صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
حدیث نمبر: 3038
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن سعيد بن ابي بردة، عن ابيه، عن جده، ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث معاذا وابا موسى إلى اليمن، قال:" يسرا ولا تعسرا، وبشرا ولا تنفرا، وتطاوعا ولا تختلفا".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا وأَبَا مُوسَى إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ:" يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا".
ہم سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا ‘ ان سے شعبہ نے ‘ ان سے سعید بن ابی بردہ نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ان کے دادا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ اور ابوموسیٰ کو یمن بھیجا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر یہ ہدایت فرمائی تھی کہ (لوگوں کے لیے) آسانی پیدا کرنا ‘ انہیں سختیوں میں مبتلا نہ کرنا ‘ ان کو خوش رکھنا ‘ نفرت نہ دلانا ‘ اور تم دونوں آپس میں اتفاق رکھنا ‘ اختلاف نہ پیدا کرنا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Burda: That his father said, "The Prophet sent Mu`adh and Abu Musa to Yemen telling them. 'Treat the people with ease and don't be hard on them; give them glad tidings and don't fill them with aversion; and love each other, and don't differ."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 275


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3039
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن خالد، حدثنا زهير، حدثنا ابو إسحاق، قال: سمعت البراء بن عازب رضي الله عنهما يحدث، قال: جعل النبي صلى الله عليه وسلم على الرجالة يوم احد وكانوا خمسين رجلا عبد الله بن جبير، فقال:" إن رايتمونا تخطفنا الطير فلا تبرحوا مكانكم هذا حتى ارسل إليكم، وإن رايتمونا هزمنا القوم واوطاناهم فلا تبرحوا حتى ارسل إليكم فهزموهم، قال: فانا والله رايت النساء يشتددن قد بدت خلاخلهن واسوقهن رافعات ثيابهن، فقال: اصحاب عبد الله بن جبير الغنيمة اي قوم الغنيمة ظهر اصحابكم فما تنتظرون، فقال: عبد الله بن جبير انسيتم ما، قال: لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالوا: والله لناتين الناس فلنصيبن من الغنيمة فلما اتوهم صرفت وجوههم، فاقبلوا منهزمين فذاك إذ يدعوهم الرسول في اخراهم، فلم يبق مع النبي صلى الله عليه وسلم غير اثني عشر رجلا فاصابوا منا سبعين وكان النبي صلى الله عليه وسلم واصحابه اصاب من المشركين يوم بدر اربعين ومائة سبعين اسيرا وسبعين قتيلا، فقال ابو سفيان: افي القوم محمد ثلاث مرات فنهاهم النبي صلى الله عليه وسلم ان يجيبوه، ثم قال: افي القوم ابن ابي قحافة ثلاث مرات، ثم قال: افي القوم ابن الخطاب ثلاث مرات، ثم رجع إلى اصحابه، فقال: اما هؤلاء فقد قتلوا فما ملك عمر نفسه، فقال: كذبت والله يا عدو الله إن الذين عددت لاحياء كلهم وقد بقي لك ما يسوءك، قال: يوم بيوم بدر والحرب سجال إنكم ستجدون في القوم مثلة لم آمر بها ولم تسؤني، ثم اخذ يرتجز اعل هبل اعل هبل، قال النبي صلى الله عليه وسلم: الا تجيبوا له، قالوا: يا رسول الله ما نقول، قال: قولوا الله اعلى واجل، قال: إن لنا العزى ولا عزى لكم، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الا تجيبوا له، قال: قالوا يا رسول الله ما نقول، قال: قولوا الله مولانا، ولا مولى لكم".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، قَالَ: جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرَّجَّالَةِ يَوْمَ أُحُدٍ وَكَانُوا خَمْسِينَ رَجُلًا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ، فَقَالَ:" إِنْ رَأَيْتُمُونَا تَخْطَفُنَا الطَّيْرُ فَلَا تَبْرَحُوا مَكَانَكُمْ هَذَا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ، وَإِنْ رَأَيْتُمُونَا هَزَمْنَا الْقَوْمَ وَأَوْطَأْنَاهُمْ فَلَا تَبْرَحُوا حَتَّى أُرْسِلَ إِلَيْكُمْ فَهَزَمُوهُمْ، قَالَ: فَأَنَا وَاللَّهِ رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ وَأَسْوُقُهُنَّ رَافِعَاتٍ ثِيَابَهُنَّ، فَقَالَ: أَصْحَابُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُبَيْرٍ الْغَنِيمَةَ أَيْ قَوْمِ الْغَنِيمَةَ ظَهَرَ أَصْحَابُكُمْ فَمَا تَنْتَظِرُونَ، فَقَالَ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جُبَيْرٍ أَنَسِيتُمْ مَا، قَالَ: لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللَّهِ لَنَأْتِيَنَّ النَّاسَ فَلَنُصِيبَنَّ مِنَ الْغَنِيمَةِ فَلَمَّا أَتَوْهُمْ صُرِفَتْ وُجُوهُهُمْ، فَأَقْبَلُوا مُنْهَزِمِينَ فَذَاكَ إِذْ يَدْعُوهُمُ الرَّسُولُ فِي أُخْرَاهُمْ، فَلَمْ يَبْقَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ اثْنَيْ عَشَرَ رَجُلًا فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجِيبُوهُ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَمَّا هَؤُلَاءِ فَقَدْ قُتِلُوا فَمَا مَلَكَ عُمَرُ نَفْسَهُ، فَقَالَ: كَذَبْتَ وَاللَّهِ يَا عَدُوَّ اللَّهِ إِنَّ الَّذِينَ عَدَدْتَ لَأَحْيَاءٌ كُلُّهُمْ وَقَدْ بَقِيَ لَكَ مَا يَسُوءُكَ، قَالَ: يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ فِي الْقَوْمِ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي، ثُمَّ أَخَذَ يَرْتَجِزُ أُعْلُ هُبَلْ أُعْلُ هُبَلْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ، قَالَ: إِنَّ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تُجِيبُوا لَهُ، قَالَ: قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَقُولُ، قَالَ: قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا، وَلَا مَوْلَى لَكُمْ".
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد کے موقع پر (تیر اندازوں کے) پچاس آدمیوں کا افسر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تاکید کر دی تھی کہ اگر تم یہ بھی دیکھ لو کہ پرندے ہم پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ پھر بھی اپنی جگہ سے مت ہٹنا ‘ جب تک میں تم لوگوں کو کہلا نہ بھیجوں۔ اسی طرح اگر تم یہ دیکھو کہ کفار کو ہم نے شکست دے دی ہے اور انہیں پامال کر دیا ہے پھر بھی یہاں سے نہ ٹلنا ‘ جب میں تمہیں خود بلا نہ بھیجوں۔ پھر اسلامی لشکر نے کفار کو شکست دے دی۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ‘ کہ اللہ کی قسم! میں نے مشرک عورتوں کو دیکھا کہ تیزی کے ساتھ بھاگ رہی تھیں۔ ان کے پازیب اور پنڈلیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اور وہ اپنے کپڑوں کو اٹھائے ہوئے تھیں۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے کہا ‘ کہ غنیمت لوٹو ‘ اے قوم! غنیمت تمہارے سامنے ہے۔ تمہارے ساتھی غالب آ گئے ہیں۔ اب ڈر کس بات کا ہے۔ اس پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ کیا جو ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی ‘ تم اسے بھول گئے؟ لیکن وہ لوگ اسی پر اڑے رہے کہ دوسرے اصحاب کے ساتھ غنیمت جمع کرنے میں شریک رہیں گے۔ جب یہ لوگ (اکثریت) اپنی جگہ چھوڑ کر چلے آئے تو ان کے منہ کافروں نے پھیر دیئے ‘ اور (مسلمانوں کو) شکست زدہ پا کر بھاگتے ہوئے آئے ‘ یہی وہ گھڑی تھی (جس کا ذکر سورۃ آل عمران میں ہے کہ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو پیچھے کھڑے ہوئے بلا رہے تھے۔ اس سے یہی مراد ہے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ صحابہ کے سوا اور کوئی بھی باقی نہ رہ گیا تھا۔ آخر ہمارے ستر آدمی شہید ہو گئے۔ بدر کی لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے ساتھ مشرکین کے ایک سو چالیس آدمیوں کا نقصان کیا تھا ‘ ستر ان میں سے قیدی تھے اور ستر مقتول ‘ (جب جنگ ختم ہو گئی تو ایک پہاڑ پر کھڑے ہو کر) ابوسفیان نے کہا کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ساتھ موجود ہیں؟ تین مرتبہ انہوں نے یہی پوچھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دینے سے منع فرما دیا تھا۔ پھر انہوں نے پوچھا ‘ کیا ابن ابی قحافہ (ابوبکر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ سوال بھی تین مرتبہ کیا ‘ پھر پوچھا ابن خطاب (عمر رضی اللہ عنہ) اپنی قوم میں موجود ہیں؟ یہ بھی تین مرتبہ پوچھا ‘ پھر اپنے ساتھیوں کی طرف مڑ کر کہنے لگے کہ یہ تینوں قتل ہو چکے ہیں اس پر عمر رضی اللہ عنہ سے نہ رہا گیا اور آپ بول پڑے کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ گواہ ہے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے جن کے تو نے ابھی نام لیے تھے وہ سب زندہ ہیں اور ابھی تیرا برا دن آنے والا ہے۔ ابوسفیان نے کہا اچھا! آج کا دن بدر کا بدلہ ہے۔ اور لڑائی بھی ایک ڈول کی طرح ہے (کبھی ادھر کبھی ادھر) تم لوگوں کو اپنی قوم کے بعض لوگ مثلہ کئے ہوئے ملیں گے۔ میں نے اس طرح کا کوئی حکم (اپنے آدمیوں کو) نہیں دیا تھا ‘ لیکن مجھے ان کا یہ عمل برا بھی نہیں معلوم ہوا۔ اس کے بعد وہ فخر یہ رجز پڑھنے لگا ‘ ہبل (بت کا نام) بلند رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ اس کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ہم اس کے جواب میں کیا کہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو کہ اللہ سب سے بلند اور سب سے بڑا بزرگ ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہمارا مددگار عزیٰ (بت) ہے اور تمہارا کوئی بھی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جواب کیوں نہیں دیتے، صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس کا جواب کیا دیا جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہو کہ اللہ ہمارا حامی ہے اور تمہارا حامی کوئی نہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Al-Bara bin Azib: The Prophet appointed `Abdullah bin Jubair as the commander of the infantry men (archers) who were fifty on the day (of the battle) of Uhud. He instructed them, "Stick to your place, and don't leave it even if you see birds snatching us, till I send for you; and if you see that we have defeated the infidels and made them flee, even then you should not leave your place till I send for you." Then the infidels were defeated. By Allah, I saw the women fleeing lifting up their clothes revealing their leg-bangles and their legs. So, the companions of `Abdullah bin Jubair said, "The booty! O people, the booty ! Your companions have become victorious, what are you waiting for now?" `Abdullah bin Jubair said, "Have you forgotten what Allah's Apostle said to you?" They replied, "By Allah! We will go to the people (i.e. the enemy) and collect our share from the war booty." But when they went to them, they were forced to turn back defeated. At that time Allah's Apostle in their rear was calling them back. Only twelve men remained with the Prophet and the infidels martyred seventy men from us. On the day (of the battle) of Badr, the Prophet and his companions had caused the 'Pagans to lose 140 men, seventy of whom were captured and seventy were killed. Then Abu Sufyan asked thrice, "Is Muhammad present amongst these people?" The Prophet ordered his companions not to answer him. Then he asked thrice, "Is the son of Abu Quhafa present amongst these people?" He asked again thrice, "Is the son of Al-Khattab present amongst these people?" He then returned to his companions and said, "As for these (men), they have been killed." `Umar could not control himself and said (to Abu Sufyan), "You told a lie, by Allah! O enemy of Allah! All those you have mentioned are alive, and the thing which will make you unhappy is still there." Abu Sufyan said, "Our victory today is a counterbalance to yours in the battle of Badr, and in war (the victory) is always undecided and is shared in turns by the belligerents, and you will find some of your (killed) men mutilated, but I did not urge my men to do so, yet I do not feel sorry for their deed" After that he started reciting cheerfully, "O Hubal, be high! (1) On that the Prophet said (to his companions), "Why don't you answer him back?" They said, "O Allah's Apostle What shall we say?" He said, "Say, Allah is Higher and more Sublime." (Then) Abu Sufyan said, "We have the (idol) Al `Uzza, and you have no `Uzza." The Prophet said (to his companions), "Why don't you answer him back?" They asked, "O Allah's Apostle! What shall we say?" He said, "Says Allah is our Helper and you have no helper."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 276


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
165. بَابُ إِذَا فَزِعُوا بِاللَّيْلِ:
165. باب: اگر رات کے وقت دشمن کا ڈر پیدا ہو (تو چاہئے کہ حاکم اس کی خبر لے)۔
(165) Chapter. If the people get frightened at night.
حدیث نمبر: 3040
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حماد، عن ثابت، عن انس رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم احسن الناس، واجود الناس، واشجع الناس، قال:" وقد فزع اهل المدينة ليلة سمعوا صوتا، قال: فتلقاهم النبي صلى الله عليه وسلم على فرس لابي طلحة عري وهو متقلد سيفه، فقال: لم تراعوا لم تراعوا، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وجدته بحرا يعني الفرس".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ، قَالَ:" وَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً سَمِعُوا صَوْتًا، قَالَ: فَتَلَقَّاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَهُوَ مُتَقَلِّدٌ سَيْفَهُ، فَقَالَ: لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَجَدْتُهُ بَحْرًا يَعْنِي الْفَرَسَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حماد نے بیان کیا ‘ ان سے ثابت نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ حسین ‘ سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے۔ انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ رات کے وقت اہل مدینہ گھبرا گئے تھے ‘ کیونکہ ایک آواز سنائی دی تھی۔ پھر ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک گھوڑے پر جس کی پیٹھ ننگی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے تنہا اطراف مدینہ میں سب سے آگے تشریف لے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ملے تو تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں لٹک رہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں ‘ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تو اسے دریا کی طرح پایا۔ (تیز دوڑنے میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ گھوڑے کی طرف تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas: Allah's Apostle was the (most handsome), most generous and the bravest of all the people. Once the people of Medina got frightened having heard an uproar at night. So, the Prophet met the people while he was riding an unsaddled horse belonging to Abu Talha and carrying his sword (slung over his shoulder). He said (to them), "Don't get scared, don't get scared." Then he added, "I found it (i.e the horse) very fast."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 277


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
166. بَابُ مَنْ رَأَى الْعَدُوَّ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا صَبَاحَاهْ. حَتَّى يُسْمِعَ النَّاسَ:
166. باب: دشمن کو دیکھ کر بلند آواز سے یا صباحاہ پکارنا تاکہ لوگ سن لیں اور مدد کو آئیں۔
(166) Chapter. Shouting, “Ya Sabahah!” as loudly as possible on seeing the enemy to let the people hear it.
حدیث نمبر: 3041
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا المكي بن إبراهيم، اخبرنا يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة، انه اخبره قال: خرجت من المدينة ذاهبا نحو الغابة حتى إذا كنت، بثنية الغابة لقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف، قلت: ويحك ما بك، قال: اخذت لقاح النبي صلى الله عليه وسلم، قلت: من اخذها، قال: غطفان وفزارة فصرخت ثلاث صرخات اسمعت ما بين لابتيها يا صباحاه يا صباحاه، ثم اندفعت حتى القاهم وقد اخذوها فجعلت ارميهم، واقول انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع فاستنقذتها منهم قبل ان يشربوا فاقبلت بها اسوقها، فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن القوم عطاش وإني اعجلتهم ان يشربوا سقيهم فابعث في إثرهم، فقال:" يا ابن الاكوع ملكت فاسجح إن القوم يقرون في قومهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ قَالَ: خَرَجْتُ مِنْ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ حَتَّى إِذَا كُنْتُ، بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ لَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قُلْتُ: وَيْحَكَ مَا بِكَ، قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا، قَالَ: غَطَفَانُ وَفَزَارَةُ فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا يَا صَبَاحَاهْ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ وَقَدْ أَخَذُوهَا فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَقُولُ أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعْ فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ أَنْ يَشْرَبُوا سِقْيَهُمْ فَابْعَثْ فِي إِثْرِهِمْ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ إِنَّ الْقَوْمَ يُقْرَوْنَ فِي قَوْمِهِمْ".
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یزید بن ابی عبید نے خبر دی ‘ انہیں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے خبر دی ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں مدینہ منورہ سے غابہ (شام کے راستے میں ایک مقام) جا رہا تھا ‘ غابہ کی پہاڑی پر ابھی میں پہنچا تھا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام (رباح) مجھے ملا۔ میں نے کہا ‘ کیا بات پیش آئی؟ کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دودہیل اونٹنیاں (دودھ دینے والیاں) چھین لی گئیں ہیں۔ میں نے پوچھا کس نے چھینا ہے؟ بتایا کہ قبیلہ غطفان اور قبیلہ فزارہ کے لوگوں نے۔ پھر میں نے تین مرتبہ بہت زور سے چیخ کر یا صباحاہ ‘ یا صباحاہ کہا۔ اتنی زور سے کہ مدینہ کے چاروں طرف میری آواز پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھا ‘ اور ڈاکوؤں کو جا لیا ‘ اونٹنیاں ان کے ساتھ تھیں ‘ میں نے ان پر تیر برسانا شروع کر دیا ‘ اور کہنے لگا ‘ میں اکوع کا بیٹا سلمہ ہوں اور آج کا دن کمینوں کی ہلاکت کا دن ہے۔ آخر اونٹنیاں میں نے ان سے چھڑا لیں ‘ ابھی وہ لوگ پانی نہ پینے پائے تھے اور انہیں ہانک کر واپس لا رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھ کو مل گئے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ڈاکو پیاسے ہیں اور میں نے مارے تیروں کے پانی بھی نہیں پینے دیا۔ اس لیے ان کے پیچھے کچھ لوگوں کو بھیج دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اے ابن الاکوع! تو ان پر غالب ہو چکا اب جانے دے ‘ درگزر کر وہ تو اپنی قوم میں پہنچ گئے جہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Salama: I went out of Medina towards Al-Ghaba. When I reached the mountain path of Al-Ghaba, a slave of `Abdur-Rahman bin `Auf met me. I said to him, "Woe to you! What brought you here?" He replied, "The she-camels of the Prophet have been taken away." I said, "Who took them?" He said, "Ghatafan and Fazara." So, I sent three cries, "O Sabaha-h ! O Sabahah !" so loudly that made the people in between its (i.e. Medina's) two mountains hear me. Then I rushed till I met them after they had taken the camels away. I started throwing arrows at them saying, "I am the son of Al-Akwa`"; and today perish the mean people!" So, I saved the she-camels from them before they (i.e. the robbers) could drink water. When I returned driving the camels, the Prophet met me, I said, "O Allah's Apostle Those people are thirsty and I have prevented them from drinking water, so send some people to chase them." The Prophet said, "O son of Al-Akwa`, you have gained power (over your enemy), so forgive (them). (Besides) those people are now being entertained by their folk."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 278


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
167. بَابُ مَنْ قَالَ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ فُلاَنٍ:
167. باب: حملہ کرتے وقت یوں کہنا اچھا لے میں فلاں کا بیٹا ہوں۔
(167) Chapter. Saying: “Take it! I am the son of so-and-so.".
حدیث نمبر: Q3042
Save to word اعراب English
وقال سلمة: خذها وانا ابن الاكوع.وَقَالَ سَلَمَةُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ.
‏‏‏‏ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ڈاکوؤں پر تیر چلائے اور کہا ‘ لے میں اکوع کا بیٹا ہوں۔
حدیث نمبر: 3042
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبيد الله، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، قال: سال رجل البراء رضي الله عنه، فقال: يا ابا عمارة اوليتم يوم حنين، قال البراء وانا اسمع اما رسول الله صلى الله عليه وسلم" لم يول يومئذ كان ابو سفيان بن الحارث آخذا بعنان بغلته، فلما غشيه المشركون نزل فجعل، يقول: انا النبي لا كذب انا ابن عبد المطلب قال: فما رئي من الناس يومئذ اشد منه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ الْبَرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا أَبَا عُمَارَةَ أَوَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ، قَالَ الْبَرَاءُ وَأَنَا أَسْمَعُ أَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" لَمْ يُوَلِّ يَوْمَئِذٍ كَانَ أَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ آخِذًا بِعِنَانِ بَغْلَتِهِ، فَلَمَّا غَشِيَهُ الْمُشْرِكُونَ نَزَلَ فَجَعَلَ، يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ قَالَ: فَمَا رُئِيَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ أَشَدُّ مِنْهُ".
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے ‘ ان سے اسرائیل نے ‘ ان سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا ‘ اے ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حنین کی جنگ میں واقعی فرار ہو گئے تھے؟ ابواسحاق نے کہا میں سن رہا تھا ‘ براء رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن اپنی جگہ سے بالکل نہیں ہٹے تھے۔ ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب آپ کے خچر کی لگام تھامے ہوئے تھے ‘ جس وقت مشرکین نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ سواری سے اترے اور (تنہا میدان میں آ کر) فرمانے لگے میں اللہ کا نبی ہوں ‘ اس میں بالکل جھوٹ نہیں۔ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ براء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بہادر اس دن کوئی بھی نہیں تھا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu 'Is-haq: A man asked Al-Bara "O Abu '`Umara! Did you flee on the day (of the battle) of Hunain?" Al-Bara replied while I was listening, "As for Allah's Apostle he did not flee on that day. Abu Sufyan bin Al- Harith was holding the reins of his mule and when the pagans attacked him, he dismounted and started saying, 'I am the Prophet, and there is no lie about it; I am the son of `Abdul Muttalib.' On that day nobody was seen braver than the Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 279


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
168. بَابُ إِذَا نَزَلَ الْعَدُوُّ عَلَى حُكْمِ رَجُلٍ:
168. باب: اگر کافر لوگ ایک مسلمان کے فیصلے پر راضی ہو کر اپنے قلعے سے اتر آئیں؟
(168) Chapter. If the enemy is ready to accept the judgement of a Muslim (his judgement will be valid if the Imam agrees to it).
حدیث نمبر: 3043
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن ابي امامة هو ابن سهل بن حنيف عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: لما نزلت بنو قريظة على حكم سعد هو ابن معاذ، بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم وكان قريبا منه فجاء على حمار فلما دنا، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قوموا إلى سيدكم فجاء فجلس إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: له إن هؤلاء نزلوا على حكمك، قال: فإني احكم ان تقتل المقاتلة وان تسبى الذرية، قال: لقد حكمت فيهم بحكم الملك".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ هُوَ ابْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدٍ هُوَ ابْنُ مُعَاذٍ، بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ قَرِيبًا مِنْهُ فَجَاءَ عَلَى حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَجَاءَ فَجَلَسَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَهُ إِنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ، قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ، قَالَ: لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ الْمَلِكِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے سعد بن ابراہیم نے ‘ ان سے ابوامامہ نے ‘ جو سہل بن حنیف کے لڑکے تھے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب بنو قریظہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال کر قلعہ سے اتر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (سعد رضی اللہ عنہ کو) بلایا۔ آپ وہیں قریب ہی ایک جگہ ٹھہرے ہوئے تھے (کیونکہ زخمی تھے) سعد رضی اللہ عنہ گدھے پر سوار ہو کر آئے ‘ جب وہ آپ کے قریب پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ اپنے سردار کی طرف کھڑے ہو جاؤ (اور ان کو سواری سے اتارو) آخر آپ اتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آ کر بیٹھ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان لوگوں (بنو قریظہ کے یہودی) نے آپ کی ثالثی کی شرط پر ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ (اس لیے آپ ان کا فیصلہ کر دیں) انہوں نے کہا کہ پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان میں جتنے آدمی لڑنے والے ہیں ‘ انہیں قتل کر دیا جائے ‘ اور ان کی عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Sa`id Al-Khudri: When the tribe of Bani Quraiza was ready to accept Sa`d's judgment, Allah's Apostle sent for Sa`d who was near to him. Sa`d came, riding a donkey and when he came near, Allah's Apostle said (to the Ansar), "Stand up for your leader." Then Sa`d came and sat beside Allah's Apostle who said to him. "These people are ready to accept your judgment." Sa`d said, "I give the judgment that their warriors should be killed and their children and women should be taken as prisoners." The Prophet then remarked, "O Sa`d! You have judged amongst them with (or similar to) the judgment of the King Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 280


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
169. بَابُ قَتْلِ الأَسِيرِ وَقَتْلِ الصَّبْرِ:
169. باب: قیدی کو قتل کرنا اور کسی کو کھڑا کر کے نشانہ بنانا۔
(169) Chapter. The killing of a captive, and the killing of somebody who is in confinement.
حدیث نمبر: 3044
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: دخل عام الفتح وعلى راسه المغفر فلما نزعه جاء رجل، فقال: إن ابن خطل متعلق باستار الكعبة، فقال:" اقتلوه".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ:" اقْتُلُوهُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب شہر میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر خود تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسے اتار رہے تھے تو ایک شخص (ابوبرزہ اسلمی) نے آ کر آپ کو خبر دی کہ ابن خطل (اسلام کا بدترین دشمن) کعبہ کے پردے سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے وہیں قتل کر دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Anas bin Malik (ra): Allah's Messenger (saws) entered (Makkah) in the year of the Conquest (of Makkah) wearing a helmet over his head. After he took it off, a man came and said, "Ibn Khatal is clinging to the curtains of the Ka'bah." The Prophet (saws) said, "Kill him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 280


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
170. بَابُ هَلْ يَسْتَأْسِرُ الرَّجُلُ وَمَنْ لَمْ يَسْتَأْسِرْ، وَمَنْ رَكَعَ رَكْعَتَيْنِ عِنْدَ الْقَتْلِ:
170. باب: اپنے تئیں قید کرا دینا اور جو شخص قید نہ کرائے اس کا حکم اور قتل کے وقت دو رکعت نماز پڑھنا۔
(170) Chapter. Can a man present himself to captivity, and whosoever refuses to surrender to captivity? And the performance of a two Rak‘a Salat (prayer) before being put to death.
حدیث نمبر: 3045
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عمرو بن ابي سفيان بن اسيد بن جارية الثقفي وهو حليف لبني زهرة وكان من اصحاب ابي هريرة، ان ابا هريرة رضي الله عنه، قال:" بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهط سرية عينا، وامر عليهم عاصم بن ثابت الانصاري جد عاصم بن عمر بن الخطاب فانطلقوا حتى إذا كانوا بالهداة وهو بين عسفان ومكة ذكروا لحي من هذيل، يقال لهم: بنو لحيان فنفروا لهم قريبا من مائتي رجل كلهم رام فاقتصوا آثارهم حتى وجدوا ماكلهم تمرا تزودوه من المدينة، فقالوا: هذا تمر يثرب فاقتصوا آثارهم فلما رآهم عاصم واصحابه لجئوا إلى فدفد واحاط بهم القوم، فقالوا لهم: انزلوا واعطونا بايديكم ولكم العهد والميثاق ولا نقتل منكم احدا، قال عاصم بن ثابت امير السرية: اما انا فوالله لا انزل اليوم في ذمة كافر، اللهم اخبر عنا نبيك فرموهم بالنبل فقتلوا عاصما في سبعة فنزل إليهم ثلاثة رهط بالعهد والميثاق منهم خبيب الانصاري وابن دثنة ورجل آخر، فلما استمكنوا منهم اطلقوا اوتار قسيهم فاوثقوهم، فقال: الرجل الثالث هذا اول الغدر والله لا اصحبكم إن لي في هؤلاء لاسوة يريد القتلى فجرروه وعالجوه على ان يصحبهم فابى فقتلوه، فانطلقوا بخبيب وابن دثنة حتى باعوهما بمكة بعد وقعة بدر فابتاع خبيبا بنو الحارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف، وكان خبيب هو قتل الحارث بن عامر يوم بدر فلبث خبيب عندهم اسيرا. فاخبرني عبيد الله بن عياض ان بنت الحارث اخبرته انهم حين اجتمعوا استعار منها موسى يستحد بها فاعارته، فاخذ ابنا لي وانا غافلة حين اتاه، قالت: فوجدته مجلسه على فخذه والموسى بيده ففزعت فزعة عرفها خبيب في وجهي، فقال: تخشين ان اقتله ما كنت لافعل ذلك والله ما رايت اسيرا قط خيرا من خبيب والله لقد وجدته يوما ياكل من قطف عنب في يده، وإنه لموثق في الحديد وما بمكة من ثمر وكانت تقول: إنه لرزق من الله رزقه خبيبا فلما خرجوا من الحرم ليقتلوه في الحل، قال لهم: خبيب ذروني اركع ركعتين فتركوه فركع ركعتين، ثم قال: لولا ان تظنوا ان ما بي جزع لطولتها اللهم احصهم عددا ولست ابالي حين اقتل مسلما على اي شق كان لله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشا يبارك على اوصال شلو ممزع فقتله ابن الحارث فكان خبيب هو سن الركعتين لكل امرئ مسلم قتل صبرا فاستجاب الله لعاصم بن ثابت يوم اصيب، فاخبر النبي صلى الله عليه وسلم اصحابه خبرهم وما اصيبوا وبعث ناس من كفار قريش إلى عاصم حين حدثوا انه قتل ليؤتوا بشيء منه يعرف، وكان قد قتل رجلا من عظمائهم يوم بدر فبعث على عاصم مثل الظلة من الدبر، فحمته من رسولهم فلم يقدروا على ان يقطع من لحمه شيئا".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ بْنِ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ وَهُوَ حَلِيفٌ لِبَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَهْطٍ سَرِيَّةً عَيْنًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَأَةِ وَهُوَ بَيْنَ عُسْفَانَ ومَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ، يُقَالُ لَهُمْ: بَنُو لَحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ قَرِيبًا مِنْ مِائَتَيْ رَجُلٍ كُلُّهُمْ رَامٍ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمْ تَمْرًا تَزَوَّدُوهُ مِنْ الْمَدِينَةِ، فَقَالُوا: هَذَا تَمْرُ يَثْرِبَ فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ فَلَمَّا رَآهُمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى فَدْفَدٍ وَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ، فَقَالُوا لَهُمْ: انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ وَلَا نَقْتُلُ مِنْكُمْ أَحَدًا، قَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِيرُ السَّرِيَّةِ: أَمَّا أَنَا فَوَاللَّهِ لَا أَنْزِلُ الْيَوْمَ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ، اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِي سَبْعَةٍ فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ بِالْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ الْأَنْصَارِيُّ وابْنُ دَثِنَةَ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَأَوْثَقُوهُمْ، فَقَالَ: الرَّجُلُ الثَّالِثُ هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي فِي هَؤُلَاءِ لَأُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ عَلَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَأَبَى فَقَتَلُوهُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَيْبٍ وابْنِ دَثِنَةَ حَتَّى بَاعُوهُمَا بِمَكَّةَ بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ خُبَيْبًا بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا. فَأَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ أَنَّ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسَى يَسْتَحِدُّ بِهَا فَأَعَارَتْهُ، فَأَخَذَ ابْنًا لِي وَأَنَا غَافِلَةٌ حِينَ أَتَاهُ، قَالَتْ: فَوَجَدْتُهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ فِي وَجْهِي، فَقَالَ: تَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ مِنْ قِطْفِ عِنَبٍ فِي يَدِهِ، وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ فِي الْحَدِيدِ وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرٍ وَكَانَتْ تَقُولُ: إِنَّهُ لَرِزْقٌ مِنَ اللَّهِ رَزَقَهُ خُبَيْبًا فَلَمَّا خَرَجُوا مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ، قَالَ لَهُمْ: خُبَيْبٌ ذَرُونِي أَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: لَوْلَا أَنْ تَظُنُّوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَطَوَّلْتُهَا اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا وَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ شِقٍّ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ فَقَتَلَهُ ابْنُ الْحَارِثِ فَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ الرَّكْعَتَيْنِ لِكُلِّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا فَاسْتَجَابَ اللَّهُ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ يَوْمَ أُصِيبَ، فَأَخْبَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ خَبَرَهُمْ وَمَا أُصِيبُوا وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ كُفَّارِ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ لِيُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ، وَكَانَ قَدْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ يَوْمَ بَدْرٍ فَبُعِثَ عَلَى عَاصِمٍ مِثْلُ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْهُ مِنْ رَسُولِهِمْ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَى أَنْ يَقْطَعَ مِنْ لَحْمِهِ شَيْئًا".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ‘ اس سے زہری نے بیان کیا ‘ انہیں عمرو بن سفیان بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی ‘ وہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے دوست ‘ انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی ‘ اس جماعت کا امیر عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہو گئی۔ جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان میں ہے تو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کو کسی نے خبر دے دی اور اس قبیلہ کے دو سو تیر اندازوں کی جماعت ان کی تلاش میں نکلی ‘ یہ سب صحابہ کے نشانات قدم سے اندازہ لگاتے ہوئے چلتے چلتے آخر ایک ایسی جگہ پر پہنچ گئے جہاں صحابہ نے بیٹھ کر کھجوریں کھائی تھیں ‘ جو وہ مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ لے کر چلے تھے۔ پیچھا کرنے والوں نے کہا کہ یہ (گٹھلیاں) تو یثرب (مدینہ) کی (کھجوروں کی) ہیں اور پھر قدم کے نشانوں سے اندازہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ آخر عاصم رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے جب انہیں دیکھا تو ان سب نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی ‘ مشرکین نے ان سے کہا کہ ہتھیار ڈال کر نیچے اتر آؤ ‘ تم سے ہمارا عہد و پیمان ہے۔ ہم کسی شخص کو بھی قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ مہم کے امیر نے کہا کہ میں تو آج کسی صورت میں بھی ایک کافر کی پناہ میں نہیں اتروں گا۔ اے اللہ! ہماری حالت سے اپنے نبی کو مطلع کر دے۔ اس پر ان کافروں نے تیر برسانے شروع کر دئیے اور عاصم رضی اللہ عنہ اور سات دوسرے صحابہ کو شہید کر ڈالا باقی تین صحابی ان کے عہد و پیمان پر اتر آئے، یہ خبیب انصاری رضی اللہ عنہ ابن دثنہ رضی اللہ عنہ اور ایک تیسرے صحابی (عبداللہ بن طارق بلوی رضی اللہ عنہ) تھے۔ جب یہ صحابی ان کے قابو میں آ گئے تو انہوں نے اپنی کمانوں کے تانت اتار کر ان کو ان سے باندھ لیا ‘ عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تمہاری پہلی غداری ہے۔ میں تمہارے ساتھ ہرگز نہ جاؤں گا ‘ بلکہ میں تو انہیں کا اسوہ اختیار کروں گا ‘ ان کی مراد شہداء سے تھی۔ مگر مشرکین انہیں کھنچنے لگے اور زبردستی اپنے ساتھ لے جانا چاہا جب وہ کسی طرح نہ گئے تو ان کو بھی شہید کر دیا۔ اب یہ خبیب اور ابن دثنہ رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر چلے اور ان کو مکہ میں لے جا کر بیچ دیا۔ یہ جنگ بدر کے بعد کا واقعہ ہے۔ خبیب رضی اللہ عنہ کو حارث بن عامر بن نوفل بن عبد مناف کے لڑکوں نے خرید لیا، خبیب رضی اللہ عنہ نے ہی بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ آپ ان کے یہاں کچھ دنوں تک قیدی بن کر رہے، (زہری نے بیان کیا) کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی اور انہیں حارث کی بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے خبر دی کہ جب (ان کو قتل کرنے کے لیے) لوگ آئے تو زینب سے انہوں نے موئے زیر ناف مونڈنے کے لیے استرا مانگا۔ انہوں نے استرا دے دیا، (زینب نے بیان کیا) پھر انہوں نے میرے ایک بچے کو اپنے پاس بلا لیا ‘ جب وہ ان کے پاس گیا تو میں غافل تھی ‘ زینب نے بیان کیا کہ پھر جب میں نے اپنے بچے کو ان کی ران پر بیٹھا ہوا دیکھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا ‘ تو میں اس بری طرح گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ بھی میرے چہرے سے سمجھ گئے انہوں نے کہا ‘ تمہیں اس کا خوف ہو گا کہ میں اسے قتل کر ڈالوں گا ‘ یقین کرو میں کبھی ایسا نہیں کر سکتا۔ اللہ کی قسم! کوئی قیدی میں نے خبیب سے بہتر کبھی نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن دیکھا کہ انگور کا خوشہ ان کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس میں سے کھا رہے ہیں۔ حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں پھلوں کا موسم بھی نہیں تھا۔ کہا کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کی روزی تھی جو اللہ نے خبیب رضی اللہ عنہ کو بھیجی تھی۔ پھر جب مشرکین انہیں حرم سے باہر لائے ‘ تاکہ حرم کے حدود سے نکل کر انہیں شہید کر دیں تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے صرف دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ انہوں نے ان کو اجازت دے دی۔ پھر خبیب رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا ‘ اگر تم یہ خیال نہ کرنے لگتے کہ میں (قتل سے) گھبرا رہا ہوں تو میں ان رکعتوں کو اور لمبا کرتا۔ اے اللہ! ان ظالموں سے ایک ایک کو ختم کر دے، (پھر یہ اشعار پڑھے) جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں ‘ تو مجھے کسی قسم کی بھی پرواہ نہیں ہے۔ خواہ اللہ کے راستے میں مجھے کسی پہلو پر بھی پچھاڑا جائے، یہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے اور اگر وہ چاہے تو اس جسم کے ٹکڑوں میں بھی برکت دے سکتا ہے جس کی بوٹی بوٹی کر دی گئی ہو۔ آخر حارث کے بیٹے (عقبہ) نے ان کو شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ سے ہی ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے (قتل سے پہلے) دو رکعتیں مشروع ہوئی ہیں۔ ادھر حادثہ کے شروع ہی میں عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ (مہم کے امیر) کی دعا اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی تھی کہ اے اللہ! ہماری حالت کی خبر اپنے نبی کو دیدے) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو وہ سب حالات بتا دیئے تھے جن سے یہ مہم دو چار ہوئی تھی۔ کفار قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم شہید کر دیئے گئے تو انہوں نے نے ان کی لاش کے لیے اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کی جسم کا کوئی ایسا حصہ کاٹ لائیں جس سے ان کی شناخت ہو سکتی ہو۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے بدر کی جنگ میں کفار قریش کے ایک سردار (عقبہ بن ابی معیط) کو قتل کیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے بھڑوں کا ایک چھتہ عاصم کی نعش پر قائم کر دیا انہوں نے قریش کے آدمیوں سے عاصم کی لاش کو بچا لیا اور وہ ان کے بدن کا کوئی ٹکڑا نہ کاٹ سکے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent a Sariya of ten men as spies under the leadership of `Asim bin Thabit al-Ansari, the grandfather of `Asim bin `Umar Al-Khattab. They proceeded till they reached Hadaa, a place between 'Usfan, and Mecca, and their news reached a branch of the tribe of Hudhail called Bani Lihyan. About two-hundred men, who were all archers, hurried to follow their tracks till they found the place where they had eaten dates they had brought with them from Medina. They said, "These are the dates of Yathrib (i.e. Medina), "and continued following their tracks When `Asim and his companions saw their pursuers, they went up a high place and the infidels circled them. The infidels said to them, "Come down and surrender, and we promise and guarantee you that we will not kill any one of you" `Asim bin Thabit; the leader of the Sariya said, "By Allah! I will not come down to be under the protection of infidels. O Allah! Convey our news to Your Prophet. Then the infidels threw arrows at them till they martyred `Asim along with six other men, and three men came down accepting their promise and convention, and they were Khubaib-al-Ansari and Ibn Dathina and another man So, when the infidels captured them, they undid the strings of their bows and tied them. Then the third (of the captives) said, "This is the first betrayal. By Allah! I will not go with you. No doubt these, namely the martyred, have set a good example to us." So, they dragged him and tried to compel him to accompany them, but as he refused, they killed him. They took Khubaid and Ibn Dathina with them and sold them (as slaves) in Mecca (and all that took place) after the battle of Badr. Khubaib was bought by the sons of Al-Harith bin 'Amir bin Naufal bin `Abd Manaf. It was Khubaib who had killed Al-Harith bin 'Amir on the day (of the battle of) Badr. So, Khubaib remained a prisoner with those people. Narrated Az-Zuhri: 'Ubaidullah bin 'Iyyad said that the daughter of Al-Harith had told him, "When those people gathered (to kill Khubaib) he borrowed a razor from me to shave his pubes and I gave it to him. Then he took a son of mine while I was unaware when he came upon him. I saw him placing my son on his thigh and the razor was in his hand. I got scared so much that Khubaib noticed the agitation on my face and said, 'Are you afraid that I will kill him? No, I will never do so.' By Allah, I never saw a prisoner better than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating of a bunch of grapes in his hand while he was chained in irons, and there was no fruit at that time in Mecca." The daughter of Al-Harith used to say, "It was a boon Allah bestowed upon Khubaib." When they took him out of the Sanctuary (of Mecca) to kill him outside its boundaries, Khubaib requested them to let him offer two rak`at (prayer). They allowed him and he offered Two rak`at and then said, "Hadn't I been afraid that you would think that I was afraid (of being killed), I would have prolonged the prayer. O Allah, kill them all with no exception." (He then recited the poetic verse):-- "I being martyred as a Muslim, Do not mind how I am killed in Allah's Cause, For my killing is for Allah's Sake, And if Allah wishes, He will bless the amputated parts of a torn body" Then the son of Al Harith killed him. So, it was Khubaib who set the tradition for any Muslim sentenced to death in captivity, to offer a two-rak`at prayer (before being killed). Allah fulfilled the invocation of `Asim bin Thabit on that very day on which he was martyred. The Prophet informed his companions of their news and what had happened to them. Later on when some infidels from Quraish were informed that `Asim had been killed, they sent some people to fetch a part of his body (i.e. his head) by which he would be recognized. (That was because) `Asim had killed one of their chiefs on the day (of the battle) of Badr. So, a swarm of wasps, resembling a shady cloud, were sent to hover over `Asim and protect him from their messenger and thus they could not cut off anything from his flesh.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 281


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
171. بَابُ فَكَاكِ الأَسِيرِ:
171. باب: (مسلمان) قیدیوں کو آزاد کرانا۔
(171) Chapter. The freeing of a captive.
حدیث نمبر: Q3046
Save to word اعراب English
عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم.عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
‏‏‏‏ اس بارے میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

Previous    27    28    29    30    31    32    33    34    35    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.