا منظر پیش کر رہی ہے۔ بدیل بن ورقاء نے کہا بنی عمرو (خزاعہ) کی آگ ہو گی۔ ابوسفیان نے کہا بنی عمرو کے اتنے آدمی نہیں ہیں۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چوکیداروں نے انھیں دیکھ لیا اور انھیں پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ ابوسفیان مسلمان ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو سیدنا عباس بن عبداالمطلب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی گھاٹی پر کھڑا کرو تاکہ وہ مسلمانوں کی فوج دیکھ لے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے اسے کھڑا کر دیا، اب جو قبیلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے گزرنا شروع ہوئے، وہ قبیلہ قبیلہ ہو کر ابوسفیان کے پاس سے گزرے، ایک لشکر گزرا تو ابوسفیان بولا اے عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ وہ بولے کہ یہ قبیلہ غفار ہے۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میری اور غفار کی لڑائی تو نہ تھی (پھر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مجھ پر کیوں چڑھ آئے ہیں؟) پھر قبیلہ جہینہ گزرا تو ابوسفیان نے مثل اول گفتگو کی۔ پھر قبیلہ سعد بن ہزیم گزرا تو بھی ابوسفیان نے ایسا ہی کہا اور قبیلہ سلیم گزرا تو بھی ابوسفیان نے یہی بات کی پھر ایک ایسا قبیلہ گزرا کہ اس جیسا، ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے نہیں دیکھا تھا تو اس نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ انصار ہیں، ان کے امیر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ ہیں، انہی کے پاس جھنڈا ہے، پھر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوسفیان! آج کا دن کفار کے قتل کا دن ہے، آج کے دن کعبہ حلال ہو جائے گا۔ (یعنی کفار کا قتل اس میں جائز ہو جائے گا)۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے عباس! اچھا تباہی کا دن آیا ہے۔ پھر ایک لشکر آیا جو سب لشکروں سے چھوٹا تھا انہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے تو ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں معلوم کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کیا کہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اس نے کیا کہا؟ ابوسفیان رضی اللہ عنہ بولے کہ اس نے ایسا ایسا کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے، بلکہ یہ دن وہ ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کعبہ کو بزرگی دے گا اور وہ دن ہے کہ کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔ (عروہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موضع حجون میں جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا۔ پس سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے ابوعبداللہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں اس جگہ جھنڈا گاڑنے کا حکم دیا تھا؟ (سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ کداء (کاف کی زبر کے ساتھ) بلندی مکہ کی جانب سے جانا اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کداء (کاف کی پیش کے ساتھ) (نشیبی علاقے) کی طرف سے تشریف لائے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی فوج میں سے دو سوار حبیش بن اشعر اور کرز بن جابر فہری رضی اللہ عنہما اس دن شہید ہوئے۔
حدیث نمبر: 1663
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر سوار دیکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الفتح خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے۔ (سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کے شاگرد معاویہ بن قرۃ) کہتے ہیں کہ اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ لوگ میرے گرد جمع ہو جائیں گے تو میں اسی طرح خوش الحانی سے پڑھتا جیسے سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے پڑھ کر سنایا تھا۔
حدیث نمبر: 1664
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ میں گئے اور اس وقت خانہ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کی لکڑی سے ان بتوں کو مارتے اور یہ فرماتے جاتے تھے: حق آیا اور باطل چلا گیا۔ حق آیا، اب باطل نہ نیا ہو گا اور نہ دوبارہ آئے گا۔
29. ((باب))
حدیث نمبر: 1665
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک چشمہ پر رہتے تھے جو گزرگاہ عوام تھا اور ہمارے پاس سے سوار گزرتے تھے، ہم ان سواروں سے پوچھتے تھے کہ لوگوں کا کیا حال ہے اور یہ کون شخص ہے؟ (جو مدعی نبوت ہے) لوگ جواب دیتے تھے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے مجھے رسول بنا کر بھیجا ہے اور میرے پاس وحی آتی ہے یا اللہ نے یہ یہ وحی نازل کی ہے، پس میں (عمرو بن سلمہ) اس وحی یعنی قرآنی آیات کو اس طرح یاد کر لیتا گویا کہ کوئی میرے سینے میں جما دیتا ہے اور عرب مسلمان ہونے کے واسطے فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے اور کہتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کی قوم (یعنی قریش) کو چھوڑ دو۔ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان پر غالب آ گئے تو وہ سچے نبی ہیں۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا تو ہر قوم اسلام لانے میں جلدی کرنے لگی اور میرے باپ نے مسلمان ہونے میں اپنی قوم پر سبقت کی۔ جب میرا باپ مسلمان ہو کر آیا تو اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تمہارے پاس سچے نبی کے پاس سے آیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: تم فلاں وقت یہ نماز اور فلاں وقت فلاں نماز پڑھا کرو اور جب نماز کا وقت ہو تو کوئی تم میں سے اذان کہے اور جو تم میں زیادہ قرآن جانتا ہو وہ نماز پڑھا دے۔ قبیلہ والوں نے غور کیا تو کسی کو مجھ سے زیادہ قرآن جاننے والا نہ پایا کیونکہ میں سواروں سے مل مل کر بہت زیادہ یاد کر چکا تھا چنانچہ سب نے مجھے اپنا امام بنا لیا، حالانکہ میں چھ یا سات سال کا تھا اور میں صرف ایک چادر اوڑھے ہوئے تھا جب میں سجدہ کرتا تو وہ سکڑ جاتی تھی (یعنی میرا ستر کھل جاتا تھا)۔ قبیلہ کی ایک عورت نے کہا کہ تم اپنے قاری کا ستر ہم سے کیوں نہیں چھپاتے؟ انھوں نے کپڑا خرید کر میرا کرتا بنایا، میں جتنا اس کرتا سے خوش ہوا کسی چیز سے خوش نہیں ہوا۔
30. اللہ تعالیٰ کے قول ”حنین کی لڑائی والے دن، جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہو گیا تھا .... معاف کرنے والا مہربان ہے“ تک (سورۃ التوبہ: 25 ... 27) کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 1666
Save to word مکررات اعراب
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ان کے ہاتھ میں تلوار کا) ایک نشان تھا، انھوں نے کہا کہ مجھے یہ چوٹ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ لگی تھی۔
31. جنگ اوطاس کا بیان۔
حدیث نمبر: 1667
Save to word مکررات اعراب
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کو امیر لشکر بنا کر اوطاس کی طرف روانہ فرمایا (جہاں پر قبیلہ ہوازن جمع تھا) سیدنا ابوعامر کا درید بن صمہ سے مقابلہ ہوا، درید مارا گیا اور اللہ نے اس کے ساتھیوں کو شکست دی۔ پھر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوعامر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مجھے بھی بھیجا تھا۔ اتفاق سے ان کے گھٹنے پر زخم آیا، ایک جشمی مرد نے ان کو تیر مارا جو ان کے گھٹنے میں اتار دیا۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ اے چچا! تمہیں کس نے تیر مارا؟ انھوں نے مجھے اشارے سے بتایا کہ فلاں میرا قاتل ہے، جس نے مجھے تیر مارا ہے۔ میں ارادہ کر کے اس کے پاس پہنچا۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو بھاگا۔ میں اس کے پیچھے جاتا تھا اور یہ کہتا تھا (او بےحیاء!) تجھے شرم نہیں آتی، تو ٹھہرتا کیوں نہیں؟ پھر وہ ٹھہر گیا۔ میرے اور اس کے درمیان تلوار کے دو وار ہوئے، پھر میں نے اسے مار ڈالا۔ پھر میں نے آ کر ابوعامر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو ہلاک کروا دیا۔ وہ بولے کہ یہ تیر تو نکال لے۔ میں نے وہ تیر نکالا تو اس زخم سے پانی بہنے لگا۔ پھر وہ بولے کہ اے میرے بھائی کے بیٹے! تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے سلام عرض کرنا اور کہنا کہ وہ ابوعامر کے لیے استغفار کریں۔ پھر ابوعامر رضی اللہ عنہ نے مجھے لوگوں پر اپنا قائم مقام بنا دیا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ شہید ہو گئے۔ جب میں جنگ سے لوٹا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی رسی سے بنی ہوئی چارپائی پر لیٹے تھے اور پہلو مبارک میں رسی کے نشان پڑ گئے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا اور ابوعامر رضی اللہ عنہ کا حال بیان کیا اور کہا کہ ابوعامر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مغفرت کی دعا کرنے کی درخواست کی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا، پھر ہاتھ اٹھا کر دعا کی: اے اللہ! عبید ابوعامر (رضی اللہ عنہ) کو بخش دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے ہاتھ اٹھائے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔ پھر یوں دعا فرمائی اے اللہ! ابوعامر کا قیامت کے روز بہت سی مخلوق نوع انسانی پر درجہ بلند کرنا۔ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے لیے بھی دعائے مغفرت کیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے اللہ! عبداللہ بن قیس (ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ) کے گناہ معاف فرما دے اور قیامت کے دن اچھی جگہ (جنت میں) داخل فرما۔
32. غزوہ طائف کا بیان جو شوال 8 ہجری میں ہوا۔
حدیث نمبر: 1668
Save to word مکررات اعراب
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے، اس وقت میرے پاس ایک ہیجڑا بیٹھا تھا۔ میں نے سنا کہ وہ عبداللہ بن ابی امیہ سے کہہ رہا تھا: اے عبداللہ! اگر کل اللہ تعالیٰ طائف فتح کرا دے تو غیلان کی بیٹی کو لے لینا کیونکہ (وہ اس قدر فربہ ہے کہ) جب وہ سامنے سے آتی ہے تو (اس کے پیٹ میں) چار بل پڑتے ہیں اور پیٹھ پھیرتی ہے تو آٹھ۔ (یہ سن کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ہیجڑے آئندہ تمہارے پاس (اے ام سلمہ!) ہرگز نہ آنے پائیں۔

Previous    3    4    5    6    7    8    9    10    11    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.