سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟“ اس نے کہا کہ نہیں! سوائے اس کے کہ میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو (روز قیامت) انہی کے ساتھ ہو گا جن سے محبت رکھتا ہے؟“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر ہم اتنا خوش ہوئے کہ اس طرح کسی بات پر ہم خوش نہیں ہوئے تھے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما سے محبت رکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس محبت کی وجہ سے میں ان کے ساتھ ہوں گا، اگرچہ میں ان کے (نیک) اعمال کی طرح (نیک) اعمال نہ کر سکا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے بنی اسرائیل میں ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن سے فرشتے باتیں کرتے تھے (جنہیں الہام ہوتا تھا) اگرچہ وہ نبی نہ تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی ایسا ہوا تو وہ عمر (رضی اللہ عنہ) ہوں گے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان کے پاس اہل مصر سے ایک شخص آیا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ کیا تو جانتا ہے کہ عثمان (رضی اللہ عنہ) احد کے دن بھاگ نکلے تھے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں، اس نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں غیرحاضر رہے اور شریک نہیں ہوئے؟ انھوں نے کہا ہاں۔ اس نے کہا کہ کیا تو جانتا ہے کہ عثمان بیعت رضوان کے وقت بھی غائب تھے اور اس میں حاضر نہ تھے (انھوں نے بیعت نہیں کی) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں اس شخص نے کہا اللہ اکبر۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آ، میں تجھ سے (ان سب باتوں کی حقیقت) بیان کرتا ہوں۔ احد کی لڑائی میں ان کا بھاگ جانا تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ نے ان کے قصور سے درگزر کیا اور معاف کر دیا اور رہا بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہونا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی ان کے نکاح میں تھیں جو کہ بیمار تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کہا کہ (تم مدینہ میں ان کے پاس رہو) تمہیں ایک شریک ہونے کا ثواب ملے گا اور (مال غنیمت میں) حصہ بھی ملے گا۔ اور بیعت رضوان میں غائب ہونا (تو فضیلت ہے) اگر مکہ والوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی عزت والا ہوتا تو اسی کو (اپنی طرف سے) بھیجتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور بیعت رضوان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے مکہ جانے کے بعد ہوئی پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سیدھے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا: ”یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔“ اور اس کو بائیں ہاتھ پر مارا اور فرمایا: ”یہ عثمان کی بیعت ہے۔“ پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس شخص سے کہا کہ یہ (تینوں جواب) اپنے ساتھ (مصر) لے جا۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں نشان پڑ گئے تو انھوں نے اس کی شکایت کی۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قیدی آئے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو (ایک غلام کا) کہہ کر چلی آئیں۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے آنے کا بتایا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے جب ہم لیٹ رہے تھے (اپنے بستروں میں) میں نے اٹھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی جگہ رہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں بیٹھ گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی ٹھنڈک اپنے سینے میں پائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں اس چیز سے بہتر ایک بات بتاتا ہوں جس کا تم مجھ سے سوال کرتے ہوں (یعنی غلام کا) کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹو تو 34 مرتبہ اللہ اکبر اور 33 مرتبہ سبحان اللہ اور 33 مرتبہ الحمدللہ پڑھو یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور عمر بن ابی سلمہ (کم سنی کی وجہ سے) عورتوں میں چھوڑ دیے گئے پھر میں نے جو نگاہ کی تو دیکھا کہ زبیر رضی اللہ عنہ اپنے گھوڑے پر سوار ہیں اور دو بار یا تین بار بنی قریظہ کے یہودیوں کے پاس گئے اور آئے۔ جب میں لوٹ کر آیا تو میں نے کہا کہ اے ابا جان! میں نے دیکھا کہ آپ بنی قریظہ کی طرف آتے اور جاتے تھے (یہ کیا معاملہ تھا)؟ انھوں نے کہا کہ بیٹا تو نے مجھے دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی ایسا ہے جو بنی قریظہ کے پاس جائے اور ان کی خبر لائے؟“ پس میں گیا اور (خبر لایا) جب واپس آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا اور فرمایا: ”میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں۔“
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو لڑائیاں لڑیں ان میں سے بعض لڑائیوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوائے سیدنا طلحہ اور سعد بن ابی وقاص کے کوئی نہ رہا (رضی اللہ عنہم)۔
سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جس ہاتھ سے بچایا تھا وہ (ایک تیر لگنے سے) بالکل شل ہو گیا تھا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن اپنے ماں اور باپ دونوں کو میرے لیے جمع کیا تھا۔ (یعنی فرمایا تھا: ”اے سعد! تیر چلاؤ تجھ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“)
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی (جویریہ) کو شادی کا پیغام دیا۔ خبر سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو پہنچی تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ آپ کی قوم والے یہ کہتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے ستانے پر کوئی غصہ نہیں آتا (اسی کا اثر ہے) اب علی رضی اللہ عنہ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرتے ہیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے (خطبہ سنایا، مسور کہتے ہیں کہ) میں نے سنا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا تو فرمایا: ”امابعد! میں نے ایک بیٹی (سیدہ زینب رضی اللہ عنہا) کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، اس نے جو بات کہی وہ سچی کی اور فاطمۃالزہراء (رضی اللہ عنہا) میرا ایک ٹکڑا ہے (اس کو جو بات بری لگے اسے میں بھی ناپسند کرتا ہوں) میں اس بات کو برا سمجھتا ہوں کہ اسے تکلیف دی جائے، اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں۔“ پس سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وہ منگنی توڑ دی۔
سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی عبد شمس میں سے اپنے ایک داماد ابوالعاص بن الربیع (رضی اللہ عنہ) کا ذکر کرتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعریف کی کہ انھوں نے دامادی کا پورا پورا حق ادا کیا اور فرمایا: ”انھوں نے جو بات کہی، سچی کہی اور جو وعدہ کیا اسے پورا کیا۔“